بیتے لمحے بچپن کے
سید الطاف حسین گیلانی
کائناتِ ہست و بود میں پانی وجودِ حیات کا جزوِ لازم ہے۔ یہ زمینی طبعی خواص کے سبب اپنے شاربین پر مختلف النّوع اثرات مرتب کرتا ہے۔ عمیق و بسیط دریائے چناب کا ٹھنڈا، میٹھا، صاف، شفاف اور پاکیزہ پانی اپنی خدا داد صلاحیتوں کی بنا پر گُونا گُوں صفات سے متصف ہے۔ اس کی آغوش میں پروردہ سر زمینِ جھنگ کے باسیوں نے اعماقِ دریا سے غوّاصی، عاجزی اور دوراندیشی۔۔۔ بساط سے وسیع القلبی، فراخ دلی، فیاضی اورمہمان نوازی۔۔۔ تلاطمِ امواج سے مہم جُوئی، جوش و جذبہ اورشجاعت پائی۔۔۔ آبِ رواں کے خرامِ ناز سے پُرکشش و پُروقار اور مدھر آواز سے پُرکیف و سرود ہوئے۔۔۔ سکوتِ آب سے خاموشیِ طبع، بردباری، حلم، صبر و قناعت پائی اور صاحبانِ استقامت ٹھہرے۔۔۔ شیرینیِ آب سے باہمی محبت و یگانگت اور شفافیت سے شرافت و پاکیزگیِ کردار کا درس لیا۔۔۔ خُنکیِ آب سے قلوب و اذہان، تازگی اورٹھہراؤ جیسی نعمتوں سے مالا مال ہوئے۔
بلاشبہ سر زمینِ جھنگ زرخیز بھی ہے اورمردم خیز بھی۔ اس کے سینے پر پھیلے سر سبز و شاداب لہلہاتے کھیت، عطر بیزچمنستان، فطرت کے حسیں مناظرجہاں اس کی زرخیزی کے مظہر ہیں وہیں سلطان العارفین حضرت سلطان باہوؒ، حضرت تاجن شوریؒ (شور کوٹ والے)، حضرت شاہ جیونہؒ، حضرت سلطان ہاتھی وانؒ، حضرت پیر فتح شاہؒ، حضرت پیر خاکی شاہؒ، حضرت پیر دھجی شاہؒ اور حضرت پیر سید بلاقی شاہؒ (جھنگ چک شمالی والے) جیسے اولیا اللہ۔۔۔ ڈاکٹر عبد السلام جیسے سائنس دان۔۔۔ شیر افضل جعفری، مجید امجد، عبد العزیز خالد اور سید جعفر طاہر جیسے شعرا۔۔۔ مہر محمد افضل ہرل اور فرید ملت الحاج حضرت ڈاکٹر فرید الدین قادریؒ جیسے حکما اور اطباّ جو عمر بھر اللہ تعالیٰ کی ودیعت کردہ علمی اور روحانی صلاحیتوں سے خلقِ خدا کو فیض یاب کرتے رہے، اس کی مردم خیزی کے آئینہ دار ہیں۔
جھنگ صدر میں واقع اہلِ سنت مکتبہِ فکر کی قدیم مرکزی اور سب سے بڑی جامع مسجدپرانی عید گاہ کے نام سے موسوم محلہ پرانی عید گاہ کو ضلع بھر میں شہرتِ عام حاصل ہے۔ اس مسجد کی جنوب مشرقی طرف راقم الحروف کا آبائی گھر ہے جس کے مشرقی پہلو میں چند فٹ کے فاصلہ پر وہ گھر واقع ہے جہاں19 فروری 1951ء کو اُس گُلِ گیتی آرا، لعلِ ناب اور ماہِ تاباں نے جنم لیا۔ جس کی مہک و لہک ہفت کشوراور چمک دمک ہفت گردوں تک جا پہنچی۔ آج دنیا ئے عرب و عجم جسے علامۃ الدّہر، مجدّد رواں صدی، شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے نام سے پکارتی ہے۔
میں اپنی تاریخ پیدائش7 اگست 1946ء کے لحاظ سے اس وقت 4 سال، 6 ماہ اور 12 دن کا تھا۔ مجھے کچھ زیادہ یاد تو نہیں صرف اتنا یاد ہے کہ پڑوس میں واقع فرید ملت حضرت فریدالدین قادریؒ کے گھر کے باہر ڈھول بجتا دیکھ کر بھاگا بھاگا اپنے گھر آیا اور اپنی والدہ ماجدہ کو بتایا کہ چچا جان (فرید ملت حضرت ڈاکٹر فریدالدین قادریؒ) کی آج شادی ہے۔ جس پر انہوں نے ہنستے ہوئے بتایا کہ نہیں بلکہ ان کے گھر بیٹا ہوا ہے۔(جھنگ میں قدیم روایات کے مطابق جس گھر بیٹا پیدا ہوتا تھا تو خبر پا کر ڈھول والا اورخواجہ سرا از خود ودھائیاں لینے آ جایا کرتے تھے۔ دروازے کے باہر اوپر والی زنجیر میں شجرِ شریں کی چھوٹی چھوٹی سبزپتوں والی ٹہنیاں لٹکا دی جاتی تھیں۔)
