تحریک منہاج القرآن ایک تجدیدی تحریک ہے
ڈاکٹر حسن محی الدین قادری
اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:
لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْٓ اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍo
بے شک ہم نے انسان کو بہترین (اعتدال اور توازن والی) ساخت میں پیدا فرمایا ہے۔
(التین، 95 :4)
انسان کی تخلیق ایک عام تخلیق نہیں کہ انسان کو محض گوشت پوست کا ایک پیکر بنادیا ہو بلکہ اسے اللہ تعالیٰ نے انسانیت کے لیے ایک نمونہ حیات، رشد وہدایت کا پیکر، قائد، پیشوا، مربی، اُسوہ، قدوۃ اور پیامبر بنایا ہے اور اس کے اندر بہت سے اوصاف و کمالات اور خوبیاں رکھ کر احسنِ تقویم کے مقام پر فائز کردیا۔
اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ کا مطلب یہ ہے کہ اللہ نے اُس کو perfection کے ساتھ پیدا کیا اور اُس کی شخصیت اور اُس کے اجزائے ترکیبی کے اندر balanced approach کو رکھا۔ اللہ رب العزت نے کوئی بھی aspect انسان کا ایسے نہیں رکھا کہ کل کو کوئی کہہ دے کہ کاش ایسے ہوتا۔ جو کچھ بھی ہمارے ذہن اور سوچ میں آسکتا تھا، بنانے والے نے سارا کمال اور جمال اُس انسان کے اندر چھپا دیا۔ اللہ رب العزت نے اُس انسان میں سب کچھ رکھنے کے بعد فرمایا:کُنْتُ کَنْزًا مَخْفِیًّا، فَأَحْبَبْتُ أَنْ أُعْرِفَ فَخَلَقْتُ خَلْقًا.
(عجلونی، کشف الخفاء، 2: 173، الرقم: 2016)
میں درحقیقت ایک چھپا ہوا خزانہ تھا تو میں نے چاہا کہ اُس خزانے کی معرفت نصیب ہوجائے، تو اُس چھپے ہوئے خزانے کی معرفت عطا کرنے کے لیے میں نے اُس انسان کو پیدا کر دیا۔ معلوم ہوا کہ انسان میں موجود سارے حُسن، خوبیاں، اوصاف و کمالات اللہ کے ہیں۔
ہر دور کی ضرورت کے مطابق انبیاء کی بعثت
اللہ رب العزت نے اپنے اوصاف اُس کا تعارف کروانے کے لیے انسان کے اندر بھی وہ خوبیاں پیدا کر دیں جو مخلوق کی ضرورت تھیں۔ بعد ازاں مخلوق کو جس طرح کی ضررت ہوتی، اُس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے اس دور کے تقاضوں کے مطابق اپنا نبی، پیغمبر اور رسول مبعوث فرماتا رہا۔
اللہ رب العزت نے فرمایا:
اِنَّ اﷲَ اصْطَفٰٓی اٰدَمَ وَنُوْحًا وَّاٰلَ اِبْرٰهِیْمَ وَاٰلَ عِمْرٰنَ عَلَی الْعٰـلَمِیْنَo
بے شک اﷲ نے آدم (علیہ السلام) کو اور نوح (علیہ السلام) کو اور آلِ ابراہیم کو اور آلِ عمران کو سب جہان والوں پر (بزرگی میں) منتخب فرما لیا۔
(آل عمران، 3: 33)
گویا اللہ رب العزت نے ہر زمانے، حالات اور تقاضوں کو پور اکرنے کے لیے اپنے انبیاء کو منتخب فرمایا اور انسانیت کی طرف مبعوث فرمایا۔
1۔ حضرت نوح علیہ السلام کو بھیجا تو اس وقت کے تقاضے کے مطابق بھیجا۔ فرمایا:
فَلَبِثَ فِیْهِمْ اَلْفَ سَنَةٍ اِلَّا خَمْسِیْنَ عَامًا.
