بچوں کی تربیت شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی نظر میں
نازیہ عبدالستار
بچے کی زندگی کی ابتداء پلانٹیشن سے ہوجاتی ہے جب تک بچہ ماں کی باطنی گود میں رہتا ہے اس کی ہر طرح کی نشوونما اس کی ماں کرتی ہے۔ بچے کی نشوونما کے سلسلے میں دو لفظ استعمال ہوتے ہیں: growth اور development۔ ان دونوں میں فرق ہے جسمانی نشوونما یعنی شکل و صورت کا بننا، قد کا بڑھنا، توانا ہونا یہ growth ہے جبکہ دماغی، اخلاقی، فکری نشوونما کو development کہتے ہیں۔ نشوونما میں نیچر اور Nurture دو چیزیں کام کرتی ہیں ماں کی طرف سے مبہم اور باپ کی طرف سے سپرم ملتا ہے اور بڑھتا چلا جاتا ہے جو نیچر سے آتا ہے۔ جبکہ Nurturing میں بچے کے ماں باپ، بہن بھائی، فیملی اور معاشرہ اور سکول مل کر جو کردار ادا کرتے ہیں ان تمام مراحل کو نرچرنگ کہتے ہیں۔ نرچرنگ ماں کے پیٹ سے ہی شروع ہوجاتی ہے اس دوران ماں کو زیادہ بھوک لگتی ہے وہ اپنے اور بچے کے حصے کا بھی کھاتی ہے۔ ماں اگر خوشگوار ماحول میں رہتی ہے، سیر پر جاتی ہے اچھی خوراک، دودھ اور پروٹین لیتی ہے، جھگڑے کے ماحول سے بچتی ہے ان ساری چیزوں کا اثر پیدا ہونے والے بچے کی جسمانی اور ذہنی نشوونما پر پڑتا ہے۔ ماں کو ان مہینوں میں فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ اس نے کس طرح کے بچے کو جنم دینا ہے اس کا مزاج طبیعت اور صحت کیسی ہو۔ ماں کے تمام اثرات اس کے پیٹ میں موجود بچے کی نشوونما پر پڑتے ہیں نیچر اور نرچر دونوں مراحل شانہ بشانہ چلتے ہیں اس وجہ سے جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو دونوں چیزیں آتی ہیں۔ ماں کی گود اس کی بہترین تربیت گاہ گھر اس کی یونیورسٹی ہوتی ہے۔
بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو ابتدائی زندگی میں تین چیزیں اس کے ساتھ چلتی ہیں اس کی نشوونما، development اور تعلیم جس طرح بچہ کا جسم بڑھتا ہے ساتھ ہی ساتھ اس کی ذہنی، جذباتی، نفسیاتی، معاشرتی، روحانی اور ثقافتی نشوونما بھی ہوتی ہے۔ یہ سارے گوشے ایک چھوٹی سی اکائی میں پروان چڑھتے ہیں۔ والدین میں باپ تو زیادہ تر اپنے کاروباری معاملات میں مصروف رہتا ہے ابھی بچہ اٹھا نہیں ہوتا وہ اپنے کاروبار پر چلا جاتا ہے۔ رات کو لیٹ آتا ہے۔
بچے کی تربیت کی ذمہ داری زیادہ تر ماں پر ہوتی ہے۔ حضور علیہ السلام جس معاشرے میں مبعوث ہوئے اس وقت خواتین زیادہ مصروف نہیں ہوتی تھیں اس زمانے میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’تمہاری جنت ماں کے قدموں تلے ہے‘‘۔ اس حدیث کو مائیں ایک ہتھیار کے طور پر اس وقت استعمال کرتی ہیں جب بچہ ان کا کہنا نہیں مانتا، جھگڑا کرتا ہے جبکہ اس کا معنی یہ ہے کہ بچے کی تربیت، پرورش، نگہداشت توجہ ماں پر منحصر ہے کہ وہ بچے کو جنت کی راہ پر ڈال رہی ہے یا جہنم کی راہ پر۔
