شام... خانہ جنگی کے سات سال
محمد ثناءاللہ طاہر
15 مارچ 2018ء سے شام کی خانہ جنگی آٹھویں سال میں داخل ہو گئی ہے۔ سیاسی، جغرافیائی، تزویراتی جمع تفریق سے بالاتر ہر جنگ کی ایک انسانی قیمت ہوتی ہے، اس جنگ میں یہ قیمت شامیوں نے چکائی ہے۔جنگی اسلحے کے تجربات، قتل و غارت گری اور بے گھر ہونے والوں کی تعداد کے لحاظ سے موجودہ دور کا یہ سب سے تباہ کن تنازعہ ہے۔ جنگ کے کئی فریق ہیں، ہر فریق کے غیرملکی پشت پناہ ہیں جو شام سمیت مشرقِ وسطیٰ میں طاقت کے حصول کے لیے آمنے سامنے ہیں۔ اس غیرملکی پشت پناہی نے جنگ کو ہولناک بنا دیا ہے۔ یہ تباہ کن خانہ جنگی کیسے شروع ہوئی؟ اور اس نے موجودہ صورت کیسے اختیار کی؟
تاریخی پسِ منظر
1963ء میں فوج کے ایک دھڑے نے بغاوت کر کے شام کی حکومت پر قبضہ کر لیا اور عرب قومیت پرست جماعت ’’بعث پارٹی‘‘ کے اقتدار کا آغاز ہوا۔ نئی حکومت میں حافظ الاسد (موجودہ صدر بشار الاسد کے والد) کو فضائیہ کی کمان دی گئی۔ 1966ء میں ایک اور بغاوت کے نتیجے میں فوجی حمایت یافتہ صالح جدید کی حکومت قائم ہوئی اور جنرل حافظ الاسد اس نئی حکومت کے وزیرِ دفاع بن گئے۔ 1971ء میں جنرل حافظ الاسد نے اس حکومت کا خاتمہ کر دیا اور اس کے ساتھ ہی حافظ الاسد کے طویل آمرانہ دور کا آغاز ہوا۔ حافظ الاسد کی حکومت 2000ء میں ان کے وفات تک جاری رہی۔ ان 30 سالوں میں حافظ الاسد تمام اختیارات کا مرکز تھے۔ ملک میں یک جماعتی نظام تھا، انتخابات میں صرف ’’بعث پارٹی‘‘ کو حصہ لینے کی اجازت تھے۔ حافظ الاسد اپنے اقتدار کے جواز کے لیے ریفرنڈم کرواتے اور ہر مرتبہ 100 فیصد یا 99 فیصد ووٹ لے کر کامیاب ہوتے۔ ووٹوں کا یہ تناسب ریفرنڈم کی شفافیت پر بذاتِ خود سوالیہ نشان ہے۔ اس تیس سالہ حکومت کے خاتمے پر شامی عوام کو توقع تھی کہ بالآخر ان کو اپنا حکمران شفاف طریقے سے چننے کا حق ملے گا‘ لیکن حافظ الاسد کی کرسی ان کے بیٹے بشار الاسد نے سنبھال لی اور حافظ الاسد دور کی پالیسیاں جاری رہیں۔
2011ء تک اسد خاندان اور طاقتور علوی ایلیٹ کلاس نے شام کو عرب قومیت پرست جماعت ’بعث پارٹی‘ کے ذریعے کنٹرول کیا۔2011 کے اعداد و شمار کے مطابق شام کی کل آبادی 2 کروڑ بیس لاکھ تھی جس میں 74 فیصد سنی مسلمان، 12 فیصد شیعہ (علوی) مسلمان جبکہ 10 فیصد مسیحی اور دیگر مذاہب کے ماننے والے تھے۔ نظامِ حکومت اگرچہ سیکولر تھا تاہم فرقہ ورانہ تعصب ضرور موجود تھا۔ 1971ء سے 2011ء تک شام میں ہنگامی حالت نافذ رہی۔ حکومت نے ہنگامی حالات کے نام پر خفیہ پولیس ’’مخابرات‘‘ قائم کی۔ اس پولیس کو اختیار تھا کہ ملک میں کسی بھی شخص کو بغیر کسی الزام میں گرفتار کر سکتی ہے۔ اس کے نتیجے میں حکمران طبقے کے خلاف آواز اٹھانے والے ہزاروں شامی جیلوں میں ڈالے گئے، مار دیے گئے یا لاپتہ ہو گئے۔