ولی کامل کی صدائے گدایانہ اور قبولیت
بلاشبہ نومولود کوئی عام بچہ نہ تھابلکہ ایک ولیِ کامل(علامہ الحاج ڈاکٹر فریدالدین قادریؒ)کے دل سے نکلی اُس صدائے گدایانہ کا نتیجہ تھا جو انہوں نے اشک بار آنکھوں سے سایہ دیوارِ کعبہ میں مقام ملتزم پر غلافِ کعبہ کوتھام کر بار گاہِ الٰہی میں کی تھی کہ:
’’ اے باری تعالیٰ! اپنی بار گاہِ کریمی سے مجھے ایک ایسا بیٹا عطا کر جو تیری اور تیرے دین کی معرفت کا حامل ہو اور جو دنیا و آخرت میں تیری بے پناہ عطا و رضا کا حق دار ٹھہرے اور فیضانِ رسالتِ مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بہرہ ور ہوکر دنیائے اسلام میں ایسے علمی و فکری، اخلاقی و روحانی انقلاب کا داعی ہو جس سے ایک عالم متمتع ہو سکے‘‘۔
سبحان اللہ! قبولیت دعائے ولی تو دیکھئے کہ اُسی سال 1948ء میں ہی انہیں ان کے ہاں بیٹے طاہر کی پیدائش کی بشارت ہوئی۔
دنیاوی اصول کو ہی لے لیجئے کہ خیرات کا انتخاب خیرات دینے والے اپنی حیثیت، شخصیت اوروجاہت کو مدنظر رکھتے ہوئے کرتے ہیں۔ ایک بادشاہ کی دی گئی خیرات زر و سیم اور لعل و گوہر سے کم نہیں ہوتی، تو پھر جب خیرات خالقِ کائنات رب جلّ شانہ اور صاحبِ لولاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے ہو تو لاریب اس کا معیاربھی وہی ہوگا جو مجدّد وقت، شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے روپ میں آج ہمارے سامنے ہے۔ بلاشبہ انہوں نے اپنے والدِگرامیؒ کا وہ وعدہ وفا کر دکھایا جو انہوں نے وقتِ دعا بار گاہِ الٰہی میں کیا تھا۔
تقویٰ و زہد کا حامل گھرانہ
محلہ پرانی عید گاہ میں سادات کا صرف ایک ہمارا ہی گھر ہے۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے ساتھ تین پشتوں سے ہماری خانہ واحدی کی طرح تعلق داری ہے، جس کا اظہار وہ کئی مرتبہ اپنی گفتگو میں بھی فرما چکے ہیں۔ اس وجہ سے اُن کے والد گرامیؒ ہمارے علاوہ انہیں کسی دیگر گھر نہ جانے دیتے اور نہ ہی دوسرے بچوں کو اپنے گھر آنے دیتے تھے۔ ہم نے ایک دوسرے کے اجداد یعنی میں نے ان کے دادا حضرت میاں خدا بخشؒ اور ان کے بھائی حضرت میاں اللہ بخشؒ اور انہوں نے میرے دادا حضرت سید پیر فرخ شاہؒ (جو پرانی عید گاہ سے متصل دوسرے محلہ پپلیاں والامیں رہائش پذیر تھے) کی نہ صرف زیارت کی ہوئی ہے بلکہ فیضانِ صحبت سے بھی مستفیض ہو چکے ہیں۔ حضرت میاں خدا بخشؒ (داداجان شیخ الاسلام) ایک صوفی منش نہایت متقی و پرہیز گاربزرگ تھے۔ مجھے اچھی طرح یادہے کہ بچپن میں ایک دفعہ ہم گھر کے قریب ہی موجود مزروعہ زمین میں کاشتہ فصل بِھنڈی کے پھول توڑنے کے لئے گئے تو وہاں مجھے ایک زہریلے بچھو نے کاٹ لیا۔ میں درد کا مارا روتا ہوا گھر کی طرف آ رہا تھا کہ راستے میں ہی قائد محترم کے دادا موصوف مل گئے۔ مجھے اس حالت میں دیکھ کر سخت پریشان ہوئے۔ مجھے پاس بٹھا کر بچھو کے ڈسنے کی جگہ پر مسلسل دم کرتے رہے حتی ٰ کہ مجھے مکمل آرام آ گیا۔
