سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ: مثالی نظام حکومت

عین الحق بغدادی

مرادِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ تاریخِ اسلام کی وہ نامور شخصیت ہیں جو جرأت و بہادری کی وجہ سے قبولِ اسلام سے قبل ہی شہرت کے حامل تھے۔ امام ترمذی نے بیان کیا ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ کی اسی جرأت کی وجہ سے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بحضورِ الہٰ التجاء کی: اے اللہ! عمر بن خطاب اور عمرو بن ہشام (ابوجہل) میں سے اپنے پسندیدہ بندے کے ذریعے اسلام کو غلبہ اور عزت عطا فرما۔ اللہ رب العزت نے اپنے محبوب کی دعا قبول کرتے ہوئے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے ذریعہ اسلام کو عزت دی۔ آپ رضی اللہ عنہ کے قبولِ اسلام سے قبل مسلمان مشرکینِ قریش سے چھپ کر عبادات کیا کرتے تھے لیکن جب آپ رضی اللہ عنہ نے اسلام قبول کیا، تو آپ رضی اللہ عنہ نے اعلان کیا کہ آج سے مسلمان عبادات چھپ کر نہیں بلکہ علی الاعلان کیا کریں گے۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ:

’’بے شک سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا قبولِ اسلام ہمارے لیے فتح تھی۔ خدا کی قسم ہم بیت اللہ میں نماز پڑھنے کی استطاعت نہیں رکھتے تھے، مگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی وجہ سے ہم نے مشرکین کا مقابلہ کیا اور خانہ کعبہ میں نمازیں پڑھنا شروع کیں۔‘‘

(المعجم الکبیر للطبرانی، رقم: 8820)

اُس دن سے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا لقب فاروق رکھ دیا گیا۔ یعنی حق و باطل میں فرق کرنے والا۔ جب مسلمانوں نے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کی تو وہاں نماز کے لیے بلانے کا مسئلہ پیش آیا، جس پر مختلف آراء پیش کی گئیں، مگر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے مشورہ دیا کہ اس اعلان کے لیے ایک شخص مقرر کرلیا جائے۔ گویا اذان جیسا شعارِ اعظم آپ رضی اللہ عنہ کی رائے سے وجود میں آیا۔ اسیرانِ بدر کے بارے میں اختلاف کی صورت میں تائیدِ الہٰی آپ کی رائے کے موافق تھی۔ حجاب کی آیت بھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی رائے کی تائید میں نازل ہوئی۔

امام مسلم نے باب الوقف میں بیان کیا ہے کہ فتح خیبر کے بعد خیبر کی زمین مجاہدین میں تقسیم کی گئی، زمین کا ایک ٹکڑا سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے حصے میں آیا، مگر آپ نے زمین کا وہ ٹکڑا اللہ کی راہ میں دے کر اسلام میں وقف کی بنیاد رکھی۔

قبولِ اسلام کے بعد سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ایسا والہانہ عشق تھا جس کی مثال کم ملتی ہے۔ ایک مرتبہ ایک مسلمان اور یہودی کسی تنازع کے حل کے لیے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوئے۔ حضور سرورِ کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شواہد و دلائل کی بنیاد پر فیصلہ یہودی کے حق میں دے دیا مگر وہ منافق مسلمان مقدمہ اس امید پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی عدالت میں لے آیا کہ شاید اسلام کی حمیّت میں فیصلہ میرے حق میں آجائے۔ مگر جب آپ کو معلوم ہوا کہ اس مقدمہ کا فیصلہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماچکے ہیں تو فوراً تلوار اٹھائی اور اس منافق کا سر قلم کردیا جس نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فیصلہ تسلیم کرنے سے انکار کیا تھا۔

انتظامی شعبہ جات کا قیام

یکم محرم الحرام کو آپ کا یومِ شہادت ہے۔ زندہ قومیں اپنے ہیروز کو ہمیشہ یاد رکھتی ہیں۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ تاریخِ اسلام میں ایسی شخصیت ہیں جن کا دورِ خلافت قیامت تک آنے والے حکمرانوں کے لیے مشعلِ راہ ہے۔ آپ رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں اسلامی سلطنت کو اتنی وسعت ملی کہ فارس و روم جیسی سلطنتیں آپ کے عہد میں فتح ہوئیں۔ اسی طرح مصر سے لے کر آذربائیجان تک کے علاقے فتح ہوئے۔ سلطنت کی وسعت کے ساتھ ہی انتظامی شعبہ جات کے قیام کی ضرورت محسوس ہوئی۔ چنانچہ آپ رضی اللہ عنہ نے باقاعدہ طور پر پہلی بار درج ذیل انتظامی شعبہ جات قائم فرمائے:

