حقیقی اِنقلاب بیداریِ شعور کا نام ہے
ڈاکٹر حسین محی الدین قادری
تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثتِ مبارکہ کا بنیادی مقصد انسانی حیات میں ہمہ گیر انقلاب برپا کرنا ہے۔ ہمہ گیر انقلاب زندگی کے جملہ پہلوئوں فکری، ایمانی، اخلاقی، انفرادی، اجتماعی، معاشرتی، معاشی، سیاسی اور بین الاقوامی پہلوؤں پر محیط ہوتا ہے۔ مذکورہ جملہ پہلوئوں کے تناظر میں انقلاب سے کیا مراد ہے اور یہ انقلاب متعلقہ حوالے سے کیا اثرات مرتب کرتا ہے؟ ذیل میں ان تمام پہلوئوں پر روشنی ڈالی جارہی ہے:
1۔ ذہنی اور فکری انقلاب
ذہنی یا فکری انقلاب سے مراد انسانی فکر اور اُس کے شعور میں اُس مقصد کا اُجاگر ہونا ہے، جس مقصد کی خاطر اللہ رب العزت نے انسان کو پیدا فرمایا ہے۔ انسان کو اپنے ہونے کا مقصد اور اپنے وجود کی وجہ سمجھ آجائے، تو اُس کی زندگی سے بے مقصدیت کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔ پس زندگی کو مقصدیت کی خوشبو نصیب ہو جائے تو اِسی کو ذہنی و فکری انقلاب کہتے ہیں۔
2۔ ایمان اور یقین کی سطح پر انقلاب
ایمان کی سطح پر بھی انقلاب برپا ہوتا ہے اور یہ انقلاب تب نصیب ہوتا ہے جب بندے کا ایمان اُس کو یقین عطا کردے اور وہ یقین اِس قدر راسخ ہو کہ حجابات کا رفع ہونا بھی اُس کے یقین میں اضافہ نہ کر سکے بلکہ وہ بن دیکھے ہی یقین کے اس مقام پر فائز ہو جو مقام مشاہدہ کے بعد نصیب ہوتا ہے۔
ایمان کی سطح پر انقلاب کا برپا ہونا یہ ہے کہ بندے کا خدا کی ذات پر، ذاتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر، آقا علیہ السلام کے آخری رسول اور نبی ہونے پر، غیب پر اور قیامت پر ایمان اور یقین اِس درجہ کمال پر پہنچ جائے کہ بعد میں اگر اُس کی نگاہ کے سامنے وہ امور واضح ہو جائیں، جس کے بارے میں وہ یقین رکھا کرتا تھا تو اُس کو اپنے یقین اور حقیقت میں کوئی فرق محسوس نہ ہو۔ وہ جان لے کہ اسے بغیر دیکھے جس شے پر یقین تھا، قیامت کے روز اُس کی نگاہ کے سامنے جب وہ شے آجائے تو اس حقیقت اور یقین میں ایک رتی برابر بھی فرق نہ پائے۔ اس کیفیت کا حصول اُس کے ایمان کی سطح پر انقلاب برپا ہونے سے ممکن ہے۔یہی وہ یقین ہے کہ جس کے بارے میں سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا:
اعلیٰ اور کمال یقین یہ ہے کہ پردہ ہٹ بھی جائے تو بھی یقین اتنا ہی رہے جتنا پہلے تھا۔ یعنی پردے کا ہٹنا، اُس کے یقین میں اضافے کا باعث نہ بنے۔ اس صورت میں پھر ہم کہہ سکتے ہیں کہ اللہ رب العزت نے فلاں شخص کے ایمان اور یقین کو انقلاب کی دولت سے نواز دیا ہے۔
یقین کی علامت کیا ہے؟