’’تو وہ ان میں پچاس برس کم ایک ہزار سال رہے۔‘‘
(العنکبوت، 29: 14)
نوح علیہ السلام کو اِتنی طویل المدت دعوت کے لیے اس لیے بھیجاکہ اُس دور میں دعوت الی اللہ سمجھ نہیں آتی تھی، لہذا وہاں پر اللہ رب العزت کو دعوت میں طوالت کی ضرورت تھی۔ طویل دعوت کے لیے صبر و استقامت اور برداشت کی ضرورت ہوتی ہے اس لیے ضرورت اُس نبی کی تھی جو تحمل و برداشت کے ساتھ قوم میں وقت گزار سکے، لہذا وہاں 950 سال کے طویل عرصہ کے باوجود برداشت کا وصف رکھنے والے نبی نوح علیہ السلام کو بھیجا گیا۔
2۔ پھر ایک ایسا دور آیا کہ کفر کسی اور انداز میں بولنے لگا، وہاں scientific, logical دعوت کی ضرورت تھی، لہذا اس موقع پر حکمت و دانائی کے ساتھ، تحمل و برداشت wisdom اور scientific example کے ساتھ سمجھانے والے نبی حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بھیج دیا۔ اللہ رب العزت نے انہیں وہی خوبیاں عطا کیں جو اُس دور کی ضرورت تھیں۔ فرمایا۔
اِنَّ اِبْرٰهِیْمَ لَحَلِیْمٌ اَوَّاهٌ مُّنِیْبٌo
بے شک ابراہیم ( علیہ السلام ) بڑے متحمل مزاج، آہ و زاری کرنے والے، ہر حال میں ہماری طرف رجوع کر نے والے تھے۔
(هود، 11: 75)
3۔ پھر موسوی دور آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام میں کچھ اور خوبیاں رکھ دیں۔ ارشاد فرمایا:
قَالَ یٰـمُوْسٰٓی اِنِّی اصْطَفَیْتُکَ عَلَی النَّاسِ بِرِسٰلٰتِیْ وَبِکَلَامِیْ.
ہم نے تمہیں اپنی رسالت اور اپنے کلام سے چن کر اپنی قوم کے لیے بھیج دیا۔
اُنہیں اُس دور کی دو خوبیاں دے دیں جو کام آنے والی تھیں:
- یدبیضا
- عصا
یہ فرعون کا دور تھا، یہاں جرأت، انقلابیت اور جوش وخروش کے ساتھ اُس کے دربار میں کھڑا ہونا تھا۔ اس دور میں جادوگروں کا دور دورہ تھا، لہذا اللہ نے موسیٰ علیہ السلام کو وہ خوبی دی جو اس دور میں کام آنے والی تھی۔ لہذا حضرت موسیٰ علیہ السلام کو کلیم اللہ بھی بنایا اور یدِ بیضاء اور عصا بھی عطا فرمایا۔
گویا اُس دور کی جو کلچرل ضرورت تھی، اُس دور کا جو طرہ امتیاز تھا، جو کسی کی عظمت کو پرکھنے کا معیار تھا، اللہ رب العزت نے اُس معیار میں اپنے نبی کو انفرادیت عطا کردی۔عظمت وہی ہوتی ہے جو دور کی ضرورت کے مطابق ظاہر کی جائے۔
4۔ حضرت یوسف علیہ السلام کا دور آیا تو خود حضرت یوسف علیہ السلام اپنی خوبیوں کا اظہار عزیز مصر کے دربار میں یوں کرتے ہیں:
قَالَ اجْعَلْنِیْ عَلٰی خَزَآئِنِ الْاَرْضِ اِنِّیْ حَفِیْظٌ عَلِیْمٌo
یوسف ( علیہ السلام ) نے فرمایا: (اگر تم نے واقعی مجھ سے کوئی خاص کام لینا ہے تو) مجھے سرزمینِ (مصر) کے خزانوں پر (وزیر اور امین) مقرر کر دو، بے شک میں (ان کی) خوب حفاظت کرنے والا (اور اقتصادی امور کا) خوب جاننے والا ہوں۔
(یوسف ، 12: 55)
