بچوں کا استحصال ایک معاشرتی المیہ

گزشتہ ایک عشرہ کے دوران پاکستان میں معصوم بچوں کے ساتھ بداخلاقی کے بعدانہیں جان سے مار دینے کے واقعات میں حیرت انگیز حد تک اضافہ نظر آیا ہے۔ بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات کی خبریں تواتر کے ساتھ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کی زینت بنتی رہتی تھیں مگر اربابِ اختیار کی توجہ اس المیہ کی جانب اس وقت مرکوز ہوئی جب قصور میں معصوم بچی زینب کے ساتھ بداخلاقی اور پھر اسے سفاکانہ انداز سے قتل کر دئیے جانے کا واقعہ پیش آیا۔ اس واقعہ کو بھی دیگر واقعات کی طرح ’’روٹین کیس‘‘ کے طور پر لیا گیا اور لواحقین کی طرف سے تشویش کے باوجود پولیس نے روایتی بے حسی دکھائی۔ زینب کی جب لاش ملی اور اس کی نماز جنازہ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے پڑھائی تو گویا پوری دنیا کے میڈیا کی نظریں زینب کے ساتھ پیش آنے والی درندگی کے انصاف پر مرکوز ہو گئیں۔ قصور پولیس نے اس واقعہ کو دبانے کیلئے روایتی ہتھکنڈے اختیار کیے اور متعدد مظاہرین پولیس کی گولیوں کا نشانہ بھی بنے۔

زینب کو انصاف دلوانے میں جہاں سول سوسائٹی نے متحرک کردار ادا کیا وہاں منہاج القرآن کے سوشل میڈیا سیل نے بھی اس واقعہ کو دنیا بھر میں اجاگر کرنے کیلئے اہم کردار ادا کیا۔ منہاج سائبر ایکٹیوسٹ کی طرف سے لانچ کیا گیا ہیش ٹیگ ’’جسٹس فار زینب‘‘ ورلڈ ٹاپ ٹرینڈ بن گیا اور پھر آرمی چیف سے لیکر چیف جسٹس سپریم کورٹ تک سب زینب کو انصاف دلوانے کے لیے ایک پیج پر نظر آئے۔ ’’بڑوں‘‘ کی ذاتی دلچسپی سے بالآخر زینب کا قاتل فرانزک تجزیوں کے بعد گرفتار ہوا اور سپیڈی جسٹس کے تحت پھانسی چڑھا۔ توقع کی جارہی تھی کہ زینب کے قاتل کی پھانسی سے اور رائے عامہ کے متحرک ہونے کی وجہ سے معصوم بچوں کو تحفظ ملے گا مگر ایسا نہ ہوسکا۔

یکے بعد دیگرے مزید واقعات ہوتے رہے اور حال ہی میں ضلع قصور کی تحصیل چونیاں میں بھی معصوم بچوں کے ساتھ درندگی کے واقعات پیش آئے۔ ایک بار پھر پولیس کی روایتی بے حسی آڑے آئی اور ان واقعات کی بازگشت پورے پاکستان میں سنی گئی اور ایک بار پھر ملک بھر کی فضاء سوگوار نظر آئی۔ بہرحال حکومت کی کوششوں سے چونیاں کے معصوم بچوں کا قاتل بھی پکڑا گیا اور جلد اپنے عبرتناک انجام سے دو چار ہو جائے گا۔

سوال یہ ہے کہ اسلامی ملک پاکستان میں بچے غیر محفوظ کیوں ہیں؟ آخر تربیت اور حفاظت میں کون سا وہ خلا ہے جس کی وجہ سے ہمارے بچے سوسائٹی میں موجود درندہ صفت عناصر کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔ آخر اس ظلم اور بربریت کا کوئی اختتام بھی ہے؟

اس ضمن میں منہاج القرآن انٹرنیشنل کے قائد شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے بچوں کی تربیت اور والدین کی ذمہ داریوں کے متعلق بچوں کے ساتھ پیش آنے والے تربیتی مراحل کے حوالے سے انتہائی مفید کتب تحریر کی ہیں، ان کتب کے مطالعہ سے والدین کو بچے کی پیدائش سے لے کر 16 سال کی عمر تک کے بچوں کی نفسیات کے بارے میں انتہائی آسان پیرائے میں مفید معلومات سے آگاہ کیا گیا ہے۔ان کتب کا ہر والد اور والدہ کو مطالعہ کرنا چاہیے۔

