ماہِ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عملی تقاضے
عین الحق بغدادی
وہ مہینہ جس میں اللہ رب العزت نے اپنی مخلوق کے لیے نبیِ آخر الزمان صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھیج کر کائنات پر احسانِ عظیم فرمایا اورجس ماہ کے آتے ہی ہر مومن کا دل خوشیوں سے کھِل اٹھتا ہے، اس ماہِ ربیع الاول کی آمدآمد ہے۔اس ماہ میں بالخصوص محافلِ میلاد کا انعقاد کرنا اور ذکر و نعت کا اہتمام کرنا ہر مسلمان اپنے ایمان کا حصہ سمجھتا ہے۔اس تحریر میں یہ سمجھنے کی کوشش کی جائے گی کہ جہاں ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات کے ساتھ اپنی محبتوں کا اظہار محافل کے انعقاد کی صورت میں کرتے ہیں، وہاں حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام کے اسوہ کو اپنے روزمرہ کے امور میں عملی صورت میں اپنا کر کس طرح معاشرے کو امن و سلامتی اور خیر و برکت والا بنا سکتے ہیں ۔
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت میں اللہ تعالیٰ کی معرفت ہے
ذات باری تعالیٰ خالق و مالکِ کائنات ہے۔ وہ ازل سے ہے، جس کی کوئی ابتدا نہیں۔۔۔ وہ ابد تک ہے، جس کی کوئی انتہا نہیں۔۔۔ وہ زندہ ہے مگر اس کی زندگی کی کوئی مثال نہیں۔۔۔ وہ علیم ہے، مگر اس کا علم ذاتی ہے۔۔۔ وہ ہر جگہ ہے مگر کسی جگہ سے خاص نہیں۔۔۔ وہ سب کو دیکھتا ہے مگر اسے کوئی نہیں دیکھ سکتا۔۔۔ اس کی ذات عقل و خرد کے دائرے سے باہر ہے۔گویا وہ ذاتِ باری تعالیٰ ہمارا مالک و رازق ہے، ہم ہر وقت خشوع و خضوع سے اس کی بارگاہ میں جھکے رہتے ہیں مگر اس ذات کو ہم اس مخبر صادق کے ذریعے جانتے اور پہچانتے ہیں جنہیں نبی آخر الزمان اور خاتم المرسلین بنا کر بھیجا گیا۔گویا جب تک مخبر صادق(حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات) پر ہمارا ایمان پختہ نہیں ہو گا،ذاتِ باری تعالیٰ پر ہمارا ایمان پختہ نہیں ہو سکتا۔
اللہ رب العزت نے قرآن کی صورت میں دستورِ حیات دیا، جو احکامِ شرعی کی صورت میں ہمارے پاس محفوظ ہے۔ان احکام پر عمل کرنے کا پہلا تقاضا محبتِ الہٰی ہے، جس کا مطلب ہے کہ ہم جب ان احکام پر عمل کریں تو محبت و رضائے الہٰی کے پہلوؤں کو مدنظر رکھیں۔ اس عمل سے ہمیں دنیوی و اخروی کامیابی ملے گی۔
سوال یہ ہے کہ جس ذات کو نہ ہم نے دیکھا، نہ ہم سمجھ سکتے ہیں، اس ذات سے بن دیکھے محبت کیسے ہوجائے اس لیے کہ محبت کا تقاضا ہے کہ انسان محبوب کے حسن و جما ل کا دیدار کرے،جب جلوۂ محبوب محب پر آشکار ہوجاتا ہے تو وہ محبوب کے گفتار و کردار کو اپنانا شروع کر دیتا ہے۔ ہم جس رب کی ذات کا حسن و جمال دیکھ نہیں سکتے تو اس کے احکام پر محبت سے عمل کیسے کریں گے؟ محبت کا ایک تقاضا یہ بھی ہے کہ جیسے محبوب عمل کرتا ہے ویسے ہی مُحب کرتا ہے۔جب ہم نے اللہ کا عمل دیکھا نہیں، تو ہم ویسا عمل کر کیسے سکتے ہیں؟
اللہ رب العزت نے انسان کی فطرت کے اسی تقاضے کے پیشِ نظر ایک ایسی محبوب ہستی پیدا فرمائی کہ گویا اپنی مخلوق پر احسان کر دیا۔ویسے تو دنیا کی ہر نعمت اللہ کا احسان ہے، مگر حضور خاتم المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پیدا فرما کر اس نے کائنات پر اپنا یہ احسان جتا بھی دیا۔ ارشاد فرمایا:
لَقَدْ مَنَّ ﷲُ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ بَعَثَ فِیْهِمْ رَسُوْلاً.