اللہ تعالیٰ نے آپ علیہ السلام کو تعبیر الرؤیا کی خوبی بھی عطا کی، آپ کو امین بھی بنایا اور حفیظ بھی بنایا۔ پیکر حسن کمال بھی بنایا اور اُس کے ساتھ ساتھ مینجمنٹ کا فن بھی آپ کو عطا کیا۔ آپ کو agriculture industry کا بھی بانی بنایا، irrigation technology کا بھی ملکہ دیا۔ اچھی حکمرانی کے جوہر بھی آپ کو دئیے اورfinancial management بھی آپ کو دی۔ سب سے پہلے اگر morgage law گروی رکھوانے کا نظام وضع کرنے والی کوئی ہستی ہے تو وہ یوسف علیہ السلام ہیں۔ سب سے پہلے اِس کو ایک آسان طریقے سے انسانیت کی مدد کا tool حضرت یوسف علیہ السلام نے بنایا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکمت و دانائی بھی دی اور management بھی دی۔
5۔ داؤد علیہ السلام کا دور آیا تو ان کو حکومت و سلطنت بھی دی اور حکمت بھی دی۔ فرمایا:
وَشَدَدْنَا مُلْکَهٗ وَاٰتَیْنٰـهُ الْحِکْمَةَ وَفَصْلَ الْخِطَابِo
’’اور ہم نے اُن کے ملک و سلطنت کو مضبوط کر دیا تھا اور ہم نے انہیں حکمت و دانائی اور فیصلہ کن اندازِ خطاب عطا کیا تھا۔‘‘
(ص، 38: 20)
فصل الخطاب یعنی آپ کو وہ خطابت اور زبان میں سلاست دی کہ آپ جب کلام فرماتے تو وہ دلوں میں جگہ بناتا چلاجاتا تھا۔ آپ کو وہ سلطنت دی جس جیسی سلطنت کسی کے پاس نہیں اور سلطنت کو سنبھالنے کے لیے حکمت و دانائی بھی دی۔
6۔ سلیمان علیہ السلام کا دور آیاتو فرمایا:
فَسَخَّرْنَا لَهُ الرِّیْحَ تَجْرِیْ بِاَمْرِهٖ رُخَآءً حَیْثُ اَصَابَo
یعنی ہم نے اُن کے لیے ہوا کو تابع کر دیا، وہ اُن کے حکم سے نرم نرم چلتی تھی جہاں کہیں (بھی) وہ پہنچنا چاہتے۔
(ص، 38: 20)
آپ کو تسخیر کا وہ فن اور قوت دے دی جس نے ہر شے کو آپ کے لیے مسخر کر دیا۔ ہوائیں بھی آپ کے اِذن سے چلتی تھیں، پرندے بھی آپ کے تابع ہوگئے، ملکوت السمٰوت والارض بھی آپ کے تابع ہوگئے، پھر شیاطین بھی آپ کے تابع کر دیئے۔آپ کو اِتنی بڑی سلطنت دے دی کہ ملکہ سبا جیسی بھی آپ کے سامنے جھکنے پر مجبور ہوگئی۔
اللہ رب العزت کا ایک سسٹم ہے، وہ management ایک ڈسپلن سے کرتا ہے۔ جس زمانے کی جو ضرورت ہوتی ہے، ان ہی خوبیوں اور شان کے حامل نبی کو بھیج کر اُس زمانے کی ضرورت پوری کرتا ہے، کسی بھی معاشرے میں کبھی نبی کو misfit نہیں کرتا۔
اللہ رب العزت اس زمانے کی ضرورت اور تقاضوں کو کبھی ایک ہی نبی سے پوری کردیتا ہے اور کبھی دو، دو یا اس سے زائد انبیاء بھی ایک ہی دور میں مبعوث فرماتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ضرورتِ وقت کبھی وحدت کے ساتھ پوری کرتاہے، کبھی اجتماعیت کے ساتھ پوری کرتاہے، کبھی تنہا پوری کرتا ہے، کبھی اِشتراک کے ساتھ پوری کرتا ہے کبھی حضرت موسیٰ علیہ السلام کی درخواست پر حضرت ہارون علیہ السلام کو بھی ذمہ داریاں سونپ دیتا ہے۔ کبھی یعقوب علیہ السلام آئے تو اُن کا مشن یوسف علیہ السلام کے ساتھ مکمل ہو رہا ہے، کبھی زکریا علیہ السلام اور یحییٰ علیہ السلام اکٹھے مشن کی تکمیل کررہے ہیں۔
