حضور غوث الاعظم رحمۃ اللہ علیہ ولیوں کے تاجدار ہیں
صائمہ نور
سلسلہ نبوت حضرت آدم علیہ السلام سے شروع ہوکر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت پر تکمیل کو پہنچا لیکن اصلاح احوال کے لیے ہر دور میں کسی ایسی ہستی کی ضرورت رہی جو امت کے احوال بدل دے۔ تمام اولیاء کرام اور اہل کشف و وجدان کا اس امر پر اتفاق ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور آئمہ اہل بیت کا مقام و مرتبہ مسلمہ ہے۔ اسی طرح حضور غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ امت کے اولیاء و عرفاء میں حضور غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کا وہی مقام ومرتبہ ہے جو سیدالمرسلین خاتم النبیین حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا انبیاء و رسل میں ہے بقول اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ:
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نبیوں کے تاجدار ہیں اور آپ ولیوں کے تاجدار ہیں، سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت بے مثال اور آپ کی ولایت باکمال، سیدالانبیاء کے معجزات بے شمار اور آپ کی کرامات بے شمار، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے امتیوں کی تعداد سب سے زیادہ اور آپ کے مریدوں کی تعداد سب سے زیادہ، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کمال خدا کا کمال اور آپ رحمۃ اللہ علیہ کا کمال مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کمال، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھ کر خد ایاد آتا ہے اور آپ کو دیکھ کر مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یاد آتے ہیں۔
ولادت:
آپ کی پیدائش شب اول رمضان 470ھ بمطابق 17 مارچ 1078 عیسوی میں ایران کے صوبہ کرمانشاہ کے شہر مغربی گیلان میں ہوئی جس کو کیلان بھی کہا جاتا ہے۔ اسی لیے آپ کا ایک نام شیخ عبدالقادر گیلانی بھی ماخوذ ہے۔
ایام شیر خواری میں احترام رمضان المبارک:
آپ کی والدہ ماجدہ فرمایا کرتی تھیں کہ میرے فرزند ارجمند عبدالقادر جب پیدا ہوئے تو وہ رمضان کے دنوں میں دودھ نہیں پیتے تھے پھر انتیس ماہ رمضان کو جب مطلع صاف نہ تھا اور بدلی کی وجہ سے لوگ چاند نہ دیکھ سکے، تو صبح کو لوگ میرے پاس پوچھنے آئے کہ آپ کے صاحبزادے عبدالقادر نے دودھ پیا یا نہیں میں نے کہلا بھیجا کہ نہیں پیا جس سے انہیں معلوم ہوا کہ آج رمضان کا دن ہے۔ جیلان کے تمام شہروں میں اس بات کی شہرت ہوگئی تھی کہ شرفائے جیلان میں ایک لڑکا پیدا ہوا ہے جو رمضان میں دودھ نہیں پیتا۔
بچپن میں ولایت کا حال معلوم ہونا:
آپ سے کسی نے پوچھا: کہ آپ کو یہ بات کب سے معلوم ہے کہ آپ اولیاء اللہ سے ہیں؟ آپ نے فرمایا جب میں اپنے شہر میں بارہ برس کی عمر کا تھا اور پڑھنے کے لیے مکتب جایا کرتا تھا تو میں نے اردگرد فرشتوں کو چلتے دیکھا تھا اور جب میں مکتب میں پہنچتا تو میں انہیں کہتے سنتا کہ ولی اللہ کو بیٹھنے کی جگہ دو۔
حصولِ علم:
جب آپ نے دیکھا کہ علم کا حاصل کرنا ہر ایک مسلمان پر صرف فرض ہی نہیں بلکہ وہ نفوس مریضہ کے لیے صفائے کلی ہے وہ پرہیزگاری کا ایک سیدھا راستہ اور پرہیزگاری کی ایک محبت اور واضح دلیل ہے وہ یقین کے تمام طریقوں میں سب سے اعلیٰ و انسب ہے تو آپ نے اس کو حاصل کرنے میں جلد کوشش کی اور اس کے تمام اصول و فروع کو دور و قریب کے علمائے کرام و مشائخ عظائم و ائمہ اعلام سے نہایت جدوجہد سے حاصل کیا۔