لہذا چھوٹی عمر میں بچے کی تربیت کرنا آسان ہوتا ہے مگرجب وہ چودہ پندرہ سال کا ہوجاتا ہے تو اُس وقت تربیت کا فیصلہ کن نتیجہ نہیں نکلتا۔ آج کا سائیکالوجسٹ ریسرچ کرکے بتاتا ہے کہ بچے کی زندگی کے پہلے چھ سال بڑے مشکل ہوتے ہیں اس نے جو بننا ہوتا ہے وہ بن جاتا ہے اس دوران بچے کی شخصیت کی تعمیر ہوجاتی ہے۔ اس سے پہلے ریسرچ تھی کہ نو سال کی مدت تک بچے کی شخصیت بن جاتی ہے۔ اس سے بھی پہلے کی ریسرچ تھی کہ 11، 12 سال تک بچے نے جو بننا ہوتا ہے بن جاتا ہے۔ جدید ریسرچ چھ سال کا عرصہ ہے اس دور میں بچہ کی ضرورت کو نظر انداز کرنا، تباہ کن ہے۔ والدین کی سو ذمہ داریاں ہوں گی لیکن سب سے بڑھ کر بچے کی صحیح نشوونما ہے۔ اگر اس کو نظر انداز کردیا ہے تو مطلب ہے کہ اگلی نسل کو تباہ کردیا کیونکہ اس کے سیکھنے کا مرحلہ شروع ہوچکا ہے۔ ایجوکیشن صرف سکول، کورس کی کتب، ٹیچر اور کلاس روم سے شروع نہیں ہوئی یہ ایک باب ہے بلکہ بچے کے سیکھنے کا مرحلہ اس کے والدین سے شروع ہوچکا ہے وہ ہی بچے کا کورس ہیں۔ والدین کے آپس کے تعلقات اور لوگوں کے ساتھ معاملات کیسے ہیں؟ اس سے بچہ سیکھتا ہے مثلاً اگر باہر کسی نے بیل دی باپ کہتا ہے کہ کہہ دیں کہ ابو جی گھر پر نہیں ہے یہ سب کچھ بچہ سنتا بھی ہے اور اس کی دماغ کی تختی پر نقش ہورہا ہے۔
مزید یہ کہ والدین آپس میں جھگڑتے ہیں اس کے اثرات بچے کی شخصیت پر ہوتے ہیں۔ عموماً سمجھا جاتا ہے کہ بچہ کھیل رہا ہے بظاہر تو وہ گیم کھیلتا ہے مگر چھوٹی سی آواز بھی کان سے سنتا ہے۔ گھروں میں اسکا مشاہدہ بھی کیا جاتا ہے کہ اچانک بچہ ایسا لفظ بولتا ہے کہ والدین دنگ رہ جاتے ہیں کہ اس نے یہ لفظ کہاں سے سنا ابھی تو یہ سکول بھی نہیں گیا مثلاً بچہ کہتا ہے ’’بد تمیز‘‘ والدین حیران رہ جاتے ہیں ان کی کوشش ہوتی ہے کہ یہ لفظ اس کی زبان سے ہٹ جائے۔ اب اگر بچہ کو کہا جائے کہ یہ بُرا لفظ ہے تو بچہ اس لفظ کو نہیں چھوڑتا کیونکہ اس کو اچھائی و برائی کا علم نہیں اس کا طریقہ کار یہ ہے کہ اس لفظ سے ملتا جلتا لفظ اس کے سامنے کہیں جیسے بدتمیز کی جگہ بٹن قمیض آٹھ دس مرتبہ بچے کے سامنے کہیں تو بچہ بدتمیز کا لفظ بھول جائے گا۔ ابتدائی عمر میں حکمت سے منع کرنا زیادہ موثر ہے۔
گھروں میں ذہنی دبائو کے ہزاروں مسائل ہوتے ہیں جس کے لیے ضروری ہے کہ والدین سائیکو تھراپیسٹ کے پاس جائیں۔ وہ والدین کو بتاتے ہیں کہ بچے کے ساتھ کیسے بولنا ہے کس ڈھنگ سے بولنا ہے؟ جس طرح دودھ بچے کے جسم کو توانائی دیتا ہے اس طرح بچہ ماحول سے سیکھتا ہے اگر ماں گھر میں گندے اور فحش پروگرام دیکھتی ہے اور توقع کرتی ہے کہ بچے کی اُس طرف رغبت نہ ہو تو ایسا نہیں ہوتا والدین کے طرز عمل سے بچے نے اپنی زندگی کا رخ متعین کرنا ہے جو کچھ والدین کریں گے اس کا براہ راست اثر بچے کی عادات، نفسیات، شخصیت پر پڑتا ہے۔ یہ بڑا اہم مسئلہ ہے والدین ہی بچے کا کورس، سکول ہیں اس نے سکول جانے سے پہلے ہی سب کچھ والدین سے سیکھ لینا ہے۔ ٹیچر کے پاس تو کورس ختم کروانے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں اگر گھر کا ماحول جو کچھ کتاب میں لکھا ہے اس سے مختلف ہے تو بچے کی پرورش میں تضادات آجاتے ہیں۔