’بہارِ عرب‘ احتجاجی تحریک
2011ء کے اوائل میں عرب ممالک میں بہارِ عرب (Arab Spring) نامی احتجاجی تحریک شروع ہوئی اور پورا مشرقِ وسطیٰ اس کی لپیٹ میں آگیا۔ اسی سال مارچ میں شامی شہر ’’درعا‘‘ میں کچھ طلبہ نے اپنے سکول کے دیوار پر صدر بشار الاسد کے خلاف نعرے تحریر کیے، اس کی پاداش میں پولیس نے انہیں گرفتار کر کے تشدد کا نشانہ بنایا۔ اس پر احتجاج ہوا اور طلبہ کی رہائی کا مطالبہ کیا گیا۔ جواب میں حکومتی فورسز نے پرتشدد ردِعمل دکھایا۔ نتیجتاً احتجاج پھیل گیا اور دمشق، حمس، حلب، بنیاس سمیت دیگر شہر بھی اس کی لپیٹ میں آ گئے۔ یہی وقت تھا جب تیونس، لیبیا، مصر، بحرین اور یمن کے عوام بھی اپنے حکمرانوں کے خلاف سڑکوں پر نکلے ہوئے تھے۔ شامی عوام کو ہمسایہ ممالک میں ہونے والے ان احتجاجوں سے حوصلہ ملا، انہوں نے اپنے مطالبات میں ہنگامی حالت کا خاتمہ، سیاسی قیدیوں کی رہائی، جمہوری اصلاحات اور سماجی طبقاتی تفریق کا خاتمہ بھی شامل کر لیا۔ شامی صدر بشار الاسد نے احتجاج کرنے والوں کو غیر ملکی سازشیوں سے متاثر جرائم پیشہ عناصر کہتے ہوئے انہیں شکست خوردہ قرار دیا لیکن ساتھ ہی انہوں نے اصلاحات کی بھی پیش کش کی اور اپنی کابینہ کو تحلیل کر دیا۔ نیا انتخابی ضابطہ جاری کیا گیا جس میں بعث پارٹی کے علاوہ دیگر سیاسی جماعتوں کو بھی انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دی گئی۔ ملک سے ہنگامی حالت کا خاتمہ کر دیا گیا، ساتھ ہی احتجاجی مظاہروں پر سختی سے پابندی لگا دی گئی۔ لیکن مختلف شہروں میں احتجاج جاری رہا۔
حمس شہر کا ’’کلاک ٹاور سکوائر‘‘ مصر کے تحریر سکوائر کی طرح احتجاجی دھرنوں کا مرکز تھا۔ حالات میں اہم موڑ 18 اپریل 2011ء کو آیا جب کلاک ٹاور میں احتجاج ختم کروانے کے لیے سکیورٹی فورسز نے گولی چلا دی۔ اس کے نتیجے میں درجنوں مظاہرین ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہو گئے۔ ردِعمل میں حمس انقلاب کا مرکز بن گیا۔ مرنے والوں سے اظہارِ یکجہتی اور حکومتی ظلم کے خلاف روز مظاہرے ہونے لگے۔ جواب میں حکومتی رویہ بھی سخت ہوتا چلا گیا۔ بشار الاسد کے حامیوں کی طرف سے بھی حکومت کی حمایت میں مظاہرے شروع ہو گئے۔ بشار الاسد کے حمایتی گروہ مسلح ہو کر سکیورٹی فورسز کے ہمراہ احتجاجی مظاہرین کے خلاف صف آرا ہو گئے۔