7۔ انبیاء کرام کے اس سلسلہ میں پھرایک وقت ایسا آیا کہ اس نے پیکر انسان کو جامعیت کے حُسن کے ساتھ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صورت میں مبعوث فرمایا۔ جملہ انبیاء کے اوصاف و کمالات کو جہاں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اندر مجتمع فرمایا وہاں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں ساری ضروریات اکٹھی ہوگئیں، ظلم کی ساری کیفیات اور معاشرے کی تمام خرابیاں ایک جگہ جمع ہوگئیں، ہر طرح کا کفر، طغیانی، سرکشی، بطلان حق اور ہر طرح کی بُرائی اور گندگی ایک جگہ جمع ہوگئی، جب کائنات میں باطل کو ایک جگہ جمع کر دیا تو پھر حق کو بھی ایک جگہ جمع کر دیا۔ جب باطل طاقتور ہوکر ایک زمانے میں اکٹھا ہوگیا تو پھر خاتم الانبیاء حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مبعوث فرمادیا۔
آقا علیہ السلام کا دور آیا تو فرمایا: اب میرے محبوب محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھتے جاؤ، میرے محبوب کی ذات میں یوسف بھی ہے، عیسیٰ بھی ہے، موسیٰ بھی ہے، ابراہیم بھی ہے،آدم کا حُسن بھی ہے، شیث بھی ہے، ادریس بھی ہے، یونس بھی ہے، اِنہی کی ذات میں داؤد بھی ہے، سلیمان بھی ہے، یعقوب بھی ہے، اب جو رنگ دیکھنا چاہو، میرے مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں نظر آئے گا۔
اللہ تعالیٰ نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جامعیت اور اکملیت کے اندر سب کچھ جمع کردیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جامع الاوصاف والکمالات بنا دیا۔ کتاب بھی وہ دی جو جامع الکتب ہے، ذات وہ دے دی جو جامع الاوصاف ہے، نور وہ دے دیا جو جامع الانوار ہے، بشریت وہ دے دی جو جوامع البشر ہے۔ الغرض سب کچھ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات میں جمع کر دیا۔
تقسیمِ فیضانِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بصورتِ خلافت
آقا علیہ السلام نے اپنے اِس کرم کو پھر آگے امت میں تقسیم کر دیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد خلفائے راشدین کا دور شروع ہوا، پہلے خلیفہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ میں فیضانِ نبوت کے چار رنگ جھلکے:
- حلیمیت
- بردباری
- برداشت
- تحمل
دوسرے خلیفہ سیدناعمر فاروق رضی اللہ عنہ کے اندر فیضانِ نبوت میں سے جرأت، ہیبت، رعب اور انقلابیت کا رنگ دے دیا۔
تیسرے خلیفہ سیدناعثمان غنی رضی اللہ عنہ میں فیضانِ نبوت میں سے سخا اور حیا کا رنگ دیا۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو فیضانِ نبوت میں سے شجاعت کا رنگ ملا۔ اس لیے کہ معلوم تھا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو جس زمانے میں خلافت ملے گی اس زمانہ میں خوارج کا فتنہ ہوگا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو مولیٰ بنایا ہی اس لیے کہ اُس دور کو سنبھالنے کے لیے جس جرأت شجاعت اور قوت کی ضرورت تھی وہ ضرورت اُ س دور کی سیدنا علی رضی اللہ عنہ پوری کر سکتے تھے۔
تقسیمِ فیضانِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بصورتِ مجددین
انبیاء علیہم السلام کا سلسلہ ختم ہوا تو خلفائے راشدین آئے ان کا دور ختم ہوا تو ائمہ و مجددین کا دور شروع ہوا جو قیامت تک جاری رہے گا۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
إِنَّ اﷲَ یَبْعَثُ لِهَذِهِ الْأُمَّةِ عَلَی رَأْسِ کُلِّ مِائَةِ سَنَةٍ مَنْ یُجَدِّدُ لَهَا دِینَهَا.