اگر انسان چاہے کہ میں اس امر کو پرکھوں کہ ایمان کی سطح پر میرے یقین کی حالت اور کیفیت کیا ہے؟ تو اُس کمال اور اعلیٰ یقین پر شہادت یہ ہے کہ بندہ اس یقینِ کامل کے بعد دنیا کے مختلف افکار سے مغلوب نہ ہوتا پھرے بلکہ اپنے اخلاق و اعمال کو بہتر کرے۔ اُس کے یقین پر صبح شام یہ کیفیت طاری رہے کہ میں نے تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کی ہے تو اِس کا یقینا صلہ آخرت میں نصیب ہوگا۔ اگر میں نے دینِ اسلام سے کسی بھی صورت عداوت کی ہے تو اللہ رب العزت کی بارگاہ سے یقینا اِس کی گرفت اُترے گی۔ اس کا یقین ہر لمحہ اس مقام پر فائز ہو کہ جو کچھ میں کرتا ہوں، اِس کے بدلے میں جو کچھ مجھے نصیب ہوگا وہ مکافاتِ عمل کے طریقے سے ہے۔ اُس پر بس یہی ایک بات غالب رہے کہ اللہ اور اُس کے رسول کی قربت حاصل کرنے کا ایک ہی راستہ ہے کہ اپنے اعمال اور اخلاق سنواروں اور جیسے جیسے اپنے اخلاق و اعمال کو سنوارتا چلا جائوں گا، ویسے ویسے خدا اور اس کے رسول کی قربت نصیب ہوتی چلی جائے گی۔
مذکورہ تمام باتوں پر اِتنا ہی یقین ہو کہ جتنا اُس کو اپنے ہونے پر ہے، تو یہ باتیں شہادت کا درجہ رکھتی ہیں۔ پھر یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہاں اُس کے یقین نے اُس کے ایمان کو انقلاب آشنا کر دیا۔۔
3۔ اخلاقی انقلاب
تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کا ایک مقصد اخلاقی انقلاب بھی برپا کرنا تھا۔ اخلاقی انقلاب یہ ہے کہ انسان کی زندگی رضائے الہٰی کے حصول کی خاطر فضائلِ اخلاق اور اعمال سے مزین ہو جائے۔ اُس کی زندگی کا مقصد اور محور یہ بن جائے کہ اُس نے رضائے الہٰی حاصل کرنی ہے۔ لہذا وہ اپنے اخلاق سنوارنے، اپنے اعمال و افکار کو پہلے سے بہتر کرنے اور اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نگاہ میں بہتر انسان بننے کے لیے صبح شام کمربستہ ہو جائے۔ اگر اُس کی زندگی کا کُل مقصد فقط رضائے الہٰی کا حصول رہ جائے، تو پھر یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہاں اِس کی زندگی میں اخلاقی سطح پر بھی انقلاب برپا ہو گیا۔
4۔ اجتماعی زندگی میں انقلاب
تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت مبارکہ کا ایک اور مقصد اجتماعی زندگی میں بھی انقلاب برپا کرنا ہے۔ درحقیقت اجتماعی زندگی اطاعت اور انحراف کے تضاد پر مشتمل ہے۔ اجتماعی زندگی میں کچھ لوگ اطاعت سے مزیّن ہوتے ہیں اور کچھ لوگ انحراف کے مرتکب ہوتے ہیں۔ جب اطاعت اور انحراف کو ایک جگہ جمع کر دیں تو اس کے نتیجے میں جو کچھ نظر آتا ہے اُس کو اجتماعی زندگی کہا جاتا ہے۔
اِسی اجتماعی زندگی کے کئی پہلو ہیں جن میں معاشرتی، معاشی اور سیاسی پہلو نمایاں ہیں۔ ہر پہلو میں اطاعت بھی ہے اور انحراف بھی ہے۔ اجتماعی زندگی میں جب ہر انحراف کو اطاعت سے بدل دیا جائے تو پھر کہا جاتا ہے کہ اجتماعی زندگی میں انقلاب برپا ہو گیا۔
مثال کے طور پر انسان معاشرتی یا انفرادی زندگی کے اندر اگر تفاخر، خود پسندی یا تکبر کا شکار ہو، تو اُسے انحراف کہیں گے اور اگر وہ تفاخر اور خود پسندی کو ترک کرکے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس فرمان کے مصداق ہوجائے کہ ’’تم میں سے کوئی شخص اُس وقت تک مومن ہی نہیں ہو سکتا، جب تک وہ اپنے بھائی کے لیے وہی نہ چاہے جو اپنے لیے چاہتا ہے‘‘ تو پھر کہا جاتا ہے کہ اس نے انحراف کو اطاعت میں بدل دیا اور اپنی زندگی کو انقلاب آشنا کرلیا۔