’’بے شک اللہ نے مسلمانوں پر بڑا احسان فرمایا کہ ان میں انہی میں سے (عظمت والا) رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) بھیجا‘‘۔
(آل عمران: 164)
ہر کوئی ذات الہٰی کو سمجھنے کی جستجو میں تھا، مگر اس ذات نے اپنے اظہار و پہچان کیلئے نبیِ برحق کو مبعوث فرما کر حضرتِ انسان پر احسان کیا اور پھر بنی نوعِ انسان کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان سے اپنی توحید کا پیغام دیا کہ
قُلْ هُوَ ﷲُ اَحَدٌ. ﷲُ الصَّمَدُ. لَمْ یَلِدْ وَلَمْ یُوْلَدْ. وَلَمْ یَکُنْ لَّهٗ کُفُوًا اَحَدٌ.
’’(اے نبی مکرّم!) آپ فرما دیجیے: وہ اﷲ ہے جو یکتا ہے۔ اﷲ سب سے بے نیاز، سب کی پناہ اور سب پر فائق ہے۔ نہ اس سے کوئی پیدا ہوا ہے اور نہ ہی وہ پیدا کیا گیا ہے۔ اور نہ ہی اس کا کوئی ہمسر ہے‘‘۔
(اخلاص، 112: 1تا4)
گویا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان سے ایسی توحید کا ذکر کروایا، جس نے تو حید کے بارے میں پہلے سے موجود فرسودہ عقائد و تصورات کی نفی کر دی۔
گویا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد (ولادت) کے صدقے میں ہمیں پہلا تحفہ تو حید کا ملا اور میلاد پاک کا پہلا تقاضا بھی یہی ہے کہ ہم حضور علیہ السلام کے ذریعے ہی توحید کو سمجھیں اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات و تعلیمات کے ذریعے ہی بارگاۂ الہٰی تک رسائی حاصل کریں۔
میلادِ پاک کا دوسرا عملی تقاضا یہ ہے کہ جس طرح ہم نے توحید حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان سے سیکھی اسی طرح محبتِ الہٰی بھی ذات ِمصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سیکھیں۔ اپنی ذات سے محبت کروانے کا اصول بھی ہادیِ برحق نے قرآن کی صورت میں بزبانِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سکھا دیا فرمایا:
قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اﷲَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اﷲُ وَیَغْفِرْلَکُمْ ذُنُوْبَکُمْط وَاﷲُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌo
’’(اے حبیب!) آپ فرما دیں: اگر تم اﷲ سے محبت کرتے ہو، تو میری پیروی کرو، تب اﷲ تمہیں (اپنا) محبوب بنا لے گا اور تمہارے لیے تمہارے گناہ معاف فرما دے گا، اور اﷲ نہایت بخشنے والا مہربان ہے‘‘۔
(آل عمران: 31)
اگر اللہ سے محبت کرنا چاہتے ہو تو جو میں کہوں اور جو میں کروں اسکی پیروی کرو،نتیجتاً اللہ تم سے محبت کرنے لگ جائے گا۔ یعنی نیت ہماری اللہ سے محبت کرنے کی تھی، مگر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیروی کرنے سے ہمیں اللہ تعالیٰ کا محبوب بننا بھی نصیب ہو گیا۔اگر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اقوال،افعال اور اعمال کی پیروی نہ کی تو اللہ سے محبت بھی نصیب نہیں ہوگی، مگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیروی کرنے سے ایک تو ہمارے دل میں اللہ کی محبت پیدا ہو گی مگر ساتھ ساتھ ہی اللہ تعالیٰ بھی ہم سے محبت کرنے لگ جائیگا۔ اس کا فائدہ بھی حضور کے فرمانِ عالیشان سے معلوم کرتے ہیں۔حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
اَلْمَرْءُ مَعَ مَنْ اَحَبَّ.