قائد محترم کے والدِگرامی کو ہم بچپن میں چچا جان کہا کرتے تھے۔ وہ نہایت متقی، پرہیزگار، شب بیدار، عاشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، زبردست نباّض، شاعر، بہت بڑے عالمِ دین اور عارفِ کامل تھے۔ نباّض اتنے کہ نبض پر ہاتھ رکھتے ہی مریض کی ساری کیفیات بیان کردیتے تھے۔ دور ونزدیک سے بڑے بڑے ڈاکٹرز اکثر اوقات صرف مرض کی تشخیص کے لئے اپنے مریض ان کے پاس بھیجتے۔ آپؒ انتہائی خدا ترس اور نہایت سخی تھے۔ نادار مریضوں کا مفت علاج کرتے تھے۔ گھر میں چھوٹے بڑے کام خود اپنے ہاتھ سے کرتے تھے۔ رہن سہن انتہائی سادہ مگر باوقار تھا۔ معاشرہ میں نہایت عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔ عربی و فارسی دونوں زبانوں پر مکمل عبور تھا۔ یہ دونوں زبانیں مادری زبان کی طرح بولتے تھے۔ مولانا رومؒ کی مثنوی شریف انہیں از بر تھی۔ مجھے اُنؒ کی کوئی ایک بھی ایسی تقریر یاد نہیں جس کا آغاز انہوں نے مثنوی شریف کے اشعار سے نہ کیا ہو۔
قبلہ کے والد گرامیؒ بہت بڑے سیّاح بھی تھے۔ اُن کی سیاحت کا دائرہ خصوصاً حجازِ مقدس کے علاوہ مصر، ترکی، عراق، ایران، شام، اردن اور فلسطین تک پھیلا ہوا تھا۔ وہ جب بھی ان طویل اسفار سے واپس گھر پہنچتے تو اُن کے ساتھ بڑے بڑے اٹیچی کیس ہوتے تھے جو ملک ملک سے خریدی گئی دینی عربی کتب سے بھرے ہوتے تھے۔ ہم اُن کی ہدایات کے مطابق کتب کو الماریوں میں سیٹ کرتے تھے۔ قبلہ کے والدِ گرامی کو جہاں نادر و نایاب دینی کتب جمع کرنے کا شوق تھا وہاں اکابر اولیاء کے مزارات کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر حاضری دینابھی بہت پسند تھا اور اس خواہش کی تکمیل کیلئے وہ کافی جد و جہد کیا کرتے تھے۔
قائد محترم کی والدہ ماجدہؒ (خورشید بی بی جنہیں ہم چچی جان کہا کرتے تھے) انتہائی باپردہ، پابندِ صوم و صلوٰۃ، خدا ترس اور اعلی اخلاق کی پیکر تھیں۔غریب محلہ دار عورتیں اپنی حاجات لے کر اُن کے پاس آتیں اور وہ ہمیشہ ان کے سروں پر دست شفقت رکھتیں۔ خوشی وغم میں خاص طور پراُن کا خیال رکھتیں۔ میں اِن دونوں بزرگوں (والدین قائد محترم) کا نہایت سعادت مند بڑا بیٹا سمجھا جاتا تھا۔ اُن کے گھر کے چھوٹے موٹے کام نہایت خوش دلی سے کرتا، دعائیں اورڈھیروں پیار لیتا۔
قائد محترم کا ایک نہایت ہی جوشیلا، باہمت، پُرعزم اورجواں سال چھوٹا بھائی محمد جاوید القادری سن 1976ء میں داغِ مفارقت دے گیا۔ اس عظیم سانحہ نے قائد محترم کے آہنی اعصاب کو ہلاکر رکھ دیا۔ یہ وہ صدمہ ہے جسے وہ آج تک بُھلا نہیں پائے۔
قائد محترم کی والدہ ماجدہؒ اوائل عمری میں ہی یعنی 1968ء میں جبکہ میری والدہؒ تقریباً 35/36 سال بعد یعنی 2003ء میں اس دنیائے فانی سے کوچ کر گئیں، اسی لئے توقبلہ اکثر فرماتے کہ وہ ہماری ماں کی گود میں پلے ہیں۔
سبحان اللہ! کیا سہانی گھڑیاں تھیں جب ہم ایک دوسرے کی مائوں (جو ہم نام بھی تھیں)کے پاس بیٹھ کرمٹی کے چولہے پر لکڑی اور گوبر کی تھاپیوں سے جلائی گئی آگ پر گھر کی بھینس کے گھی اور چاٹی کے تازہ مکھن سے بَلوں والے پکائے گئے پراٹھے مل کے کھاتے تھے۔
بچپن کے معمولات
شیخ الاسلام جوبلا شبہ میرے بچپن کے دوست اور بھائی ہیں لیکن میں منہاج القرآن کی تاحیات رفاقت کے ناطے نیز ان کے علمی تدبّر، روحانی مقام و مرتبت اور خاص طور پرنفاذ نظامِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے داعی و عَلم بردار ہونے کی وجہ سے انہیں اپناقائدتسلیم کرتے ہوئے قائد محترم اورقبلہ کے القاب سے پکارتا ہوں۔