ایک طرف یہ انحراف تھا کہ وہ خود پسندی اور اپنے اوپر فخر کرنے میں مبتلا تھا، دوسری طرف اب اپنی ہر بات، سوچ، حال اور اِس انحراف کو اخوت و بھائی چارے کے رشتے میں بدل دیتا ہے۔ گویا اس نے جب مسلک ، مذہب یا برادری کے فرق کو مٹا دیا تو پھر اپنی انفرادی زندگی کو انحراف سے بدل کر اُس اطاعت میں لے آیا جسے اللہ رب العزت نے اخوت سے تعبیر فرمایا ہے۔ پس جب وہ اخوت کے رشتے میں بندھ گیا، تو اُس نے انحراف کو اطاعت سے بدل دیا اور یہی اجتماعی زندگی میں انقلاب کہلاتا ہے۔
5۔ معاشرتی زندگی میں انقلاب
معاشرتی زندگی میں ہم اپنی ذاتی سوچ کے مطابق اچھائی اور برائی کے اعتبار سے لوگوں کو پرکھتے ہیں۔ اگر ہم اپنی سوچ سے نکل کر احکامِ الہی پر آجائیں کہ ہر سوچ کی بنیاد احکامِ الہٰیہ پر رکھیں، کسی کو بہتر جاننا ہے تو وہ بھی احکام الہٰیہ کی روشنی میں ہو، کسی کو بُرا جاننا ہے، تو وہ بھی احکامِ الہٰیہ کی روشنی میں ہو، یعنی اُس کے اندر اپنی سوچ، فکر اور سمجھ کا عمل دخل نہ ہو، تو معاشرتی زندگی میں انقلاب برپا ہوتا ہے۔ چونکہ معاشرتی زندگی اِنسان کے درمیان باہم رشتوں کا نام ہے، کہیں وہ رشتے خاندانی ہیں، کہیں استاد اور شاگرد کے ہیں، کہیں حکمران اور رعایا کے ہیں، کہیں شیخ اور مرید کے ہیں، کہیں بہن بھائیوں کے ہیں، اِن رشتوں کے اندر سے اپنی ذاتی سوچ کو نکال کر اللہ کے حکم کی اطاعت و تعمیل میں آجانا، معاشرتی زندگی میں انقلاب کہلاتا ہے۔
6۔ معاشی زندگی میں انقلاب
معاشی زندگی میں انقلاب برپا ہونے سے مراد یہ ہے کہ انسان اپنی ذات میں لالچ، بخل اور حرص کا شکار ہوتا ہے، اس صورتِ حال میں وہ انحراف کی زندگی میں ہوتا ہے لیکن جب وہ اِن بُری عادات اور امراض کو بدل دے، بخل کو وسعتِ قلبی اور سخاوت سے بدل دے اور اُس کی نگاہ میں نیکی کا معیار پھر وہی رہ جائے جو اللہ رب العزت نے عطا فرمایا ہے تو یہ عمل معاشی زندگی میں انقلاب سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں یہ امر واضح فرمادیا ہے کہ تم اُس وقت تک نیکی حاصل نہیں کر سکتے، جب تک تم اُس میں سے انفاق نہ کرو جو تمہاری نظر میں پسندیدہ ہے۔ جب انسان کی معاشی زندگی کا مطمع نظر اور بنیاد یہ آیت اور حکمِ خداوندی بن جائے، تو پھر وہ انحراف سے نکل کر اطاعت میں چلا جاتا ہے اور یہی اس کی معاشی زندگی میں انقلاب ہے۔
اس انقلاب کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ پہلے وہ بخیل تھا، صرف اپنے لیے سوچتا تھا، اپنے لیے کماتا تھا، اپنی ذات پر خرچ کرتا تھا، اب وہ بخل سے نکل کر ایثار اور قربانی والا ہو گیا۔ وہ اپنی ذات کو مشکل میں رکھ کر اللہ کے دین پر خرچ کرنے لگا۔ خدا کی کمزور اور نادار مخلوق پر خرچ کرنے لگا۔ غریبوں کا سہارا اور اُن کا مدد گار بننے لگا۔ اب وہ بخیل نہیں بلکہ سخی ہوگیا۔ اب اِس نے اپنے باطن میں پائے جانے والے بخل کو ترک کر دیا اور اللہ رب العزت کے حکم کی اطاعت میں رنگا گیا ہے۔
