تعلیمی پالیسی قومی مزاج، تاریخ اورثقافت سے ہم آہنگ ہو
آزاد بن حیدر
قیامِ پاکستان سے قبل 10 سال کا عرصہ سخت ترین سیاسی کشمکش کا دور تھا، مسائل اور مشکلات میں گھرے قائداعظم محمد علی جناح رحمۃ اللہ علیہ نے ان حالات میں بھی مسلمانانِ ہند کو تعلیم کی اہمیت و افادیت سے نہ صرف آگاہ کیا بلکہ نظامِ تعلیم کی تشکیل اور اس کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے اس سمت بھرپور توجہ دی۔ 1943ء میں قیام پاکستان کو یقینی جانتے ہوئے آپ نے ایک کمیٹی تشکیل دی جسے پاکستان میں تعلیمی اور معاشی منصوبہ بندی کا کام سونپا گیا، اسے پلاننگ کمیٹی کا نام دیا گیا تھا جسے 24 تا 26 دسمبر 1943ء کو کراچی میں منعقد ہونے والے آل انڈیا مسلم لیگ کے سیشن میں منظور کیا گیا تھا۔ اس کمیٹی کو یہ ٹاسک دیا گیا تھا کہ وہ مفت بنیادی تعلیم کے پروگرام کو روبہ عمل لانے کیلئے اقدامات تجویز کرے۔ (افسوس قائداعظم رحمۃ اللہ علیہ کے نام پر مسلم لیگیں بنانے اور 30 سال تک ملکی تقدیر سے کھیلنے والی سیاسی اشرافیہ نے 70 سال کے بعد بھی اس خواب کو پورا نہ ہونے دیا)۔
قیام پاکستان کے بعد بانی پاکستان نے 27 نومبر 1947ء کو منعقد ہونے والی پہلی تعلیمی کانفرنس ’’آل انڈیا محمڈن ایجوکیشن کانفرنس‘‘ کے نام ایک پیغام ارسال کیا تھا، جس میں انہوں نے فرمایا:
’’ آپ جانتے ہیں کہ صحیح قسم کی تعلیم کی اہمیت پر جتنا زور دیا جائے کم ہے، اگر ہمیں ترقی کرنا ہے تو ہمیں سنجیدگی کے ساتھ تعلیم کے مسئلے کو حل کرنا چاہیے، ہمیں اپنی تعلیمی پالیسی اور پروگرام کی تشکیل ان خطوط پر کرنی چاہیے جو ہمارے قومی مزاج کے مطابق ہو اور ہماری تاریخ اور ثقافت سے ہم آہنگ ہو۔ اس کے ساتھ ساتھ موجودہ دور میں جو زبردست ترقی دنیا میں ہوئی ہے، اسے بھی اپنا نظامِ تعلیم وضع کرتے وقت سامنے رکھنا چاہیے‘‘۔
تعلیمی ادارے اور قائداعظم کی وصیت
آزاد بن حیدر لکھتے ہیں کہ بانی پاکستان نے اپنی حق حلال کی کمائی سے جو پیسہ جمع کیا اس رقم کا ایک بڑا حصہ تعلیمی اداروں کیلئے وقف کیا۔ وہ اپنا ایک ایک پیسہ کس طرح جمع کرتے تھے، اس کی صرف ایک مثال ہی پیش کی جارہی ہے:
ممبئی الیکٹرک کمپنی نے ان کے گھر میں بجلی کی مرمت کیلئے 5 روپے کا تخمینہ دیا لیکن کام کے بعد جب بل بھیجا تو وہ 10روپے کا تھا۔ قائداعظم رحمۃ اللہ علیہ نے اسے نوٹس بھیجا اور آخر کار ممبئی الیکٹرک کمپنی کو صرف 5 روپے ہی اداے کیے۔
قائداعظم رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی وصیت 30 مئی 1939ء کو تحریر فرمائی جس کے مطابق انہوں نے 25 ہزار روپے انجمن اسلام سکول ممبئی کیلئے مختص کیے، 50 ہزار روپے ممبئی یونیورسٹی کیلئے اور 25 ہزار روپے عریبک کالج دہلی کیلئے مختص فرمائے۔ بقیہ رقم کا ایک حصہ علی گڑھ یونیورسٹی، دوسرا حصہ اسلامیہ کالج پشاور اور تیسرا حصہ سندھ مدرسہ کراچی کیلئے مختص فرمایا۔
برطانوی پارلیمنٹ کے ایک رکن ایڈورڈ لائن نے وکٹوریا ہال فریڈفورڈ انگلستان میں ان کی زندگی کے اس پہلو کو ان کی تعلیمی کاوشوں کے تناظر میں دیکھتے ہوئے لکھا:
’’جناح تعلیم کے بہت بڑے حامی تھے، اپنی پوری زندگی انہوں نے تعلیم کی اہمیت پر زور دیا۔ یہ کوئی اتفاق نہیں کہ انہوں نے اپنی حیثیت سے ساری دولت تعلیمی اداروں کے نام کر دی، یہ ان کا ایسا پیغام تھا جسے سب ہی ہمیشہ یاد رکھیں گے‘‘۔
یہ تھی وہ عظیم قائد کی علم سے محبت۔
قائداعظم کی فکر اور نظریہ کے امین
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے اکتوبر 2014ء میں مینار پاکستان لاہور کے سائے میں ایک عظیم الشان جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ ہم جناح کا پاکستان تلاش کررہے ہیں اور اب پاکستان میں صرف جناح ازم چلے گا۔ پڑھنے والے اس بات سے اچھی طرح واقف ہیں کہ جب شیخ الاسلام یہ اعلان فرمارہے تھے تو اس وقت منہاج ایجوکیشن سوسائٹی کے زیر اہتمام وہ ملک بھر میں 600 سے زائد تعلیمی ادارے قائم کر چکے تھے۔ اس کے علاوہ ایک چارٹرڈ یونیورسٹی اور منہاج گرلز کالج جیسے بے مثال تعلیمی ادارے قائم کر چکے تھے۔
اسلام واحد مذہب ہے جس نے ہر مرد و زن پر حصول تعلیم کو فرض قرار دیا اور وحی الٰہی کا پہلا حرف بھی اقراء تھا۔ بانی پاکستان نے اپنا تعلیمی ویژن اسی قرآنی فکر سے لیا تھا۔ بانی پاکستان کا یہ ویژن تھا کہ پاکستان کی خوشحالی تعلیم کے فروغ میں ہے۔ یہی ویژن شیخ الاسلام ڈاکٹر محمدطاہرالقادری کا ہے۔ آپ وہ واحد شخصیت ہیں جنہوں نے حکومت میں آئے بغیر کم آمدنی والے لاکھوں خاندانوں کو سستی اور معیاری تعلیم کی فراہمی کو یقینی بنایا اور منہاج القرآن کے تعلیمی ادارے فروغِ علم میں دن رات کوشاں ہیں۔ پاکستان کی اشرافیہ کو اللہ توفیق دے تو وہ اپنے احوال پر نگاہ دوڑائیں کہ جس پاکستان کے صدقے انہیں اعلیٰ ترین مناصب ملے انہوں نے ان مناصب کو غریب کے بچے سے تعلیم چھیننے کیلئے استعمال کیا۔ بانی پاکستان اپنی عمر بھر کی کمائی تعلیمی اداروں کو دے کر گئے اور یہ بدبخت تعلیمی اداروں کی کمائی لندن میں محلات تعمیر کرنے پر خرچ کرتے رہے۔
ماخوذ از ماہنامہ منہاج القرآن، دسمبر 2018ء
تبصرہ