بچپن میں محلہ کی جامع مسجد پرانی عید گاہ ہمارا اوڑھنا بچھونا ہوا کرتی تھی۔ ایّام تعطیلات میں خاص طور پرہمارا سارا سارا دن مسجد میں ہی گزرتا تھا۔ ہوم ورک کے علاوہ دستی نلکا سے مسجد کا حوض بھرنا، صفیں بچھانا، اذان دینا اور جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا ہمارا معمول تھا۔ بچپن میں عبادات کے معاملہ میں قائد محترم بچے نہیں بلکہ عمر رسیدہ بزرگ نظر آتے تھے کیونکہ فرض نماز کے بعد کچھ دیرکے لئے اوراد و وظائف میں اس طرح مستغرق ہو جاتے کہ آس پاس کی کوئی خبر نہ رہتی۔ دنیا و مافیہاسے بے خبر ہو کر اللہ ھُو کی ضرب دل پر لگاتے تو ان کی عمر کے تناظر میں اتنے بڑے بڑے کام دیکھنے والے حیرت و استعجاب میں ڈوب جاتے۔ نماز فجر کے بعد فرصت کے حالات میں اشراق، پھر چاشت کے نوافل پڑھنا، مغرب کے بعداوّابین اورنصف شب نماز تہجد کی ادائیگی اُن کے معمولات میں شامل تھی۔ ان تمام احوال نے اُن کی شخصیت کو دوسرے بچوں سے قطعی منفرد کردیا تھا۔ بلا شبہ یہ انداز و اطوارِ عبادت گزاری بھی انہیں والدین سے وراثت میں ملے تھے۔
- اس زمانے میں ہمارے گھروں کے قریب سے ہی سر سبز کھیتوں اور باغات کا سلسلہ شروع ہو جاتا تھا۔ قائد محترم بچپن میں صبح کی سیر اور قدرت کے حسین نظاروں سے بہت لطف اندوز ہوتے تھے۔ ہم اکثر اوقات دریا ئے چناب کے بند اور کبھی اس سے بھی آگے ساحل دریا تک چلے جایا کرتے تھے اور حسنِ فطرت سے قلب و ذہن کے لئے سکون کا سامان کرتے۔ شوقِ سیاحت کا یہ عالم تھاکہ ہم جھنگ صدر سے تقریباً 24/25 کلومیٹر کے فاصلہ پر دریائے چناب اور دریائے جہلم کے سنگم پر واقع ہیڈ تریموں پرجاتے، دور بین کی آنکھ سے پانی میں اٹھکیلیاں کرتی چھوٹی بڑی مچھلیوں کا تماشہ دیکھتے اور لطف اندوزہوتے۔
- قائد محترم غیر نصابی سر گرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے۔ آپ والی بال میں شوٹنگ کے اچھے کھلاڑیوں میں شمار ہوتے۔ ہمارے گھر میں زمانہِ قدیم کی کسی توپ کا آہنی گولا ہوا کرتا تھاجو کھیل کود کے اوقات میں ہمارا بہترین ساتھی تھا۔ قائد محترم جسمانی صحت کے لحاظ سے طاقتور اور مضبوط بدن کے مالک تھے۔ گولا (Shot Put) اچھا پھینکتے اور اپنے سے بڑوں کو بھی شکست دے دیتے تھے۔ انہیں کشتی کا بھی بہت شوق تھا اور اس ضمن میں میرے سب سے بڑے بھائی سید محمد غوث شاہ گیلانیؒ کے ساتھ اکھاڑے میں ورزش کرتے اور دائو پیچ سیکھتے تھے۔ قائد محترم آج بھی انہیں یاد کرتے اور کہتے ہیں کہ وہ میرے پہلوانی کے استاد تھے۔ انہوں نے کئی باراپنے ہم عمر تو کیا اپنے سے بڑی عمر کے پہلوانوں کو بھی چاروں شانے چت کر دکھایا۔ سچ تو یہ ہے کہ اللہ نے اپنے اس محبوب بندے کو ہر میدان میں ہمیشہ فاتح رکھا اور شکست سے کبھی ہمکنار نہ ہونے دیا۔ اسی طرح میرے بڑے بھائی سید ساجد حسین گیلانیؒ کے بارے میں فرماتے ہیں کہ وہ میرے مضامینِ سائنس کے استاد تھے اور راقم الحروف کے بارے میں فرماتے کہ یہ میرے اردو ادب کے استاد ہیں اور مجھے میرتقی میرؔ وغیرہ شعرائے ادب کا کلام پڑھاتے تھے۔
