قائد کے اوقاتِ کار

شیخ عبد العزیز دباغ

مرکز پر میری ذمہ داریوں کا آغاز 1999ء میں منہاج کالجز کے پبلسٹی سیل کے ہیڈ کے طور پر ہوا۔ آغاز میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی ہمہ جہتی خدمات اور شب و روز مصروفیات کے تفصیلی احوال کا علم حافظ حکیم محمد یونس صاحب (ناقل خطابات شیخ الاسلام فرید ملت ریسرچ انسٹی ٹیوٹ) سے ملاقاتوں کے دوران ہوا جنہیں سن کر میں حیرتوں کے ایک جہان میں ڈوبتا چلا گیا۔ ان ملاقاتوں کے دوران حکیم حافظ محمد یونس صاحب کو جب انگلش زبان سے میری دلچسپی اور انگلش لٹریچر پڑھنے اور لکھنے کی استعداد کار کا علم ہوا تو ایک دن انہوں نے مجھ سے شیخ الاسلام کی کتاب ’’شانِ اولیائ‘‘ کا انگریزی ترجمہ کرنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ میں نے حامی بھرلی اور اس ایک رات میں بتوفیقِ الہٰی ’’شانِ اولیائ‘‘ کا انگریزی ترجمہ مکمل کردیا۔ اگلے دن کمپوزنگ اور فارمیٹنگ کے بعد محترم حکیم محمد یونس صاحب کے کہنے پر شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی خدمت میں پیش کیا۔

علمی و تحقیقی حوالے سے شیخ الاسلام سے یہ میری پہلی ملاقات تھی۔ میں جب شیخ الاسلام کی خدمت میں کتاب کا انگریزی ترجمہ پیش کرنے گیا تو انہیں مختلف النوع مصروفیات میں گھرے ہوئے دیکھا۔ ملاقاتیوں کا ایک ہجوم اپنی اپنی باری کا منتظر تھا۔ تحریک کے معاملات، فیلڈ میں تنظیمات کے معاملات، دعوت کے پروگرامز، آنے والے بلدیاتی انتخابات کی تیاری کے لیے PAT کی سرگرمیوں کے حوالے سے میٹنگز، الغرض لاتعداد متفرق معاملات کے سلسلے میں مختلف احباب قائدِ تحریک سے شرفِ ملاقات حاصل کرتے اور اپنے اپنے معاملات پر رہنمائی اور ہدایات اور پروگراموں کی منظوری حاصل کرتے۔

میں آپ کے آفس سے باہر تشریف لانے کا انتظار کرتے ہوئے یہی سوچتا رہا کہ دن کے ان محدود گھنٹوں میں یہ کس طرح ان تمام معاملات کو ڈیل کرتے ہوں گے جو نہ صرف اپنی Nature کے اعتبار سے مختلف النوع ہیں بلکہ کئی معاملات بظاہر گھمبیر بھی نظر آرہے ہیں۔ اس ایک دن کی مصروفیات کو دیکھ کر اپنے تجربہ و مشاہدہ کی روشنی میں میرے ذہن میں یہ خیال پیدا ہوا کہ یقینا یہ ایک دن نہیں بلکہ انسانی ہمت، استعداد کار اور جسمانی احوال کے پیش نظر ہفتہ، عشرہ مصروفیات کا شیڈول ہے جنہیں ایک دن میں مکمل کرنا ناممکنات میں سے ہے۔ جب آپ تشریف لائے تواحباب کا ہجوم بھی ساتھ ساتھ تھا۔ میں نے ہمت کی، آگے بڑھا، سلام عرض کیا، دو لفظوں میں تعارف پیش کیا اور پھر’’ شانِ اولیائ‘‘ کے انگریزی ترجمے کی فائل یہ کہہ کر پیش کردی کہ عیدِ میلاد کی مناسبت سے یہ حقیر تحفہ قبول فرمائیں۔ اس وقت شیخ الاسلام ملاقات کے لیے تشریف لانے والے مشائخ کی طرف جارہے تھے، میرا ہاتھ تھاما اور مشائخ سے ملاقات کے لیے مجھے بھی ساتھ لے گئے۔ مشائخ سے میرا تعارف کرایا اور شان اولیاء کے انگریزی ترجمے کے حوالے سے انہیں بتایا۔ اس موقع پر میرے لیے دعا کی بھی اور کرائی بھی۔ آج یہ کتاب Islamic Spirituality & Modern Science کے عنوان سے طبع ہورہی ہے۔