1۔ پولیس کا محکمہ

آپ نے اسلامی ریاست کے اندرونی و داخلی امن کے لیے باقاعدہ پولیس کا محکمہ قائم کیا۔ جس کا کام ناپ تول میں کمی کو روکنا، تعمیرات میں تجاوزات کو کنٹرول کرنا، جانوروں پر زیادہ بوجھ نہ لادنے دینا اور شراب کی فروخت روکنا وغیرہ تھا۔ اس سلسلے میں طبقات ابن سعد میں لکھا ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے قدامہ بن معظون رضی اللہ عنہ اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو بحرین پر افسر مقرر کیا اور بازار کی نگرانی کی ذمہ داری عبداللہ بن عتبہ رضی اللہ عنہ کو سونپی گئی۔

2۔ جیل خانہ جات

جب محکمہ پولیس قائم ہوا تو اس کا فطری نتیجہ تھا کہ لوگوں کو سزائیں بھی ملیں گی۔ لہذا سزا دینے کے لیے جیل کا قیام عمل میں لایا گیا، سب سے پہلے مکہ معظمہ میں صفوان بن امیہ کا گھر چار ہزار درہم میں خرید کر جیل خانہ بنایا گیا۔

3۔ بیت المال کا قیام

سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت سے قبل بیت المال کا باقاعدہ نظام موجود نہیں تھا۔ جو کچھ مالِ غنیمت یا خراج و جزیہ کی صورت میں آتا، فوری تقسیم ہوجاتا تھا۔ سیدنا ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ جب بحرین سے واپس آئے تو ایک سال میں اپنے ساتھ پانچ لاکھ درہم بھی لائے۔ اس وقت ولید بن ہشام کے مشورے سے بیت المال کا محکمہ قائم کیا گیا اور عبداللہ بن ارقم رضی اللہ عنہ پہلے وزیر خزانہ مقرر کئے گئے۔ بیت المال کا یہ نظام اتنا وسیع ہوا کہ مورخ یعقوبی لکھتے ہیں کہ دارالخلافہ کے باشندوں کی تنخواہیں اور وظائف کی رقم تین کروڑ درہم سالانہ تھی۔

4۔ نہری نظام کا قیام

یہ اعزاز خلیفہ دوم حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے پاس ہے کہ انہوں نے دنیا میں نہری نظام کی بنیاد ڈالی، خوراک کی پیداوار میں اضافہ، زراعت کی ترقی، لائیو سٹاک کے تحفظ اور بقا کے لیے پانی کی محفوظ ترسیل کا بندوبست کیا۔ زرعی زمینوں کی آباد کاری کے لیے نہری نظام قائم کیا گیا۔ بصرہ کے لوگوں نے پانی کی قلت کی شکایت کی تو آپ نے ابو موسیٰ الاشعری کو تحریر ی حکم بھیج کر دجلہ سے بصرہ تک 9 میل لمبی نہر کھدوائی۔ اس کے علاوہ نہرِ معقّل، نہرِ سعد اور نہرِ امیرالمومنین بہت مشہور ہیں۔ نہر امیرالمومنین کے ذریعہ دریائے نیل کو بحرِ قلزم سے ملایا گیا تھا اور اس نہر کی لمبائی 69 میل تھی۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ اتنی بڑی نہر صرف چھ ماہ کے عرصے میں مکمل ہوگئی تھی۔

5۔ نظامِ تعلیم کا قیام

سیرۃ العمرین لابن الجوزی میں ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے قرآن مجید کی تعلیم کے لیے باقاعدہ قراء و معلمین مقرر کرکے اُن کی تنخواہیں طے کیں۔

الاصابہ اور معجم البلدان میں ہے کہ بدوئوں کے لیے جبری طور پر قرآن مجید کی تعلیم لازی قرار دی گئی۔ ابو سفیان نامی ایک شخص کو چند دیگر اشخاص کے ساتھ مامور کیا کہ قبائل میں گھوم کر ہر شخص کا امتحان لیں اور جس کو قرآن کا کچھ حصہ یاد نہ ہو، اسے سزا دیں۔ آپ نے چند حفاظ صحابہ کو حمص، دمشق اور فلسطین میں قرآن سکھانے اور حفظ کرانے کے لیے روانہ کیا۔