’’آخرت میں بندہ اسی کے ساتھ ہوگا جس کے ساتھ اسکی محبت ہوگی‘‘۔
(صحیح بخاری، باب علامة حب فی الله، کتاب الادب، ج: 5، ص: 2283، رقم:5816)
اس سے یہ ثابت ہوا کہ اگر ہم میلاد پاک کے ذریعے اللہ تعالیٰ کے احسان کو صحیح طور پر سمجھ کر اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کریں گے، تو یقینا آخرت میں ان کا ساتھ بھی نصیب ہوگا، ان شا اللہ۔
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عمل کو اللہ تعالیٰ نے اپنا عمل قرار دیا
اللہ تعالیٰ کی ذات کسی ایسے عمل سے بھی پاک ہے جو ہماری سمجھ میں آ جائے۔ جب اللہ تعالیٰ نے اپنی ربوبیت کے اظہار اور اپنی محبت کے اظہار کیلئے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پیدا فرمایا تو وہاں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عمل کو بھی اپنا عمل قرار دیا۔فطری تقاضا ہے کہ محبوب کے عمل کو دیکھ کر ویسا ہی کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔دنیاوی محبت کا تقاضا بھی یہی ہے کہ انسان محبوب کے عمل کو دیکھ کر ویسا ہی عمل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔اب اللہ تعالیٰ کی ذات کسی مجسّم صورت میںظاہر ہونے سے رہی کہ ہم اس کے عمل کو دیکھ سکیں، ایسی صورت میں اس تشنگی کو پورا کرنے کیلئے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عمل کو اللہ رب العزت نے اپنا عمل قرار دے دیا ۔فرمایا:
وَمَا رَمَیْتَ اِذْ رَمَیْتَ وَلٰـکِنَّ ﷲَ رَمٰی.
’’اور (اے حبیبِ محتشم!) جب آپ نے (ان پر سنگ ریزے) مارے تھے (وہ) آپ نے نہیں مارے تھے بلکہ (وہ تو) اللہ نے مارے تھے‘‘۔
(الانفال: 17)
اللہ رب العزت نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیعت کو اپنی بیعت قرار دے دیتے ہوئے فرمایا:
اِنَّ الَّذِیْنَ یُبَایِعُوْنَکَ اِنَّمَا یُبَایِعُوْنَ ﷲَ یَدُﷲِ فَوْقَ اَیْدِیْهِمْ.