اسی طرح اگر والدین جھوٹ بولتے ہیں اور بچوں کو کہیں کہ جھوٹ نہ بولیں تو یہ کیسے ممکن ہے۔ والدین کے اعمال، افعال اور طرز زندگی کا اثر بچے کی شخصیت پر پڑتا ہے یہ تو ایک رخ ہے اس کے برعکس اگر بچے کو آزاد چھوڑ دیں اور توجہ نہ کریں تو وہ جنگلی پودے کی طرح ہوجاتے ہیں جیسے مالی پودے کو کاٹ کر خوبصورت شکل دے کر سنوارتا ہے۔ بچے بھی چھوٹے پودے ہیں ان کو سنوارنا والدین کی ذمہ داری ہے۔ ان کے تعلقات افقی اور عمودی دونوں طرح کے ہوتے ہیں۔ ان کے دوست احباب اور بہن بھائی بھی ہوتے ہیں۔ اس لئے دوسروں سے ملنا جلنا، رہنا سہنا والدین نے بچوں کو سیکھانا ہے اگر غیر معمولی لاڈ پیار سے بچے کو جانبدار بنادیا تو معاشرے میں اس کے برے تصورات پیدا ہوں گے وہ خود غرض بن جائے گا۔
بعض اوقات والدین بچے کو خود غرض بنا بیٹھتے ہیں اگر بچے کے پاس کھانے کی چیز ہے تو والدین نے بچے کو سیکھانا ہے کہ اپنا کھلونا اپنے دوستوں کے ساتھ بھی شیئر کرنا ہے، بچے کو خود اعتمادی سکھانی ہے خود اعتمادی پیدا کرنے کے لیے اس کی حوصلہ افزائی کرنی ہے تاکہ اس کی شخصیت کھل کر سامنے آئے اگر بچہ شرماتا ہے تو اس کی حوصلہ افزائی کریں تاکہ اس کی شخصیت طاقتور ہو۔
اس کو حالات سے مقابلہ کرنے کے قابل بنائیں اگر بچے کو پکڑے رکھیں گے کہ یہ نہیں کرنا، لڑائی نہیں کرنی، فلاں نہیں کرنا تو بچہ کبھی بھی خودمختار اور معاشرے کا باعزت فرد نہیں بن سکے گا۔
بچوں کو جب غصہ آتا ہے تو وہ چیختا چلاتا ہے، برتن اور کھلونے بھی توڑتا ہے۔ چھوٹے بچے اس طرح سے بلیک میل کرتے ہیں جس سے والدین افراط و تفریط کا شکار ہوجاتے ہیں اگر بچے نے بات نہیں مانی تو مارنے لگ گئے یہ تفریط ہے۔ افراط یہ ہے اگر بچہ بلیک میل کرنے کے لئے زمین پر لیٹنے لگتا ہے، ٹانگیں مارتا ہے، بے ہوشی دیکھتا ہے، چیختا چلاتا ہے، دنگا فساد اور برتن توڑتا ہے تو والدین سے جو مانگتا ہے وہ دینے لگ جاتے ہیں بچہ سمجھتا ہے کہ یہ بہترین طریقہ ہے اپنی بات منوانے کا بس چیخو چلائو برتن توڑو جو چاہو مل جائے گا اس کو حقیقی نفع و نقصان کا علم نہیں ہوتا اس کی عادات سے ہی اس کی شخصیت بنتی ہے اس بچے نے معاشرے کا مستقبل بننا ہے پس بچہ کے ساتھ زیادتی بھی نہ ہو اور کمی بھی نہ ہو۔ والدین نے بچے کو صحیح راستے کی طرف لے کر جانا ہے۔
ضروری ہے کہ والدین اس کے لیے ٹریننگ کورس کریں تاکہ بچوں کی صحیح نہج پر تربیت کی جاسکے۔ بچوں کو مستقبل کا لیڈر بنانا ہے، بچوں کے اندر رجحانات کئی طرح کے ہوتے ہیں ان کو آزاد نہیں چھوڑنا چاہئے کہ وہ فون لے کر ماں کی نگاہ سے دور ہوکر بیٹھ جائے۔ اگر فون دینا ہے تو خاص عمر میں دیں اور بیڈ روم میں جانے سے پہلے اس سے واپس لے لیں جب بچے موبائل کو دیکھیں تو عام جگہ پر دیکھیں اور ماں کو پتہ ہو کہ وہ کیا دیکھ رہا ہے کچھ چیزیں بلاک کردینی چاہئیں تا آنکہ بچہ پختہ عمر کو نہ پہنچ جائے اس کو حقیقی نفع اورنقصان کا علم ہوجائے اس سے پہلے تک والدین نے بچے کو انگلی پکڑ کر چلانا اور سیکھانا ہے جس طرح والدین بچے کی جسمانی خوراک کا خیال رکھتے ہیں اسی طرح روحانی نشوونما کا بھی خیال رکھنا پڑے گا ان کے اندر دین اور شرم و حیا کی قدریں ڈالنی ہوں گی بعد میں یہ قدریں نکھرتی رہتی ہیں والدین کی کاوش سے اچھا معاشرہ اچھی نسل کو پاتا ہے پس بچے معاشرے، امت مسلمہ اور عالمِ انسانیت کا مستقبل ہیں۔
ماخوذ از ماہنامہ دخترانِ اسلام، اپریل 2018
تبصرہ