7۔ سیاسی زندگی میں انقلاب
سیاسی زندگی کا پہلو بھی اُس وقت تک انقلاب آشنا نہیں ہو سکتا جب تک اِس کو بعثتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشبو نصیب نہ ہو۔ معاشرے میں رسہ کشی، فسادات، تکلیف، پریشانی کے دو عناصر (elements) ہیں:
- محکوم
- حاکم
یعنی ایک عوام، دوسرے حکمران۔ ایک حق دینے والا، ایک حق لینے والا۔ جب سیاسی زندگی کی بنیاد معاشرتی رسم ورواج اور اپنی ذاتی خواہشات پر رکھ دی جائے، تو معاشرہ فتنے کا شکار ہو جاتا ہے۔ اگر اِسی سیاسی زندگی کے پہلو کو انقلاب آشنا کر دیا جائے اور وہ انحراف سے بدل کر اطاعت میں چلی جائے تو یہی سیاسی زندگی خوشبو دار ہوجاتی ہے۔
ییاد رکھیں! فرض اور حق کے درمیان ایک رشتہ پایا جاتا ہے، یہ الگ الگ شے نہیں ہے۔ کسی کا کچھ فرض ہے تو وہ دوسرے کا حق ہے، اسی طرح کسی کا کچھ حق ہے تو یقینا وہ کسی کا فرض بھی ہے جو اُس نے دینا ہے۔ اگر ہر کوئی اللہ رب العزت کی اطاعت و احکامات اور شریعتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روشنی میں حق اور فرض کو سمجھ لے، تو جھگڑے ختم ہو جاتے ہیں۔ ہم اپنے حقوق اور فرائض کی بنیاد اپنی ذاتی خواہشات، معاشرتی کلچر، اپنی ضرورتوں، نفسانی خواہشات اور حرص و ہوس پر رکھتے ہیں، اُس کے نتیجے میں جو سیاسی نظام وجود میں آتا ہے اُس کی بنیاد فقط لوٹ کھسوٹ، قتل وغارت اور دہشت گردی ہوتی ہے۔ اُسی نظام کے اندر پھر عدالتیں بھی ہیں، جن کا کام انصاف مہیا کرنا ہے، وہ انصاف کی قربان گاہیں بن جاتی ہیں اور وہاں پھر انصاف نہیں دیا جاتا۔ اُس نظام کی بنیاد میں احکامِ خداوندی، آقا علیہ السلام کی تعلیمات اور شریعتِ محمدی سے انحراف ہے۔ جب اسی نظام میں تعلیماتِ قرآن، اطاعتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور تعلیمات مصطفی داخل ہو جائے، تو پھر یہی نظام خوبصورت بن جاتا ہے۔ اب یہ نظام لینے کی بجائے دینے والا بن جاتا ہے۔
8۔ بین الاقوامی زندگی
بعثتِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دیگر پہلوئوں کی طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بین الاقوامی زندگی کو بھی انقلاب آشنا فرمایا۔ انسانی پہلوؤں میں بین الاقوامی زندگی بھی اپنی ایک خاص اہمیت رکھتی ہے۔ بین الاقوامی زندگی انسانی زندگی سے خارج نہیں ہوسکتی۔ جب ہم بین الاقوامی زندگی کو دیکھتے ہیں، تو وہاں پر ہمیں بہت سے سیاسی، معاشی اور معاشرتی مسائل نظر آتے ہیں۔ لہذا دیکھنا یہ ہے کہ بین الاقوامی سطح پر وہ کون سے اُمور ہیں جن کو انقلاب آشنا کرنے کی ضرورت ہے؟
