محبتِ اولیاء اتباع اور استقامت سے مشروط ہے

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری

اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:

وَ تَرَی الشَّمْسَ اِذَا طَلَعَتْ تَّزٰوَرُ عَنْ کَهْفِهِمْ ذَاتَ الْیَمِیْنِ وَاِذَا غَرَبَتْ تَّقْرِضُهُمْ ذَاتَ الشِّمَالِ وَهُمْ فِیْ فَجْوَةٍ مِّنْهُط ذٰلِکَ مِنْ اٰیٰتِ اﷲِط مَنْ یَّهْدِ اﷲُ فَهُوَ الْمُهْتَدِج وَمَنْ یُّضْلِلْ فَلَنْ تَجِدَ لَهٗ وَلِیًّا مُّرْشِدًا.

’’اور آپ دیکھتے ہیں جب سورج طلوع ہوتا ہے تو ان کے غار سے دائیں جانب ہٹ جاتا ہے اور جب غروب ہونے لگتا ہے تو ان سے بائیں جانب کترا جاتا ہے اور وہ اس غار کے کشادہ میدان میں (لیٹے) ہیں، یہ (سورج کا اپنے راستے کو بدل لینا) اﷲ کی (قدرت کی بڑی) نشانیوں میں سے ہے، جسے اﷲ ہدایت فرمادے سو وہی ہدایت یافتہ ہے، اور جسے وہ گمراہ ٹھہرا دے توآپ اس کے لیے کوئی ولی مرشد (یعنی راہ دکھانے والا مدد گار) نہیں پائیں گے‘‘۔

(الکهف، 18: 17)

عام طور پر ہم اپنے عقیدہ، نظریہ اور سوچ کے حوالے سے دو طرح کے رویوں کا شکار ہیں:

  1. عقیدہ و تصور کی واضحیت نہیں ہے
  2. عقیدہ و تصور پر قرآن سے دلائل پیش نہ کرنا

ان دو امور کی بناء پر کئی طرح کی غلط فہمیاں پیدا ہوتی ہیں۔ ذیل میں ان دونوں امور کی وضاحت درج کی جارہی ہے:

1۔ عقیدہ و تصور کی واضحیت کا ہونا ناگزیر ہے

بعض اوقات دین کے کسی موضوع، مسئلہ یا ایشو پر بعض لوگوں کا خیال، Concept اور تصور Clear (واضح) نہیں ہوتا۔ ان ہی تصورات میں سے ایک تصور ولایت کا بھی ہے۔ کچھ لوگوں کو یہ معلوم ہی نہیں ہے کہ ولایت کسے کہتے ہیں؟ اولیاء کون ہوتے ہیں؟ تصوف کیا ہے؟ کرامات کیا ہیں؟ ان تصورات کی واضحیت نہ ہونے کی بناء پر جب بھی وہ اس حوالے سے کوئی بات کرتے ہیں تو ذہنی الجھائو اور ابہام کا شکار ہونے کی وجہ سے ولایت کے بارے میں بھی مبہم تصورات بیان کرتے ہیں جس سے غلط خیالات اور تصورات جنم لیتے ہیں اور غلط عقائد وجود میں آتے ہیں۔ جس کی وجہ سے کئی لوگ قرآن وحدیث سے مستقل دلائل نہ ہونے کی صورت میں ان عقائدِ صحیحہ کے بارے میں بھی غلط فہمیوں کا شکار ہوجاتے ہیں یہاں تک کہ ان عقائد کو ماننے والے اور ان پر عمل کرنے والے بھی تذبذب کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ان لوگوں کا واسطہ اگر دوسرے عقیدے کے کسی پڑھے لکھے بندے سے ہوجائے اور وہ قرآن و حدیث سے اپنا کیس ان کے سامنے رکھ دے تو ایسے لوگوں کا عقیدہ بہت جلد خراب ہوجاتا ہے۔ لہذا ہمیشہ Concept واضح ہونا چاہیئے کہ یہ خیال، تصور، عقیدہ، نظریہ حقیقت میں کیا ہے۔

2۔ قرآن و سنت سے دلائل کی ضرورت و اہمیت

اسی طرح بعض اوقات Concept تو Clear ہوتا ہے اور درست بات کہتے ہیں مگر درست بات کی دلیل نہایت کمزور دیتے ہیں جس سے مقدمہ ہار جاتے ہیں۔ وکلاء عدالتوں میں کیس لڑتے ہیں، دلائل دیتے ہیں، ایک وکیل کیس جیتتا ہے اور دوسرا ہارتا ہے، اب کیس جیت جانا اس بات کی دلیل نہیں کہ اس کا دعویٰ واقعی درست بھی ہے۔ جیت جانا اس کی مہارت کی دلیل ہے، دعویٰ سچا ہونے کی دلیل نہیں ہے۔ یہ اُس کا فن، ہنر اور پروفیشنل ازم ہے کہ اس نے شاندار طریقے سے پورے کیس کو پیش کیا۔ پوزیشن تیار کی، بہترین Evidence لایا، بے شک دلائل و ثبوت گھڑ کر ہی لایا ہو مگر اس نے اچھے طریقے سے عدالت کی فائل کو بھر دیا، شہادتیں دیں، شاندار فن کے ساتھ دوسرے کے گواہوں کا cross examination کیا، ان کی غلطیاں اور contradictions نکالے۔ اس نے مہارت کا مظاہرہ کرکے جج کے ہاتھ باندھ دیئے۔ جج نے تو فیصلہ لازمی بات ہے کہ دلائل اور گواہوں کے مطابق دینا ہوتا ہے، ذاتی علم کے مطابق وہ فیصلہ نہیں دے سکتا۔ وکیل جو دلائل اس کو دیتا ہے، وہ اس کے مطابق فیصلہ کرتا ہے۔ کئی بار ایسا ہوتا ہے کہ سچا مؤقف رکھنے والے کمزوریوں کی وجہ سے مقدمہ ہار جاتے ہیں اور جھوٹا دعویٰ کرنے والے مقدمہ جیت جاتے ہیں۔

