بڑھتی ہوئی انتہاپسندی اور قرآنی فلسفہ اعتدال
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں امتِ محمدی کو ایک معتدل امت قرار دیا جو کسی بھی معاملے میں حد سے تجاوز نہیں کرتی، سورۃ البقرہ میں یہ الفاظ اس طرح بیان ہوئے ہیں ’اور (اے مسلمانو!) اسی طرح ہم نے تمہیں (اعتدال والی) بہتر امت بنایا تاکہ تم لوگوں پر گواہ بنو اور (ہمارا یہ برگزیدہ) رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تم پر گواہ ہو‘۔ اعتدال اور رواداری کی اعلیٰ انسانی خصوصیات ہمیں ریاستِ مدینہ کے ماڈل میں اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ نظر آتی ہیں۔ یہ ماڈل اسلامی ریاست کرۂ ارض پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ویژن، قائدانہ صلاحیتوں اور سیاسی بصیرت کاشاہکار تھی۔ یہ ماڈل اس سے قبل عملی شکل میں دنیا کی تاریخ میں ہمیں کہیں نظر نہیں آتا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہ صرف مکہ کے مہاجرین اور مدینے کے انصار میں اخوت اور بھائی چارے کا رشتہ استوار کر کے مسلم قومیت کا تصور دیا بلکہ بعدازاں مختلف قومیتوں میں بٹے ہوئے یہودی قبائل کو اس میں شامل کر کے ایک ایسی اسلامک ڈیموکریٹک سٹیٹ کی بنیاد رکھی جس میں جملہ مذاہب کے پیروکاروں کے بنیادی حقوق کا تحفظ کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں اپنے مذہبی عقائد کے مطابق عبادات کرنے، یہاں تک کہ خاندانی اقداراور قبائلی رسوم و رواج کے مطابق فیصلے کرنے کی تحریری یقین دہانی کروائی۔ اس تحریری یقین دہانی کو تاریخِ اسلام میں میثاقِ مدینہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ میثاقِ مدینہ بین المذاہب و بین الاقوامی رواداری کی اقدار پر مبنی ایک ایسی دستاویز ہے جسے مسلمان اعتدال پسندی کے دعوے کے حوالے سے قیامت تک کیلئے فخر کے ساتھ پیش کر سکتے ہیں۔ یہ دستاویز قرآنی فلسفہ اعتدال اور ’امت اوسط‘ ہونے کا عملی ثبوت اور اظہار ہے۔ میثاقِ مدینہ کو کائناتِ انسانی کا سب سے پہلا تحریری دستور ہونے کا مقام حاصل ہے۔ صحرائے عرب کے اُمی نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس وقت دنیا کو پہلے جامع تحریری دستور سے متعارف کروایا جب ابھی دنیا کسی آئین یا دستور سے نا آشنا تھی۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری اپنی تصنیف ’’میثاق مدینہ کآئینی تجزیہ‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’اسلام ایک فطری اور وسعت پذیر دین ہے جو اپنی عالمگیریت کے سبب ہر صاحبِ عقل سلیم کو اپنے دائرہ اثر میں لے لیتا ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس دستور کو تحریر کرواتے وقت اسلام کی انہی خصوصیات کو میثاقِ مدینہ کی بنیاد بنایا‘‘۔
میثاقِ مدینہ کے جملہ آرٹیکلز کے مطالعہ سے یہ اخلاقی و روحانی پیغام ملتا ہے کہ اسلامی تعلیمات غیر مسلموں کے ساتھ بھی معاملہ کرتے وقت کسی تنگی اور تعصب کوآڑے نہیں آنے دیتیں۔اسلامی نظام حیات میں احترامِ انسانیت، اصلاحِ معاشرہ اور فرد کے عقائدی رجحانات اور قبائل (ممالک)کی مسلّمہ اقدار و ثقافت کو تحفظ دیا گیا ہے۔ میثاقِ مدینہ کی دستاویز کی اساس اصلاحِ معاشرہ، امن عامہ، جان و مال کے تحفظ اور نیکی و خیر کے پیغام کو فروغ دینے میں ہے۔ اصلاحِ احوال و معاشرہ کے نبوی تصور کو سمجھنے کیلئے بیعتِ عقبیٰ اولی کے 7 نکات کو سمجھنا ہوگا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ بیعت 7 نکات پر لی:
- اللہ وحدہ لاشریک کی عبادت کریں گے۔
- چوری سے باز رہیں گے۔
- زنا نہیں کرینگے۔
