معاصر تہذیبی بیانیہ اور ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے افکار
جویریہ حسن
دنیا کی تاریخ تہذیبوں کی تاریخ ہے۔اسلامی تہذیب دیگر تہذیبوں سے یگانہ اور منفرد خصوصیات کی حامل ہے جو فکر و عمل کے ناقابل تقسیم مرکب سے عبارت ہے۔ اسلامی و دیگر تہذیبوں میں آویزش کی وجہ نظریہ حیات اور تہذیبی و ملّی تشخص کا امتیاز ہے۔ اقدار حیات اور نکتہ ہائے نظر کے اسی اختلاف نے تہذیبوں کے درمیان کشمکش کو جنم دیا۔علمی، نظریاتی اور سیاسی سطح پر معاصر دنیا 1993ء میں سموئیل ہنگٹن (1927ء-2008ء) کے مقالہ Clash of Civilization کے ذریعے پہلی بار منظم اور باضابطہ انداز میں ’’تہذیبوں کے تصادم‘‘ کے تصور سے آشنا ہوئی۔ بلاشبہ تہذیبوں کے تصادم کا یہ تصور عملًا روزِ آفرینش سے جاری ہے جبکہ منشائے ربانی کے تحت کرہ ارضی پر پہلے انسان کی صورت میں پہلی تہذیب کی بناء ڈالی گئی اور امتدادِ زمانہ کے ساتھ افراد، معاشروں، قبیلوںاور قوموں میں منقسم ہوتے چلے گئے اور اسی مسابقت کے جذبے نے اقوام عالم کے مابین تہذیبی کشمکش کو فروغ دیا۔ یہ ارتباط و آویزش ہر دور میں جاری رہی۔ غلبہ کی خواہشمند اقوام نے اقتصادی و سیاسی طور پر کمزور قوموں پر غلبہ پانے کی کوشش جاری رکھی۔ گویا غلبہ ہر تہذیب کی بنیادی خواہش ہے۔ سموئیل ہنگٹن نے اپنے مضمون میں اس کثیر قطبی و کثیر تہذیبی عالمی سیاست کا منظر نامہ پیش کیا۔ سموئیل ہنگٹن کے مفروضے طے شدہ سیاسی مقاصد کے حصول کے لئے اساس فراہم کر رہے تھے۔تہذیبوں کے تصادم کی اصطلاح کا استعمال دراصل مغرب کے غلبہ کی خواہش میں دیگر کثیر ثقافتی دنیا میں انتشار پیدا کرنے کے مترادف ہے جبکہ اسلام کے بین الاقوامی تعلقات کی اساس تصادم نہیںبلکہ مکالمہ ہے۔
قُلْ یٰـٓاَهْلَ الْکِتٰبِ تَعَالَوْا اِلٰی کَلِمَةٍ سَوَآءٍم بَیْنَنَا وَبَیْنَکُمْ اَلَّا نَعْبُدَ اِلَّا اﷲَ وَلَا نُشْرِکَ بِهٖ شَیْئًا وَّلَا یَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اﷲِط فَاِنْ تَوَلَّوْا فَقُوْلُوا اشْهَدُوْا بِاَنَّا مُسْلِمُوْنَo
(القرآن، 3: 64)
باہمی رواداری، عدل، مساوات، تعاونِ باہمی پر مشتمل اسلامی تعلیمات انہی اصولوں کی غماز ہیں۔
ہندو تہذیب کی اساسیات:
ہندو تہذیب آریائی تہذیب سے ماخوذ ہے۔ یہ عقیدے کا ایک ایسا ضخیم مجموعہ ہے جو صدیوں میں شکل پذیر ہوا۔جس کی ترتیب ویدوں، بھجنوں، اپنشدوں کی فلسفیانہ آریائیوں، یوگا کی تربیت، ویدانت کی ما بعد الطبیعات نازک خیالیوں اور بھگتی کی جذباتی عقیدت سے ہوئی۔ ہندو تہذیب جامد اور صنم پرستانہ ہے جبکہ اسلامی تہذیب اس کے برعکس ایک سادگی پسند بت شکن عنصر کی حامل تہذیب ہے۔
مغربی تہذیب کی اساسیات:
ڈاکٹر طاہر حمید تنولی نے’’ معاصر تہذیبی کشمکش اور فکر اقبال‘‘ میں نہایت جامعیت سے مغربی تہذیب کی بنیادی اساسیات اور خصوصیات کا ذکر کیا ہے۔
- مغربی تہذیب سیاست اور مذہب کی دوئی پر مبنی ہے۔ افراد معاشرہ کا اعتقاد مذہبی فکر پر کمزور پڑا تو غیر محسوس انداز میں سیاست سے مذہب کو دیس نکالا دے دیا گیا۔اور یوں لادینیت پر مبنی خود غرضانہ، مفادپرست، زرپرست، ابن الوقت سیاست کی جڑیں مغرب میں مضبوط ہوتی چلی گئیں۔مذہب و سیاست کی دوئی کے بعد مادیت کی اس روش نے جسم و روح میں تفریق پیدا کر دی۔ بقول اقبال:
دنیا کو ہے پھر معرکہ روح و بدن پیش
تہذیب نے پھر اپنے درندوں کو ابھارا
مذہب کی بنیاد پر قائم رشتہ وحدت ٹوٹا تو یورپی اقوام نے جغرافیائی حدود کی بنیاد پر مختلف قومیں تشکیل کیں۔ جن میں انسانی ہمدردی کی جگہ زبان، رنگ، نسل اور جغرافیائی حد بندیوں نے لے لی۔اسی مادہ پرستی اورظاہر پرستی کا نتیجہ یورپ میں سیکولرازم کے فروغ کی صورت میں نکلا۔
وحی الہی پر مبنی اٹل اور ٹھوس علم کی بجائے فقط عقل پر انحصار نے مغربی تہذیب کی بنیادوں کو اندر تک کھوکھلا کر دیا ہے۔ اس خلا کو پر کرنے کے لئے مغرب نے طاقت کو بطور ہتھیار استعمال کرنا شروع کیا۔ اپنی نو آبادیوں کو بڑھانے کے ساتھ ساتھ مغربی استعماری ذہن نے ترقی پذیر ممالک میںاندرونی خانہ جنگیوں کو ہوا دینی شروع کی اوریوں اقتصادی و سیاسی طور پر کمزور ممالک آج مغرب کے پنجہ استبداد میں جکڑے ہوئے ہیں۔
دیگر اقوام کی طرح مسلم ممالک بھی مغربی تہذیب و ثقافت سے مرعوب ہیں۔ امت مسلمہ بحیثیت مجموعی زوال کا شکار ہے۔وحی الہی اور سیرت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے درخشندہ اصولوں کے ہوتے ہوئے بھی ان پر عمل نہ کرنے کی بدولت امت عالمی سطح پر اپنا مقام کھو چکی ہے۔ (تفصیل کے لیے، امت مسلمہ کا عروج و زوال، اسباب، وجوہات، تدارک)
ڈاکٹرمحمد طاہرالقادری کے افکار:
عصر حاضر میں امت مسلمہ جس ہمہ گیر زوال کا شکار ہے اور اپنے تہذیبی ورثے پر یا تو اعتماد کھو چکی ہے یا بے خبری اور احساس کمتری کا شکار ہے۔ ملّی اور قومی تناظر اس امر کا متقاضی ہے کہ اس مسئلہ کو دانش عصر، امت مسلمہ کے نبض شناس، امام وقت، معاصر چیلنجز پر باریک بین نظر رکھ کر اس کے مطابق امت کو رہنما اصول فراہم کرنے والے ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے افکار کی روشنی میں سمجھا جائے۔ بلاشبہ ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی علم اور فکر و فلسفہ کے میدان میں کی جانے والی کاوشوں نے نہ صرف مسلم امہ کو متاثر کیا بلکہ یہ آواز عالمی ایوانوں میں بھی حق کے لئے بلند کی جانے والی نمایاں آواز ہے۔شیخ الاسلام ڈاکٹرمحمد طاہرالقادری معاصر علمائے دین میں اس لئے بھی امتیازی مقام کے حامل ہیں کہ انہوں نے نہ صرف امت مسلمہ کو درپیش موجودہ چیلنجزمفصل بیان کیے ہیں بلکہ ان چیلنجز سے نبرد آزما ہونے اور بام عروج تک پہنچنے کے لئے لائحہ عمل بھی متعین کیا۔ عصر حاضر میں جب کہ 9/11 کے بعد اسلام کو ایک دہشتگردمذہب کے طور پر دنیا کے سامنے پیش کیا جا رہا ہے۔ شیخ الاسلام ڈاکٹرمحمد طاہرالقادری نے اس خطرے کو قبل از وقت محسوس کرتے ہوئے 13 اگست 1999ء کو اوسلو ناروے میں بین الاقوامی ’’امن کانفرنس‘‘ سے خطاب کرتے ہوئے کہا:
"So this is just mention of what is the significance of peace in islam. Islam, from the very biginning to its end, is peace and nothing else. Anything detrimental to peace, anything damaging to peace, anything conflicting to peace, anything contradictory to peace, it has no, absolutely no, concern with Islamic teachings.