سمجھانا یہ مقصود ہے کہ بعض اوقات کیس اور مقدمہ درست ہوتا ہے، مؤقف درست ہے مگر پیش کرنے والوں نے اس کو پیش بڑے کمزور انداز کے ساتھ کیا، دلائل طاقتور نہیں دیئے اور مضبوط گواہی پیش نہیں کی۔ یہی حال ہمارا اپنے عقائد اور دینی تصورات کے حوالے سے ہے۔جب مقدمہ دین، دینی علم اور دین کے کسی ایک موضوع کا ہو تو اس مقدمے میں سب سے مضبوط گواہ قرآن و حدیث ہوتے ہیں۔ اگر قرآن اور حدیث کی گواہی پیش کردی جائے تو کوئی وکیل اس کو رد نہیں کرسکتا۔ مگر ہوتا کیا ہے کہ ہم ناقابلِ تردید گواہی پیش نہیں کرتے اور دیگر کتابوں کے حوالے پیش کرتے رہتے ہیں۔

مثلاً: عقائد اور دینی تصورات پر دلیل کے طور پر میاں محمد بخش رحمۃ اللہ علیہ کا کلام پیش کر دیا۔ اب میاں محمد بخش رحمۃ اللہ علیہ کا کلام سننے سے ذوق تو پیدا ہوتا ہے، میں خود ذوق سے سنتا ہوں، یہ کلام سننا برا نہیں ہے مگر میں نکتہ یہ سمجھا رہا ہوں کہ اس سے کوئی شرعی مسئلہ تو ثابت نہیں ہوتا۔ جس مسئلہ کو آپ دلیل سے سمجھانا چاہتے ہیں، وہ شرعی مسئلہ تو صوفیانہ کلام سے حل نہیں ہوگا، ہاں، ایک ذوق اور سرور تو اس سے پیدا ہوسکتا ہے۔

اسی طرح تصوف، ولایت، شانِ اولیاء اور شانِ غوث الاعظم رحمۃ اللہ علیہ کو بیان کرتے ہوئے دیگر کتابوں کے حوالے دے دیئے کہ ہمارے فلاں بزرگوں نے یہ کہہ دیا، کرامتیں بیان کردیں، یہ سارا کچھ کردیا مگر قرآن و حدیث، ائمہ سلف صالحین، محدّثین، فقہاء اور ائمہ علم جو اتھارٹی ہیں، ان میں سے کسی ایک کی بھی دلیل نہیں دی، جب اتھارٹیز کا ریفرنس نہیں دیا، دلائل کی بنیاد قرآن و حدیث پر نہیں رکھی تو نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ آدمی جب غلط عقیدہ کے حامل کسی دوسرے آدمی کو سنے گا جو قرآن و حدیث پیش کرتا ہے، اس کا اطلاق بے شک غلط ہو، اس آیت و حدیث کا جوڑ اس مسئلہ سے بنے یا نہ بنے، وہ آیات اور دو چار احادیث پڑھ دے گا، اب سننے والے کو نہ آیات کی سمجھ اور نہ حدیث کی سمجھ، اس نے تو اس سے ہی متاثر ہوجانا ہے کہ یہ تو قرآن و حدیث کی بات کر رہا ہے۔ وہ ان آیات و احادیث کا مسئلہ اور موضوع سے متعلقہ ہونا یا غیر متعلقہ ہونا نہیں دیکھے گا۔ وہ اس کی غلط تفسیر، تشریح کو نہیں دیکھے گا، اس لیے کہ وہ تو عام سطح کا آدمی ہے، وہ دین کو اتنی گہرائی سے جانتا ہی نہیں، وہ تو قرآن و حدیث سن کر اور انہیں متعلقہ مسائل کے قوی دلائل کے طور پر جان کر متاثر ہوجائے گا۔ یعنی جب دوسرا آدمی قرآن و حدیث کو استعمال کرتا ہے، غلط شرح کرتا ہے، ان کا غلط اطلاق کرتا ہے تو وہ آج کی نوجوان نسل اور پڑھے لکھے طبقے کے سامنے مقدمہ جیت جاتا ہے۔

آج اہلِ سنت کے مقدمہ ہارنے کی وجہ یہ ہے کہ ہم لوگوں نے قرآن و حدیث سے استشہاد پیش کرنا اور قران و حدیث کو بطور گواہ پیش کرنا چھوڑ دیا ہے۔ ہم نچلی سطح کے کمزور دلائل اور شہادتیں دیتے ہیں جبکہ دوسرے طبقات نے مؤقف اور دعویٰ غلط ہونے کے باوجود گواہ مضبوط پکڑ لئے، خواہ گواہی اس مسئلہ کے ساتھ مطابقت رکھے یا نہ رکھے مگر وہ مقدمہ جیتتے ہیں اور ہم نے اپنا تعلق قرآن و سنت کے دلائل سے نہ رکھنے کی وجہ سے اپنا سچا اور حق پر مبنی مقدمہ کمزور کر لیا۔