پرامن احتجاج اب پرتشدد ہونا شروع ہو گیا۔ ان حالات کو دیکھتے ہوئے پولیس، پیراملٹری فورسز اور ملٹری کے کچھ سپاہیوں نے مظاہرین پر گولی چلانے سے انکار کر دیا اور مظاہرین میں شامل ہو گئے۔ حکومتی تشدد کے جواب میں جولائی 2011ء میں ان منحرف افراد نے کرنل ریاض السعد کی سربراہی میں سرکاری افواج کے خلاف ہتھیار اٹھا لیے اور خود کو ’’فری سیرین آرمی‘‘ کہلوانا شروع کر دیا۔ یوں پرامن احتجاج شورش میں بدل گیا۔
جہادی اور علاقائی گروہوں کی شرکت
بشار الاسد کے مخالف ممالک جن میں امریکہ، برطانیہ، اسرائیل، ترکی، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، اردن، قطر، فرانس اور جرمنی شامل تھے، وہ شامی اپوزیشن جماعتوں اور فری سیرین آرمی کی حمایت کر رہے تھے۔ دسمبر 2011ء تک فری سیرین آرمی کی تعداد پچیس ہزار تک پہنچ گئی جس میں فوجی طرز پر بریگیڈ اور بٹالین موجود تھے۔ 2012ء میں یہ تعداد پچاس ہزار سے زائد ہوگئی جس میں تربیت یافتہ منحرف فوجی و پولیس افسران موجود تھے۔ انہوں نے ملک کے کچھ علاقوں سے سرکاری فورسز کو نکال دیا اور اپنے زیر قبضہ علاقوں میں انقلاب کے نام پر قتل و غارت گری کا آغاز کردیا۔ اپوزیشن جماعتوں پر مشتمل ’’قومی انقلابی اتحاد‘‘ قائم کیا گیا جسے بشار الاسد حکومت کے خاتمے پر اقتدار سنبھالنا تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ تشدد بڑھتا چلا گیا یہاں تک کہ حکومتی فورسز اور باغیوں کی اس لڑائی کے ابتدائی 18 مہینوں میں 60 ہزار سے زائد افراد مارے جاچکے تھے۔
بشار الاسد کی عالمی تنہائی اور ہمسایہ ممالک کی مخالفت کی وجہ سے شام کا زمینی کنٹرول بھی سرکاری افواج کے ہاتھ سے نکل رہا تھا۔ شام کی سرکاری فوج دو لاکھ بیس ہزار میں سے نصف نے فوج کی نوکری چھوڑ دی جن میں سے اکثریت فری سیرین آرمی کا حصہ بن گئے۔
حکومت اور باغیوں کی اس لڑائی سے پیدا ہونے والے خلا کو پُر کرنے کے لیے جہادیوں نے شام کا رخ کرنا شروع کر دیا۔ جنوری 2012ء میں القاعدہ نے شام میں ’’الجبۃ النصرہ‘‘ کے نام سے نئی شاخ قائم کی جو شامی حکومت کے خلاف لڑائی میں شامل ہوگئی۔ 2012ء میں ہی جنگ میں ایک اور فریق کا اضافہ ہوا اور کرد قوم پرست تنظیم YPG نے جنگ میں شامل ہو کر شام کے کرد اکثریتی شمالی علاقوں پر قبضہ کر لیا اور سرکاری افواج کو وہاں سے نکال دیا۔ یہ تنظیم ترکی کی علیحدگی پسند کرد تنظیم PKK کی شاخ ہے۔ یوں 2012ء کے آخر تک شام کی خانہ جنگی کے چار فریق تھے:
- شام کی سرکاری افواج
- شامی اپوزیشن کی فری سیرین آرمی
- جہادی جنگجو
- کرد تنظیم YPG