اِس کرہ ارض پر موجود مختلف ممالک اور اقوام اپنا وجود رکھتے ہیں۔ ہر قوم اور ملک، اپنے ذاتی مفاد کی خاطر دوسرے کو کچلنا چاہتا ہے۔ اپنے ذاتی عناد کی خاطر دوسری قوموں کو نیچا دکھانا چاہتا ہے، اپنے آپ کو طاقتور اور دوسرے کو کمزور کرنا چاہتا ہے۔ اُس کے نتیجے میں پھر کرۂ ارض پربے پناہ جنگیں لڑی جاتی ہیں۔ فتنہ اور فساد برپا ہوتے ہیں، قتل وغارت ہوتی ہے، ملکی سطح پر سازشیں ہوتی ہیں، تاکہ طاقت کی مرکزیت اپنے لیے حاصل کی جاسکے۔ نتیجتاً بین الاقوامی زندگی انحراف کا شکار ہوجاتی ہے۔ جب اس بین الاقوامی زندگی کو اطاعت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اطاعت خداوندی نصیب ہو جائے، توپھر یہ بین الاقوامی معاشرے بھی مہذب بن جاتے ہیں۔ جب تک وہ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش کرتے ہیں، تب تک اِن معاشروں کو مہذب نہیں کہا جاسکتا۔ وہ معاشرہ جس کو امن نصیب نہ ہو، وہ مہذب نہیں ہوسکتا۔
یہی وجہ ہے کہ مختلف ادوار میں مسلمانوں کی کئی اقوام برسرِ اقتدار آئیں۔ کہیں بنو امیہ برسراقتدار آگئے، کہیں بنو عباس، کہیں فاطمی، ان میں سے ہر کوئی اپنے نسب اور اپنی نسل پر فخر کرتا تھا اور اُس نے دوسری قوم کو نیچا دکھانے کی کوشش کی۔ جب تک اتفاق رہا تو وہ معاشرہ اطاعت والا معاشرہ تھا اور جب وہ اطاعت سے نکل کر اپنی ذاتی طاقت اور اہلیت کی بناء پر اپنے اقتدار کو طول دینے میں مصروف ہوگیا، تو وہ معاشرہ انحراف میں داخل ہو گیا اور پھر اُس کے بعد زوال کا شکار ہو گیا۔
آج مغربی (western ) ممالک کی یہی صورتحال ہے۔ گو وہ اپنے آپ کو مہذب ممالک کہتے ہیں لیکن دیکھا جائے تو وہ کمزور ملکوں کو اور کمزور کرنا چاہتے ہیں، ان کی آزادی کو سلب کرنا چاہتے ہیں، اُن کے اوپر اپنی پالیسی کو مسلط کرنا چاہتے ہیں۔ در حقیقت یہ کسی مہذب قوم کی علامت نہیں۔
نظامِ امن کا قیام
تاجدارِ کائنات کی بعثتِ مبارکہ بین الاقوامی زندگی میں بھی انقلاب برپا کرنے کے لیے ہوئی۔ یہ انقلاب کیسے پیدا کرنا تھا؟ اس حوالے سے اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:
هُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَهٗ بِالْهُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْهِرَهٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّهٖ لا وَلَوْ کَرِهَ الْمُشْرِکُوْنَ.
وہی (اللہ) ہے جس نے اپنے رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اس کو ہر دین پر غالب کر دے اگرچہ مشرکین کو برا لگے۔
(التوبة، 9: 33)
اِس آیت سے لوگ مختلف معنی اخذ کرتے ہیںکہ شاید اس کا مطلب ہے کہ باقی تمام مذاہب کو نیچا دکھا کر اسلام کو اونچا کرنا ہے۔ اس آیت کا اگر یہی مطلب لیں، تو پھر تو وہی تہذیب کے دائرے سے نکلنے والی بات ہوئی، لہذا اس آیت کے معنی میں موجود عالمگیریت اور وسعت کو سمجھنا ہوگا۔ آیئے! اس کے مفہوم کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں:
سوال پیدا ہوتاہے کہ اللہ کے نزدیک وہ دین جس کو لِیُظْهِرَهٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّهٖ تمام انسانی کائنات پر غالب کرنا ہے وہ دین کیا ہے؟ قرآن اس کے جواب میں کہتا ہے:
اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ ﷲِ الْاِسْلَامُ.