یہی وجہ ہے کہ میں اپنی تصنیف و تالیف، تدریس اور خطابات ہر سہ امور میں کتاب و سنت اور امہات الکتب سے حوالے پیش کرتا ہوں۔ اس طرح میں نے علمی کلچر میں تبدیلی کی عاجزانہ کوشش کی ہے۔ میں اس نظریہ کا قائل ہوں کہ تقریر خالی تقریر نہ رہے۔ خالی تقریر کا کوئی فائدہ نہیں۔شاندار تقریر سنی، واہ واہ کیا، حظ لیا اور چلے گئے۔ راستے میں جاتے ہوئے کہتے گئے کہ ’’کیا کمال کر دیا، واہ واہ، ایسا آج تک سنا ہی نہیں‘‘۔ اس کے بعد اپنے کام دھندے میں مصروف ہوگئے اور کچھ یاد نہ رہا کہ کیا سنا تھا۔ تقریر یاد اس لیے نہ رہی کیونکہ اس میں کچھ تھا ہی نہیں۔ یاد رکھیں لفاظی، الفاظ کی گردان، محض مسجع و مقفع کلام اور جملوں سے عقیدے کی حفاظت نہیں ہوتی اور آنے والے چیلنجز کا مقابلہ اور صحیح عقیدے کا دفاع خالی تقریر سے نہیں ہوتا۔ میں نے روایتی کلچر کو تبدیل کیا ہے۔ تقریر، تدریس اور تحقیق ان تینوں گوشوں میں کتاب و سنت کے حقائق اور امہات الکتب کے مدلل حوالے جات موجود ہوں تاکہ بات سننے اور پڑھنے والے کے لیے ہمیشہ کے لیے قابلِ عمل اور اس کی زندگی کے لیے کافی اور وافی رہے۔

اس کے لیے ہمیں اپنی طبیعتوں میں سنجیدگی پیدا کرنا ہوگی۔ اگلی نسلوں کے ایمان اور عقیدے کی حفاظت کی خاطر علم کے کلچر کی طرف لوٹنا ہوگا۔

اصحاب کہف کے واقعہ سے ولایت اور کرامت کا اثبات

ولایت، تصورِ اولیاء اور کرامات کے حوالے سے چونکہ قرآن و سنت کے دلائل سے چیزیں ثابت نہیں کی جاتیں لہٰذا آج کل یہ رجحان ہوگیا ہے کہ کوئی کرامات بیان کرے تو لوگ سمجھتے ہیں کہ قصے کہانیاں ہیں، من گھڑت ہیں، غلط باتیں ہیں، ان کرامات کا قرآن و حدیث سے کوئی تعلق نہیںہے، یہ پیروں اور مولویوں نے قصے بنا رکھے ہیں۔ آیئے! کرامات، ولایت اور شانِ اولیاء کے مقدمہ کا قرآن و حدیث کی روشنی میں مطالعہ کرتے ہیں:

اصحابِ کہف کا واقعہ ولایت و کرامات کے اثبات میں ایک واضح دلیل ہے۔ اس واقعہ میں اللہ رب العزت نے ولایت اور اولیاء کی شان کے کئی پہلوئوں کو بیان فرمایا ہے۔ اس واقعہ کا مختصر پسِ منظر یہ ہے کہ اصحابِ کہف ایک ظالم بادشاہ کے ظلم سے بچنے اور اپنے ایمان کو بچانے کے لیے ایک غار میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے۔ وہ آرام کرنے کے وہاں لیٹے تو اللہ تعالیٰ نے 309 سال تک اُن پر نیند طاری کردی۔ جس غار میں انہوں نے پناہ لی، اس کا دہانہ (دروازہ) کھلا ہوا تھا۔ اس غار کی Location (وقوع) کچھ اس طرح تھی کہ سورج جب مشرق سے طلوع ہوتا تو تب بھی روشنی اس غار میں پڑتی اور جب مغرب میں غروب ہوتا تو تب بھی سورج کی دھوپ غار میں پڑتی تھی۔ اس پسِ منظر اور صورتِ حال کے تناظر میں رب کائنات نے اپنے اِن اولیاء و صلحاء بندوں کے لیے کیا اہتمام فرمایا، اس حوالے سے شانِ اولیاء کا اظہار درج ذیل پہلوئوں سے سامنے آتا ہے:

1۔ سورج کا اپنا اصل راستہ بدلنا

اﷲ رب العزت شانِ اولیاء کے اظہار کے حوالے سے پہلا اہتمام یہ فرمایا کہ:

وَ تَرَی الشَّمْسَ اِذَا طَلَعَتْ تَّزٰوَرُ عَنْ کَهْفِهِمْ ذَاتَ الْیَمِیْنِ وَاِذَا غَرَبَتْ تَّقْرِضُهُمْ ذَاتَ الشِّمَالِ وَهُمْ فِیْ فَجْوَةٍ مِّنْهُ ذٰلِکَ مِنْ اٰیٰتِ اﷲِ.