اسلام اور مغربی تہذیب کے درمیان کشمکش سیاسی، معاشی، قانونی، ثقافتی، مذہبی اور فکری و نظریاتی جہات پر محیط ہے۔ اسکی بنیادی وجوہات میں مشرق و مغرب میں زاویہ نگاہ کا فرق، اسلام کے بارے میں مغرب کی اپروچ، قوموں کا جانبدارانہ کردار ہیں۔ان جہات کو ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے تہذیبی فکر میں تغیرات کا نام دیا ہے۔
(القادری، 1، 2013 :247)
آپ حاملین تہذیب اسلامی کے زوال کی بنیادی وجہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
- ’’اسلام کے فکری نظام میں جمود طاری ہو گیا ہے ایجاد و تخلیق ختم ہو گئی ہے۔ تخلیقی علم کا تحرک و ارتقاء بندہو گیا ہے۔جس سے مسائل حیات اور علم میں توازن بگڑ گیا ہے۔ اور اس بگڑے ہوئے توازن میں اسلامی تعلیمات پر عمل نے مطلوبہ نتائج پیدا کرنے بند کر دیے ہیں۔
- سیاسی غلبہ کی قوت نافذہ اہل حق کے ہاتھ سے چھن کر باطل کے پاس چلی گئی ہے۔ جس کے نتیجے میں اسلامی نظام کے نفاذ کو عملی تحفظ ملنا بند ہو گیا ہے۔‘‘
(القادری، 2، 2013، 233)
نہایت جامعیت سے آپ تہذیب اسلامی پر تیقن قائم رکھنے اور اسلامی تہذیب کے احیاء کے لئے فکری و عملی دونوں جہتوں پر رہنمائی فراہم کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
- ’’آج مادی دور کی نام نہاد، فکری و فلسفیانہ، ثقافتی یلغار نے پورے مسلم معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تو آج ان تین پہلؤں سے اسلام کی نمائندگی بالخصوص نوجوانوں اور بالعموم عامۃ الناس کی سطح پر وقت کی پکار ہے۔
- اسلام کی فکری، فلسفیانہ، سائنسی، عملی حقانیت کا یقین دلانا۔ (Scientific Presentation of Islam)
- اسلام کے عملی نظام کی (Practicability) کا شعور دلانا۔
- اسلام کے روحانی نظام کی برکتوں اور تعمیر شخصیت میں اس کے کردار کو آشکار کرنا۔‘‘ (Spiritual Presentation of Islam)
(قادری، 2012، 8)
فکر عمل کے لئے مہمیز ہوتی ہے۔ اب جبکہ پورا علمی و فکری نظام جامد و معطل ہو گیا ہے تو پوری فکری متاع مدارس، اساتذہ، علوم و فنون، نصاب کتب اسی نظام کے سانچے میں ڈھل کر نکلی۔
ملاکو ہے جو ہند میں سجدے کی اجازت
ناداں یہ سمجھتا ہے کہ اسلام ہے آزاد
اس کلی فکری جمود کو تحرک پذیر کرنے کے لئے زندگی کے جملہ پہلوؤں میں سعی و کوشش اور انقلابی تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔
(قادری، 1، 2013، 238)
امن عالم کے قیام کی عملی کاوشیں:
اسلامی تہذیب تصور اعتدال و توازن پر مبنی ایسی مثالی تہذیب ہے جو شدت و انتہا پسندی پر مبنی ہر سوچ کی نفی کرتی ہے۔ تاریخ میںاسلامی تہذیب سے بڑھ کر رواداری، وسعتِ فکر و ظرف کے نظائر اور کہیں نہیں ملتے۔ اس ضمن میں اگر شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی عملی کاوشوں، تحریری و تقریری لٹریچر اور افکار کا غیر جانبدارانہ جائزہ لیاجائے تو اندازہ ہو گا کہ آپ کی جملہ کاوشیں اسلام کے تصور اعتدال و توازن کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔2009ء میں ’’اسلام دینِ امن و رحمت ہے‘‘ کے عنوان سے 33 اقساط پر مشتمل آپکی لیکچر سیریز ٹی وی پر نشر ہوئی۔ پاکستان کے مخصوص مذہبی ماحول میں آپ نے ’’اقامت دین کے امن پر مبنی تصور‘‘ کا عملی نمونہ تحریک منہاج القرآن کے پلیٹ فارم سے منعقدہ مختلف ایکٹوٹیز کی صورت میں پیش کیا۔ بین المذاہب اور بین المسالک ہم آہنگی و رواداری کے فروغ کے لئے ’’تحریک جعفریہ سے مشترکہ اعلامیہ‘‘ ہو یا "Muslim Christian Dialouge Forum"کا قیام، آپ نے اعتقادات و مذاہب کے معاملہ میں اسلام کے اسی تصور اعتدال و توازن کا عملی مظاہرہ پیش کیا۔ بین المذاہب ہم آہنگی اور مختلف معاشروں کے مابین وحدت کے فروغ کے لئے پانچ سو صفحات پر مشتمل کتاب’’دہشت گردی اور فتنہ خوارج کا مسبوط تاریخی فتوی‘‘ ڈاکٹر طاہرالقادری کی عالمی سطح پر کی جانے والی نمایاں کاوش ہے۔جس میں یہ ثابت کیا گیا ہے کہ اگر کوئی مسلمان دہشتگردی کا ارتکاب کرے تووہ مسلمان نہیں رہتا۔ یہ دہشتگردوں پر ایک ایسا براہ راست حملہ ہے جو ان کی مجرمانہ فکر کی دھجیاں بکھیر دیتا ہے۔ ( قادری، مراسلہ بنام مسٹر باراک حسین اوباما، صدر ریاست ہائے متحدہ امریکہ)۔آپ نے اس تصنیف میں دہشت گرد نظریات کے حامل اشخاص کو ’’قدیم برائی کا نیا روپ‘‘ قرار دیا۔ اور دہشت گردی کو’’مذہبی کینسر‘‘ کا نام دیا ہے۔ یہ فتوی دنیا بھر میں مسلمان نوجوانوں میں انتہا پسندی کی بیخ کنی کی بنیاد بن رہا ہے۔ عالم انسانیت پر عالم مغرب کی طرف سے مسلط کی جانے والی حالیہ جنگ ہتھیاروں سے کہیں بڑھ کر تہذیبوں اور ثقافتوں کی جنگ ہے۔ اس جنگ میں بقاء و کامیابی فقط اسی تہذیب کا مقدر ہو گی جو واضح اور بین اقدار، ٹھوس دینی و ملی اساس، تحقیقی فکر، واضح نظریاتی اساس، مربوط، قابل عمل تعلیمات کے مکمل ڈھانچے کی حامل ہو۔
11 ستمبر 2010ء امریکہ کی طرف سے اٹھائے جا نے والے جارحانہ اقدام ’’قرآن جلاؤ ڈے‘‘ کے خلاف ڈاکٹر طاہرالقادری نے استدلانہ صدائے احتجاج بلند کی اور امریکی صدر ’’باراک اوباما‘‘کے نام ایک تاریخی مراسلہ تحریر کیا جس میں انہوں نے اس اقدام کو نہ صرف ڈیڑھ ارب مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کرنے کا باعث قراردیا بلکہ اسے معاشروں میں اختلاف پیدا کرکے معاشرتی وحدت کو پارہ پارہ کرنے، مذہبی رواداری کے خاتمے اورعالم انسانیت کو پھر سے صلیبی جنگوں میں دھکیلنے کا باعث بھی قرار دیا۔ ( قادری، مراسلہ بنام مسٹر باراک حسین اوباما، صدر ریاست ہائے متحدہ امریکہ)
توہین آمیز فلم کی مذمت میں عالمی رہنماوں کے نام مراسلہ:
گستاخانہ فلموں اور خاکوں کی اشاعت کا عمل آزادی اظہارِرائے کی چھتری تلے مغربی ممالک میں تسلسل سے جاری ہے۔پوری دنیا کے مسلمانوں نے اس طرز عمل اور گستاخانہ اقدامات کی بھرپور مذمت اور احتجاج کیا ہے۔ اس تناظر میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے احترام مذاہب کے حوالے سے UNO اور OIC سمیت پوری دنیا کے سربراہان کو تاریخی مراسلہ لکھا جس میں انہوں نے باور کروایا کہ کسی مذہب کے ذواتِ مقدسہ کے خلاف توہین آمیز اقدامات سے نہ صرف امن عالم تباہ ہو گا بلکہ دہشتگردی اور انتہاپسندی کے خلاف کی جانے والی کاوشوں کو بھی شدید دھچکا پہنچے گا۔ انہوں نے مختلف ممالک کے قوانین کا حوالہ دیتے ہوئے یہ ثابت کیا کہ یہ بات کسی بھی طرح Freedom of Expression کے ذمرے میں نہیں آتی۔ (قادری، خصوصی مراسلہ، اسلام مخالف توہین آمیز فلم کی مذمت میں عالمی رہنماوںکے نام)۔ مختلف یورپی ممالک میں مذہب کی توہین سے روکنے والے قوانین کا حوالہ دیتے ہوئے آپ نے احترام مذہب کی بنا پر مذاہب کی توہین کے امتنائی قوانین (Prohibitive laws on Defamation on religion) بنانے اور ان پرسختی سے عمل درامد کروانے کی اپنے اس مراسلے میں بھرپور سفارش کی۔
یہ مراسلہ انگریزی، اردو، عربی اور نارویجن زبانوں میں چھپ چکا ہے۔آپ کے یہ مراسلہ جات اپنی مئو ثر یت میں ان احتجاجوں سے کئی گنا بڑھ کر ہیں۔جو اپنی محدود سطح پر کیے جاتے ہیں اور عالمی ایوانوں میں براجمان مقتدرافراد پر کسی قسم کا کوئی تاثر نہیں چھوڑتے۔اسلامی تصور تہذیب کی درست تصویر کشی ڈاکٹر طاہرالقادری کا خاصہ ہے۔ عصر حاضر میں انسانی تہذیب کی جانچ کا پیمانہ انسانی حقوق کو قرار دیا گیا ہے جس سے کسی بھی ملک و قوم کے اعلی قومی و تہذیبی معیار کا تعین کیا جا سکتا ہے۔مفکر عصر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے 2004ء میں ’’اسلام میں انسانی حقوق‘‘کے موضوع پر ضخیم، جامع اور مدلل کتاب تصنیف کی جس میں آپ نے اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ہر طبقہ سے متعلق فرد کے انفرادی، شہری و ریاستی حقوق کو مفصل انداز سے بیان کرنے کے ساتھ ان حقوق کا تقابل مغربی قوانین سے بھی کیا۔ تاہم اسلامی تہذیب دنیا کی وہ واحد تہذیب ہے جس کے لئے انسانی حقوق کوئی نیا تصور نہیں ہے۔ آپ نے اس کتاب میں نہ صرف مختلف طبقات معاشرہ (عمر رسیدہ، معذور اور خواتین وغیرہ) کو اسلام میں دئیے گئے حقوق کا کما حقہ احاطہ کیا بلکہ غیر مسلموں کے حقوق کا بھی تفصیلی ذکر کیا۔ (قادری، اپریل 2004ء)۔
شیخ الاسلام ڈاکٹرمحمد طاہرالقادری نے گزشتہ چونتیس سال سے اسلامی تہذیب کے اعلی اقدار کی تعلیمات اور دنیا کو امن و سلامتی کا گہوارا بنانے، تنگ نظری اور فرقہ واریت کے خلاف علمی و فکری میدانوں میں جان گسل جدوجہد کی، آپ کی درجنوں کتب، سینکڑوں لیکچرز اس امر کا بیّن ثبوت ہیں۔
Islamic curriculum on peace & counter terrorism.