ان میں سے ایک کتاب ’’بچوں کی تعلیم و تربیت اور والدین کا کردار‘‘ ہے۔ یہ کتاب 2 سال سے 10 سال کی عمر کے بچوں کی تربیت اور ان کی نفسیات سے متعلق ہے۔ اس کتاب کی خوبصورتی یہ ہے کہ یہ سوال و جواب کی شکل میں مرتب کی گئی ہے۔ کم و بیش ہر سوال کا جواب اس کتاب میں موجود ہے۔ بچوں کی حفاظت کی جتنی ذمہ داری ریاست کی ہے، اس سے زیادہ ذمہ داری والدین کی بھی ہے۔ والدین کا کام صرف بچے پیدا کرنا نہیں بلکہ اصل ذمہ داری ان کی نگہداشت اور تعلیم و تربیت کی ہے۔

بچوں کی حفاظت کے باب میں والدین کے بعد اساتذہ کا کردار قابلِ ذکر ہے۔ سوسائٹی، عزیز و اقارب سب کا ایک کردار ہے اور شاید اس کردار کی ادائیگی کا حق ٹھیک طرح سے ادا نہیں ہورہا جس کی وجہ سے ہمیں آئے روز معصوم بچوں کے ساتھ پیش آنے والے درندگی کے واقعات سے پالا پڑتا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے تحریک منہاج القرآن کو اصلاحِ احوال، تزکیہ نفس اور احیائے دین کی عالمگیر تجدیدی توفیق سے نوازا ہے۔ اصلاحِ احوال کے باب میں معصوم بچوں کی تربیت کو بھی پیش نظر رکھا گیا ہے۔

بچوں کی تربیت کے سلسلہ میں ڈاکٹر حسین محی الدین قادری صدر منہاج القرآن انٹرنیشنل نے بھی ’’بچوں کا استحصال‘‘کے عنوان سے ایک تحقیقی کتاب تحریر کی ہے، اس کتاب کے بارے میں وثوق سے کہا جاسکتا ہے کہ اس موضوع پر اس سے قبل جامع کتاب مرتب نہیں ہوئی۔ اس کتاب میں والدین کی لاپروائی، ریاست کی غیر ذمہ داری اور سوسائٹی کی بے حسی پر اعداد و شمار کے ساتھ بحث کی گئی ہے۔ ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے اپنی اس تحقیقی کتاب میں بچوں سے متعلق قرآن مجید کی تعلیمات کے بارے میں آگاہی دی ہے۔ انہوں نے اپنی کتاب کے صفحہ 78 پر اسلام میں یتیم کے حقوق کے عنوان سے ایک باب باندھا ہے، جس میں انہوں نے لکھا ہے کہ اسلام نے یتیم بچوں کے حقوق پر بہت زور دیا ہے۔ انہوں نے اپنی تحقیق سے بتایا کہ قرآن حکیم میں 23 مقامات پر یتیم کا ذکر آیا ہے۔ قرآن مجید نے یتیم کا مال کھانے اور انہیں دھتکارنے سے منع کیا ہے۔ سورۃ النساء میں ارشاد باری تعالی ہے:

’’بے شک جو لوگ یتیموں کا مال ناحق کھاتے ہیں وہ اپنے پیٹوں میں آگ بھرتے ہیں‘‘۔

یتیم کے مال کا تحفظ درحقیقت اسے در در کی ٹھوکریں کھانے سے بچاتا ہے۔ سورۃ الضحیٰ میں اللہ رب العزت نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  سے خطاب فرمایا:

’’سو آپ بھی کسی یتیم پر سختی نہ فرمائیں‘‘۔

اسی طرح سورۃ الماعون میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:

’’کیا آپ نے اس شخص کو دیکھا ہے جو دین کو جھٹلاتا ہے تو یہ وہ شخص ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے‘‘

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کا ارشاد پاک ہے:

’’مسلمانوں میں سب سے اچھا گھر وہ ہے جس میں کوئی یتیم ہو اور اس کے ساتھ نیک سلوک ہو‘‘۔

ایک موقع پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے فرمایا:

’’ قسم ہے اس ذات کی جس نے مجھے حق کے ساتھ مبعوث فرمایا، اللہ تعالیٰ روز قیامت اس شخص کو عذاب نہیں دے گا جس نے یتیم پر شفقت کی، اس کے ساتھ نرمی سے گفتگو کی‘‘۔

یتیم اور لاوارث بچے سب سے زیادہ سوسائٹی کے استحصالی رویوں کا شکار ہوتے ہیں۔ سبحان اللہ دین فطرت نے پیشگی اس برائی کے سدباب کی گائیڈ لائن مہیا کر دی ۔

