خواتین اور بچوں کی زندگیوں کا تحفظ آخر کس کی ذمہ داری؟
بچوں اور خواتین کی زندگیوں کی حفاظت کے حوالے سے صوبہ پنجاب پاکستان کا ایک غیر محفوظ اور خطرناک ترین صوبہ بن چکا ہے۔ گزشتہ دس سال میں صورتحال تشویشناک حد تک خراب ہوئی۔ غیرت کے نام پر قتل ہو، بچیوں کے ساتھ بداخلاقی کے واقعات ہوں، اغواء برائے تاوان کا سنگین جرم ہو، گھریلو تشدد کے نتیجے میں اموات ہوں، تیزاب سے جلائے جانے کے واقعات ہوں، ناقص غذاء اور جعلی ادویات کی خرید و فروخت ہو، پینے کا مضر صحت پانی ہو یا پتنگ بازی میں استعمال ہونیوالی دھاتی ڈور ہو ہر جگہ معصوم انسانی زندگیاں بالخصوص خواتین اور بچے سب سے زیادہ نشانہ بنتے ہیں۔ یہ بات بھی ریکارڈ کا حصہ ہے مذکورہ حادثات میں پنجاب مسلسل دس سال سے سر فہرست صوبہ ہونے کا اعزاز برقرار رکھے ہوئے ہے۔ گزشتہ چند ماہ سے معصوم بچیوں کا بداخلاقی کے بعد قتل اور بچوں کی دھاتی ڈور پھرنے سے گردنوں کے کٹنے کے واقعات تواتر کے ساتھ سامنے آرہے ہیں، کوئی دن نہیں گزرتا کہ کسی گھر میں صف ماتم نہ بچھتی ہو اور ہنستا بستا گھر آہوں اور سسکیوں میں نہ ڈوبتا ہو ہر واقعہ اور ہر سانحہ کے پس پردہ حکومتی ناکامی اور بے حسی نظر آئے گی، کسی بھی انسانی المیہ کے رونما ہونے کی صورت میں اس وقت تک حکمران حرکت میں نہیں آتے جب تک عوام اور میڈیا حرکت میں نہ آئیں اس حوالے سے قصور میں ننھی زینب کے ساتھ پیش آنے والا واقعہ اس کی ایک بڑی دردناک مثال ہے۔ معصوم زینب کی لاش ملنے کے بعد سب سے پہلے سوشل میڈیا نے آواز اٹھائی پھر الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا نے صدائے احتجاج بلند کی اس کے بعد چیف جسٹس اور آرمی چیف نے از خود نوٹس لیا اور پھر آخر میں پنجاب حکومت کی آنکھ کھلی یہی صورتحال آج کل دھاتی ڈور پھرنے کے نتیجے میں ہونیوالی اموات کے دلخراش واقعات کی صورت میں سامنے آرہی ہے۔ گزشتہ ایک سال میں صرف سنٹرل پنجاب میں 19 بچے دھاتی ڈور پھرنے سے موت کے منہ میں جاچکے ہیں۔ مجموعی طور پر 77 اموات ہو چکیں، دھاتی ڈور پھرنے سے زخمی ہونے والوں کی تعداد 4991 ہے جن میں سے 388 بدقسمت شہری مستقل معذور ہوچکے ہیں۔ یہ واقعات دہشتگردی کے واقعات سے کم سنگین نہیں ہیں۔ اس سارے عمل میں پنجاب حکومت کا کردار تماشائی سے زیادہ نہیں رہا۔ حادثہ کوئی بھی ہو معصوم انسانی زندگی کے ضیاع کا سب سے بڑا متاثرہ فریق خاتون ہوتی ہے۔ خدانخواستہ خاندان کا سربراہ کسی حادثے کی نذر ہوجائے یا بچے، اس کے اذیت ناک معاشی، سماجی مضمرات کا شکار سب سے زیادہ خاتون ہوتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر عوام کے منتخب نمائندے اور حکومتیں عوام کے جان و مال کا تحفظ نہیں کرسکتے تو پھر ان کا اقتدار سے چمٹنے رہنے کا کیا قانونی، جمہوری اور اخلاقی جواز باقی رہ جاتاہے؟ عوام کے جان ومال کا تحفظ کرنا حکمرانوں کا محض صوابدیدی یا پسند نا پسند پر مبنی اختیار نہیں ہے، عوام کے جان و مال کا تحفظ ریاست کی اہم ترین ذمہ داریوں میں سے ایک ہے۔ آئین کا آرٹیکل 9 ہر شہری کی اس کی زندگی کو محفوظ بنائے جانے کی گارنٹی دیتا ہے اوریہ گارنٹی انسانی حقوق کے باب میں سے سب سے اہم ترین ہے، مگر بدقسمتی سے موجودہ ظالم اور لوٹ کھسوٹ پر مبنی نظام میں حکمران آئین کے ان آرٹیکلز اور شقوں پرعمل کرتے ہیں جو ان کے اقتدار، اختیار اور لوٹ مار کو تحفظ دیتی ہیں۔ دھاتی ڈور سے بچوں کی اموات میں اضافہ ہو رہا ہے اور یہ بات طے شدہ ہے کہ جب تک چیف جسٹس آف سپریم کورٹ، چیف آف آرمی سٹاف، عوام، میڈیا متحرک نہیں ہوں گے اس وقت تک حکمران ٹس سے مس نہیں ہوں گے اور قوم کے بچے اسی طرح ذبح ہوتے رہیں گے، مائیں بین کرتی رہیں گی اور ہنستے بستے گھر اجڑتے رہیں گے۔ پنجاب پولیس ہر سال 100 ارب روپے کے لگ بھگ بجٹ استعمال کرتی ہے اور اس خطیر رقم کے استعمال کے بعد بھی ہمیں ہر گزرتے دن کے ساتھ عوام زیادہ غیر محفوظ اور عدم تحفظ کا شکار دکھائی دیتے ہیں۔ پنجاب کی مائیں چیف جسٹس سپریم کورٹ سے استدعا کرتی ہیں کہ وہ خونی جان لیوا دھاتی تار کی تیاری، خرید وفروخت کا نوٹس لیں اگر معاملہ پنجاب کے حکمرانوں کی صوابدید پر چھوڑا گیا تو انسانی زندگیاں اسی طرح تلف ہوتی رہیں گی۔ (ایڈیٹر)
ماخوذ از ماہنامہ دختران اسلام، اپریل 2018
تبصرہ