’’اور آپ دیکھتے ہیں جب سورج طلوع ہوتا ہے تو ان کے غار سے دائیں جانب ہٹ جاتا ہے اور جب غروب ہونے لگتا ہے تو ان سے بائیں جانب کترا جاتا ہے اور وہ اس غار کے کشادہ میدان میں (لیٹے) ہیں، یہ (سورج کا اپنے راستے کو بدل لینا) اﷲ کی (قدرت کی بڑی) نشانیوں میں سے ہے ‘‘۔

(الکهف، 18: 17)

یعنی سورج طلوع اور غروب کے وقت اپنی اصل راہ پر چلنے کی بجائے دائیں اور بائیں جانب جھک جاتا تھا اور اپنا راستہ چھوڑ دیتا تھا۔ قرآن واضح بیان کررہا ہے کہ وہ اصحاب چونکہ غار کے کھلے میدان میں پڑے تھے، اس وجہ سے تین صدیوں تک اللہ کی طرف سے سورج کو حکم دے دیا گیا کہ تمہارا طلوع و غروب اپنا اصل راستہ چھوڑ کر ہونا چاہئے، تاکہ اس غار میں لیٹے ہوئے میرے اولیاء اور میرے دوستوں کے جسموں کو تکلیف نہ ہو اور انہیں تپش نہ پہنچے۔

بعض ذہنوں میں خیال آتا ہے کہ یہ کوئی کرامت نہ تھی، شاید سورج کا راستہ اور سمت ہی ایسا ہو کہ طلوع کے وقت خود بخود دائیں طرف جھک جاتا ہو اور غروب کے وقت بائیں جانب جھک جاتا ہو۔ لہذا سورج 309 سال تک راستہ سے ان کی خاطر نہیں ہٹتا رہا، بلکہ اس کا راستہ ہی یہی تھا۔

یہ سوچنا غلط ہے۔ اس لیے کہ یہ بیانِ کرامت ہے۔ اگر یہ معمول (Routine) کی بات ہوتی تو اس بات کا تذکرہ ہی نہ کیا جاتا۔ یہ معمول سے ہٹ کر واقعہ تھا، اسی لیے اس کا تذکرہ کرنے کے بعد اﷲ رب العزت نے اس آیت کریمہ میں فرمایا:

ذٰلِکَ مِنْ اٰیٰتِ اﷲِ یعنی سورج کا طلوع کے وقت دائیں طرف جھکنا اور غروب کے وقت بائیں طرف جھک جانے کا تین صدیوں پر محیط یہ عمل اﷲ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے۔ اگر سورج کا اصل راستہ یہی تھا تو قرآن اسے اللہ کی نشانی قرار نہ دیتا۔ اگر یہ معمول کا عمل تھا تو قرآن مجید کی آیت میں ان الفاظ کے وارد کرنے کا کوئی جواز نہیں رہتا۔

یاد رکھ لیں! نشانی اُسی وقت کسی چیز کو کہا جاتا ہے جب کوئی کام اس کے فطری طریقہ سے ہٹ کر ہو۔ حضرت عیسیٰں بغیر باپ کے پیدا ہوئے۔ اﷲ رب العزت نے فرمایا: یہ اﷲ کی نشانی ہے۔۔۔ صالح علیہ السلام کی اونٹنی پتھر میں سے نکلی، اﷲ رب العزت نے فرمایا: یہ اﷲ کی نشانی ہے۔۔۔ حضرت مریم علیہ السلام کو بے موسم پھل ملے، یہ اﷲ کی نشانی بنی۔ پس ذٰلِکَ مِنْ اٰیٰتِ اللّٰه (اﷲ کی نشانیوں میں سے نشانی) یہ جملہ صرف اسی وقت قرآن مجید میں وارد ہوتا ہے جب کوئی چیز اپنی اصل ڈگر اور فطری طریقے سے ہٹ کر ہو۔ جب تک کوئی چیز معمول کے عمل (Routine Work) سے ہٹ کر خوارقِ عادت نہ ہو اس وقت تک قرآن مجید میں اس کو اٰیَۃٌ یا مِنْ اٰیٰتِ اﷲ نہیں کہا جاتا، یہ قرآن مجید کا اصول ہے۔

اﷲ رب العزت نے جب 309 سال تک طلوع کے وقت سورج کے دائیں طرف ہٹنے اور غروب کے وقت بائیں طرف ہٹ کر گزرنے کو اپنی خاص نشانی قرار دیا تو یہ نشانی اﷲ نے اپنے ان سات اولیاء کے لئے مقرر فرمائی۔ پس یہ آیتِ مبارکہ شانِ اولیاء پر دلیل ہے۔ ائمہ تفسیر نے بھی یہی بات کہی ہے کہ سورج طلوع و غروب کے وقت اصل راستے سے ایک طرف جھک جاتا تاکہ اس کی شعاعیں ان اصحاب کے جسموں پر نہ پڑیں۔ امام نسفی فرماتے ہیں:

ایسا اس لیے ہوتا کہ اَنَّهُم فِی ظِلِّ نِهَارِهِمْ ’’وہ عین دن کی روشنی میں پڑے ہوئے تھے‘‘۔ اگر اﷲ تعالیٰ سورج کا راستہ بدلنے کا اہتمام نہ کرتا تو انہیں سورج کے طلوع اور غروب کے وقت تکلیف ہوتی اور پھر کہا:

لَا تُصِیْبُهُمْ اِخْتِصَاصًا لَهُمْ بِالْکَرَامَة.

’’یہ چیز صرف اور صرف ان کو اس وجہ سے ملی کہ اﷲ رب العزت نے ان کے لئے کرامت کے ظہور کا اختصاص کیا‘‘۔

2۔ ہدایت کے لیے ولی اور مرشد کی ناگزیریت

اسی آیت مبارکہ کے دوسرے حصے میں بھی شانِ اولیاء ہی کے حوالے سے بیان کیا گیا۔ ارشاد فرمایا:

مَنْ یَّهْدِ اﷲُ فَهُوَ الْمُهْتَدِ.