- قائد محترم اپنی سکول کی زندگی میں تقریری مباحثوں میں کھل کر حصہ لیتے اور ہمیشہ اوّل انعام کے مستحق ٹھہرتے۔ تقریر کی ریہرسل ہمارے گھر کے کھلے صحن میں ہوتی۔ ہماری والدہ ماجدہ نے گھر میں مرغیاں پال رکھی تھیں۔جنہیں لکڑی کے ٹوکرے کے نیچے بند کرتی تھیں۔ اوائل پچپن میں مرغیوں کا یہ ٹوکرا قائد محترم کے تقریری سفر کا پہلا سٹیج تھا جس کے اوپر کھڑے ہوکر وہ تقریر کرتے اور ہم سب سامعین ہوتے۔ دوران تقریر جب جوش میں آ کر گرجتے تو مرغیاں شور مچانے لگ جاتیں۔ قائد محترم اس سے پریشان ہوتے۔ ایک دفعہ والدہ سے پوچھا کہ یہ شور کیوں مچاتی ہیں؟ ہماری والدہ نے کہا کہ یہ آپ کی خوب صورت تقریر پر آپ کو داد دیتی ہیں اور اظہارِ خوشی کرتی ہیں۔ اس پر قائد محترم مطمئن ہوگئے۔
کسبی و وہبی علوم کے پیکر
قائد محترم نہایت زیرک اور بلا کے حافظہ کے مالک تھے۔ دینِ متین کے علم کاوافر حصہ اور نادر و نایاب کتب کا خزانہ انہیں وراثت میں ملا۔ کسبی علم کے علاوہ انہیں وہبی علم کا نور بھی خوب میسر تھا۔ ہمارے بچپن کے زمانہ میں فرقہ وارانہ جنگ اپنے عروج پر تھی۔ نور و بشر اور علم غیب کے جھگڑے علما کے اسٹیجوں کے علاوہ گلی کُوچوں تک پھیلے ہوئے تھے۔ یہاں تک کہ بچے بھی ہمہ وقت فرقہ واریت کی اس جنگ میں شریک رہتے۔ قائد محترم اگرچہ اہل سنت مسلک کے بچوں کے لیڈر تھے مگر وقت آنے پر دیگر مسالک کے علماء کو بھی راہ فرار اختیار کرنے پر مجبور کر دیتے تھے۔ ہم جب کبھی مناظرے کی جنگ میں بے بس ہو جاتے تو ہم میں سے کوئی ایک مخالف فریق کو للکارتا اور کہتا کہ تم ابھی یہیں ٹھہرو، میں محمد طاہر صاحب کو بلاتا ہوں۔ پھر ہمارے اس پَھڈے میں ہماری بے بسی کی خبر پاتے ہی محمد طاہر صاحب بھاگے آتے اور موضوع زیرِ بحث پر ٹھوس دلائل اور حوالہ جات سے مخالف کو لا جواب اور بے بس کر دیتے تھے۔ اس موقع پر بھی میں قائدمحترم کی حفاظت اور مخالفین کی طرف سے ان پر کسی بھی متوقع حملے کے پیش نظر انہیں محفوظ رکھنے کے لیے چاق و چوبندکھڑا رہتا۔
اسی لئے قبل ازیں جب میں منہاج القرآن میں سکیورٹی ڈیوٹی پر تھا تو کسی نے مجھ سے سوال کیا کہ آپ قبلہ کے ساتھ کب سے سیکیورٹی ڈیوٹی کر رہے ہیں؟ میں نے جواب دیا کہ جب سے ہوش سنبھالی ہے۔۔۔ کبھی ایک نہایت عزیز دوست اور بھائی ہونے کے ناطے۔۔۔ کبھی اُن کے علمی قدو قامت اور پاکیزگیِ کردار سے پیار کی بدولت جووقت کے ساتھ ساتھ بڑھتا چلا گیا۔۔۔ کبھی احیائے دین اور مصطفوی انقلاب کی جدوجہد میں اپنا لیڈر سمجھ کر۔۔۔ اور آخر کار ریٹائرمنٹ کے بعد ایک با ضابطہ چیف سکیورٹی آفیسر منہاج القرآن کی حیثیت سے یہ عظیم ذمہ داری سرانجام دیتا چلا آ رہا ہوں۔
وقت گزرتا گیا۔ 1968ء میں جبکہ قائد محترم گورنمنٹ ڈگری کالج دھوبی گھاٹ فیصل آباد میں اپنا تعلیمی سفر جاری رکھے ہوئے تھے۔میں محکمہ پولیس میں ASI بھرتی ہوکر ٹریننگ کے لئے پولیس کالج سہالہ راولپنڈی چلا گیا۔ تاہم وہ کبھی کبھار ملنے کے لئے وہاں بھی تشریف لاتے۔ چھٹی کے دن ہماری منزل دربارِ عالیہ گولڑہ شریف ہوا کرتی تھی۔ دربارِ عالیہ قبلہ عالم سیدنا پیر مہر علی شاہؒ پر حاضری دیتے، محافلِ سماع میں شرکت کرتے اور پیر و مرشد حضرت قبلہ بابو جیؒ کی زیارت، فیضانِ صحبت اور روحانی توجہات سے مالا مال ہوتے۔
پیکرِ مہر و وفا: طاہرالقادری
