سپریم کورٹ کے حکم پر احتجاج کی بجائے قانونی چارہ جوئی کا راستہ اختیار کیا: ڈاکٹر طاہرالقادری
ماضی میں ایف آئی آر درج نہ ہونے، جسٹس باقر نجفی کمیشن کی رپورٹ نہ ملنے اور نئی جے آئی ٹی کا مطالبہ پورا نہ ہونے پر احتجاج کیا
کیس اور اپیلیں عدالتوں میں ہیں، سینئر وکیل مخدوم مجید حسین شاہ ایڈووکیٹ کی قیادت میں لیگل ٹیم بھرپور کردار ادا کررہی ہے
سانحہ ماڈل ٹاؤن کیس کی تازہ ترین صورتحال اور حصول انصاف کی جدوجہد پر قائد تحریک منہاج القرآن کی خصوصی گفتگو
قائد تحریک منہاج القرآن ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے کہا ہے کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے انصاف کے 3 احتجاجی فیز تھے۔(1) جب تک ایف آئی آر کا اندراج نہیں ہورہا تھا(2) جسٹس باقر نجفی کمیشن کی رپورٹ پبلک نہیں کی جارہی تھی (3)غیر جانبدار جے آئی ٹی کی تشکیل کا مطالبہ نہیں مانا جارہا تھا تو اس وقت کارکن سراپا احتجاج تھے، احتجاج کے ان تین مراحل کی تفصیل اس طرح سے ہے۔
(1) 2014 ء میں جو احتجاج کیا گیا وہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کی ایف آئی آر درج نہ کرنے پر کیا گیا، یہاں تک کہ اس وقت کی شریف برادران کی حکومت نے عدالتی حکم کے باوجود سانحہ ماڈل ٹاؤن کی ایف آئی آر درج کرنے سے انکار کیا اور پھر دوران احتجاج اس وقت کے آرمی چیف کی متعدد بار مداخلت پر ایف آئی آر کا اندراج ممکن ہو سکا۔
(2) احتجاج کا دوسرا فیز 2015 ء اور 2016 ء کے درمیان جاری رہا،اس وقت مطالبہ تھا کہ جسٹس باقر نجفی کمیشن کی رپورٹ شائع کی جائے، جسٹس باقر نجفی کمیشن اس وقت کی پنجاب حکومت نے جو سانحہ ماڈل ٹاؤن کی ذمہ دار بھی ہے کی درخواست پر تشکیل پایا تھا، کمیشن نے مقررہ مدت کے اندر اپنی رپورٹ مکمل کرکے حسب ضابطہ پنجاب حکومت کو جمع کروا دی تھی لیکن پنجاب حکومت نے اسے پبلک کرنے سے انکار کر دیا تھا اور ہم مسلسل سراپا احتجاج تھے کہ جسٹس باقر نجفی کمیشن کی رپورٹ پبلک کی جائے، بعدازاں لاہور ہائیکورٹ کے حکم پر یہ رپورٹ پبلک ہوئی۔
(3) احتجاج کا تیسرا فیز سانحہ ماڈل ٹاؤن کی غیر جانبدار تفتیش کے لئے نئی جے آئی ٹی بنانے سے متعلق تھا، سابقہ پنجاب حکومت نے انسانیت کے بعد انصاف کا خون کرتے ہوئے خاندانی تابعدار افسران پر مشتمل جے آئی ٹی بنائی جس نے زخمیوں ،سانحہ کے چشم دید گواہان کے بیانات قلمبند کیے بغیر یکطرفہ طور پر چالان تیار کر کے اے ٹی سی میں جمع کروا دیا ،ہمارا موقف تھا کہ نئی جے آئی ٹی بنائی جائے جو کم از کم زخمیوں اور چشم دید گواہان کے بیانات قلمبند کرے، اس قانونی حق کیلئے کارکن مسلسل احتجاج کرتے رہے ،بعدازاں چیف جسٹس میاں ثاقب نثار صاحب نے اس کا نوٹس لیا اور سپریم کورٹ کے لارجر بنچ کے روبرو سانحہ ماڈل ٹاؤن کی نئی جے آئی ٹی تشکیل پائی،اس موقع پر میں نے ذاتی طور پر سپریم کورٹ کے لارجر بنچ کے سامنے پیش ہو کر اپنا موقف پیش کیا، اس دوران سپریم کورٹ کے لارجر بنچ نے نئی جے آئی ٹی کی تشکیل کے بعد مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اب احتجاج کی بجائے قانونی عمل کا حصہ بنا جائے، سپریم کورٹ کے لارجر بنچ کے اس حکم کے بعد اور دیرینہ مطالبہ مانے جانے کے بعد ہم نے احتجاج ختم کر دیا ،اب معاملہ عدالت میں ہے اور اسے قانونی چارہ جوئی سے ہی انجام پذیر ہونا ہے۔ اگرچہ سپریم کورٹ کے لارجر بنچ کے سامنے تشکیل پانے والی جے آئی ٹی کو بعدازاں لاہور ہائیکورٹ نے معطل کر دیا ، نئی جے آئی ٹی کی بحالی کیلئے ہم پھر سپریم کورٹ میں گئے ،سپریم کورٹ نے لاہور ہائیکورٹ کو نیا بنچ تشکیل دینے کا حکم دیا، اب الحمداللہ لاہور ہائیکورٹ میں لارجر بنچ تشکیل پا چکا ہے اور اس کی ایک سماعت بھی ہو چکی ہے، ہمارے وکلاء حصول انصاف کیلئے انسداد دہشتگردی عدالت، لاہور ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ میں قانونی چارہ جوئی کررہے ہیں اور فوجداری مقدمات کے انتہائی سینئر وکلاء اس کیس کی پیروی کررہے ہیں ، لیگل ٹیم کے سربراہ محترم مخدوم مجید حسین شاہ ایڈووکیٹ ہیں۔ اسی لیگل ٹیم کی محنت اور قانونی چارہ جوئی سے ہمارے 93 کارکنان کی ضمانت منظورہوئی جنہیں پولیس نے ناحق جھوٹے مقدمات میں ملوث کر دیا تھا۔
پاکستان کے اندر طاقتور کے مقابلے میں کمزور کے لئے انصاف حاصل کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے، تاہم جب کیس عدالت کے ٹیبل پر آجائے تو پھر عدالت نے ہی فیصلہ سنانا ہوتا ہے، اس کے علاوہ اور کوئی دوسرا فورم نہیں ہوتا۔
بعض شرپسند عناصر یہ تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ احتجاج نہ کرنے کی وجہ سے سانحہ ماڈل ٹاؤن کاانصاف نہیں ہورہا، اس وقت کیس سے متعلق مختلف اپیلیں عدالتوں میں ہیں، کیا عدالتوں کے خلاف احتجاج کیا جائے؟ سپریم کورٹ کے لارجر بنچ کے حکم کے بعد احتجاج کی بجائے سو فیصد قانونی چارہ جوئی پر توجہ مرکوز ہے اور میں ذاتی طور پر روزانہ کی بنیاد پر کیس کی پیشرفت کا جائزہ لیتا رہتا ہوں، ہر تاریخ پروکلاء سے آن لائن میٹنگز ہوتی ہیں اور قانونی چارہ جوئی کے حوالے سے گھنٹوں مشاورت کی جاتی ہے، سانحہ ماڈل ٹاؤن کے کیس کی پیروی کے لئے وکلاء پر مشتمل ایک پورا ڈیپارٹمنٹ قائم کیا گیا ہے اور وہ مسلسل میرے رابطے میں رہتا ہے اور اس سارے امور کی انجام دہی کے لئے کروڑوں روپے کے اخراجات برداشت کئے جارہے ہیں کیونکہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کا انصاف ہماری خواہش نہیں ہمارے ایمان کا حصہ ہے، اس جدوجہد کو آخری سانس تک جاری رکھا جائے گا۔
ہماری لیگل ٹیم کے سربراہ سینئر وکیل مخدوم مجید حسین شاہ ایڈووکیٹ ہیں اور ان کی معاونت کے لئے وکلاء کی ایک پوری جماعت ہمہ وقت موجود رہتی ہے۔
کارکن منفی پروپیگنڈا کا مذکورہ بالا موقف کی روشنی میں بھرپور جواب دیں، کچھ شرپسند عناصر جنہوں نے کبھی سانحہ ماڈل ٹاؤن کے مظلوموں کے لئے کلمہ خیر ادا نہیں کیا اور انہیں جب بھی موقع ملتا ہے وہ کارکنوں کو مایوس کرنے، بددلی پھیلانے کے لئے سوشل میڈیا و دیگر فورمز پر منفی اظہار خیال کرتے رہتے ہیں، ان کے اس پروپیگنڈے کا منہ توڑ جواب دیا جائے، یہ کریڈٹ تحریک منہاج القرآن اور عوامی تحریک کے کارکنان کو جاتا ہے کہ جنہوں نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کے قتل عام کے کیس کو سرکاری فائلوں میں دفن نہیں ہونے دیا اور آج بھی ہم ڈٹ کر قانون کے ہر فورم پر طاقتور قاتلوں سے قصاص مانگ رہے ہیں۔
تبصرہ