’’جسے اﷲ ہدایت دینا چاہے گا، اُسی کو ہدایت ملتی ہے‘‘۔

آیت کے دونوں حصوں کا ربط یہ ہے کہ سورج کا دائیں بائیں ہوکر گزرنا بے شک اﷲ کی عظیم نشانی تھی مگر اس نشانی کے بیان سے ہدایت وہی لوگ لیں گے جن کو اﷲ ہدایت دینا چاہے گا اور جن کے مقدر میں ہدایت نہیں ہوگی، وہ اس سے راہِ راست پر نہیں آئیں گے۔ مزید فرمایا:

وَمَنْ یُّضْلِلْ فَلَنْ تَجِدَ لَهٗ وَلِیًّا مُّرْشِدًا.

’’اور جسے اﷲ تعالیٰ گمراہ ٹھہرا دے تو آپ اس کے لیے کوئی ولی مُرشد (یعنی راہ دکھانے والا مددگار) نہیں پائیں گے‘‘۔

یہاں قرآن مجید نے لفظ وَلِی اور مُرْشِد اکٹھے بیان کئے۔ مُرشد وہی ہوتا ہے، جو ولی ہو اور ولی ہی مرشد ہوتا ہے۔ جو ولی نہیں، وہ مرشد نہیں۔ اﷲ رب العزت کے اس فرمان کا مطلب یہ ہے کہ جسے اﷲ گمراہ کر دے، اسے زندگی میں کوئی ولی نہیں مل سکتا۔ یعنی اسے ولی کی معرفت اور پہچان ہی نہیں ہوگی، اسے ولی تک رسائی نہیں ہوگی اور جب ولی سے معرفت و شناسائی نہیں ہوگی، کوئی ولی اس کا مرشد نہیں ہوگا، اسے راہِ راست پر لانے والا، سیدھی راہ دکھانے والا کوئی نہیں ہوگا، تو پھر وہ ہدایت سے بھی محروم رہے گا، اس لیے کہ اﷲ رب العزت نے ہدایت کے لیے ولی اور مرشد کا ہونا ضروری قرار دیا ہے۔ معلوم ہوا اس کائناتِ ارضی پر حضور علیہ السلام کی امت میں اﷲ نے انبیاء علیہم السلام کے بعد اپنی ہدایت فراہم کرنے کے لئے جو راستے رکھے، وہ اولیاء اور مرشد ہیں۔

3۔ نسبت و تعلق کا فیض

اصحاب کہف کے بارے میں سورہ کہف کی آیت نمبر 18 میں کہی گئی اگلی بات اس سے بھی عجیب تر ہے۔ یہ اولیاء 309 سال غار کے اندر رہے اور اتنا ہی عرصہ ان کا کتا بھی غار کے دروازے پر بیٹھا رہا۔ ان اولیاء کو تو بظاہر خوراک نہیں ملتی تھی بلکہ ان کی خوراک تو عالم لاہوت سے آتی تھی۔ ناسوتی خوراک، بظاہر دنیاوی کھانے پینے کا درازہ تو بند تھا، اس کے باوجود اللہ نے انہیں زندہ، سلامت اور ترو تازہ رکھا۔ سوال یہ ہے کہ اس دوران کتے کو کیا خوراک ملتی تھی؟ کیا کوئی آکر کتے کو کھانا ڈال جاتا تھا؟ یہ کتا بھی بغیر ظاہری خوراک کے غار کے دروازے پر تین صدیاں بیٹھا رہا۔ قرآن مجید فرماتا ہے کہ ہر چھ ماہ بعد اﷲ رب العزت کا الوہی فیض ہوتا، جس کے سبب اصحاب کہف کروٹ بدلتے تھے۔ جب یہ کروٹ بدلتے تو قرآن مجید بیان کرتا ہے کہ:

وَّنُقَلِّبُهُمْ ذَاتَ الْیَمِیْنِ وَذَاتَ الشِّمَالِ وَکَلْبُهُمْ بَاسِطٌ ذِرَاعَیْهِ بِالْوَصِیْدِ.

’’اور ہم (وقفوں کے ساتھ) انہیں دائیں جانب اور بائیں جانب کروٹیں بدلاتے رہتے ہیں، اور ان کا کتا (ان کی) چوکھٹ پر اپنے دونوں بازو پھیلائے (بیٹھا) ہے۔‘‘

(الکهف، 18: 18)

ائمہ تفسیر نے لکھا ہے کہ جب دائیں بائیں ان اصحاب کی کروٹ بدلتی تھی تو غار میںکتے کی بھی کروٹ اسی طرح اسی وقت بدل جاتی۔ جو حال ان اصحاب و اولیاء پر وارد ہوتا، وہی حال ان کی نسبت سے ان کے کتے پر بھی وارد ہوتا۔ سوال یہ ہے کہ کتے نے تو کوئی ریاضات و عبادات نہیں کی، پھر ایسا کیوں ہوتا تھا؟ ایسا صرف اس وجہ سے ہوتا کہ وہ کتا ان کی چوکیداری کرتا تھا۔

