فکر شیخ الاسلام: شمائل نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سراپا مبارک
لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْٓ اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ.
’’بے شک ہم نے انسان کو بہترین (اعتدال اور توازن والی) ساخت میں پیدا فرمایا ہے۔‘‘
(التین، 96: 4)
اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا بے شک ہم نے انسان کو بہترین صورت پر پیدا فرمایا ہے یہ آیت کریمہ یہ شہادت دے رہی ہے کہ ساری کائنات میں اللہ رب العزت نے جس قدر مخلوقات پیدا کی ہے ان میں شکل و صورت کے اعتبار سے سب سے زیادہ حسین و جمیل مخلوق انسان کو بنایا ہے۔
انسانی اعضاء ہاتھ، آنکھ، کان کے باقی اعضا کے باہمی تناسب سے جو شکل سامنے آتی ہے اس کو انسانی صورت کہا جاتا ہے اور اگر کسی اعضاء کے تناسب میں بے اعتدالی نہ ہو تو اسے حسن صورت کہا جاتا ہے اسی طرح انسانی شخصیت کے اوصاف سے اس کی عادات تشکیل پاتی ہے اگر وہ اوصاف اچھے ہوں تو انہیں حسن سیرت کہا جاتا ہے تو گویا انسانی شخصیت کی ایک ظاہر ہے اور ایک اس کا باطن ہے۔
سیرت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کمال:
تاریخ انسانی میں وہ ہستیاں جن کو اللہ نے ظاہری اور باطنی صورت و سیرت ہر اعتبار سے منتہائے کمال تک فائز کیا ہے۔ وہ انبیاء علیہم السلام کی ہستیاں ہیں لیکن وہ ہستی جس کی ظاہر اور باطن میں کوئی مثل نہیں وہ سیدنا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات گرامی تھی۔ اللہ نے نبی کو حسن صورت اور سیرت میں یکتائے کائنات بنایا تھا۔ سارے ظاہری حسن جو ہر سمت بکھرے پڑے ہیں سارے کے سارے حسن اللہ نے اپنے دست قدرت سے سمیٹے تو صورت مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بن گئی۔
کیا شانِ احمدی کا چمن میں ظہور ہے
ہر گُل میں ہر شجر میں محمد کا نور ہے
اس کائنات میں سیرت و صورت کے حسن ہر جگہ منتشر ہیں لیکن حضور کی سیرت و صورت میں آکر سارے مجتمع ہوجاتے ہیں چنانچہ حضور کا کمال صرف حضور کی سیرت کے کمال کے باعث نہیں ہے بلکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صورت طیبہ کے باعث بھی ہے۔ چہرہ انسان کی سیرت کا آئینہ دار ہوا کرتا ہے۔ صورت چونکہ ظاہر ہے اور سیرت باطن ہے۔
صورت پر تو ہر ایک کی نظر پڑتی ہے کوئی قریب آئے یا نہ آئے اس لیے اللہ رب العزت نے سیرت کے حسن سے بھی پہلے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صورت کے حسن و جمال کو مقدم کیا۔ آئمہ کرام محدثین عظام اور فقہاء کرام نے بیشتر بزرگوں نے صراحت کے ساتھ یہ بات لکھ دی ہے کہ اہل ایمان کا اعتماد اور ایمان اس وقت تک کامل نہیں ہوسکتا جب تک حضور کی سیرت کے باطنی حسن کو تمام دنیا کے انسانوں کی سیرتوں سے بلند و بالا نہ سمجھے۔ اسی طرح یہ باور کرلیا جائے کہ روئے زمین پر بلکہ تمام کائنات میں دنیا کا کوئی حسن حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسن وجمال کے برابر پیدا نہیں ہوسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ اہل دل کہتے ہیں:
حسنِ یوسف دمِ عیسیٰ یدِ بیضا داری
آنچہ خوباں ہمہ دارند تو تنہا داری
اللہ نے یوسف علیہ السلام کو حسن عطا کیا۔ عیسیٰ علیہ السلام کو پھونک عطا کی کہ مُردوں کو زندگی اور تازگی نصیب ہوجائے۔ موسیٰ علیہ السلام کو اللہ نے ہاتھ کا معجزہ عطا کیا۔ یہ سارے حسن ہر جگہ منتشر ہیں لیکن اے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو ظاہری حسن بھی نکتہ کمال پر نظر آتے ہیں اور باطنی کمالات بھی۔
کمالِ حُسنِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم:
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وہ حسن جس کا ذکر احادیث میں ملتا ہے وہ حسن حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حسن کُلی نہ تھا بلکہ حسنِ مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جلوؤں میں سے ایک ادنیٰ سا جلوہ تھا اگر خدا کی ذات حسنِ مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حسن کے سارے پردے ہٹادیتی تو کسی صحابی کی آنکھ میں یہ تاب نہ تھی کہ چہرہ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نظارہ کرسکتا۔