’’اللہ تعالیٰ اِس اْمت کے لیے ہر صدی کے آغاز میں کسی ایسے شخص کو مبعوث فرمائے گا جو اس (اْمت) کے لیے اس کے دین کی تجدید کرے گا۔‘‘
(ابوداؤد، السنن، کتاب الملاحم، 4: 109، الرقم: 4291)
یعنی ہر صدی کے ابتداء میں جب بھی کہیں میری امت کے عقائد کی اصلاح اور احوال میں تربیت کی ضرورت ہوگی، کہیں اخلاق و معاملات کی روح پھیکی پڑ رہی ہوگی، کہیں حدیث کے فہم میں کمزوری آرہی ہوگی، کہیں تخریج و تحقیق کی ضرورت ہو گی، کہیں توضیحات و تشریحات کی ضرورت ہوگی، کہیں انقلابیت کی ضرورت ہوگی تو ہر دور کی ان ضروریات کے پیش نظر اور وقت کے مطابق مجدد آ رہا ہوگا۔
یہ امر ذہن نشین رہے کہ مجدد خود نہیں آتا بلکہ اسے بھیجا جاتا ہے، اس لیے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مذکورہ فرمان میں إِنَّ ﷲَ لَیَبْعَثُ کے الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ
اللہ تعالی مجددین کو بھی مبعوث کرتا ہے۔ چونکہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد نبوت ختم ہوچکی ہے، لہذا اب کوئی نبی مبعوث نہیں ہوگا مگر مجدد ہر دور میں ضرور مبعوث ہوتے رہیں گے۔ معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ ہر دور کی خوبیوں کے مطابق خود چُن کر مجدد مبعوث فرماتا رہے گا۔
پہلے اللہ رب العزت اپنے انبیاء کو براہِ راست بھیجتا تھا اور جب مجددین کا دور آیاتو پھر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے مجدد کو بھیجتے ہیں، اب جو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی منشاء ہے، اُس دور کے ویسے مجدد آتے ہیں۔ پتہ چلا مجدد بھیجتا خدا ہے مگر بارگاہِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے واسطے سے بھیجتا ہے۔
مجدد تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ کا مظہر ہوتا ہے اور اللہ رب العزت نے حضور کی ذات سے وعدہ فرمایا ہے کہ
وَ لَـلْاٰخِرَةُ خَیْرٌ لَّکَ مِنَ الْاُوْلٰی.
’’اور بے شک (ہر) بعد کی گھڑی آپ کے لیے پہلی سے بہتر (یعنی باعثِ عظمت و رفعت) ہے۔‘‘
(الضحیٰ، 93: 4)
محبوب آپ کی ہر آنے والی گھڑی پچھلی سے بلند سے بلند تر ہوتی چلی جائے گی، کرم آپ کا ہوگا مگر نظر کسی اور شکل میں آرہا ہوگا۔ بھرم حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہوگا مگر شکل کسی اور کی ہوگی، وجود کسی اور کا ہوگا، کلام کسی اور کا ہوگا مگر عطا، خیرات اور خوراک حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہوگی۔
تحریک منہاج القرآن ایک تجدیدی تحریک ہے
ہر دور میں جس جس جہت اس سے اصلاح کی ضرورت تھی اس صدی کا مجدد وہ ضرورت پوری کرتا رہا۔ پہلے مجددین اور شیوخ الاسلام میں امام شافعی، امام احمد بن حنبل، امام نسائی، امام اشعری، امام بیہقی، امام غزالی، فخر الدین رازی، ابن حجر عسقلانی، جلال الدین سیوطی، مجدد الف ثانی، شاہ ولی اللہ محدث دہلوی، علامہ شوکانی، بدر الدین عینی، قسطلانی ، عسقلانی، ابن کثیر، امام احمد رضا خاں بریلوی نمایاں ہیں اور آج کے اس دور میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری مجددِ وقت ہیں اور تحریک منہاج القرآن ایک تجدیدی تحریک ہے۔