’’(اے حبیب!) بے شک جو لوگ آپ سے بیعت کرتے ہیں وہ اﷲ ہی سے بیعت کرتے ہیں، ان کے ہاتھوں پر (آپ کے ہاتھ کی صورت میں) اﷲ کا ہاتھ ہے‘‘۔
(الفتح: 10)
جن لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ پر بیعت کی گویا کہ انھوں نے اللہ کی بیعت کی کیونکہ جس کے ساتھ محبت کی جاتی ہے اس کے اسوہ کو اپنایا جاتا ہے۔ جب اللہ تعالیٰ کی ذات ہمارے سامنے کسی مجسّم صورت میں موجود نہیں تو پھر ہم کس کے اسوہ کو اپنائیں کہ جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کی جاسکتی ہے۔ اس کیلئے بھی اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں ہمیں اصول بتادیا۔ فرمایا:
لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ ﷲِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَنْ کَانَ یَرْجُو ﷲَ وَالْیَوْمَ الْاٰخِرَ وَذَکَرَﷲَ کَثِیْرًاo
’’فی الحقیقت تمہارے لیے رسول اﷲ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات) میں نہایت ہی حسین نمونۂِ (حیات) ہے ہر اُس شخص کے لیے جو اﷲ (سے ملنے) کی اور یومِ آخرت کی امید رکھتا ہے اور اﷲ کا ذکر کثرت سے کرتا ہے‘‘۔
(الاحزاب: 21)
گویا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسوہ کو اپنانے کا حکم ربِ کریم کی طرف سے دیا جارہا ہے۔اسی طرح اللہ تعالیٰ کی ذات سے محبت کرنے اور اس کے بتائے ہوئے دستورِ حیات پر عمل کرنے اور اللہ کے اخلاق کو اپنانے کا طریقہ کیا ہے؟یہ راستہ بھی ام المومنین سیدہ عائشہj نے ہماری رہنمائی کے لیے ہشام بن عامرg کو بتاتے ہوئے فرمایا:
کان خلقه القرآن.
’’آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اخلاق قرآن تھا‘‘۔
(مسند احمد بن حنبل، ج: 6، ص: 91، رقم: 24645)
اللہ رب العزت نے انسانیت کو تخلیق کرنے کے بعد ان کی رہنمائی کیلئے کچھ کاموں کے کرنے کا حکم دیا اور یہ بھی بتا دیا کس کے کرنے میں بہتری ہے اور کس کے چھوڑنے میں فائدہ ہے۔یہ سب کچھ احکام کی صورت میں کتابِ مبین میں بیان فرما دیا گیا مگر ساتھ ہی ساتھ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھی قانون سازی کا اختیار دے دیا، فرمایا:
وَمَآ اٰتٰـکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْهُ وَمَا نَهٰکُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوْا.
’’جو کچھ رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) تمہیں عطا فرمائیں سو اُسے لے لیا کرو اور جس سے تمہیں منع فرمائیں سو (اُس سے) رُک جایا کرو‘‘۔
(الحشر: 7)
اللہ تعالیٰ عدل کرنے اور فیصلہ کرنے والا ہے، مگر اس ذات نے واضح فرمان جاری کر دیا کہ:
فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْئٍ فَرُدُّوْهُ اِلَی ﷲِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاﷲِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ ذٰلِکَ خَیْرٌ وَّاَحْسَنُ تَاْوِیْلاً.
’’اگر کسی مسئلہ میں تم باہم اختلاف کرو تو اسے (حتمی فیصلہ کے لیے) اللہ اور رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی طرف لوٹا دو اگر تم اللہ پر اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتے ہو، (تو) یہی (تمہارے حق میں) بہتر اور انجام کے لحاظ سے بہت اچھا ہے‘‘۔
(النساء: 59)
گویا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فیصلہ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہے۔سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اس پر اس وقت مہر ثبت کر دی جب ایک یہودی اور مسلمان کے تنازع میں حضور خاتم المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دلائل و شواہد کی بنا پر فیصلہ یہودی کے حق میں کر دیا تو مسلمان اپنا کیس سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس لے گیا۔ جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو پتہ چلا کہ اس مقدمے کا فیصلہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرما چکے ہیں مگر مسلمان کو قبول نہیں، تو آپ رضی اللہ عنہ نے ایسے مسلمان کا سر قلم کر دیا اور فرمایا:
’’ایسے شخص کے بارے میں میرا ایسا ہی فیصلہ ہوتا ہے جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فیصلہ نہ مانتا ہو‘‘۔
اس واقعہ کو امام بیضاوی، امام ابن الجوزی، امام نسفی اور امام سیوطی نے اپنی اپنی تفاسیر میں بیان کیا ہے ۔جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہمارے لئے قانونِ شریعت کا درجہ رکھتا ہے، تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے واضح الفاظ میں ہمیں یہ قانونی معیار مہیا کر دیا ہے۔حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِهِ لَا یُؤْمِنُ أَحَدُکُمْ حَتَّی أَکُونَ أَحَبَّ إِلَیْهِ مِنْ وَالِدِهِ وَوَلَدِهِ وَالنَّاسِ اَجْمَعِیْن.
