کتاب علم کا خزینہ
ہانیہ ملک
کتاب منبع و مصدر علم ہے۔ کتاب غور و فکر کو پروان چڑھاتی ہے اور غور و فکر انسان کو حکمت و دانائی اور معرفت کی طرف لے جاتا ہے۔ کتاب انسان کو طمانیت،شعور آگہی اور وجدان کے خزینے عطا کرتی ہے۔ کتاب انسانی سوچوں کو گہرائی اور وسعت سے نوازتی ہے۔ کتاب کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ قرآن نے ابتدا میں ہی اپنا تعارف ’’الکتاب‘‘ کے طور پر کروایا۔ بے شمار حکمتوں کے ساتھ ساتھ اس میں یہ حکمت ہے کہ کتا ب سے تعلق اور ربط پیدا کرنے کیلئے اللہ نے اپنے کلام کا نام ’’الکتاب‘‘ رکھا۔ کتاب کتابت سے ہے جس کا مطلب علم کی طرف اشارہ ہے۔ اس سے بڑا مرتبہ اور کیا ہو سکتا ہے۔
امریکہ کی یونیورسٹی میڈیکل سنٹر کی تحقیق کے مطابق جو بالغ حضرات تحقیقی یا دانشورانہ سرگرمیوں میں وقت گزارتے ہیں تو ان میں بڑھاپے یا ادھیڑ عمری میں دماغی تنزلی کی شرح ان افراد کے مقابلے میں 32 فیصد کم ہوتی ہے جو کتابوں یا ایسی سرگرمیوں سے دور بھاگتے ہیں اسی طرح دماغی بیماری الزائمر بھی مطالعہ کرنے والے افراد میں اڑھائی گنا کم ہوتی ہے۔
کتاب انسان کے اندر خوداعتمادی کو بڑھاتے ہوئے نئی منزلوں سے روشناس کرواتی ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ کتاب سے دوستی قوموں کی معاشی، سماجی، سائنسی اور تہذیب و ثقافت کی ترقی کی ضامن ہوتی ہے۔ ارسطو جس کی کتابیں اڑھائی ہزار سال بعد بھی علم و آگہی کا سمندر ہیں جو سکندر اعظم کا استاد تھا۔ اپنے استاد ارسطو کے بارے میں سکندر اعظم نے کہا تھا ’’میرا باپ مجھے آسمان سے زمین پر لایا لیکن میرا استاد مجھے آسمان پر لے گیا۔‘‘
یونانی ڈرامہ نگار پوری ہیڈس نے لکھا ’’جو نوجوان مطالعہ سے گریز کرے وہ ماضی سے بے خبر اور مستقبل کیلئے مردہ ہوتا ہے۔‘‘
ارسطو اور افلاطون کے نظریات، مسلمان حکمرانوں اور بادشاہوں کے عدل و انصاف پر مبنی طرز حکومت کے قصے،اولیاء، صالحین اور صادقین کی زندگیوں کے ایمان اور یقین کو طاقت دینے والے واقعات کتابوں کے ذریعے ہی ہم تک پہنچے۔ کتاب اپنے پڑھنے والے کو جب بے شمار علم نوازتی ہے تو کتاب لکھنے والے کے کمالات اور خوبیوں کا شمار کرنا ہی ناممکن ہوگا۔ ہر شخص تخلیق کار اور لکھاری نہیں ہو سکتا۔
کتاب پڑھنے والے باشعور اور مہذب قوموں کے باشندے ہوتے ہیں۔ کتاب کی شان یہ بھی ہے کہ یہ ہر شک کو دور کر دیتی ہے اور یقین کی قوت سے مالا مال کر دیتی ہے۔
کتاب کی ابتداء انسان کی پیدائش سے ہی ہوتی ہے۔ کاغذ کی ایجاد سے پہلے انسان نے ہاتھی دانت،درختوں کی چھالوں، پتوں، چٹانوں اور جانوروں کی ہڈیوں پر لکھا۔ کچھ مورخین کے مطابق دنیا کی پہلی کتاب ’’الاموات‘‘ ہے۔
تاریخ شاہد ہے کہ جن قوموں نے کتاب سے دوستی رکھی وہ زندگی کے ہر میدان میں ترقی اور عروج کی منازل طے کرتی گئیں۔ جیسے ہی کتاب و علم سے ناطہ ٹوٹا پستی اور ذلت نے گھیر لیا۔ خلفائے راشدین اور اولیائے کرام کتاب کے قدردان رہے۔ خلیجی، تغلق، سادات، لودھی اور مغل علم کے قدر دان رہے۔
ساتویں سے تیرھویں صدی تک بغداد علم و ادب کا گہوارہ رہا۔ غرناطہ، قرطبہ اور بغداد دنیا کے عظیم تاریخی اور علمی سرمایہ تصور ہوتے تھے۔ سقوط بغداد کے بعد مسلمانوں کے عظیم کتب خانوں کو دریا برد کیا گیا۔ 1857ء میں جب مغلیہ سلطنت کا خاتمہ ہوا تو انگریزوں نے لال قلعے کی شاہی لائبریری سے ہزاروں کتابیں لندن پہنچا دیں۔ اغیار نے مسلمانوں کی میراث کتاب کو کبھی جلایا، کبھی سمندر برد کیا تو کبھی اسے لوٹ لیا۔ آج بھی لندن میں ’’انڈیا آفس لائبریری‘‘ اور پیرس لائبریری میں مسلمانوں کی ہزاروں کتابیں موجود ہیں۔ کربناک صورتحال کا ذکر علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے کچھ اس طرح سے کیا۔
تجھے آباء سے اپنے نسبت ہو نہیں سکتی
تو گفتار وہ کردار، توثابت وہ سیارہ