’’بے شک دین اﷲ کے نزدیک اسلام ہی ہے۔‘‘
(آل عمران، 3: 19)
اب قرآن سے ہی پوچھتے ہیں کہ اسلام کیا ہے؟ تو اللہ رب العزت فرماتا ہے کہ اسلام تو سلامتی و امن ہے۔ دین سے مراد کیا ہے؟ فرمایا: دین سے مراد نظام ہے۔
خدا کے نزدیک دین درحقیقت اسلام ہے اور دین سے مرادنظام ہے۔ لہذا نظامِ دین سے مراد نظامِ امن ہے۔
معلوم ہوا آقا علیہ السلام کی ذات بابرکات کے ذریعے پوری دنیا پر ایسا نظام قائم کر دو کہ جو امن والا ہو، یعنی پوری دنیا کو امن کا گہوارہ بنا دو۔ یہاں یہ بات نہیں ہو رہی کہ دوسرے مذہب کو نیچا دکھا کر اپنے مذہب کی تعریف کرتے پھرو، بلکہ ایسا نظام قائم کر دو کہ جہاںپر ہر مذہبی طبقہ احترام محسوس کرے۔۔۔ جہاں پر ہر مذہب کی عزت ہو۔۔۔ ہر شخص اپنے مذہب کے مطابق عبادت کرسکے۔۔۔ ہر کسی کی عبادت گاہوں کا تحفظ ہو۔۔۔ ہر ایک کی مذہبی و دینی شخصیات اور بانیانِ دین کی عزت و ناموس کی حفاظت ہو۔۔۔ ہر ملک، ہر مذہب کی عزت کرنا جانتا ہو۔۔۔ باہمی احترامِ انسانیت ہو۔۔۔ ہر ملک امن کے دائرے میں رہے، وہ کسی پر جنگ مسلط نہ کرے اور نہ کسی کے نظامِ سیاست یا نظامِ معیشت میں مداخلت کرے۔
لِیُظْهِرَهٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّهٖ سے مراد یہ ہے کہ کائناتِ انسانی پر نظامِ امن قائم کر دو تاکہ جھگڑے فساد ختم ہوجائیں اور ہر قوم کا ہر ہر فرد عزت سے زندگی گزارے۔ جب لوگ ایک دوسرے کا احترام کرنا سیکھ لیتے ہیں، ایک دوسرے کے حقوق و فرائض جان لیتے ہیں تو امن خود بخود قائم ہو جاتا ہے۔ جب کوئی بھی ملک دوسرے ملک کی خارجہ پالیسی، معاشی پالیسی اور سیاسی پالیسی میں کسی قسم کی مداخلت اور سازش نہ کرے، کوئی دوسرے ملک پر حملے اور دہشت گردی نہ کرے، کسی کو معاشی نقصان پہنچانے کی کوشش نہ کرے، کوئی قوم دوسری قوم کو بے عزت کرنے کی کوشش نہ کرے، جب یہ سازشیں بند ہو جائیں تو سوچیں یہ دنیا کتنا امن کا گہوارہ بن جائے گی۔بس اللہ رب العزت یہی فرما رہا ہے کہ میرے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! اِس دنیا کو نظامِ امن قائم کرکے امن کا گہوارہ بنا دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے درحقیقت اس تناظر میں بین الاقوامی سطح پر بھی انقلاب برپا فرما دیا اور دنیا کو امن کا گہوارہ بنادیا۔
ہم اپنی زندگی میں انقلاب کیسے برپا کریں؟
انفرادی و اجتماعی زندگی میں انقلاب برپا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہمارے سامنے کوئی رول ماڈل بھی ہو جس کو دیکھتے ہوئے اور اس کے اسوہ پر عمل پیرا ہوتے ہوئے ہم اپنی زندگی میں انقلاب برپا کرسکیں۔اس کے لیے اللہ تعالیٰ نے ارشادفرمایا:
لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ ﷲِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ.
فی الحقیقت تمہارے لیے رسول اﷲ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات) میں نہایت ہی حسین نمونۂِ (حیات) ہے۔
(الاخزاب، 33: 21)
یعنی اگر زندگی میں انقلاب برپا کرنا چاہتے ہو تو پھر میرے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھو کہ انہوں نے سیاسی، انفرادی، معاشی اجتماعی، قومی اور بین الاقوامی زندگی میں انقلاب کیسے برپا کیا۔