’’اس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے، آپ میں سے ہر کوئی اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک میں اُسے اس کے والدین، اولاد اور تمام لوگوں سے بڑھ کر محبوب نہ ہوجاؤں‘‘۔
(بخاری، باب اطعام الطعام من الاسلام، کتاب الایمان، ج: 1، ص: 14، رقم: 15)
گویا اللہ رب العزت نے حضور کی محبت کو بزبان رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دنیا کی ہر چیز سے مقدم و عزیز قرار دے دیا،کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کرنے کا مطلب اللہ سے محبت کرنا ہے۔
قارئین محترم! ماہِ میلاد شریف کی آمد آمد ہے۔حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا میلاد منانا، اس میں خوشی کا اظہار کرنا اور اللہ تعالیٰ کی نعمتِ عظمیٰ کا شکر ادا کرنا ہمارا فرض منصبی ہے ،مگر اسکے ساتھ ساتھ میلاد شریف کا یہ بابرکت مہینہ ہمیں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات کے ساتھ والہانہ عشق و محبت میں ان کے اسوہ و اخلاق کو اپنانے کی بھی دعوت دیتاہے۔ اس انسانی معاشرے میں ہمیں جو بھی مسائل در پیش آتے ہیں یا ہم جو کام بھی سر انجام دیتے ہیں، ان سب کاموں کو اگر ہم سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تابع کر دیں تو ہماری زندگی سنور جائے گی۔ہمارا سونا، جاگنا ، کھانا پینا، رزقِ حلال کمانا، اولاد کی پرورش کرنا، رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی کرنا، مظلوم کی مدد کرنا، سیاسی امور انجام دینا، معاشرتی و مذہبی سرگرمیوں میں حصہ لینا،افراد اور معاشرے کی کردار سازی کرنا اور ان کی فنی صلاحیتوں میں مہارت پیدا کرنا الغرض دنیا کا کوئی ایسا کام نہیں جس کی مثال ہمیں اسوۂ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نہ ملے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم رسم و رواج سے نکل کر وفا کے درجے پر آ جائیں اور اپنے ہر کام کو سنت کے تابع کر دیں۔مجھے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا فرمایا ہوا وہ جملہ یاد آتا ہے جس میں آپ نے استقبالِ ماہِ میلاد اور میلاد مہم کے دوران کارکنان سے فرمایا تھا کہ آپ کا ہدف یہ ہونا چاہیے کہ:
’’میلاد کو رسم سے نکال کر وفا کے درجے تک لائیں‘‘۔
اس لئے اس ماہ ِمیلاد کا عملی تقاضا ہے کہ ہم اپنے عمل کو سنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تابع کریں۔کھانا بھوکے پیٹ کی ضرورت ہے مگر بسم اللہ سے اس کی تاثیر ہی بدل جائے گی بشرطیکہ حلال ہو۔ اولاد پر خرچ کرنا، ان کی کفالت کرنا ہماری ضرورت ہے لیکن اگر اسے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بتائے ہوئے طریقے کے تابع کردیں گے تو نتائج کچھ اور ہوں گے۔گویا اپنی زندگی کے روز مرہ معمولات اور معاملات میں اسوہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنانا میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عملی تقاضا ہے۔
ماخوذ از ماہنامہ منہاج القرآن، نومبر 2018ء
تبصرہ