ضبطِ نفس:
شیخ عبداللہ سلمی بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ سے سنا آپ نے بیان کیا کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ میں نے کئی روز تک کھانا نہیں کھایا۔ اتفاق سے میں محلہ شرقیہ میں چلا گیا وہاں مجھے ایک شخص نے چٹھی دی جسے میں نے لے لیا اور ایک حلوائی کو دے کر حلوہ پوریاں لے لیں اور اپنی اس سنسان مسجد میں گیا جہاں میں تنہا بیٹھ کر اپنے اسباق کو دہرایا کرتا تھا میں نے یہ حلوہ پوری لے جاکر محراب میں اپنے سامنے رکھ دیا اور اب یہ سوچنے لگا کہ یہ میں کھائوں یا نہیں۔ اتنے میں میری نظر ایک پرچہ پر پڑی جو دیوار کے سایہ میں پڑا ہوا تھا میں نے اس کاغذ کو اٹھا لیا اس میں لکھا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی بعض اگلی کتابوں میں سے کسی کتاب میں فرمایا ہے کہ خدا کے شیروں کو خواہشوں اور لذتوں سے کیا مطلب، خواہشیں اور لذتیں تو ضعیف اور کمزور لوگوں کے لیے ہیں تاکہ وہ اپنی خواہشوں اور لذتوں کے ذریعہ سے طاعت و عبادت الہٰی کرنے میں تقویت حاصل کریں۔ میں نے یہ کاغذ پڑھ کر اپنا رومال خالی کرلیا اور حلوہ پوری کو محراب میں رکھ دیا اور دو رکعت نماز پڑھ کر چلا آیا۔
صبر و استقلال:
شیخ ابو عبداللہ تجار نے بیان کیا ہے کہ مجھ سے حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ مجھ پر بڑی بڑی سختیاں گذرا کرتی تھیں اگر وہ سختیاں پہاڑ پر گرتیں تو پہاڑ بھی پھٹ جاتا۔ فرماتے ہیں جب وہ مجھ پر بہت ہی زیادہ گزرنے لگتیں تو میں زمین پر لیٹ جاتا اور یہ آیہ کریمہ فان مع العسر یسرا پڑھتا یعنی بے شک ہر سختی کے ساتھ آسانی ہے۔ پھر میں آسانی سے سر اٹھاتا تو میری ساری تکلیفیں دور ہوجاتیں۔
تزکیہ نفس:
مجھ پر میرا نفس ظاہر کیا گیا تو میں نے دیکھا کہ اس کے امراض بھی باقی ہیں اور اس کی خواہش ابھی زندہ ہے اور اس کا شیطان سرکش ہے تو سال بھر تک میں نے اس کی طرف توجہ کی یہاں تک کہ نفس کے کل امراض جڑ سے جاتے رہے اور اس کی خواہش مرگئی اور اس کا شیطان مسلمان ہوگیا اور اب اس میں امر الہٰی کے سوا اور کچھ باقی نہ رہا۔
حلیہ مبارک:
شیخ القدسی رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ نحیف البدن اور میانہ قد تھے۔ آپ کی بھنویں باریک اور ملی ہوئی تھیں آپ کا سینہ چوڑا تھا، ریش مبارک بھی بڑی اور چوڑی تھی، آپ کی آواز بلند تھی، مرتبہ عالی اور علم وافر رکھتے تھے۔
خصائل حمیدہ:
آپ کی ذات مجمع البرکات میں صفات جمیلہ و خصائل حمیدہ جمع تھے حتی کہ انہوں نے بیان کیا کہ آپ جیسے اوصاف کا شیخ میں نے پھر نہیں دیکھا۔ بعض لوگوں نے بیان کیا کہ بہ نسبت کلام کرنے کے آپ کا سکوت زیادہ ہوتا تھا۔ اپنے مدرسے سے جمعہ کے دن کے سوا کبھی نہ نکلتے تھے۔ آپ کے دست مبارک پر بغداد کے معزز لوگوں نے توبہ کی اسی طرح سے بڑے بڑے یہودی اور عیسائیوں نے آپ کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا آپ حق بات کو منبر پر کھڑے ہوکر کہہ دیا کرتے اور اس کی تاکید اور ظالموں کی مذمت کیا کرتے تھے۔
وفات / وصال:
حضور غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ کی حیات مبارکہ کا اکثر و بیشتر حصہ بغداد مقدس میں گذرا اور وہیں پر آپ کا وصال ہوا اور وہیں پر ہی آپ کا مزار مبارک ہے جس کے گرد عام لوگوں کے علاوہ بڑے بڑے مشائخ اور اقطاب آج بھی کمال عقیدت کے ساتھ طواف زیارت کرتے اور فیوض و برکات سمیٹتے ہیں۔
ماخوذ از ماہنامہ دخترانِ اسلام، دسمبر 2019ء
تبصرہ