بقائے باہمی اور امن عالم کے فروغ کے پیش نظرشیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے براہ راست اپنی نگرانی میں منہاج القرآن کے تحقیقی ادارے فرید ملت ریسرچ انسٹیٹوٹ کے تحت ’’ فروغ امن اور انسداد ِ دہشت گردی ‘‘ کا اسلامی نصاب تیار کروایا جو پانچ مختلف طبقات کے لیے تیار کیا گیاہے۔اس نصاب کا بنیادی مقصد اسلام کی امن پسندانہ اور اعتدال پر مبنی تعلیمات کو اجاگر کرناہے۔تا کہ انسانی سوچ سے تنگ نظری وانتہا پسندی کو ختم کیا جا سکے اور بین المذاہب رواداری کو فروغ دیا جائے۔(قادری، جولائی 1992ء)
رسالت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تہذیبی حجت:
رسالت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ختم نبوت صرف ایک مذہبی یا دینی تصور ہی نہیں بلکہ ملی اور تہذیبی تصور بھی ہے۔ختم نبوت کی بدولت انسانیت کو تہذیبی ارتقاء کا وہ نقطہ کمال میسر آیا جسکے بعدتہذیبی ارتقاء کے لئے کسی برتر معیار کا تصورمحال ہے۔اس ملت کی تہذیبی بقاء وارتقاء نسبت وتعلق محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ہے۔
اسی لیے ناموس ِرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر حملہ اسلامی تہذیب کی اعلی اقدار پرضرب محسوس ہوگا جو ڈیڑھ ارب مسلمانوں کو کسی طور گوارہ نہیں۔آزادی اظہار رائے کی آڑ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں گستاخی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات مقدسہ کو طعن و تشنیع کا نشانہ بنانا اہل مغرب کا وطیرہ رہا ہے۔پیرس کے میگزین ’’charlie hebdo‘‘ میں عفت مآب حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسبت وقتاََ فوقتاََ گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کی گئی۔ جس نے دنیا بھر کے مسلمانوں میں غم و غصہ کی لہر دوڑادی۔ نابغہ عصر، عاشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ڈاکٹر محمدطاہرالقادری نے اس دانستہ طور پر سر انجام دئیے جانے والے مذموم فعل کے خاتمے کے لئے مقتدر اداروں کے نام مراسلہ تحریر کیا۔ آپ نے اس فعل کو تہذیبوں، معاشروں اور مذاہب کے درمیان سنگین تصادم کا سبب قرار دیتے ہوئے کہا:
’’یہ معاملہ یہاں آزادی اظہار رائے سے متعلقہ نہیں بلکہ یہ تو ایک بڑی تہذیب و تمدن کے مقدس عناصر کی تضحیک و تحقیر پر مبنی غیر اخلاقی عمل ہے۔ ایسا عمل جس سے پورے ایک طبقہ کو اذیت پہنچتی ہو محض اظہار رائے کی آزادی کے عنوان کے تحت کسی صورت جائز اور قابل قبول نہیں‘‘۔
(قادری، مراسلہ، امن عالم کو درپیش خطرات اور آزادی اظہار رائے کی درست تعبیر و تشریح ص: 6)
آپ نے ثابت کیا کہ جس طرح دیگر مذاہب اور ان سے متعلق معتبر شخصیات کا تقدس لازم ہے۔ بعینہ اسلام اور نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حرمت و تقدس واجب ہے لیکن جب اسلام کی مقدس ترین کتاب قرآن پاک اور مقدس ترین ہستی صاحب قرآن کی واضح طور پر توہین کی جاتی ہے تو اس سے لازمی طور پر مسلمانوں میں اشتعال پیدا ہو گا۔