اب ذرا اپنی شعور کی آنکھوں سے وہ منظر دیکھیںکہ تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیسے انقلاب کا سفر طے فرما رہے ہیں۔ فاران کی چوٹی پر پہلے وعظ سے لے کر شعبِ ابی طالب، طائف کی وادیوں میں تبلیغ کے دوران مشکلات اور پھر 13 سالہ کفارِ مکہ کے ظلم و ستم سہنے کے بعد، مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی۔ ریاست مدینہ کو پہلی اسلامی ریاست بناتے ہوئے وہاں سیاسی انقلاب برپا کر کے دکھایا اور روئے زمین پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم واحد سب سے عظیم راہنما بن گئے کہ جو اللہ رب العزت کے سب سے بڑے مطیع ہیں یعنی حکومت میں آکر خدا کی اطاعت کر کے دکھائی۔
پھر معاشی زندگی میں مواخاتِ مدینہ کے ذریعے انقلاب برپا کیا۔ آقا علیہ السلام نے فرمایا بخل چھوڑو، جو تمہارے پاس ہے اِس میں اپنے غریب بھائی کو بھی شریک کر لو۔ اسی بخیل طبقے کو ایثار و قربانی والا بناکر اُن کی زندگی میں انقلاب برپا کردیا۔ کسی نے کبھی سوچا نہ تھا کہ یہ بخیل کبھی ایثار وقربانی والے بن جائیں گے۔
پھر معاشرتی زندگی کے اندر میثاقِ مدینہ کے ذریعے انقلاب برپا کر دیا اور ہر کسی کو اُن کے فرائض اور حقوق سمجھا دئیے۔ جتنی قومیں بستی تھیں، اُن سب کو احترام سکھا دیا۔ فرمایا: کوئی کسی کی بے عزتی نہیں کر سکتا اور نہ ہی کوئی کسی کو نیچا دکھا سکتا ہے، تمام مذاہب اِسی ایک ریاست کے باشندے ہیں۔ ہر کسی کا عزت سے جینا حق ہے۔
پھر فتح مکہ کے موقع پر اپنے دشمنوں کو معاف فرمادیا۔ گویا اپنے دشمن کو معاف کر دینا بھی اطاعتِ خدا وندی ہے۔ لہذا بغض اور غصہ پال کر بدلہ لینا انحراف ہے جبکہ فاتحانہ شان سے معاف کر دینا یہ انقلاب ہے۔ پھر تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سوا لاکھ افراد کے سامنے عظیم بین الاقوامی خطبہ ارشاد فرما کر بین الاقوامی دنیا کے اندر بھی انقلاب برپا کر دیا۔ فرمایا کسی قوم کو نسل کی بنیاد پر دوسری قوم پر فخر نہیں ہے۔فخر بس اُس پر ہے جو خدا کے قریب ہے۔ خطبہ حجۃ الوداع درحقیقت بین الاقوامی قیادت کے لیے تھا۔ اس خطبے نے تمام ممالک کو اور اِس کرہ ارض پر رہنے والی ہر قوم کو جینے اور جینے دو کا فلسفہ سمجھا دیا کہ نہ کسی کے کام میں مداخلت کرو، نہ اپنے کام میں مداخلت ہونے دو۔ لہذا اگر دنیا کی زندگی ایسی ہو جائے تو پھر وہ نظامِ امن قائم ہوجائے گا۔
اطاعتِ مصطفی میں ڈھلی تحریک
ہر دور اور ہر صدی میں جب انسانی معاشرے پر مصائب وآلام آتے ہیں تو پھر ہر صدی میں ایسی تحریکیں اٹھتی ہیں، جو تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت میں رنگی ہوتی ہیں۔ اُن تحریکوں کا ہر ہر فرد انحراف کو ترک کرکے اطاعت کو اپنا چکا ہوتا ہے۔ پھر وہ اُس صدی میں اِسی طرح انسانی زندگی کے ہر ہر پہلو کو انقلاب آشنا کرتی چلی جاتی ہے۔
سوال یہ ہے کہ صرف منہاج القرآن ہی کیوں تجدیدی جماعت ہے؟ صرف شیخ الاسلام ہی کیوں اِس صدی کے مجدد ہیں؟
اس سوال کا جواب یہ ہے کہ انقلاب ہمہ گیریت اور انقلاب ہمہ گیر تبدیلی کا نام ہے۔ جس صدی میں جو قیادت اور جو جماعت انسانی حیات کے اِسی طرح ہر ہر پہلو کو تبدیل کر رہی ہوگی، بس وہ ذات مجدد اور وہ جماعت تجدیدی جماعت ہے۔
تحریک منہاج القرآن اس لیے ایک تجدیدی تحریک ہے کہ
- جب معاشرے کے اندر لوگ ذہنی انحراف کا شکار تھے، تو اس تحریک نے اُن کو اللہ اور اُس کے رسول کے ساتھ وابستہ کیا۔
- جو ایمان کی سطح پر انحراف کا شکار تھے، اُن کو اطاعت سکھائی اور اُن کے ایمان کو مضبوط کیا ہے۔ وہ دنیا میں اِسی لیے ہر شے پر اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کو ترجیح دیتے ہیں کیونکہ اُن کے ایمان کی سطح پر انقلاب برپا ہوا ہے۔