منہاج کالجز میں ایک عرصہ ذمہ داریاں ادا کرنے کے بعد شیخ الاسلام نے مجھے فریدِ ملت ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کی ڈائریکٹر شپ کی ذمہ داری تفویض فرمائی۔ یہاں میں نے شیخ الاسلام کی خواہش اور علمی معیار کو مدنظر رکھ کر رفتارِ کار اور معیارِ کار کو مہمیز لگانے اور ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے معیار کو مزید بہتر بنانے کے لیے ایک ورک پلان پیش کیا جسے آپ نے مرکزی قائدین کے ساتھ share کیا، اس کی تعریف کی اور منظوری عطا کردی۔

مرکز پر خدمات کی انجام دہی کے دوران ہر آئے روز شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری مدظلہ کے اوقات کار، مصروفیات کے تنّوع، تقسیم کار اور مشن کے فروغ کے لیے انتھک جدوجہد کے مظاہر دیکھ کر کتاب پیش کرنے کے دوران پہلی ملاقات کے وقت ذہن میں پیدا ہونے والا خیال یکسر ختم ہو گیا اور میں شیخ الاسلام کے وقت میں برکت کے راز سے آشنا ہوتا چلا گیا۔

اخلاص، حسنِ نیت، مشن کے ساتھ شدید محبت، رضائے الہٰی اور رضائے نبی a کے حصول کی تڑپ وہ عوامل ہیں جو کسی بھی شخصیت کو اوقاتِ کار کے تصور سے نہ صرف ماوراء لے جاتے ہیں بلکہ اس کے وقت میں برکت بھی عطا کرتے ہیں۔ کاش! یہ وسائلِ کار ہر کسی کو نصیب ہوں۔

شیخ الاسلام ڈاکٹر طاہرالقادری مدظلہ کے پاس ان وسائل کے خزانے ہیں جو وہ اپنے تمام رفقا میں بے دریغ تقسیم کرتے ہیں۔ آگے لینے والوں کے نصیب کہ وہ کس حد تک لیتے اور اپنی ذات کا حصہ بناتے ہیں۔ الحمد للہ کہ وہ ہم میں موجود ہیں۔ ربِ کریم ان کا سایہ تا دیر ہمارے سروں پر قائم رکھے۔ آمین۔

معیار، رفتار اور بشاشت کے پیکر

شیخ الاسلام نے ایک دن مجھ سے ڈیفنس فورسز کی اعلیٰ ترین قیادت کے ساتھ کام کرنے کے تجربہ کے حوالے سے پوچھا تو میں نے عرض کیا کہ کیریئر میں میری آخری تعیناتی چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کے ساتھ بطور سیکرٹری تھی، ایئر چیف مارشل فاروق فیروز صاحب CJCSC تھے۔ ان کے ورک سٹائل کی حیران کن بات اُن کا معیار اور رفتار (Speed and Quality) تھی۔ وہ Quality مانگتے مگر ایسی Speed کے ساتھ جس کا ہر کسی کو ملکہ نہ ہوتا۔ جو بھی کام جب وہ خود کرتے تو نہ ایسی Quality کوئی پیش کرسکتا نہ ان جیسی Speed کے ساتھ کوئی اور وہ کام سرانجام دے پاتا۔ میں نے شیخ الاسلام سے عرض کیا کہ آپ میں ان دو کے علاوہ ایک تیسری بات بھی ہے۔ آپ جیسی کوالٹی پیش کرنا بہت ہی مشکل ہے جبکہ جس Speed سے آپ کام نمٹادیتے ہیں وہ رفتار کار بھی اکثر لوگوں کے بس کی بات نہیں۔ آپ میں تیسری حیران کن بات یہ ہے کہ آپ معمولی اور ہلکی غذا کے ساتھ 24 گھنٹے لگاتار کام کرنے کے باوجود تازہ دم اور Fresh ہوتے ہیں، تھکن کے کوئی آثار دکھائی نہیں دیتے اور یوں لگتا ہے کہ اگلے 24 گھنٹے بھی گزشتہ 24 گھنٹوں کی طرح مصروف کار رہیں گے۔ ذہن تھکتا ہے نہ اعصاب۔ فکر کی پرواز جاری رہتی ہے، متنوع مسائل پیش ہوتے ہیں جنہیں آپ بیک وقت حل فرما رہے ہوتے ہیں اور ہر معاملہ کسی نہ کسی اصول اور ضابطے کے تحت سرانجام ہو رہا ہوتا ہے۔ یعنی Quality, Speed and Freshness آپ کے امتیازی ا وصاف ہیں۔