’’چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تحقیر آمیز طریقے سے تصویر کشی کی صورت بھی آزادی تقریر کی آڑ میں درست قرار نہیں دی جا سکتی۔ مزید یہ کہ مضحکہ خیز تصاویر سہوًا شائع ہونے کی بجائے خصوصًا اسلام دشمن ماحول کے تناظر میں شائع ہوئی ہیں جبکہ پہلے ہی یورپی ممالک اس حوالے سے شدیدمخاصمانہ تناؤ کا شکار ہیں۔‘‘
(قادری، مراسلہ، امن عالم کو درپیش خطرات اور آزادی اظہار رائے کی درست تعبیر و تشریح ص:6)
آپ نے دنیا کو واضح کیا کہ ’’اگر برداشت رواداری اور بقائے باہمی کے عالمی متفقہ اصول کو نظر انداز کر دیا جائے اور اخلاقی و مذہبی اقدار کی بے توقیری کی جائے تو امن عالم کی موجودہ صورتحال بدتر ہو جائے گی۔ اور دنیا میں موجود تناؤکو ختم کرنے کی تمام کوششیں بے سود ہو کر رہ جائیں گی۔مذکورہ بالا دلائل کی روشنی میں ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے اس مسئلہ کے حل کی صورتیں بھی اس مراسلہ میں ذکر کیں۔
اسی ضمن میں قائدتحریک منہاج القرآن کی نمایاں کاوش میں عالمی سطح پر گستاخانہ فلموں اور خاکوں کی تسلسل کے ساتھ اشاعت کے خلاف 5اکتوبر2012ء کو ملک بھر میں ’یومِ عظمتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ‘ کے طور پر منانے اور پر امن احتجاج جاری رکھنے کا فیصلہ شامل ہے اس کانفرنس میں ملک بھر کی ڈیڑھ سو سے زائد مذہبی، سیاسی، سماجی اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی تنظیمات اور ایسوسی ایشنز کے رہنماؤں نے شرکت کی اور مشترکہ اعلامیہ پیش کیا گیا۔
بین التہذیب مکالمے کے ضمن میں ڈاکٹر طاہرالقادری کی کاوشیں:
موجودہ پیش منظر میں اسلامی تہذیب اور تہذیبِ مغرب اپنے فکری، اعتقادی اور اقداری اختلاف میں دو انتہاؤں پر ہے۔ ان نامساعد حالات میں بھی شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری انتہائی پرامید اور امت کے تابناک مستقبل کے بارے میں پر یقین ہیں تاہم یہ نقطہ اتصال تبھی جڑ سکتا ہے جب مختلف تہذیبوں اور قوموں کے درمیان باہمی احترام، اور تکریم و فلاح انسانیت کا رشتہ قائم رہے۔ اسی ضمن میں دانش عصر شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی کاوشیں چاہے وہ منہاج یونیورسٹی میں School of Religion & Philosophy ہو یا School of Peace and Counter Terrorism Studies کا قیام علمی و فکری سطح پر (Infaith Harmony) بین المذاہب رواداری و ہم آہنگی میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ مسلم دنیا کی نمائندگی کرتے ہوئے مختلف تہذیبوں کے درمیان باہمی رواداری کے فروغ کی کاوش کو ایک مؤثر نظیر24 ستمبر 2011ء Wembly Arena میں منہاج القرآن انٹرنیشنل کے پلیٹ فارم سے منعقدہ Peace and Humanity Conference ہے جس میں دنیا کے پانچ بڑے مذاہب اسلام، عیسائیت، یہودیتہندومت، سکھ مت اور بدھ مت کے عالمی رہنماؤں، حقوق انسانی کی تنظیموں، مذہبی سکالرز امن کی خواہاں عالمی شخصیات اور دنیا بھر سے تقریبًا 11000 افراد نے شرکت کی۔ (www.minhaj.org)