دمشق میں ابودرداء کے درس میں سولہ سو تک طالب علم موجود ہوتے تھے۔ اسی طرح آپ نے حدیث اور فقہ کی اشاعت کا بندوبست بھی کیا۔ عبدالرحمن بن معقل کو بصرہ میں فقہ کی تعلیم کے لیے روانہ کیا۔ ابن سعد نے طبقات میں لکھا ہے کہ آپ نے عبدالرحمن بن غنم کو فقہ کی تعلیم عام کرنے کے لیے شام بھیجا۔

سیدنا فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ کا نظامِ عدل

سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور حکومت کا نظامِ عدل و انصاف آج بھی مثال کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ آپ سب سے پہلے خود عدل پسند بنے اور مثال بن کر دکھایا، پھر اپنے عمال اور رعایا میں عدل و انصاف قائم کیا۔ آپ رضی اللہ عنہ نظامِ عدل میں اصولِ مساوات کا لحاظ رکھتے اور کسی قسم کا امتیاز روا نہ رکھتے۔ ذیل میں اس کی کچھ مثالیں تاریخ طبری سے درج کی جارہی ہیں:

  1. ایک مرتبہ حضرت اُبی بن کعب کے ساتھ آپ کا تنازع ہوا، حضرت زید بن ثابت کے ہاں مقدمہ پیش ہوا۔ جب آپ ان کے پاس گئے تو انہوں نے تعظیم کے لیے جگہ خالی کردی۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تم نے اس مقدمے میں یہ پہلی ناانصافی کی ہے۔ یہ کہہ کر آپ فریقِ مخالف کے برابر بیٹھ گئے۔
  2. جبلہ بن ایہم غسانی شام کا بادشاہ تھا، مسلمان ہوگیا تھا، کعبہ کے طواف کے دوران اس کی چادر کا گوشہ ایک شخص کے پائوں کے نیچے آگیا، جبلہ نے اسکے منہ پر تھپڑ مارا، اس شخص نے بھی جواباً تھپڑ دے مارا۔ وہ غصے سے بیتاب ہوکر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا تو آپ نے فرمایا: تم نے جو کچھ کیا اس کی سزا پائی۔ اس کو سخت حیرت ہوئی اور اسلام چھوڑ کر مرتد ہوگیا مگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک رئیس زادے کی خاطر قانونِ مساوات کو نہ بدلا۔
  3. حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ گورنر مصر کے بیٹے عبداللہ نے ایک شخص کو بے وجہ مارا تھا۔ آپ نے اسی شخص کے ہاتھوں عمرو بن العاص کے سامنے ان کے بیٹے عبداللہ کو کوڑے لگوائے۔
  4. فاتح ایران حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے بارے میں معمولی سی شکایت ملی تو آپ نے مشکل حالات کے باوجود انہیں دربار حاضر کیا۔
  5. آپ نے سلطنت کی وسعت اور گورنرز کی کثرت کے پیش نظر گورنرز کے احتساب کا اور ان کے بارے میں موصول ہونے والی شکایات کی تحقیقات کے لیے ایک خاص عہدہ قائم کیا جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معتمد صحابی حضرت محمد بن مسلمہ انصاری رضی اللہ عنہ کو مامور کیا۔ جب کسی گورنر کے بارے میں شکایت ملتی تو محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ موقع پر جاکر کھلی کچہری لگاتے اور لوگوں کی رائے لیتے۔
  6. حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ (گورنر بصرہ) کے متعلق شکایت موصول ہوئی تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے خود مستغیث کا بیان قلمبند کیا اور ابو موسیٰ اشعری کو بلوا کر خود تحقیق کی۔
  7. جس گورنر کی نسبت آپ کو معلوم ہوتا کہ بیمار کی عیادت نہیں کرتا یا کمزور اس کے دربار میں پہنچ نہیں پاتا تو اسے فوراً عہدے سے ہٹادیا جاتا۔ ایک بار آپ کو خبر ہوئی کہ عیاض بن غنم رضی اللہ عنہ (عاملِ مصر) باریک قیمتی کپڑے پہنتا ہے اور اس کے دروازے پر دربان مقرر ہے۔ آپ نے حضرت محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ کو بلایا اور کہا: عیاض کو جس حالت میں پائو اپنے ساتھ لے آئو۔ محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے پہنچ کر دیکھا کہ واقعی دروازے پر دربان ہے اور عیاض باریک کپڑے کا کرتہ زیب تن کئے ہوئے ہیں۔ عیاض بن غنم رضی اللہ عنہ کو اسی حالت میں مدینہ لایا گیا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ان کا وہ کرتہ اتروا کر کھردرے کپڑے کا کرتہ پہنایا اور بکریوں کا ریوڑ دیا کہ اسے چرائو۔
  8. حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے کوفہ میں اپنے لیے گھر بنوایا، جس میں ڈیوڑھی بھی تھی، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس خیال سے کہ اس ڈیوڑھی سے اہلِ حاجت کو رکاوٹ نہ ہو، محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ کو بھیجا کہ جاکر ڈیوڑھی کو آگ لگا دیں۔
  9. بیت المال کا کپڑا سب میں تقسیم ہوا مگر لمبے آدمی کا کرتہ نہیں بن سکتا تھا، جب لوگوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اسی کپڑے کا کرتہ پہنے دیکھا تو کھڑے ہوگئے اور اعتراض کردیا۔ آپ کے بیٹے نے کھڑے ہوکر وضاحت دی کہ میں نے اپنے حصے کا کپڑا اپنے والد کو دیا ہے تو ان کا کرتہ بنا ہے۔ گویا اپنے اثاثہ جات کی Money Trail دینے کا نظام بھی آپ کے دور میں وضع ہوا۔
  10. شام کی فتح کے بعد قیصرِ روم سے دوستانہ مراسم ہوگئے۔ ایک دفعہ آپ کی زوجہ امِ کلثوم نے قیصر روم کے گھر والوں کے لیے خوشبو بجھوائی۔ جواباً انہوں نے تحفۃً جواہرات بجھوائے۔ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو معلوم ہوا تو اپنی زوجہ سے فرمایا: اگرچہ عطر تمہارا تھا مگر شام تک لے جانے والا قاصد سرکاری تھا۔ اسے سرکاری پیسے سے تنخواہ ملی تھی۔ غرض آپ نے وہ جواہرات بیت المال میں جمع کروادیئے۔
  11. ایک مرتبہ آپ بیمار ہوگئے، معالج نے شہد کا مشورہ دیا۔ آپ کے پاس شہد نہیں تھا مگر بیت المال میں موجود تھا۔ آپ نے مسجدِ نبوی میں جاکر لوگوں سے پوچھا کہ اگر آپ اجازت دیں تو میں بیت المال سے تھوڑا سا شہد لے لوں۔