دسمبر 2012ء میں بشار الاسد کی درخواست پر ایران نے بڑی تعداد میں اسلحہ اور پیراملٹری فورس، انقلابی گارڈز کے دستے شام روانہ کیے۔ شامی افواج کی مدد کے لیے لبنانی مسلح تنظیم ’’حزب اللہ‘‘ کے جنگجو بھی شام میں داخل ہو گئے۔ ایران اور حزب اللہ کی شمولیت سے جنگ کو فرقہ ورانہ رنگ مل گیا اور خطے میں شیعہ اثر و رسوخ کم کرنے کے لیے سنی خلیجی ممالک نے باغیوں کو اسلحہ اورپیسہ دینا شروع کر دیا جو مبینہ طور پر جہادی جنگجوؤں نے حاصل کر لیا۔ 2013ء کے شروع میں مشرقِ وسطیٰ واضح طور پر دو حصوں میں تقسیم ہو چکا تھا:
- سنی ممالک باغیوں کی مدد کر رہے تھے۔
- شیعہ ممالک بشار الاسد کی حمایت میں پیش پیش تھے۔
تین اہم واقعات
اس کے بعد کے تین واقعات نے حالات کو نیا رُخ دیا:
1۔ امریکہ کی مداخلت
21 اگست 2013ء کو شام کی سرکاری افواج نے غوطہ اور دمشق کے نواحی علاقوں میں بمباری کی جس میں 1400 لوگ مارے گئے۔ عالمی اداروں نے اس حملے میں مہلک کیمیائی گیس (Sarin) کے استعمال کا الزام لگایا اور اسے بشارالاسد کا جنگی جرم قرار دیا۔ امریکی صدر باراک اوبامہ نے یہ کہتے ہوئے کہ ’’بشار الاسد نے خطرے کی لائن کراس کر لی ہے‘‘ شام پر براہِ راست حملے کا عندیہ دیا۔ اس موقع پر روس نے بشار الاسد کو کیمیائی ہتھیاروں کی تحقیق کروانے اور امریکہ کو حملوں سے باز رکھنے کے لیے راضی کر لیا۔ اگرچہ امریکہ بشار الاسد کے خلاف براہ راست حملوں سے رک گیا لیکن اس واقعے سے روس بشار الاسد کی مدد کے لیے منظر نامے میں داخل ہو گیا۔ اس کے کچھ ہفتوں بعد امریکہ نے باغیوں کی مسلح تربیت کے لیے اپنے ٹرینر اور اسلحہ شام روانہ کر دیا۔ یوں امریکہ اس جنگ کا باقاعدہ فریق بن گیا۔
2۔داعش کا ظہور
دوسرا واقعہ فروری 2014ء کا ہے جب جنگ میں ’داعش‘ نامی ایک اور فریق کا اضافہ ہوا۔ داعش (دولت اسلامیہ فی العراق و الشام) عراق میں القاعدہ سے وجود میں آئی تھی، تاہم اس نے 2013ء میں خود کو القاعدہ سے الگ کر لیا اور عراق و شام میں سرکاری فوجوں کے خلاف برسرپیکار ہو گئی۔ داعش نے جلد ہی عراق اور شام کے تقریباً 81 ہزار مربع میل علاقے پر قبضہ کر لیا۔ اس نے شامی شہر ’’رقہ‘‘ کو اپنا دارالخلافہ قرار دیتے ہوئے اپنی ریاست اور عالمی خلافت کا اعلان کر دیا۔ خلافت کے نعرے نے جہادیوں کے لیے اسے پرکشش بنا دیا۔ داعش تقریباً ایک لاکھ تربیت یافتہ فوجیوںاور بہترین ہتھیاروں (جو مغربی اور خلیجی ممالک نے باغیوں کو فراہم کیے تھے) سے لیس تھی جس نے جلد ہی شام اور عراق کے بڑے علاقوں پر قبضہ کر لیا۔ مقبوضہ علاقوں میں تیل کی دولت سے مالا مال علاقے بھی شامل تھے۔ ان سے نکلنے والا تیل داعش کی آمدنی کا بڑا ذریعہ بن گیا۔ داعش کے مخالفین مثلاً کرد اور دیگر جنگجو تنظیمیں بھی اس سے تیل خریدنے پر مجبور ہو گئیں۔ داعش نے ابوبکر البغدادی کو خلیفہ منتخب کرتے ہوئے صدر بشار الاسد کو ہٹا کر شامی حکومت پر قبضہ اپنی اولین ترجیح قرار دیا۔ انہوں نے بیک وقت شامی فوج، فری سیرین آرمی، کرد جنگجوؤوں اور یہاں تک کہ القاعدہ سے منسلک ’جبہ النصرہ‘ کے خلاف محاذ کھول لیے۔