کانفرنس میں عالمی امن کے قیام مختلف تہذیبوں اور ثقافتوں کے باہمی تعاون، عالمی عدل و مساوات کا فروغ، کی شقوںپر مشتمل "London Declaration" کے نام سے 24 نکات پر مشتمل مشترکہ اعلامیہ بھی جاری کیا گیا۔ بعد ازاں اس اعلامیہ کو عالمی رہنماؤں اور مقتدر و مؤثر عالمی اداروں کے نام ارسال کیا گیا۔یہ کاروائی ان فرقہ وارانہ عالمی سازشوں کا توڑ ہے جو تہذیبی تصادم کے فلسفے کو ہوا دے کر دنیا کو جنگوں کی آماج گاہ بنانا چاہتی ہیں۔ دنیا بھر کے مختلف تہذیبوں، مذاہب، مختلف شہریتیں رکھنے والے ایک لاکھ افراد نے دسمبر 2011ء تک اس اعلامیہ کو سپورٹ کرتے ہوئے اپنے دستخط ثبت کیے۔
مسیحی مسلم مکالمہ کے فروغ کے لئے نہ صرف شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے عملی سطح پر کوششیں جاری رکھیں بلکہ دور حاضر کے اعتقادی اور فقہی تقاضوں کے عین مطابق امت کی رہنمائی کے لئے قرآن و سنت کی روشنی میں اور پاکستان سے اعتقادی انتہاپسندی کے خاتمہ اور باہمی تعلقات کے فروغ کے لئے ’اسلام اور اہل کتاب‘ بھی تخلیق فرمائی۔ جولائی 2014ء میں شائع ہونے والی یہ کتاب اپنی ذات میں ایک مجتہدانہ کاوش ہے۔
تہذیبوں کی باہم آویزش کی اس فضا میں ارتباط کی ایک سعی حالیہ پاکستان میں International Conference on Religious Pluralism & World Peace (11,12 Nov 2017) کے عنوان سے منعقدہ کانفرنس ہے جسکا بنیادی مقصد عالم انسانیت کو درپیش موجودہ مسئلہ انتہاپسندی اور دہشت گردی کے اس ماحول میں مذاہب و اقوام عالم کے مابین تعلقات کے ضمن میں مشترکہ ملّی، قومی اور تہذیبی مفادات کے تحفظ کی سبیل تلاش کرنا ہے۔ تاکہ مختلف ثقافتی و تمدنی اقدار کے حامل افراد مشترکہ اصولوں کی بنیاد پر عالمی امن کی راہ ہموار کر سکیں۔
ڈاکٹر طاہرالقادری ملت اسلامیہ کے بہتر مستقبل اور اسلامی تہذیب کے احیاء کے لئے فکری و عملی ہمہ جہت پہلوؤں پر ملت کی رہنمائی کا فریضہ سر انجام دے رہے ہیں۔ آپ نے اسلامی تہذیب کو از سر نو بام عروج تک پہنچانے کا ذریعہ نوجوانانِ ملت کو قرار دیا ہے اور ان کی فکری تربیت کے لئے مربوط و منظم لائحہ عمل پیش کیا۔ (القادری، فروری 1988ء، 16-20)
دور حاضر میں جن چیلنجز کا امت مسلمہ کو سامنا ہے۔ آپ نے ان کے ادراک و شعور کے ساتھ ان سے بحسن و خوبی نبرد آزما ہونے کی راہ بھی سمجھائی ہے۔ مسلم تہذیب اپنی ماہیت، عناصر ترکیبی، مظاہر و اثرات کے لحاظ سے دیگر تہذیبوں سے ممتاز حیثیت کی حامل ہے۔ اسکی روحانی اساس اس کے اقدامی مزاج کی مظہر ہے۔ اپنی انہی خصوصیات کی وجہ سے مسلمتہذیب دورِ نو کا آغاز ثابت ہوئی۔ توحید و رسالت اور ختم نبوت کی اسی اساس پر تحریک منہاج القرآن اور ڈاکٹر طاہرالقادری کا فکری، علمی و عملی نظام استوارہے۔ اپنے فکر و فلسفہ میں پیغمبرانہ تیقن رکھنے والے اپنے قلب و روح میں رومی و غزالی کی تڑپ کے حامل فکر اقبال کے علمبردار، اپنے علم و حکمت میں فارابی و ابن سینا کے وارث و جانشین شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی آواز مسلم دنیا کی واحد نمائندہ آواز ہے جو امت کو زوال سے کامیابی کی طرف گامزن رکھنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
ماخوذ از ماہنامہ دخترانِ اسلام، فروری 2018
تبصرہ