اچھا اخلاق اچھے مسلمان کی پہچان ہے: ڈاکٹر طاہرالقادری
کالج آف شریعہ اینڈ اسلامک سائنسز کی مارننگ اسمبلی میں طلباء سے خطاب
تعلیم و تربیت کیلئے سکولوں میں مارننگ اسمبلی اور بزم ادب کا احیاء ہونا چاہیے
اچھے اخلاق کے بغیر بڑی ڈگری اور بڑا عہدہ بے کار ہے: قائد منہاج القرآن
لاہور (25 فروری 2020ء) قائد تحریک منہاج القرآن ڈاکٹر محمدطاہرالقادری نے کالج آف شریعہ اینڈ اسلامک سائنسز کی مارننگ اسمبلی میں ویڈیو لنک پر طلباء سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اچھا اخلاق اچھے مسلمان کی پہچان ہے، تربیت کے بغیر حاصل کیا گیا علم نفع بخش نہیں، طلباء خود میں حسن اخلاق پیدا کریں، اخلاق سے مراد یہ ہے کہ دوسروں کی برائیوں پر نظر رکھنے کی بجائے اپنی ذات کا محاسبہ کیا جائے، اچھے اخلاق والا وسیع النظر، وسیع القلب، وسیع الظرف ہوتا ہے، دوسروں میں برائیاں ڈھونڈنے والا اورہر وقت تنقید برائے تنقید سے توجہ حاصل کرنے والا ایمان اور حسن اخلاق کی حلاوت سے محروم رہتا ہے۔ حدیث مبارکہ ہے کہ تم میں سے سب سے بہتر وہ لوگ ہیں جن کے اخلاق اعلیٰ ہیں۔
انہوں نے اپنے خطاب میں کہا کہ اللہ رب العزت نے پیغمبر آخر الزماں ﷺ کو اعلیٰ اخلاق والا قرار دے کر ان کی فضیلت بیان کی۔ اگر کسی کی زندگی میں اچھا اخلاق، اقدار اور حسن ظن نہیں ہے تو بڑی بڑی ڈگریوں، عہدوں، مال و دولت کے باوجود وہ انسانی عظمت کی تعریف پر پورا نہیں اترتا، جس تعلیم و تربیت سے انسان کا اخلاق اچھا نہیں ہوتا وہ بیکارہے، تعلیم کا مطلب اور مقصد اچھا انسان بننا ہے، دوسروں کی تکلیف کو محسوس کرنا اور ان کی تکلیف پر تڑپ اٹھنا ایمان اور اعلیٰ اخلاق کی نشانی ہے۔ اگر کوئی دوسرے کو ناحق تکلیف دے، ایذا پہنچائے تو سمجھ لیں ایمان تو کیا وہ انسانیت کے دائرے سے بھی باہر ہے۔ ہدایت اللہ کے خزانوں میں سے قیمتی خزانہ ہے اور یہ خزانہ ہر کس و ناکس کو مفت میں نہیں ملتا، اللہ کی ہدایت بھی اپنے اخلاق کی حفاظت کرنے والوں کے حصے میں آتی ہے۔
قائد تحریک منہاج القرآن نے کالج آف شریعہ اینڈ اسلامک سائنسز میں ہر روز مارننگ اسمبلی اور اصلاحی، تربیتی خطابات کا اہتمام کرنے پر کالج ایڈمنسٹریشن کو مبارکباد دی۔
انہوں نے کہا کہ ایک زمانہ تھا سکولوں میں باقاعدگی سے صبح کی اسمبلی اور بزم ادب کی محافل سجتی تھیں، یہ اسمبلی اور بزم ادب کی محافل نہ صرف طلباء و طالبات کے سیکھنے، سکھانے کے حوالے سے ایک بہترین تربیتی سیشن ہوتی تھیں بلکہ اس سے طلباء میں چھپا ہوا ٹیلنٹ ابھر کر سامنے آتا تھا۔ بعدازاں یہی مشق طلباء کو عملی زندگی میں بہترین استاد، مقرر، مبلغ، نعت خواں یہاں تک کہ آرٹسٹ بنانے میں بھی معاون ثابت ہوتی تھی۔ طلبہ کی تعلیم و تربیت کیلئے سکولوں میں مارننگ اسمبلی، دعائیہ تقاریب، سپورٹس مقابلوں اور بزم ادب کا احیاء ہونا چاہیے۔
تبصرہ