بظاہر یہ باتیں بڑی مشکل معلوم ہوتی ہیں مگر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے لیے مساوات کا یہ نظام قائم کرنا مشکل نہ تھا۔ اس لیے کہ اسلام کی یہ تعلیمات حقیقی معنی میں آپ کے اندر راسخ ہوچکی تھیں۔

حضرتِ عمرِ فاروق رضی اللہ عنہ اور رعایا کی داد رسی

طرزِ زندگی میں سادگی تھی مگر شاہانِ وقت آپ سے ڈرتے تھے۔ دوسری طرف آپ اپنی رعایا کی داد رسی کے لیے ہر ممکن کاوشیں بروئے کار لاتے۔ چند واقعات ملاحظہ فرمائیں:

  1. امام غزالی فضائح الباطنیۃ میں بیان کرتے ہیں کہ یزد گرد شہریار شہنشاہِ فارس نے اپنا ایک قاصد بھیجا اور حکم دیا کہ اس شخص کے حالات معلوم کرکے آئو جس کے رعب سے بادشاہ بھی ڈرتے ہیں۔ جب یزد گرد کا قاصد مدینہ پہنچا تو لوگوں سے پوچھا کہ آپ کا بادشاہ کہاں ہے؟ جواب ملا، ہمارے ہاں بادشاہ نہیں ہوتے بلکہ امیر ہوتا ہے۔ ایک شخص اس قاصد کو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس لے گیا۔ وہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ وہ شخص جس سے دنیا ڈرتی ہے، وہ اپنا عصا سرہانے رکھے زمین پر سو رہا ہے اور آپ کے پسینے سے زمین بھی تر تھی۔ یہ دیکھ کر شہنشاہِ فارس کا قاصد حیران رہ گیا یہ ہے وہ شخص جس کے رعب سے پوری دنیا ڈرتی ہے۔
  2. آپ رضی اللہ عنہ کی کوشش ہوتی تھی کہ رعایا کے حالات زیادہ سے زیادہ خود معلوم کریں۔ ایک دفعہ سفرِ شام سے واپسی کے دوران راستے میں ایک خیمہ دیکھا، سواری سے اترے، ایک بوڑھی عورت نظر آئی، اس سے پوچھا عمر کا کچھ حال معلوم ہے؟ کہنے لگی: شام سے روانہ ہوچکا ہے مگر خدا اسے پوچھے، مجھے اس کی طرف سے آج تک ایک جبہ بھی نہیں ملا۔ آپ نے کہا: عمر کو اتنی دور کا حال کیسے معلوم ہوسکتا ہے؟ بولی: اگر عمر کو رعایا کے حالات معلوم نہیں تو خلافت کیوں کرتا ہے؟ اس جواب پر آپ پر رقت طاری ہوگئی اور رونے لگے۔ پھر اس عورت کو ضروریات زندگی کی اشیاء بہم پہنچائیں۔
  3. ایک بار ایک قافلہ مدینہ منورہ آیا، شہر کے باہر پڑائو ڈالا، آپ رضی اللہ عنہ اُس قافلے کی خبر گیری اور حفاظت کے لیے خود تشریف لے گئے۔ پہرہ دیتے ہوئے ایک طرف سے رونے کی آواز آئی، دیکھا تو ایک شیر خوار بچہ ماں کی گود میں رو رہا ہے۔ وجہ دریافت کرنے پر بچے کی ماں نے بتایا کہ خلیفہ عمر رضی اللہ عنہ نے حکم دیا ہے کہ جب تک بچے دودھ نہ چھوڑ دیں، اس وقت تک بیت المال سے ان کا وظیفہ مقرر نہیں ہوگا۔ میں نے اس غرض سے بچے کا دودھ چھڑا دیا ہے اور اب وہ دودھ کے لیے روتا ہے۔ آپ نے سنا تو کہنے لگے: ہائے عمر! تو نے کتنے بچوں کا حق مارا ہے۔ اسی دن سے منادی کرادی کہ بچہ جس دن پیدا ہو، اسی دن سے اس کا وظیفہ مقرر کردیا جائے۔