امام قرطبی (تفسیر الجامع لاحکام القرآن)، امام فخر الدین رازی (تفسیر الکبیر) اور دیگر ائمہ تفسیر نے لکھا ہے کہ جب وہ لوگ غار کی طرف جارہے تھے تو کتا ان کے پیچھے دوڑا، انہوں نے کتے کو بھگانا چاہا اور اس کو پتھر مارے۔ کتا ان کا اپنا نہیں تھا بلکہ راستے میں ان کے ساتھ ہوگیا۔ اب انہوں نے دیکھا کہ ہمارا تربیت یافتہ تو ہے نہیں، راستے میں ہمارے پیچھے لگ گیا ہے اور کتے کا کام بھونکنا ہے، ہم غاصب، ظالم، کافر دشمن کے جبر و تشدد سے چھپ کر کسی جگہ پناہ لیں گے تو کتا باہر بھونکے گا اور اس کے بھونکنے سے ہمارے دشمنوں کو ہماری موجودگی کی خبر ہوجائے گی۔ لہذا انہوں نے اس کو مارنا اور بھگانا چاہا۔ ائمہ تفسیر نے تصریحًا اس کو بیان کیا کہ جب انہوں نے پتھر مارے تو کتے نے زبانِ حال سے عرض کیا کہ اے اللہ! مجھے زبان عطا کر تاکہ میں ان کو جواب دوں۔ اﷲ رب العزت نے کتے کو زبان دی تو وہ دونوں ہاتھوں کے بل اگلے پاؤں اٹھا کر کھڑا ہوگیا اور کہا کہ مجھے بھگاؤ نہیں، میں کتا ضرور ہوں مگر بھونکنے والا نہیں ہوں۔ معلوم ہوا کہ کئی کتے بھی ایسے ہوتے تھے جو بھونکتے نہیں تھے، نسل نسل کی بات ہے۔ ائمہ تفسیر نے لکھا کہ اس کتے کے الفاظ یہ تھے:

إِنِّیْ أُحِبُّ أَوْلِیَآءَ اﷲِ وَالصَّالِحِیْن.

’’میں اَولیاء اﷲ اور صالحین سے محبت کرتا ہوں۔‘‘

جلیل القدر تابعی حضرت کعب اَحبار ص نے بیان کیا کہ اس کتے نے کہا:

فقام الکلب علی رجلیه ورفع یدیه إلی السماء کهیئة الداعي فنطق فقال: لا تخافوا مني أنا أحب أحباء اﷲ تعالی.

’’وہ اپنے پاؤں پر کھڑا ہو گیا اور دعا کرنے والے کی طرح اپنے ہاتھ آسمان کی طرف بلند کر کے بولا: مجھ سے نہ ڈرو، میں اﷲ کے محبوبوں سے محبت کرتا ہوں۔‘‘

یہی بات امام قرطبی نے بیان کی۔ پس اس کی محبت اسے ان اولیاء کے ساتھ لے آئی۔

4۔ محبت، اتباع اور استقامت سے مشروط ہے

اس موقع پر ایک نکتۂ تصوف سمجھاتا ہوں کہ محبت کسی وجہ سے لے تو آتی ہے لیکن خالی محبت سے اس وقت تک کچھ نہیں ملتا جب تک نفس میں استقامت پیدا نہ ہو۔ وہ کتا 309 سال بیٹھا رہا۔ جب نفس میں یہ استقامت پیدا ہو جاتی ہے تو پھر جو حال اﷲ کے ولی کو نصیب ہوتا ہے اس کا پرتو اس کے خدام کو بھی خواہ کتا ہی کیوں نہ ہو، نصیب ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں محبت تو تھوڑی بہت آجاتی ہے، محبت کی چنگاری بھی مل جاتی ہے مگر دو چیزیں پیدا نہیں ہوتیں، جس کی وجہ سے ہم محروم رہتے ہیں:

  1. متابعت
  2. استقامت

اس کتے نے متابعت و پیروی بھی کی اور پھر اس پیروی پر استقامت بھی کی۔ گویا کتے میں تین چیزیں جمع ہوگئیں:

  1. محبت
  2. متابعت
  3. استقامت

محبت کسی کو چاہنا ہے، متابعت کسی کی پیروی کرنا، اس کے نقشِ قدم پر چلنا ہے اور استقامت یہ ہے کہ کچھ ملے یا نہ ملے، جم کر بیٹھنا ہے۔ قرآن مجید سے استقامت کے حوالے سے ایک مثال بیان کرتا ہوں:

جب فرعون کے ظلم و ستم حد سے بڑھ گئے اور بنی اسرائیل کا جینا دوبھر ہوگیا تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرعون کے غرق ہونے کی دعا کی کہ مولیٰ! اسے عذاب دے اور بنی اسرائیل کو اس سے رہائی عطا فرما۔ اﷲ رب العزت نے وحی بھیجی کہ اے موسیٰ آپ کی دعا قبول کرلی۔ اب قبولیتِ دعا کی اطلاع بھی مل گئی مگر اس قبولیتِ دعا کا عملی اظہار 40 سال بعد سامنے آیا۔ اس چالیس سال کے عرصے کے دوران ایک دن بھی حضرت موسیٰ علیہ السلام کی زبان سے بے صبری کے الفاظ ادا نہ ہوئے۔۔۔ چالیس سال میں ایک دن بھی ماتھے پر شکن نہ آئی۔۔۔ دل میںملال تک نہ آیا۔۔۔ یہ نہ کہا کہ مولیٰ! اتنا عرصہ گزر گیا، ابھی تک دعا کی قبولیت کی ظاہری صورت سامنے نہیں آئی۔۔۔ باری تعالیٰ! تو نے تو فرمایا تھا کہ غرق ہونے کی دعا قبول ہوگئی، یہ کب غرق ہوگا۔۔۔؟ اس طرح کا کوئی سوال بھی حضرت موسیٰ علیہ السلام کی زبان و دل پر جاری نہ ہوا۔ اس کو استقامت کہتے ہیں۔ جب زبان پر ’’کب‘‘ آنا بھی چھوٹ جائے، چالیس سال بھی گزر جائیں پھر بھی انتظار کی شدت نہ ہو تو تب اس امتحان میں کامیابی کے بعد اُس کی طرف سے عنایات کا سلسلہ جاری ہوتاہے۔