حدیث صحیح ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے فرمایا تھا کہ میرے صحابیو! میری امت میں ایک مردِ درویش ہے جس کا نام اویس رضی اللہ عنہ ہے اور وہ شہرِ قرن کا رہنے والا ہے وہ اپنی ماں کی خدمت میں اتنا مگن ہے کہ میرے زمانے میں ہوکر بھی میرے دیدار کے لیے نہیں آسکا۔ تم تلاش کرکے میرے اویس رضی اللہ عنہ کے پاس جانا۔ اپنی اور میری امت کی مغفرت کی دعا کروانا۔
چونکہ حکم نبی تھا اس لیے دونوں صحابی حضرت اویس رضی اللہ عنہ کے پاس تشریف لے گئے حضرت اویس رضی اللہ عنہ سے گفتگو ہوئی تو حضرت اویس رضی اللہ عنہ نے پوچھا کیا آپ نے محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا ہے؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جواب دیا اویس رضی اللہ عنہ ہم نے تو 23 برس حضور کو جی بھر کے دیکھا ہے۔ حضرت اویس رضی اللہ عنہ مسکرا دیئے فرمایا اے عمر رضی اللہ عنہ اور علی رضی اللہ عنہ اس رب کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے تم نے محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جلوے کا ایک پر تو دیکھا ہے لیکن محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نہیں دیکھا۔
اس ارشاد کو امام جلال الدین سیوطی الخصائص الکبریٰ میں نقل فرمایا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے ابوبکر رضی اللہ عنہ میرے حقیقی حسن کو اب تک اس دھرتی پر آج تک نہ کوئی جان سکا ہے اور نہ کوئی جان سکے گا۔ اللہ نے کسی کو وہ بصارت ہی نہیں عطا کی۔
حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسن سراپا کو بیان کرتے ہوئے قسم کھا کر کہتے ہیں: خدا کی قسم اس کائنات میں جتنی بھی حسین چیزیں دکھائی دیتی ہیں میرے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جیسی حسین نہیں۔
حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ ایک یہودی تھے وہ اپنے مسلمان ہونے کا سبب بیان کرتے ہیں۔ ایک مرتبہ مدینہ شہر سے ایک قافلہ کا گزر ہوا ۔ اس قافلے کے پاس ایک اونٹ بھی تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اونٹوں کی تجارت بھی فرمایا کرتے تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اونٹ پسند آگیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قافلے والوں سے اونٹ کا سودا کرلیا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس اس وقت قیمت نہ تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اونٹ لے کر چل دیئے اور فرمایا میں تھوڑی دیر میں قیمت بھجوا دیتا ہوں۔ قافلے والوں نے نہ حضور سے نام پوچھا اور نہ پتہ جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چل دیئے تو قافلے والے لوگوں نے ایک دوسرے سے کہا! تم نے اونٹ دے دیا مگر اس شخص کے نام تک کی خبر نہیں، معلوم نہیں یہ قیمت بجھوائے گا بھی یا نہیں، خدا جانے وہ وعدہ میں سچا بھی ہوگا یا نہیں جب قافلے میں چہ میگوئیاں شروع ہوگئیں۔ قافلے کے سردار کی بیوی بڑی معزز خاتون تھی وہ کہنے لگی قافلے والو میری بات سنو! اس جوان کے کردار پر شک مت کرو میں نے اس کے چہرے کو دیکھا ہے وہ اس قدر حسین تھا۔ خدا کی قسم اتنا حسین و جمیل چہرہ والا شخص وعدہ میں جھوٹا نہیں ہوسکتا۔
اگر تمہیں اعتماد نہیں میری بات پر تم خاموش ہوجاؤ اگر اس حسین نے اونٹ کی قیمت نہ بھیجی تو میں اس کی قیمت اپنی جیب سے ادا کردوں گی بس اتنی گفتگو ہو ہی رہی تھی کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کھجوروں کی صورت میں اونٹ کی قیمت بھی بھیج دی اور سارے قافلے والوں کا کھانا بھی بھیج دیا یہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسن سراپا کا مجموعی تاثر تھا جو دیکھنے والے کو پہلی نظر سے ہی محسوس ہوجاتا تھا۔
مدحتِ سراپا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم:
حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ نے بھی ایک نظر سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسن سراپا کو دیکھا فرمانے لگے یارسول اللہ
واجمل منک لم ترقط عینی واحسن منک لم تلد النسآء
خلقت مبرا من کل عیب کانک قد خلقت کما تشآء
پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سراپے کے ایک ایک گوشے کو دیکھا ہے۔ ایک ایک پہلو پر نظر ڈالی ہے یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! اس اللہ کی قسم جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسن کا خالق ہے آج تک کسی نظر نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جیسا حسین چہرہ نہیں دیکھا۔ آج تک کسی ماں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جیسا جمیل بیٹا پیدا نہیں کیا، آقا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہر نقص اور عیب سے اتنے پاک نظر آتے ہیں کہ دل کہتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ کی بارگاہ سے خود اپنی پسند کے مطابق اپنے جسم کو تخلیق کروایا ہے۔
امام شرف الدین بوصیری رحمۃ اللہ علیہ اسی حسن وجمال کو بیان کرتے ہیں:
پیارے اس اللہ نے تری صورت کو بنایا تو اسے بھی کامل کردیا تیری سیرت کو بنایا تو اسے بھی کامل کردیا بنانے والے نے تیری صورت اور سیرت کا نقشہ کس کس طرح تراشا تھا کہ بناکر خود بنانے والے کو تیری صورت پر پیار آگیا۔
اللہ نے ہر نعمت کو بانٹا ہے مگر یوں لگتا ہے کہ حسن تجھے ہی دیا ہے اور کسی کو نہیں دیا پھر جو بھی حسین ہوا ہے دنیا میں وہ تیرے حسن کے تصدق، تیرے توسل اور تیرے حسن کی جھلک کے پر تو سے حسین ہوا ہے۔
امام بوصیری رحمۃ اللہ علیہ پندرہ سال سے فالج زدہ تھے یہ قصیدہ آقا علیہ السلام کی شان میں لکھا رات کو بستر پر سوئے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود تشریف لے آئے اور فرمایا بوصیری وہ شعرجو تونے میرے قصیدے کے لکھے ہیں آج میرا جی چاہتا ہے کہ میں بیٹھوں اور تو میرے سامنے جھوم جھوم کر سنائے عرض کیا یارسول اللہ! میں تو پندرہ سال سے فالج زدہ ہوں بستر سے اٹھ نہیں سکتا کس طرح اٹھ کے سناؤں۔ آقا علیہ السلام نے دست شفقت پھیرا اور بوصیری شفا یاب ہوگئے اٹھ کر حضور کے قدموں میں بیٹھ گئے، قصیدہ بردہ سنایا۔ حضور نے جھوم جھوم کر یہ قصیدہ سنا اتنی خوشی ہوئی اپنی چادر تحفہ میں عطا کردی۔ پندرہ سال کے بعد امام بوصیریؒ گھر سے باہر نکلے۔ ایک گرد آلود بالوں والا، ایک فقیر گلی سے گذر رہا تھا جبکہ اس قصیدے کے لکھے جانے کا علم دنیا کے کسی فرد و بشر کو نہ تھا۔ اس درویش نے آواز دی بوصیری! تو آپ ٹھہر گئے وہ آکے کہنے لگا بوصیری وہ رات والا قصیدہ مجھے بھی سناتا جا۔ آپ کہنے لگے اے مرد درویش تجھے کس نے بتادیا۔ کہنے لگا اے بوصیری! جب میرے آقا علیہ السلام تیری زبان سے قصیدہ سن کر جھوم رہے تھے میں بھی قصیدہ کا ایک ایک لفظ سن رہا تھا لیکن بے ادبی تھی اس بارگاہ میں آجاتا۔ اب دل چاہتا ہے کہ اس قصیدے کا ایک ایک لفظ سنوں۔
اشرف علی تھانوی لکھتے ہیں کہ اس قصیدہ کی شہرت ہوگئی۔ بادشاہ وقت نے اس قصیدے کو کاغذ پر لکھ کر اپنے پاس محفوظ کرلیا۔ اطراف و اکناف عالم میں جو لوگ قصیدہ کی شہرت سنتے وہ وہاں آتے اس قصیدہ بردہ کے اوراق اٹھا کر آنکھوں پر رکھتے اور بینا ہوجاتے۔
حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسن کا تذکرہ کچھ یوں فرماتے ہیں چودھویں رات کا چاند چمک رہا تھا ادھر زمین پر ہمارے یعنی نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جلوہ فروز تھے۔ سرخ دھاری دار جوڑا حضور علیہ السلام نے پہن رکھا تھا۔ کہتے ہیں کہ میں دیر تک کبھی چاند کو دیکھتا کبھی حضور کے جسم اطہر کو دیکھتا۔ خدا کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے۔ چودھویں رات کے چمکتے ہوئے چاند سے بھی کہیں زیادہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حسین وجمیل نظر آرہے تھے۔ حضور کے سراپا کا یہ عالم تھا اگر سورج میں بھی باہر نکلتے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جسم مبارک سورج کی روشنی سے بھی زیادہ روشن ہوتا اس لیے سورج چمکتا مگر زمین پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سایہ نہ پڑتا تھا۔ سایہ اس شے کا پڑتا ہے جو روشنی کے مقابلے میں ثقیل ہوتی ہے جو روشنی کے مقابلے میں کم روشن ہوتی ہے۔ اس پر روشنی پڑتی ہے تو سائنس کا قاعدہ ہے کہ سایہ بنتا ہے اگر سورج کی روشنی سے بھی بڑھ کر کسی کا جسم زیادہ روشن ہو زیادہ حسین اور زیادہ لطیف ہو تو روشنی کثیف ہو اور جسم لطیف ہو تو سورج کی روشنی پڑتی ہے مگر زمین پر اس کا سایہ نہیں پڑتا۔ اللہ رب العزت ہمیں اس بیان کی برکات سے ہمکنار کرے۔ آمین
تبصرہ