1981ء میں ایک دور ایسا بھی آیا کہ میں SHO تھانہ صدر میانوالی تھا تو ایک بڑے معروف پولیس مقابلہ میں ایک خطرناک مجرم میرے فائر سے ہلاک ہو گیا۔ وقوعہ کے حقائق کی روشنی میں میرے خلاف کوئی مقدمہ قتل درج نہ ہوا۔ تاہم فریقِ مخالف نے میرے خلاف استغاثہ دائر کیا جس میں مورخہ10 فروری 1986ء کومجھے سزائے موت کا حکم سنادیا گیا۔ حالات و واقعات کی روشنی میں یہ فیصلہ انتہائی جانب دارانہ، غیر عادلانہ اور ظالمانہ تھا۔ مجھے پہلے شاہ پور سرگودھا جیل میں اور پھر کوٹ لکھپت لاہور کی جیل میں مقید کر دیا گیا۔ اس موقع پر میں نے اپنی ایک نظم میں اس فیصلہ پر مندرجہ ذیل اشعار کی صورت اظہارِ خیال کیا:
انصاف کے پلڑے کو زر و سیم سے بھر کر
دیتے ہیں یہاں دار، مرے یار کہاں ہو؟
فریاد خدایا کہ ہے ڈھونڈتا پھرتا
خود عدل خریدار، مرے یار کہاں ہو؟
کوٹ لکھپت جیل میں ادائیگی نمازِ فجر کے بعد سلاخوں کے ساتھ سر لگا کر کھڑا ہو جاتا اورحضرت عبدالرحمن جامیؒ کے مندرجہ ذیل اشعار باآوازِ بلند ترنم کے ساتھ پڑھتا اور آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے احوال کی خبر دیتا:
نسیما جانبِ بطحا گزر کن زِ احوالم محمدؐ را خبر کن
تُو ہی سلطانِ عالم یامحمدؐ زِ روئے لطف سوئے من نظر کن
اور پھر بعد از نمازِ مغرب اسی طرح مندرجہ ذیل اشعار پڑھتا:
یا رسول اللہ اُنظُر حَالَنا
یا حبیب اللہِ اِسمَع قَالَنا
اِنَّنِی فِی بَحرِ غمٍ مُّغرَقٌ
خُذ یَدِی سَهِّل لَّنَا اِشکَالَنا
اللہ کریم نے بہ طفیل سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میری فریاد سن لی اور میں اس کے فضل سے صرف 4 ماہ اور 10 دن بعد جیل سے باہر آ گیا۔
اسی سال عید الفطر کے روز میں جیل کی کال کوٹھڑی میں بند تھا کہ اچانک قائد محترم اپنے دونوں معصوم بچوں (حسن و حسین) کو انگلی کے ساتھ لگائے وہاں تشریف لے آئے۔ اس سر پرائز پر حیرت و استعجاب سے میرا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔ قائد محترم میرے ساتھ زمین پر بچھی چٹائی پر بیٹھ گئے اور فرمانے لگے کہ میں ابھی نماز عید پڑھ کر جب گھر آیا تو آپ کی باجی (والدہ حسن و حسین) نے مجھے کھانے کے لئے سویّاں دیں تو میں نے کہا کہ ان کو کسی ٹفن میں پیک کردیں۔ میں یہ سویّاں الطاف شاہ صاحب کے ساتھ جیل میں جا کر کھائوں گا۔ چنانچہ ہم نے مل کر یہ سویّاں کھائیں۔ سبحان اللہ! اسے کہتے ہیں وفا اور یہی ہے طریقِ اولیاء و اصفیاء۔
مادیت پرستی کے اس دورِ خرافات میں جہاں مفاد، طمع، اورمعاشی و معاشرتی زندگی میں برابری کو دوستی اور تعلق داری کی اساس بنا لیا گیا ہے، وہاں آج بھی کچھ مردانِ حق بھری دنیا کی چکا چوند میں شب و روز گزارنے کے باوجود خالصتاً اللہ کے ہو کر رہتے ہیں اور ہر خاص وعام کے لئے اپنے کشادہ دلوںمیں پیار و محبت اور اخلاص کے دیئے جلائے رکھتے ہیں، آنے والوں کا بلا تخصیص خیر مقدم کرتے اور نہاں خانہ دل میں مقیم ذاتِ الٰہی سے ملا دیتے ہیں۔ دورِ حاضر کے ایسے پیکرِ مہرو وفا اور گلِ سر سبُدکا نام شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری ہے۔
میں کیسے بھلا سکتا ہوں وہ ہمیشہ یاد رکھنے والے الفاظ جو میرا سرمایۂ حیات ہی نہیں بلکہ توشہ آخرت بھی ہیں۔ جب اعتکاف 2018ء کی شب تقریبِ تقسیم گولڈ میڈل میں محترم خرم نواز گنڈا پور صاحب نے میرا نام پکارا۔ میں نے سٹیج پر آکر قائد محترم کو محبت بھرا سلیوٹ پیش کیا۔جہاں مجھے گولڈ میڈل پہنانے کے بعد قبلہ نے میرے ساتھ اپنی 60 سالہ طویل ترین دوستی کو نہایت ہی حسین، کلماتِ تحسین سے دہرایا۔ جبکہ اس سے قبل بھی قبلہ مختلف مواقع پر گفتگو کے دوران اور میری تین کتبِ مطبوعہ: 1۔ نالہ مہجور، 2۔ چارہ بخشش، 3۔ تذکرہ سید احمد شیخ الہند گیلانیؒ۔ میں اپنے تبصرہ جات میں اسی طرح محبت، دوستی اور تعلق داری کا اظہارفرما چکے ہیں۔