داعش سے مقابلہ کرنے کے لیے امریکہ نے کرد تنظیم YPG کے جنگجوؤوں کو منتخب کیا اور انہیں تربیت و اسلحہ فراہم کیا۔ ترکی چونکہ YPG کو اپنی سلامتی کے لیے خطرہ سمجھتا تھا اس لیے اس نے امریکہ سے ناراضی کا اظہار کیا۔ امریکہ کی تربیت یافتہ کرد پیشمرگہ فورس نے اکتوبر 2014ء میں امریکی فضائی مدد سے کوبانی شہر کو داعش سے چھڑا لیا۔ امریکہ اور کردوں کی داعش کے خلاف یہ پہلی کامیابی تھی۔ کردوں کی طاقت نے ترکی کو پریشان کر دیا اور اگست 2015ء میں ترکی نے شام میں کرد ٹھکانوں پر بمباری شروع کر دی۔ ترکی کا نشانہ داعش کے بجائے کرد تھے جبکہ امریکہ کردوں کی مدد سے داعش کے خلاف لڑ رہا تھا۔ اس سے صورتحال مزید پیچیدہ ہو گئی۔ امریکہ داعش کو اپنا سب سے بڑا دشمن گردانتا تھا جبکہ امریکہ کے اتحادی ترکی اور خلیجی ممالک کی ترجیحات مختلف تھیں۔ اس سے بشار الاسد مخالف اتحاد کمزور ہونا شروع ہو گیا۔
3۔ روس کی شمولیت
اس جنگ کا تیسرا اہم ترین موڑ ستمبر 2015ء کو آیا جب بشار الاسد کی درخواست پر روس جنگ کا باقاعدہ حصہ بنا۔ روس نے بشار الاسد حکومت کو جائز قرار دیتے ہوئے اس کے دفاع کے لیے اپنی فوجیں شام میں داخل کر دیں۔ اس سے پہلے روس بشار الاسد کو سفارتی اور اخلاقی مدد فراہم کر رہا تھا۔ روسی صدر ویلادیمیر پیوٹن نے داعش کو روس کی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دیا اور شام میں مداخلت کا مقصد بھی داعش کا خاتمہ بتایا۔ لیکن روسی طیاروں نے بشار الاسد مخالف تمام گروہوں کو نشانہ بنایا جس میں داعش، ترکی اور مغرب کے حمایت یافتہ گروہ شامل تھے۔ روس کی فضائی اور ایران کی زمینی مدد سے شام کی سرکاری افواج نے کھوئے ہوئے علاقوں کا کنٹرول دوبارہ حاصل کرنا شروع کر دیا۔
2016ء کے اختتام تک شامی افواج درعا، حلب، بنیاس اور حمس سمیت شام کا بڑا حصہ باغیوں اور داعش سے چھڑانے میں کامیاب ہو گئے۔ جنگ میں روس کی شمولیت کے بعد طاقت کا توازن بدلنا شروع ہوگیا۔ داعش اور اپوزیشن باغیوں کا زور ٹوٹ گیا، شہری علاقوں میں سرکاری افواج اور شمالی شام میں ترکی کی سرحد کے ساتھ کرد قوم پرست YPG مضبوط ہونا شروع ہو گئے۔ عراقی حکومت، شامی حکومت اور کرد جنگجوؤں نے غیراعلانیہ اتحاد نے داعش کے خلاف کارروائیاں تیز کر دیں اور عراق و شام کے کئی مقبوضہ علاقوں کو داعش سے چھڑا لیا۔ امریکی حمایت یافتہ کردوں نے دسمبر 2016ء میں داعش کے درالخلافہ ’’رقہ‘‘ کو داعش سے آزاد کروا لیا۔ 2017ء داعش کی شکست کا سال تھا، مقبوضہ علاقوں میں سے اکثر اس کے ہاتھ سے نکل گئے اور داعش بظاہر منظرنامے سے غائب ہوگئی۔
