انتہا پسندی کے خاتمے کیلئے ناانصافی کا خاتمہ ضروری ہے: ڈاکٹر حسین محی الدین
دہشتگردی دو ملکوں کے تعلقات خراب کرنے کیلئے بطور ہتھیار بھی استعمال ہورہی ہے
بیڈگورننس اور مذہب کا سیاسی استعمال انتہا پسندی کی بڑی وجوہات ہیں
’’انتہاپسندی کے خاتمے میں طلبا کا کردار‘‘ کے موضوع پر بین الاقوامی کنونشن سے خطاب
لاہور (19 اپریل 2019) منہاج یونیورسٹی لاہور کے بورڈ آف گورنرز کے ڈپٹی چیئرمین ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے کہا ہے کہ انتہا پسندی کے خاتمے کیلئے ہر قسم کی ناانصافی اور استحصال کا خاتمہ ضروری ہے، بیڈگورننس اور مذہب کا سیاسی استعمال انتہاپسندی کے فروغ کی بڑی وجوہات ہیں، دہشت گردی دو ملکوں کے تعلقات خراب کرنے کیلئے بطور ہتھیار بھی استعمال ہورہی ہے، جامع اصلاحات ناگزیر ہیں۔ وہ مقامی ہوٹل میں ’’معاشرے میں انتہا پسندی اور تشدد کے خاتمے میں طلباء کے کردار‘‘ کے موضوع پر منعقدہ دوسرے سالانہ بین الاقوامی طلباء کنونشن میں خطاب کررہے تھے۔ کنونشن میں پرائیویٹ سیکٹر کی یونیورسٹیز کے طلباء و طالبات اور منہاج یونیورسٹی کے فکلیٹی ممبران کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی۔
ڈاکٹر حسین محی الدین نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ غربت، جہالت، بیروزگاری اور مذہب کی غلط تشریح بھی انتہا پسندی اور دہشت گردی کے پھیلاؤ کا ایک بڑا سبب ہے۔ انہوں نے کہا کہ نفسیاتی سائنس بتاتی ہے کہ انسان کا جیسا مزاج ہو گا وہ اپنے اطراف اور ماحول سے ویسے سگنل وصول کرے گا، اگر سوچ متوازن اور مثبت ہو گی تو اس کا ذہن مثبت فیصلے صادر کرے گا اور اگر سوچ منفی ہو گی تو انسان کو مثبت چیزیں بھی منفی رنگ میں دکھائی دیں گی، لہٰذا ایک متوازن اور مثبت سوچ کی تشکیل پرکام کرنا ہو گا، اس کا آغاز ابتدائی تعلیم سے شروع ہو جانا چاہیے، بچوں کو بامقصد تعلیم و تربیت کے ذریعے منفی رجحانات اور متشدد رویوں سے بچایا جا سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ دہشت گردی سے نمٹنے کیلئے دو طریقے ہیں ایک گولی کا جواب گولی اور دوسرا برداشت، رواداری اور ایک دوسرے کے نکتہ نظر کو سمجھنے اور بات چیت کرنے سے ہے، دہشت گردی کو گولی سے ختم کرنے کیلئے بہت آپریشن اور جنگیں ہوئیں اب ایک موقع بات چیت کو بھی ملنا چاہیے، ایک دوسرے کی بات سننے اور سمجھنے سے رواداری جنم لیتی ہے، بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں عدم برداشت بہت بڑھ گئی۔
انہوں نے مزید کہا کہ پنجاب میں 100 کے قریب ایسے مدارس ہیں جہاں پر سیاسی دفاتر بھی ہیں، یہیں سے مذہب کے سیاسی استعمال اور ذاتی مفاد کے حصول کا دروازہ کھلتا ہے، مدارس اور تعلیمی نصاب میں بلاتاخیر جامع اصلاحات لانا ہوں گی، حکومتوں کی بیڈگورننس، اقرباپروری، نااہلی اور قومی وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم سے بھی مایوسی اور بے یقینی جنم لیتی ہے جو آگے جا کر انتہا پسندی اور دہشت گردی کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔
انہوں نے انتہا پسندی اور دہشتگردی کے خاتمے کیلئے تجاویز دیتے ہوئے کہا کہ مدارس اور تعلیمی نصاب میں اصلاحات لائی جائیں، معاشی ناہمواری کا خاتمہ کیا جائے، دولت کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بنایا جائے، بھٹکے ہوئے لوگوں کو بات چیت کے ذریعے قومی، سیاسی، سماجی، معاشی دھارے میں لایا جائے، اساتذہ کے ساتھ ساتھ والدین بچوں کی سرگرمیوں پر کڑی نظر رکھیں، انہیں کالعدم اور مشکوک تنظیموں کا ممبر بننے سے روکیں، قرآن و حدیث کے صحیح فہم اور تعلیمات کو فروغ دیا جائے، مذہبی حلقوں کے اندر موجود عطائیت کا خاتمہ ہونا چاہیے تبھی امن قائم ہو سکے گا اور تعلیمی، اقتصادی اورخوشحالی ترقی کے اہداف حاصل ہو سکیں گے۔
تبصرہ