تحریک منہاج القرآن کو ایک ایسی تجدیدی اور احیائے اسلام کی ایک علمبردار تحریک ہے جو عزت و ناموس مصطفی کا پرچم اُٹھا کر چل رہی ہے، اللہ رب العزت نے اس کے اندر درج ذیل چھ (6) پہلو رکھے ہیں جو اُسے انفرادیت و امتیاز عطا کرتے ہیں:
- تفکر
- تحقق
- تحرک
- تفقہ
- تصوف
- تحسن (حُسن)
اس تحریک کو اللہ تعالیٰ نے ہر اُس گوشے میں کمال دیا ہے جو ہمارے ذہن میں آسکتا ہے۔ ہر مجدد اپنے دور کی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے آتا رہا۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ فلاں مجدد فلاں سے عظیم تھا، نہیں، عظیم خدا کی ذات ہے اور مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات ہے۔ہم یہ کہتے ہیں خدا اورخدا کے محبوب جسے چاہتے تھے، اُس دور میں مجدد بھیجتے چلے گئے۔ اُصول یہ ہوتا ہے کہ آنے والا پچھلوں کا فیض، خیرات اور ان کی عطا لے کر آتا ہے۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے اندر ہمیں گذشتہ تمام مجددین اور شیوخ الاسلام کا رنگ نظر آتا ہے۔ گذشتہ مجددین میں سے کسی میں تحرک تھا تو کسی میں تفقہ، کسی میں تحقق تھا تو کسی میں تصوف یعنی اُس دور کی جو ضرورت ہوتی وہ مجدد اس حوالے سے خوبیوں کا مالک ہوتا۔
آج اللہ رب العزت نے ہم پر اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کے اِس زمانے پر کرم یہ کیا کہ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی صورت میں وہ مجدد عطا کیا جن کی ذات میں تفکر، تحقق، تحرک، تفقہ، تصوف اور تحسن سب کچھ جمع ہے۔
گذشتہ مجددین کے اوصاف پر ایک نظر
1۔ امام احمد بن حنبل اپنے دور کے مفسر قرآن بھی تھے، دس لاکھ احادیث مبارک کے حافظ بھی تھے علم الجرح والتعدیل اور عربی لغت کے بھی بہت بڑے امام تھے، فقہ حنبلی کے بانی تھے۔ مسنداحمد بن حنبل کے بھی مصنف تھے، عابد، زاہد، مالی سخاوت اور فیاضی والے بھی تھے، عقیدہ خلق قرآن پر حاکم وقت کے سامنے ڈٹ گئے۔
2۔ امام محمد بن اسماعیل بخاری کا دور آتا ہے۔ امیرالمومنین فی الحدیث بھی ہیں۔علم الجرح والتعدیل (سائنس آف حدیث) اور عربی لغت کے بھی امام ہیں۔ متکلم اور ماہر عقیدہ، مفکر، فلسفی، مصنف اور محقق بھی تھے۔ رمضان شریف میں 41 ختم قرآن کا معمول تھا۔ جتنی خوبیاں اُن کے لیے ضرورت تھیں، اللہ نے اُنہیں عطا کر دیں۔
3۔ امام احمد بن شعیب النسائی کا دور آتاہے۔ آپ کے زمانے میں تفسیر پر اُتنا کام نہیں ملتا مگر حدیث، فنِ حدیث، علل اور رجال کی معرفت میں اُن کو کمال تھا۔ سنن النسائی کے مصنف تھے۔ عبادت، تقویٰ، پرہیزگاری اور اُس دور کے مطابق خوبیاں اُنہیں دی گئیں۔
4۔ امام بیہقی کا دور آتاہے ۔ احکام القرآن کے مصنف ہیں، جلیل القدر حافظ حدیث ہیں، علوم الحدیث کے عارف بھی تھے، فقہ اور اُصول فقہ پر بڑا کام تھا، بہت زیادہ تصانیف تھیں، تیس سال تک روزے کے ساتھ رہے۔
5۔ امام ابو حامد الغزالی کا دور آتا ہے۔ یہ فلسفے، اجتہاد اور فقہ کا دور تھا۔ امام غزالی کو اللہ رب العزت نے اُس دور کی وہ خوبیاں دیں جس کی اُس دور میں ضرورت تھی۔ آپ اپنے وقت کے مجدد تھے، تفسیرِ قرآن اور علوم قرآن پر بھی آپ کی تصانیف ہیں۔ اپنے دور کے مجتہد اور فقیہ تھے، اُصول پر کام تھا، اختلاف فقہاء میں مہارت تامہ اُن کے پاس تھی، اپنے زمانے کے مایہ ناز مفکر اور فلسفی بھی تھے۔ آپ مشہور زمانہ کتاب احیاء العلوم الدین کے مصنف تھے۔ فصیح و بلیغ بھی تھے اور قلم بھی چلتا تھا، عبادت گزاری بھی تھی گویا زمانے کی ضرورت کے مطابق ان میں بڑی خوبیاں تھیں۔ مگر وقت کے طاغوت کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر کھڑے ہو جانا، یہ ان کے مشن کا حصہ نہیں تھا۔