کہتے ہیں کہ جس سال عرب میں قحط پڑا، آپ نے قسم کھائی کہ وہ بھی گوشت یا کوئی اور لذیذ چیز نہیں کھائیں گے، یہاں تک کہ قحط ختم ہوگیا اور خوشحالی آگئی۔ مگر آپ نے پھر بھی ان مذکورہ اشیاء کو نہ کھایا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ میں تو کھائوں اور میری رعایا میں سے کسی کو یہ نصیب ہی نہ ہوں۔

یہ وہ طرزِ حکومت تھا جس نے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی خلافت کو آج بھی اسی طرح زندہ رکھا ہوا۔ آج بھی لوگ اچھی حکمرانی کے لیے ان کے دورِ خلافت کی مثالیں دیتے ہیں۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت کی بے شمار مثالیں ایسی ہیں جو ہمارے حکمرانوں کے لیے مشعلِ راہ ہیں۔ ان مثالوں پر عمل پیرا ہونے کے دعوے کرنا تو بہت آسان ہے مگر اس کے لیے عدل و انصاف، احتساب، امانت اور دیانت کے اصولوں پر کاربند ہونا ہوگا۔ نظامِ حکومت چلانے کے لیے ایسے باکردار اور اہل لوگوں کو ساتھ ملانا ہوگا جن کے اندر منافقت نہ ہو، ملک و قوم اور دینِ اسلام کے لیے مخلص ہوں اور اپنی تمام تر صلاحیتوں کو خلوصِ نیت اور صدق کے جذبات کے ساتھ قوم کی بہتری کے لیے بروئے کار لائیں۔

مولانا شبلی نعمانی نے الفاروق میں ایک واقعہ ذکر کیاہے کہ ایک مرتبہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ میری کابینہ کے اندر کوئی منافق شخص بھی ہے؟ حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ کو چونکہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تمام منافقین کے نام بتادیئے تھے اور انہیں صیغہ راز میں بھی رکھنے کا حکم دیا تھا، لہذا آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ہاں ایک شخص منافق ہے، مگر نام نہیں بتاسکتا۔ حذیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں حیران تھا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس شخص کو اپنے ذرائع سے ڈھونڈ کر عہدے سے معزول کردیا۔

ہمارے حکمرانوں کو اگر ریاستِ مدینہ اور خلافتِ عمر رضی اللہ عنہ کے زریں کارناموں اور اصولوں کی روشنی میں نظامِ حکومت چلانے کی خواہش ہے تو مذکورہ اصولوں پر سمجھوتہ کئے بغیر دلیرانہ انداز میں آگے بڑھنا ہوگا۔ بصورتِ دیگر صرف نعرے اور دعوے رہ جائیں گے جو پہلے حکمران بھی کرتے آئے ہیں اور پھر اِن میں اور اُن میں کوئی فرق نہ ہوگا۔ بحضورِ الہٰ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے طرزِ خلافت سے رہنمائی اور روشنی لینے کی توفیق عطا فرمائے۔

ماخوذ از ماہنامہ منہاج القرآن، ستمبر 2018ء

تبصرہ

ویڈیو

Ijazat Chains of Authority
Top