گنوا دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی
ثریا سے زمین پر آسمان نے ہم کو دے مارا
وہ علم کے موتی اور کتابیں اپنے آباء کی
جو یورپ میں دیکھیں تو دل ہوتا ہے سہ پارہ
امریکہ، جاپان، چین، لندن، پیرس، کینیڈا، آسٹریلیا، اٹلی اور فرانس ایسے ممالک ہیں جہاں سب سے زیادہ کتابیں فروخت ہوتی ہیں۔ دنیا میں اٹھائیس سے زیادہ ممالک ہیں جہاں کتابیں زیادہ فروخت ہوتی ہیں۔ ان ممالک میں ایک بھی اسلامی ملک نہیں۔ علم و ادب سے دوری نے مسلمانوں سے وقار اور تاج و تخت چھین لیے۔
اگر ہم وطن عزیز کی بات کریں تو انتہائی افسوسناک صورتحال سامنے آتی ہے۔ پاکستان میں کتاب سے دوستی رکھنے والوں کو خبطی، پاگل یا کتابی کیڑا جیسے القابات سے نوازا جاتا ہے۔ جبکہ ترقی یافتہ قومیں کتاب کے تخلیق کار، مفکر، دانشور، شاعر، مصنف، استاد اور ادیبوں کو عزت و قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہیں۔ ایک سروے کے مطابق پاکستان میں 72 فیصد عوام کتاب سے دوری اور 27 فیصد کتب بینی کے شوقین ہونے کا اعتراف کرتے ہیں۔ اسی طرح گیلپ سروے کے مطابق 93 فیصد کتابیں پڑھنے کے دعویدار اور 61% کتابیں نہیں پڑھتے۔
کتاب سے دوری کی بنیادی وجوہات کتاب کی اہمیت اور افادیت سے نا آشنائی ہے۔ پاکستان میں کم شرح خواندگی اس کی بنیادی وجہ ہے۔ پاکستان دشمن عناصر نے عوام کو علم و شعور سے دور رکھا۔ تعلیم پہ کوئی توجہ نہ دی گئی۔ اس کی بنیادی وجہ حکومت کی عدم سرپرستی بھی ہے۔ مقتدر اور حکمران طبقہ کی ترجیحات میں عوام کبھی شامل رہے ہی نہیں۔ غربت، بے روزگاری، مہنگائی، اقتصادی پسماندگی میں عوام اتنا الجھ کر رہ گئی ہے کہ علم و ادب سے دور ہوتی گئی۔ جس سے صارفین کی قوت خرید میں شدید کمی ہوئی۔
کتب بینی سے دوری کی ایک بنیادی وجہ انٹرنیٹ، ویب سائٹس، سافٹ ویئرز، فری ڈائون لوڈنگ، الیکٹرانک میڈیا، یوٹیوب، سرچ اسٹیشن، گوگل اور وکی پیڈیا وغیرہ کا زیادہ استعمال بھی ہے۔ عوام کی اکثریت ہاتھوں میں کتاب کی بجائے موبائل دیکھنا پسند کرتی ہے۔ جس کہ وجہ سے لوگوں کا رجحان بدل چکا ہے۔ ہمارا ناقص تعلیمی نظام بھی طلباء اور طالبات میں کتب بینی کے شوق کو پروان چڑھانے میں ناکام ہو چکا ہے۔
وطن میں دہشت گردی، سیاسی عدم استحکام، انتہا پسندی اور خوف کی گرفت نے بھی عوام کو کتب بینی سے دور کر دیا ہے۔ معیاری کتابیں لکھنے والے مصنف، شاعر اور مفکر، ادیب اور دانشور اپنی کتابیں دوستوں میں مفت بانٹنے پر مجبور ہیں جبکہ مصلحت پسندی، اعزازات کی بندر بانٹھ، چاپلوسی، غیر ملکی دوروں کی ہوس، راتوں رات امیر ہونے کی ڈاکٹرائن کا دور دورہ ہے۔ مقتدر طبقہ کی چاپلوسی اور مفاد پرستی میں لکھنے والوں کو نوازا جاتا ہے جس کہ وجہ سے کتاب اور ادب پر نزاع کا عالم طاری ہے۔
کتاب سے دوری کی وجہ ادبی تنظیموں پر مفاد پرست افراد کا قبضہ بھی ہے۔ جہاں اپنی پسند کے لکھاریوں کو نوازا جاتا ہے جبکہ بہترین ادب کو پس پشت ڈال دیا جاتا ہے۔ فضول اور بے معنی مواد رکھنے والی کتابوں کی تقریب رونمایاں ہوتی ہیں اور اصل ادب کا استحصال ہو رہا ہے۔
پاکستان میں لائبریریاں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ لائبریریوں کی کمی بھی کتب بینی سے دوری کا ایک سبب ہے۔ لائبریوں کے قیام اور فروغ کیلئے حکومتی سطح پر فوری اور سنجیدہ اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں زیادہ کتابیں شاعری کی شائع ہوتی ہیں۔ نفسیات، فلسفے اور سائنس جیسے موضوعات پر بہت کم کتابیں لکھی جاتی ہیں۔ ان بنیادی وجوہات کو دور کرنے کیلئے حکومتی اور نجی سطح پر فوری اور سنجیدہ اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ اس قوم کو پستی اور ذلت سے نکالنے کا واحد راستہ علم سے محبت میں ہے۔ آج اس قوم کو کتاب سے مضبوط اور سچی دوستی کرنے کی ضرورت ہے۔
ماخوذ از ماہنامہ دخترانِ اسلام، اپریل 2018
تبصرہ