6۔ امام فخر الدین رازی کا دور آتا ہے۔ آپ بلند پایہ شافعی فقہ کے امام، تفسیر الکبیر کے مصنف تھے۔ مجتہد، فقیہہ، متکلم، فصیح، بلیغ، مناظر، حکمت اور معقولات کے ماہر تھے۔ تفسیر، اُصول تفسیر اور فقہ پر آپ کی تصانیف ہیں مگر سیاسی خدمات نظر نہیں آتیں۔
7۔ امام ابن حجر عسقلانی شیخ الاسلام ہوئے ہیں۔ اُن کے دور کو دیکھیں تو آپ نے قرآنی علوم، حدیث، رجال اور علل پر بھی کام کیا۔ فتح الباری کے بغیر کوئی عالم ، عالم بن نہیں سکتا، کئی کتابیں بھی لکھی ہیں، فقہ الحدیث میں بھی مہارت تھی، مگر تحرک، تصوف اور باقی میادین آپ کے دور کی ضرورت نہیں تھے۔
8۔ امام جلال الدین سیوطی کا دور آتاہے، جوامع العلوم شخصیت تھے۔ تفسیر قرآن میں بھی ملکہ تھا، ممتاز محدث بھی تھے، بلند پایا فقیہہ بھی تھے۔ عقائداہل سنت کی ترویج کے لیے بھی کام کیا، سیرت نگاری میں بھی آپ کاکام تھا۔ چھ سو کتابوں کے مصنف تھے، بلاغت کے بھی ماہر تھے، عابد بھی تھے، قلمی سیاست کی مگر میدان میں اُتر کر طاغوت کو للکارا نہیں۔ سب کچھ تھا مگر اللہ نے تحرک اُس وقت کی ضرورت نہیں بنایا۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے دور پر نظر
جب ہم شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے دور کی طرف نظر ڈالتے ہیں تو یہاں پر زبوں حالی کسی اور انداز میں نظر آتی ہے۔ علمی، فکری، سیاسی اور نظریاتی گراوٹ نظر آتی ہے۔ عقائد، سیرت، تصوف، روایت، درایت، فصاحت، فلسفے، نظریے اور اعتدال پسندی کے میدان میں اسلامی تعلیمات نئے اندار کے ساتھ اور سائنٹیفک توجیہات کے ساتھ پیش کرنے کا دور آگیا۔ منطق کا دور ختم ہو گیا، سائنس کا دور آگیا۔ لاعلمی، جہالت، بے راہ روی اور بدعقیدگی کی انتہا ہو گئی اور یہ دور بڑھتا چلا گیا۔
ان ہمہ جہت خرابیوں کی وجہ سے آج تنہا خوبیوں والا مجدد نہیں بلکہ جامع خوبیوں والا مجدد چاہیے تھا، لہذا اللہ رب العزت نے آج کے دور میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جامعیت کے فیض کا امین شیخ الاسلام ڈاکٹر محمدطاہر القادری کو بھیج دیا۔
اب شیخ الاسلام کی ذات میں مجددین کا رنگ بھی ہے، مفکرین کا رنگ بھی ہے، محدثین کا رنگ بھی ہے اور محققین کا رنگ بھی ہے۔
پاکستان سمیت دنیا کے 90 ممالک میں اسلام کی حقانیت اور اسلام کے مثبت و پرامن چہرہ کی شناخت و علامت آج شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری ہیں۔ دنیا بھرمیں جب بھی اسلام پر کڑا وقت آیا اور اس کے چہرے کو مسخ کرنے کی کوشش کی گئی شیخ الاسلام نے ہر جہت سے اسلامی تعلیمات کا دفاع کیا۔
شیخ الاسلام خود دعویٰ نہیں کرتے بلکہ وقت خود ببانگ دہل اعلان کرتاہے جب اس کی ضرورت پوری ہو رہی ہو۔ شیخ الاسلام فرماتے ہیں:
میں نے جب قوم کی زبوں حالی، گراوٹ، ظلم، جہالت، مظلومیت، محرومیت، مفقودیت، چہروں پر محرومیوں اور دقیانوسی سوچ کا حامل دیکھا کہ اس قوم کو نہ اپنا تشخص حاصل ہے اور نہ ہی کوئی مخلص قیادت تو اُس وقت میں نے اپنے شیخ طریقت کے ہاتھ پر وعدہ کرلیا اور قرآن مجید پر میں نے عہد کر لیاکہ اے اللہ! تیرے محبوب کے واسطے سے، قدوۃ الاولیاء کے سامنے عہد کرتا ہوں کہ طاہر القادری کی زندگی وقفِ انقلاب ہو گی۔
تحریک منہاج القرآن نے ہر تشنگی کو دور کیا
تحریک منہاج القرآن وہ تحریک ہے جس نے اِس دور کی ہر تشنگی کو دور کیا۔ تنظیم کی کمی تھی وہ بھی عطا کی۔۔۔ ایڈمنسٹریشن کی کمی تھی وہ بھی دی۔۔۔ مراکز بھی دیئے۔organizational network بھی دیا۔۔۔ کہیں عقیدے کی کمی تھی تو اُس کی اصلاح بھی کی۔۔۔ خانقاہی نظام کمزور ہوگیا تو اسے مضبوط کیا۔۔۔ تصوف کا مفہوم لوگ غلط سمجھنے لگ گئے تو تصانیف اور خطابات کی صورت میں اصل تصوف بھی سمجھایا۔۔۔ عقیدہ صحیحہ کھوگیا تو اُس عقیدہ صحیحہ کو بحال بھی کیا۔۔۔ نوجوان دہشت گرد ہونے لگے تو اُن کو دہشت گردانہ خیالات سے نکال کر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا غلام بنادیا اور moderate کرتے ہوئے balanced approach سکھا دی۔۔۔ لوگ دین سے بیزار ہو رہے تھے تو دین کو خوبصورت انداز سے پیش کر دیا۔۔۔ منہاج القرآن کو امن، آشتی اور محبت کا گہوارہ بنا کر پیش کر دیا۔ لوگ انقلاب نہیں سمجھتے تھے لوگوں کو جرأت دی، تحرک دیا۔۔۔ مائیں، بہنیں اور بیٹیاں انقلابی جدوجہد کا حصہ نہیں ہوتی تھیں، آج حوا کی بیٹی کو بھی انقلابی جدوجہد کا حصہ بنادیا۔۔۔ آج بچے مصطفوی انقلاب کے پروانے، ستارے اور انقلابی بن رہے ہیں۔ یہاں بیٹی کو سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا، سیدہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا اور سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کا غلام بنایا ہے۔
تحریک منہاج القرآن نے آج ایک نیا کلچر دے دیا ہے، ایک نئی سوسائٹی میں آپ کو اپنا آپ منوانا سکھا دیا ہے۔ شیخ الاسلام نے اپنی مثال سے آپ کو بے مثال بنا دیا۔ آپ کے کردار اور اخلاق میں اُن کا کردار نظر آنا چاہئے۔۔۔ آپ کے گفتار میں اُن کا گفتار ہوناچاہیے، آپ کے بولنے میں اُن کے بولنے کی جھلک نظر آنی چاہیے۔۔۔ آپ کی سیرت میں اُن کی سیرت کی جھلک نظر آنی چاہیے۔۔۔ جب میدان میں اُتریں تو آپ کی محنت میں اُن کی جدوجہد کا اثر نظر آنا چاہیے۔
یہ تجدیدی تحریک ہے اِس نے رکنا نہیں بلکہ نسلوں تک چلنا ہے، آپ کی اولادوں تک آگے بڑھنا ہے، اِس فکر کو روکنا نہیں ہے۔ اگر ہم منہاج القرآن کو تجدیدی و فکری تحریک سمجھتے ہیں تو پھر اِس کو اگلی نسلوں تک منتقل کرنا ہے۔ اپنی زندگیوں سے انقلاب کو شروع کریں اور معاشرے تک پہنچائیں۔اپنے اوڑھنے بچھونے کو ویسے کر دیں جیسے شیخ الاسلام نے آپ کو سکھایاہے۔ شیخ الاسلام سراپا انقلاب تب بنے کہ پہلے اپنی ذات سے شروع کرکے معاشرے کو انقلاب پہنچایا۔اپنی ذات اور اپنی صفات کو بدلنا ہوگا اور شیخ الاسلام کے اِس انقلابی فکر اور تجدید و احیاء کی اِس تحریک کی فکر کو اپنی نسلوں تک منتقل کرنا ہو گا۔
اللہ تعالیٰ اِس فکر کو سمجھنے اِس پر عمل پیرا ہونے اور اِس کو اپنی زندگیوں کا اوڑھنا بچھونا بنانے کی توفیق عطا فرمائے۔
ماخوذ از ماہنامہ منہاج القرآن، اکتوبر 2018ء
تبصرہ