اس تناظر میں ہم اپنے احوال کا جائزہ لیں کہ اللہ سے کوئی دعا کرتے ہیں یا کسی سے اپنے حق میں کوئی دعا کرواتے ہیں تو اگلے دن سے ہی گنتی شروع کر دیتے ہیں اور بے قراری کا اظہار شروع ہوجاتا ہے کہ دعا کروائی مگر ابھی تک کچھ ہوا ہی نہیں۔

مجھے یاد ہے کہ میں نے اپنی نوعمری میں جھنگ میں مسجد کے ایک مولوی صاحب کی ایک تقریر سنی کہ جو آدمی چالیس راتیں بلا ناغہ صبح غسل کرکے تہجد پڑھے تو اﷲ رب العزت اس کے لئے ولایت کا راستہ کھول دیتا ہے۔ مولوی صاحب نے اولیاء کی احوال کی باتوں میں سے اسے ذکر تو کردیا مگر ان باتوں کے علاوہ جو شرائط ہوتی ہیں وہ ذکر نہ کیں۔ سردیوں کے دن تھے، ہمارے لوگوں میں سے ایک صاحب چوہدری حشمت علی تھے، انہوں نے یہ سن کر سردیوں کے موسم میں ٹھنڈے پانی سے غسل کرکے ہر روز تہجد پڑھنی شروع کر دی۔ چالیس دن یخ ٹھنڈے پانی سے نہا کر تہجد پڑھتے رہے۔ چالیس دن بعد مولوی صاحب کو پکڑ لیا اور کہا: ’’مولوی صاحب تسیں لوکاں دی جان لینی اے‘‘۔ چالیس دن ہوگئے، مجھے ٹھنڈے پانی سے تہجد پڑھتے، ولایت تو کیا مجھے ابھی تک اس کی کچھ روشنی بھی نہیں ملی، آپ غلط مسئلے بتا کر لوگوں کی زندگی لینا چاہتے ہیں۔

سمجھانا مقصود یہ ہے کہ ہماری کیفیت یہ ہے کہ دعا کرنے یا کوئی عمل کرنے کے بعد اگلے دن ہی اس کے نتیجے کے لئے بیٹھ جاتے ہیں۔ ایسی صورت میں اﷲ رب العزت کی عطا کے دروازے بند رہتے ہیں۔ عطا اس وقت ہوتی ہے جب بندہ اﷲ سے مانگتا ہے اور یہ امید کرتا ہے کہ مانگنا میرا کام تھا، دینا اس کا کام ہے، وہ جب چاہے دے۔ جب نفس میں یہ صبر اور استقلال آجائے، قلب اضطراب سے باہر نکل جائے اور استقامت آجائے تو تب عطا کی ہوائیں چلتی ہیں۔

عبدیت سوال کرنے، عاجزی و انکساری کرنے، دستِ سوال دراز کرنے اور تذلل کا نام ہے۔ اس لیے اولیاء اللہ فرماتے ہیں کہ بندے! بندہ بن، خدا نہ بن۔ یعنی اﷲ کو اپنی Dictation نہ دے، اپنی خواہش اﷲ کو dictate نہ کرا کہ میں نے مانگا ہے، مجھے فوراً عطا کردے۔ نہیں، مانگنا تیرا حق تھا اور وہ مالک ہے، جب چاہے دے، یہ اس کی شان ہے۔ جب بندہ وقت مقرر کرتا ہے کہ اتنے عرصے میں مل جائے، گویا وہ اﷲ کی ذات پر اپنا حکم چلانا چاہتا ہے، اس طرزِ عمل سے رشتۂ بندگی ٹوٹ جاتا ہے۔

309 سال تک کتے نے محبت بھی کی، متابعت بھی کی اور استقامت بھی اختیار کی۔ اس محبت، متابعت اور استقامت کا پھل یہ ملا کہ اصحابِ کہف کے ذکر کے ساتھ ساتھ اللہ نے اپنے کلام میں اس کتے کا بھی ذکر فرمایا۔ جب اولیاء کی محبت بھی ہو، متابعت بھی ہو اور اس میں استقامت بھی ہو تو پھر ان اولیاء کا فیض انسان کو ملتا رہتا ہے۔ اولیاء کی متابعت سے مراد قرآن و سنت کی متابعت ہے، اس لیے کہ تصوف و روحانیت اصل میں قرآن و سنت ہی کی متابعت کا نام ہے۔

ایک صحابی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یارسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! مجھے کوئی ایک وظیفہ یا نصیحت بتا دیں، جس پر عمل کروں اور زندگی میں کسی سے کچھ اور پوچھنے کی نوبت نہ رہے۔ آقا علیہ السلام نے فرمایا: اگر ایک ہی سبق لیتے ہو تو پھر اس کو دل و دماغ میں راسخ کرلو کہ:

قل: آمنت باﷲ؛ ثم استقم.