طے کیسے ہو بن تیرے، منزل یہ کٹھن جاناں
میں کبھی کبھی سر جھکائے صحرائے تخیّل میں گم یادوں کے دریچے سے جھانکتا ہوں توسوچتا ہوں کہ اشہبِ زیست کس قدر سُبک رفتار ہے کہ بادِ مخالف کے تند و تیز تھپیڑوں کو چیرتا ہوا سالوں پر محیط زندگانی کی خطر ناک گھاٹیوں کو جستِ واحد میں عبور کر گیا۔ خلوص و محبت بھرے کبھی واپس نہ آنے والے حسین لمحات آنِ واحد میں گزر گئے اورپھران آنکھوں نے قائد محترم کو علاج معالجہ کی غرض سے برطانیہ کے لئے عازم سفر دیکھا۔ آنکھوں کے کٹورے عالمِ بے بسی میں چھلک پڑے اور قلم کی زبان، صفحہ قرطاس پر یوں گویا ہوئی:
یوں چھوڑ نہ تم جانا، بچپن کے سجن جاناں
رہ جائے گا کیا باقی؟ اے روح و بدن جاناں
ہنستوں کو رُلا جانا، اِک روگ لگا جانا
خُوبانِ جہاں کی ہے، یہ رسمِ کُہن جاناں
پُر ہول اندھیرے ہیں، پُر خار مری راہیں
طے کیسے ہو بِن تیرے، منزل یہ کٹھن جاناں
اِک دشت و بیاباں کی، صورت ہے مرا گلشن
منہ موڑ گئے جب سے، مرغانِ چمن جاناں
بے سُدھ ہیں پڑے سارے، طاہرؔ تیرے شیدائی
جس طرح کہ ہوں لاشے، بے گورو کفن جاناں
کہتے ہو کہ آؤنگا، دو بار برس بھر میں
یہ دُوری و مہجوری، ہے صبر شکن جاناں
اللہ کے شیدا ہو، عاشق ہو محمد ﷺ کے
مدّاحی پنجتنؑ کی، ہے تجھ کو لگن جاناں
قُرآں کا مفسّر تُو، شارح ہے حدیثوں کا
دونوں سے سجا تیرا، ہر فعلِ و سُخن جاناں
کب لوٹ کے آؤ گے، اتنا تو بتا جاؤ ؟
ہو جائیں نہ بند آخر، یہ چشم و دہن جاناں
تو جلد شفا پائے، پھر لوٹ کے گھر آئے
دیتے ہیں دعائیں ہم، سب اہلِ وطن جاناں
اللہ ترا حافظ ہو، حامی بھی ہو ناصر بھی
دامانِ شہ بطحا، ہو سایہ فگن جاناں
تو محفل ہستی میں، ہو قید بھلا کیوں کر
تُو موجہ خوشبو ہے، تُو مشکِ ختن جاناں
الطافؔ ترا چھلنی، ہے ہجر کے بھالوں سے
کر چارہ غم کوئی، منٹھار و مٹھن جاناں
سنگتِ شیخ الاسلام حوصلہ و امید کا استعارہ
آج جوں جوں کار گاہِ ہستی کے کمرہ امتحان میںعمل کے مضمون کے پرچے کے حل کیلئے دیا گیا وقت ختم ہونے کو ہے اورصور پھونک کرباقاعدہ اعلان ہونے اور پھر رزلٹ پیپر ہاتھ میں پکڑایا جانیوالا ہے توتہی دامانی کے پیش نظر جہاں لرزہ براندام ہوں وہاں اللہ کی رحمت، نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شفاعت، اہل بیت پاک سے صلبی نسبت، منہاج القرآن کی جاری کردہ تاحیات سندِ رفاقت اور پھر شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی جاری کردہ سندِ دوستی و محبت حوصلہ افزاء ہیں۔
19 فروری 2012ء قائد ڈے پر محترم خرم شہزاد میری ایک دعائیہ نظم پر اس خوبصورتی سے نغمہ سرا ہوئے کہ قائد محترم کے ایک چاہنے والے نے مجھے عمرے کا ٹکٹ گفٹ کیا تھا۔ ذیل میں اس نظم کااعادہ کرتا ہوں:
میرے طاہرؔ پیا، تو سلامت رہے
تو سلامت رہے، تا قیامت رہے
تُو شبِ تار میں مثلِ نُورِ قمر
ظلمتوں میں ضیاء کی علامت رہے
عصرِ حاضر کو مربُوطِ قرآں کیا
جامِ نو میں رحیقِ قدامت رہے