4 اپریل 2017ء کو شام کی سرکاری افواج نے خان شیخون کے علاقے میں حملہ کیا جس میں مبینہ طور پر کیمیائی ہتھیار استعمال کیے گئے تھے۔ اس پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے آس شامی ائیربیس پر فضائی حملہ کرنے کا حکم دیا جس سے مبینہ طور پر کیمیائی ہتھیار لانچ کیے گئے تھے۔ یہ پہلا موقع تھا جب امریکی طیاروں نے شام کی سرکاری تنصیبات کو براہِ راست نشانہ بنایا۔ اس سے پہلے شام میں ہونے والے تمام امریکی فضائی حملے داعش کے خلاف ہوئے تھے۔
جنوری 2018ء میں ترکی کی افواج شام میں داخل ہوئیں تاکہ سرحدی علاقوں میں کردوں کا زور توڑ سکیں۔ ترکی نے شامی باغیوں کے ساتھ مل کر عفرین کو کردوں سے خالی کروا لیا ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ امریکی حمایت یافتہ کُردوں کو اس محاذ پر صدر بشار الاسد کی افواج کی مدد حاصل ہے کیونکہ کرد اور بشار الاسد دونوں ترکی کو مشترکہ دشمن سمجھتے ہیں۔
14اپریل 2018ء عالمی قوتیں علی الاعلان شام پر حملہ آور ہوئیں اور امریکہ، برطانیہ اور فرانس نے میزائلوں سے شام کی کیمیائی تنصیبات پرحملہ کردیا۔شامی حکومت مخالف ممالک ان حملوں کی حمایت کر رہے ہیں جبکہ بشارالاسد کے حامی ممالک روس اور ایران نے اس کی مخالفت کی ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے میزائل حملے بین الاقوامی قوانین کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔ امریکہ اور اتحادی ممالک نے بشار الاسد پر باغیوں کی طاقت کچلنے کے لئے ان پر کئے جانے والے کیمیائی حملے کو بہانہ بنایا ہے، ان کا کہنا ہے کہ حملوں کا مقصد شامی حکومت کے کیمیائی ہتھیاروں کی صلاحیت کو ختم کرنا ہے۔
شام کی خانہ جنگی میں اب تک پانچ لاکھ سے زائد شامی جاں بحق اور تقریباً ایک کروڑ بے گھر ہو چکے ہیں۔ انفراسٹرکچر تباہ ہو چکا ہے۔25 فیصد سے زائد آباد ی جنگ کی نذر ہوگئی ہے یا دوسرے ممالک میں ہجرت کر چکی ہے۔جنگ بندی کے تمام معاہدے لڑائی ختم کروانے میں ناکام ثابت ہوئے ہیں۔ بشار الاسد کا اقتدار ہر آنے والے دن کے ساتھ مضبوط ہو رہا ہے۔ شامی فوج کی باغیوں کے آخری گڑھ غوطہ کی طرف پیش قدمی جاری ہے۔مقامی اور عالمی کھلاڑی شام کی شطرنج پر اپنے مہرے ترتیب دے رہے ہیں۔ شامیوں کے لیے امن ایک سراب بن چکا ہے۔ شاید خانہ جنگی کا شروع ہونے والا یہ آٹھواں سال آخری سال ثابت ہو۔
ماخوذ از ماہنامہ منہاج القرآن، مئی 2018
تبصرہ