- تحریک منہاج القرآن اور اس کی قیادت نے اِس سر زمین پاکستان میں سیاسی پہلو کو بھی انقلاب آشنا کیا ہے، لوگوں کو اُن کے حقوق سمجھائے ہیں۔
- تحریک منہاج القرآن نے منہاج ویلفیئر فائونڈیشن کے ذریعے اِس معاشرے کے اندر معاشی انقلاب برپا کرنے کی کوشش کی ہے۔ لوگوں کو سکھایا ہے کہ بخل کی زندگی سے نکلو اور اپنے غریب بھائیوں اور بہنوں کی ایثار وقربانی کے ساتھ مدد کیا کرو۔
- تحریک نے اِسی دور میں لوگوں کی اخلاقی اور روحانی تربیت کے ذریعے اُن کے اندر سے تفاخر، تکبر اور روحانی امراض نکالے ہیں۔ اُنہیں عاجزی و انکساری کرنے والا بندہ بننا سکھایا ہے یہ معاشرتی زندگی میں انقلاب ہے۔
- شیخ الاسلام جہاں انفرادی زندگی میں انفرادی تربیت کر رہے ہیں وہاں اجتماعی زندگی میں منہاج القرآن کے نیٹ ورک کے ذریعے 90 ملکوں کے اندر اجتماعی تربیت کا سامان بھی مہیا کر رہے ہیں۔
- آج پوری دنیا جب مذہب اور قوم کے نام پر دہشت گردی اور قتل وغارت گری کا شکار ہونے لگی، ممالک ایک دوسرے کا عرصہ زندگی تنگ کرنے لگے، ایک دوسرے پر حملے کرنے لگے، ایسے موقع پر شیخ الاسلام نے لوگوں کو احترام انسانیت کا درس دیا ہے، دہشت گردی کو کفر بتایا ہے، اسلام کا روشن چہرہ روشناس کروایا ہے اور لوگوں کو دوسرے لوگوں کا اور دوسرے مذاہب کا احترام کرنا سکھایا ہے۔
- آقا علیہ السلام کے اُس ہمہ گیری انقلاب کو بھی ذہن میں رکھیں کہ ّآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کس کس پہلو کو انقلاب آشنا کیا اور پھر اسوۂ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر عمل پیر ا ہوتے ہوئے منہاج القرآن اور شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاھر القادری کی کاوشوں کو دیکھیں تو یہ امر واضح ہوجاتا ہے کہ انسانی معاشرے کا ہر وہ پہلو جس میں تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انقلاب برپا کیا وہ پہلو منہاج القرآن کے دائرہ کار اور اُس کے کام سے خارج نہیں ہے۔ ہر پہلو پر آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت کی اتباع آج اِسی طرح انقلاب برپا کرنے کی کاوشیں جاری ہیں۔
منہاج القرآن کی ہمہ گیریت کا راز
یہ سب کیسے ممکن ہوا؟ یہ تب ہی ممکن ہوتا ہے جب سب سے پہلے انسان بطور شخص اپنے آپ کو انحراف کی زندگی سے نکال کر اطاعت کی زندگی میں ڈھال لے۔ اپنی زندگی کے ہر ہر پہلو کو تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت اور حضور کی سنتوں اور تعلیمات سے رنگ لے اور احادیث مبارکہ کا مظہر بن جائے۔ اُس کے بعد وہ ایسا خوشبو دار درخت بن جانا ہے کہ جہاں بھی جاتا ہے معاشرے کو بھی انقلاب آشنا کرتا ہے۔
یاد رکھیں! انقلاب انسان کی انفرادی زندگی اور ذات سے شروع ہوتا ہے۔ پھر اجتماعی زندگی کو انقلاب میسر آتا ہے اور یہ تب ہی ممکن ہوتا ہے، جب اُس سے محبت ہو، جس کی اطاعت کی جا رہی ہے، بغیر محبت کے اطاعت مشکل ہو جاتی ہے، خوف سے تھوڑا عرصہ کام چلتا ہے، لیکن محبت ہوجائے تو پھر کوئی سامنے ہو یا نہ ہو، کام چلتا رہتا ہے۔
منہاج القرآن کے جملہ منصوبہ جات در حقیقت ایک مشق ہیں جو بار بار کرکے ہم اپنے دل کو یہ سمجھاتے ہیں کہ ہم سب آقا علیہ السلام کے دین کے نوکر اور خادم ہیں۔ وہ ہمارے محبوب ہیں۔ ہم ان ہی سے پیار کرتے ہیں۔ یہ محبت اِتنی پختہ اور کامل ہوجائے کہ پھر ہمیں اطاعت کرنے میں آسانی ہو جائے اور زندگی کا ہر ہر لمحہ اور ہر ہر عمل ہم اطاعتِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ڈھالتے چلے جائیں۔
ماخوذ از ماہنامہ منہاج القرآن، اکتوبر 2018ء
تبصرہ