سُنّتِ مصطفی ﷺ تیرا ملبُوس ہے
زیرِپا منزلِ استقامت رہے
تیری تقریر گویا نوائے سروش
یونہی رشکِ فصاحت، بلاغت رہے
تیری تحریر قرآن کی ترجماں
تا ابد وجہِ رُشد و ہدایت رہے
چار سُو تیری آواز گونجے سدا
ساری دنیا پہ تیری نِظامت رہے
فیض بٹتا رہے، جام چلتا رہے
ساقیا تیری قائم سخاوت رہے
تیرے پرچم تلے شرق سے غرب تک
سرفروشانِ حق کی وِلایَت رہے
خود خدا آپ تیری حفاظت کرے
شاہِ بطحا ﷺ کی چشمِ عنایَت رہے
تیری منزل کے سب راستے ہیں کٹھن
غوثِ اعظم کی پل پل حمایت رہے
تیرے آبا کی قبریں مُنوّر رہیں
تیری اولاد زیبِ امامت رہے
تیرے الطافؔ کی بس دعا ہے یہی
دیدہ و دل میں تیری اقامت رہے
- قائد ڈے کے ایک دوسرے موقع پر محترم محمد افضل نوشاہی نے قائد محترم پر لکھی ہوئی میری ایک دوسری نظم پڑھ کر سامعین کا دل موہ لیا اور بھر پور داد حاصل کی۔ احباب کی خوشنودی کے لئے دوبارہ پیش کرتا ہوں:
اُٹھو دوستو آج خوشیاں منائیں
شبِ منتظَر ہے اُٹھو جھومیں گائیں
چراغوں سے آنگن گھروں کے سجائیں
بہر سو گلابوں کی کلیاں بچھائیں
یوں قائد کا جشن ولادت منائیں
اُٹھو دوستو آج خوشیاں منائیں
ستاروں کی بستی میں اک چاند اُبھرا
عجب شان سے ماں کی گودی میں اُترا
دعائے پدر سے وہ اس طور چمکا
شبِ تار میں جیسے نوری شعائیں
اُٹھو دوستو آج خوشیاں منائیں
وراثت میں علم و قلم لے کے آئے
رموزِ شریعت سے پردے اُٹھائے
سیاست میں اسلام کی روح لائے
سعادت کی شب ہے مقدر جگائیں
اُٹھو دوستو آج خوشیاں منائیں
سلامت رہے اُن کا سایہ سروں پر
حکومت رہے اُن کی قائم دلوں پر
لٹکتی رہے تیغ دہشت گروں پر
رہیں پَرفِشاں امن کی فاختائیں
اُٹھو دوستو آج خوشیاں منائیں
ہیں طاہرؔ ہمارے اجلّ شیخِ دوراں
جِلَو میں ہے اک لشکرِ سرفروشاں
عدو جس کی ہیبت سے الطاؔف لرزاں
تقاضائے عہدِ محبت نبھائیں
اُٹھو دوستو آج خوشیاں منائیں
- میں نے اس جامع کمالات شخصیت کے بچپن کے زمانے کی چند یاد داشتوں کو کاغذ پر منتقل کرنے کی جسارت کی ہے کیونکہ اُن کی ہمہ گیر صفات کا احاطہ کرنا ’’ایں کارِ محال است و جنوں است‘‘ کے مترادف ہے۔ اس نابغہِ عصر شخصیت کی زندگی کے مختلف پہلوؤں، علمی تدبر اور روحانی صلاحیتوں جن کا ایک زمانہ معترف ہے، اس پر آج تک بہت کچھ لکھا گیا، لکھا جا رہا ہے اور تا قیامت لکھا جاتا رہے گا۔ میں اس کارِ محال کو Right man for the right job کے مصداق اہل لوگوں کے سپرد کرتا ہوں۔
- آخر میں بارگاہِ ربوبیت میں دعا گو ہوں کہ باری تعالیٰ اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تصدق سے آبِ رحمتِ حق، عشقِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور علم وعرفان سے لبریز اس بحرِ بے کراں کو سلامت تا قیامت رکھنا تاکہ سالکین رہِ حق اس میں غوطہ زنی کر کے اپنی اپنی بساط کے مطابق گواہر و جواہر کا توشہ آخرت سمیٹتے رہیں۔ نیز ان کے پورے خانوادہ اور ہم سب چاہنے والوں کے سروں پر اُن کا سایہ عاطفت قائم دائم رہے تاکہ رندانِ میخانہ بغداد یوں ہی جامِ عشقِ الٰہ و مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھر بھر کر پیتے اور سیراب ہوتے رہیں۔ آمین بجاہ سیّد المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
ماخوذ از ماہنامہ منہاج القرآن، فروری 2020ء
تبصرہ