- اولاد کو قتل نہیں کرینگے۔
- کسی پر جھوٹی تہمت نہیں لگائیں گے۔
- چغلی نہیں کھائیں گے۔
- ہر اچھی بات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت کریں گے۔
ایک مثالی، فلاحی معاشرہ کیلئے ان نکات کی آج بھی اہمیت دو چند ہے۔ اس پہلی بیعت کے اصول سے یہ بات سمجھ آجانی چاہیے کہ اسلام ایک پرامن ضابطہ حیات ہے اور فساد فی الارض کی نفی کرنے والا دین ہے۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری سے نومبر کے دوسرے ہفتے میں تحریک منہاج القرآن کے ضلعی ناظمین، نائب ناظمین و صدور نے خصوصی ملاقات کی۔ اس ملاقات کے دوران گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے فرمایا کہ جتنے بھی پیغمبرانِ خدا مختلف زمانوں اور امتوں میں مبعوث ہوئے، انہوں نے سوسائٹی میں موجود ظلم و بربریت اور انتہائی رویوں کو کم کرنے اوراعتدال پر مبنی سوچ کے حوالے سے ’’سپیس‘‘ بڑھانے کی سعی کی۔ اس باب میں خاتم النببین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیغمبرانہ مساعی سب سے زیادہ ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی ظاہری حیات میں اپنے مبارک اعمال و افعال میں ’’امت اوسط‘‘ کے قرآنی و ربانی حکم کا عملی پیکر تھے۔ میثاقِ مدینہ کی دستاویز کے علاوہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مبارک حیات کے متعلق ہزاروں احادیث مبارکہ موجود اور محفوظ ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میانہ رو اور اعتدال پسند تھے اور یہی پیغام اور تعلیمات امت محمدیہ کیلئے ہیں۔
ہم گزشتہ ایک دہائی سے دیکھ رہے ہیںکہ اسلامی معاشرہ میں فکری تنگ نظری اور انتہاپسندی کو داخل کیا جارہا ہے، یہ انتہاپسندی اور تنگ نظری محض اتفاق نہیں ہے بلکہ اس باطل فکر کے ڈانڈے خارجیت سے ملتے ہیں۔ جب تک پیغمبرِ خدا موجود تھے تو اعتدال اور رواداری کے پیغام کو عام کیا جاتا رہا۔ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد سوسائٹی میں اعتدال کی سپیس کو قائم رکھنے کی ذمہ داری خلفائے راشدین، امت کے علماء، محققین،محدثین کو تفویض ہوئی مگر افسوس آج اعتدال پسندی کی پیغمبرانہ فکر کو نقصان پہنچانے والے عناصر کی بہتات ہے۔ اسلام کے نام پر بے گناہوں کی جانیں لینے کی خارجی روش عام ہو رہی ہے۔ اسلام جس نے مسلم اور غیر مسلم کے جان، مال، کاروبار، عقائد، قبائلی رسومات اور جملہ کمیونیٹیز کے تحفظ کے تصور کی بنیاد رکھی، آج اسی اسلام کے نام پر جلاؤ گھیراؤ ہوتا ہے، عوام کے جان و مال اور کاروبار سے کھیل کھیلا جاتا ہے، زندگی کے پہیے کو جام کر دیا جاتا ہے، وہ نبی برحق صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جن کی شان عفو و درگزر تھی، احترامِ انسانیت تھی، جن کی زبان سے دشمنوں کی اصلاح اور ہدایت کیلئے ہمیشہ دعاؤں کے پھول گرے، اسی پیغمبرِ امن و سلامتی کے نام پر عوام کا جینا دوبھر کرنے والے ایک لمحہ کیلئے اپنے اس رویّے پر ضرور غور کریں کہ وہ انسانی زندگی کو داؤ پر لگا کر کن کے عزائم کی تکمیل کا ذریعہ بن رہے ہیں؟ ایسے تمام احباب کیلئے یہ دعوت ہے کہ وہ اعتدال اور رواداری کے فلسفے کو اگر سمجھنا چاہتے ہیں تو وہ ریاستِ مدینہ کی دستاویز کا صدقِ دل سے مطالعہ کریں۔ الحمدللہ رواں صدی میں تحریک منہاج القرآن دنیا کی واحد اسلامی، اصلاحی، علمی، تجدیدی تحریک ہے جو اعتدال اور رواداری کے پیغمبرانہ مشن کو لے کر آگے بڑھ رہی ہے اور سوسائٹی میں موجود انتہاپسندی کے برعکس اعتدال کی سپیس کو بڑھانے کیلئے دن رات کوشاں ہے۔(نوراللہ صدیقی)
ماخوذ از ماہنامہ منہاج القرآن، دسمبر 2018ء
تبصرہ