’’کہو میں اللہ پر دل و زبان سے ایمان لایا اور پھر اُس پر جم جا۔‘‘

یعنی رب کا ہو جا اور پھر اُ س پر جم جا۔ آندھیاں آئیں، جھکڑ چلیں مگر رب کی بندگی پر استقامت ایسی ہو کہ اس راہ سے تیرے قدم پیچھے نہ ہٹیں۔ جب استقامت اس مقام پر پہنچتی ہے تب عطا کے دروازے کھلتے ہیں۔ کتے نے استقامت اور متابعت اختیار کی تو اس پر عطا کا دروازہ کھلا۔

5۔ نسبتِ اولیاء کا فیض

قرآن مجید اﷲ کا کلام ہے، یہ کسی انسان کا لکھا ہوا ناول، افسانہ، فنکشن یا شاعری کی کتاب نہیں ہے۔ یہ کلامِ الہٰی ہے جو اﷲ کی صفت ہے جو اس نے امت کے لئے آقا علیہ السلام پر نازل فرمایا ہے۔ اللہ کو کیا غرض کہ وہ اپنے کلام میں کتے کا مضمون بیان کرے لیکن جب محبت، متابعت اور استقامت کی وجہ سے عطا کے دروازے کھلتے ہیں تو پھر اللہ اس کتے کے بیٹھنے کے انداز کو بھی مضمونِ قرآن بنا دیتا ہے۔ ارشاد فرمایا:

وَکَلْبُهُمْ بَاسِطٌ ذِرَاعَیْهِ بِالْوَصِیْدِ.

’’اور ان کا کتا (ان کی) چوکھٹ پر اپنے دونوں بازو پھیلائے (بیٹھا) ہے۔‘‘

(الکهف، 18: 18)

یعنی کتا اس طرح بیٹھا ہوا ہے کہ اگلے پاؤں اس طرح بچھائے ہوئے ہیں اور پچھلی ٹانگیں اس طرح بچھائے ہوئے ہے اور پہلو درمیان میں رکھ کر جم کر بیٹھا ہے۔ کتے کا اندازِ نشست بھی مضمونِ قرآن بنا دیا۔

اسی سورت کی آیت نمبر 22 میں اولیاء اللہ کی سنگت اور نسبت اختیار کرنے والوں کو ملنے والے فیض کا ثبوت بھی بیان کیا گیا ہے۔ قرآن مجید میں جہاں اصحابِ کہف کے کتے کے بیٹھنے کے انداز کو ذکر کیا تو وہاں اس کتے کے حوالے سے یہاں تک بیان کیا کہ:

سَیَقُوْلُوْنَ ثَلٰـثَةٌ رَّابِعُهُمْ کَلْبُهُمْ وَیَقُوْلُوْنَ خَمْسَةٌ سَادِسُهُمْ کَلْبُهُمْ رَجْمًام بِالْغَیْبِ وَیَقُوْلُوْنَ سَبْعَةٌ وَّثَامِنُهُمْ کَلْبُهُمْ.

’’(اب) کچھ لوگ کہیں گے: (اصحابِ کہف) تین تھے ان میں سے چوتھا ان کا کتا تھا، اور بعض کہیں گے: پانچ تھے ان میں سے چھٹا ان کا کتا تھا، یہ بِن دیکھے اندازے ہیں، اور بعض کہیں گے: (وہ) سات تھے اور ان میں سے آٹھواں ان کا کتا تھا‘‘۔

(الکهف، 18: 22)

اس آیت مبارکہ کی وضاحت ایک مثال سے کرتا ہوں کہ اگر ہم میں سے کوئی کسی کی دعوت میں شریک ہو اور اس کے ساتھ اس کا کتا بھی ہو اور میزبان اس سے پوچھے کہ آپ کتنے افراد آئے ہیں تو کیا کوئی آدمی یہ کہے گا کہ تین ہم ہیں اور چوتھا ہمارا کتا ہے۔ اگر پانچ آدمی ہیں تو کہے کہ پانچ ہم ہیں اور چھٹا ہمارا کتا ہے۔ اگر سات آدمی ہیں تو کہے کہ ہم سات آدمی ہیں اور آٹھواں ہمارا کتا ہے۔ کوئی شخص بھی ایسا جواب نہیں دیتا۔ ہم یہ اندازِ گفتگو نہیں اپناتے مگر قرآن کا اسلوب یہ ہے کہ اس نے پیغام دے دیا کہ جب ایک کتا اولیاء اﷲ کی محبت، متابعت اور استقامت کی تین شرطیں پوری کرلیتا ہے توقرآن اس کے بیٹھنے کے انداز اور اس کے اَنگ ڈھنگ بھی بیان کرتا ہے اور پھر اِن اولیاء کے ساتھ ساتھ اس کا ذکر بھی ہر مرتبہ علیحدہ کرتا جاتا ہے۔

قرآن کی اِن آیات کو پڑھنے سے ہمارامقصود اصحاب کہف کے حالات کو جاننا ہوتا ہے، ہم اس کتے کی موجودگی اور عدمِ موجودگی کو نہیں جاننا چاہتے، دل چسپی اصحابِ کہف کے احوال سے ہے اور قرآن بھی ان کو ہی بیان کرنا چاہتا ہے مگر قرآن کا اسلوب یہ ہے کہ جب وہ اصحابِ کہف کو بیان کرتا ہے تو ان کے ساتھ ساتھ کتے کا ذکر بھی کرتا ہے۔ گویا جب عطا کا دروازہ محبت، متابعت اور استقامت کے بعد کھلتا ہے تو کتا ہی کیوں نہ ہو، 309 سال تک وہ بھی فیضِ الوہی سے اصحابِ کہف کی طرح کھائے پئے بغیر زندہ بھی رہتا ہے اور جو احوال و کیفیات اصحابِ کہف پر وارد ہوتی ہیں، اس کتے پر بھی وارد ہوتی چلی جاتی ہیں۔

(جاری ہے)

ماخوذ از ماہنامہ منہاج القرآن، دسمبر 2019ء

تبصرہ

ویڈیو

Ijazat Chains of Authority
Top