ڈاکٹر حسین محی الدین نے اپنی کتاب میں استدلال کرتے ہوئے نشاندہی کی کہ ہم ان بچوں کے لیے فکر مند رہتے ہیں جو والدین کے زیر کفیل ہوتے ہیں مگر سوسائٹی کے ان بچوں کی کسی کو پروا اور فکر نہیں ہے جو بے گھر ہوتے ہیں یا بے گھر کر دئیے جاتے ہیں۔یہ بچے ہمیں بھیک مانگتے، کوڑا کرکٹ اٹھاتے، جبری مشقت کرتے نظر آتے ہیں۔ ان بچوں کا سوسائٹی کا بالادست یا جرائم پیشہ ذہنیت رکھنے والا طبقہ استحصال کرتا ہے اور انہیں اپنی کمائی کا ذریعہ بناتا ہے۔ افسوس ریاست نے اس باب میں اپنی ذمہ داریوں کو اس انداز میں پورا نہیں کیا جس کی اشد ضرورت ہے۔ یہی بچے حالات کے رحم و کرم پر پلتے اور بڑھتے ہیں اور بعض اوقات انتہا پسند گروپوں کے ہتھے بھی چڑھ جاتے ہیں۔

بچوں کے مختلف النوع استحصال کے حوالے سے ڈاکٹر حسین محی الدین قادری کی کتاب ’’بچوں کا استحصال‘‘ مکمل معلومات فراہم کرتی ہے۔ اس کا مطالعہ بچوں کے حقوق سے متعلق انتہائی مفید اعداد و شمار اور حقائق سے ہم آہنگ کرتا ہے۔

بچوں کے عالمی دن کے موقع پر حکومت کو چاہیے کہ:

  • وہ بچوں کی تعلیم و تربیت، نگہداشت کے حوالے سے قرآن و سنت کی تعلیمات ،ملکی قوانین اور عالمی معاہدات پر عملدرآمد کرے۔
  • بچوں سے جبری مشقت کی ہر شکل کو ختم کیا جائے۔
  • چائلڈ لیبر کا خاتمہ کیا جائے۔
  • سب سے بڑھ کر یہ کہ آئین کے آرٹیکل 25A کے تحت 5 سے 16 سال کی عمر کے ہر بچے کو ریاست مفت تعلیم فراہم کرنے کی ذمہ داری کو پورا کرے۔ 10 سال گزرنے کو ہیں آئین کے اس آرٹیکل پر عملدرآمد نہیں ہوا۔
  • ماضی کی حکومتوں نے چائلڈ لیبر کے حوالے سے جتنی بھی پالیسیاں بنائیں ان پر عملدرآمد ہونا چاہیے۔
  • غیرحکومتی تنظیموں کے زیر اہتمام چلنے والے یتیم خانوں کے معاملات پر بھی حکومت کو نظر رکھنی چاہیے۔
  • منہاج القرآن کا امتیاز یہ ہے کہ جہاں یہ علمی و فکری رہنمائی دیتا ہے وہاں فلاحی سرگرمیاں بھی اس کا طرہ امتیاز ہیں۔ اس سلسلہ میں منہاج ویلفیئر فائونڈیشن کے زیر اہتمام آغوش آرفن کیئر ہوم ایک ایسا ادارہ ہے جو یتیم بچوں کی کفالت کرتا ہے۔ آغوش آرفن کیئر ہوم نجی شعبہ میں اپنی مدد آپ کے تحت چلنے والا واحد ادارہ ہے جس میں یتیم بچوں کو گھر کے باہر گھر کا ماحول مہیا کیاجاتا ہے۔ ان کی تعلیم و تربیت کا خیال رکھا جاتا ہے۔ یہ ادارہ کشمیر میں آنے والے زلزلہ کے نتیجے میں یتیم ہونے والے بچوں کی تعلیم و تربیت کے لیے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے تعمیر کروایا تھا۔ دعویٰ سے یہ بات کہی جا سکتی ہے یتیم اور بے سہارا بچوں کی نگہداشت ،تعلیم و تربیت اور حفاظت کے ضمن میں ایسا کوئی ادارہ موجود نہیں۔ حکومت اور نجی شعبہ میں بچوں کی تعلیم و تربیت کے حوالے سے کام کرنے والے اداروں اور تنظیموں کے لیے دعوتِ عام ہے کہ وہ آغوش آرفن کیئر ہوم (ہمدرد چوک ٹائون شپ لاہور) کا وزٹ کریں اور اس ماڈل کو قریب سے دیکھیں، یقینا ان کے عزم اور کام میں بہتری آئے گی۔

تبصرہ

ویڈیو

Ijazat Chains of Authority
Top