شیخ الاسلام نے میرے اس مشاہدے کو درست قرار دیا اور اسے اللہ اور اس کے رسولa کی عطا کے ساتھ ساتھ مشنِ مصطفوی کے ساتھ اخلاص اور صدق کا نتیجہ قرار دیا۔

جدوجہد کا دائرہ کار

شیخ الاسلام کے قریبی رفقاء شاہد ہیں کہ آپ آغاز ہی سے وقت سے آگے نکل کر اپنی جد و جہد کو کامیابیوں سے ہمکنار کرنے والے قائد ہیں۔ آپ جس قدر جسمانی توانائیوں کو بروئے کار لاتے ہیں، اسی قدر ان کی توانائیوں میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ مقصد کی لگن اور مشن کی محبت ہمارا وہ سرمایہ ہے جس سے ہر میدان میں ہمیں فتوحات ملتی ہیں، عروج ملتا ہے، عملِ ارتقاء تیز تر ہوجاتا ہے اور وہ کامیابیاں حاصل ہونے لگتی ہیں جو تصور سے ماوراء ہوتی ہیں۔

شیخ الاسلام مدظلہ کی کامیابیوں اور کامرانیوں کا ذکر اس موقع پر ہمارا موضوع نہیں مگر آپ علم و فکر کی کس سطح پر کیا کررہے ہیں؟ یہ جاننے کے لیے سیکڑوں مثالوں میں سے ماضی قریب ہی کی ایک مثال دیتا ہوں۔ شیخ الاسلام سعودی عرب کے دارالخلافہ ریاض میں آرگنائزیشن آف اسلامک کوآپریشن (OIC) کی سربراہی کانفرنس منعقدہ 9 اپریل 2019ء میںThe Role of Education in Prevention of Terrorism and Extremisim کے موضوع پر خصوصی خطاب کے لیے مدعو تھے۔ آپ نے اپنے اس خطاب میں مدلل طریقے سے شرکاء کو باور کرایا کہ منہاج القرآن نے دہشت گردی اور انتہا پسندی کی بیخ کنی کے لیے جو تعلیمی نصاب ترتیب دیا ہے اور جن بیسیوں پروگرامز پر MQI دنیا بھر میں عمل پیرا ہے، انہیں تمام رکن ممالک کو اپنے ہاں کالج اور یونیورسٹی کی سطح پر شاملِ نصاب کرنے کی ضرورت ہے۔ اس موقع پر انہوں نے اس تعلیم کو عام کرنے کی غرض سے MQI کی طرف سے ہر طرح کے تعاون کی پیش کش بھی کی۔ شرکاء اجلاس نے آپ کی کاوشوں کو بے حد سراہا، تعاون کی پیش کش پر تشکر کا اظہار کیا اور آپ کی کامیاب جدوجہد کے اعتراف میں خصوصی شیلڈ پیش کی۔

اہم ترین مصروفیت: مطالعہ و تحقیق

محنتِ شاقہ اور شب و روز کی ریاضت آپ کا بچپن ہی سے معمول ہے۔ پوری رات مصروفِ تحقیق رہنا اور فجر کی نماز ادا کرکے آرام کرنا آپ کی برسہا برس کی عادت ہے۔ حتیٰ کہ 2014ء کے دھرنے کے اعصاب شکن ماحول میں بھی آپ کا یہی معمول رہا۔ تقریباً 10بجے بیدار ہوتے اور 11 بجے پھر شیڈول کے مطابق مصروف ہوجاتے۔ آپ کی سب سے زیادہ اہم مصروفیت مطالعہ کتب ہے۔ وہ کتب جن کے مطالعے کے لئے عام باذوق قاری کو مہینے درکار ہوتے ہیں، آپ وہ کتابیں گھنٹوں میں پڑھ ڈالتے ہیں اور جن کتابوں کا مطالعہ کررہے ہوتے ہیں، ان کے کوائف بھی انہیں یاد رہتے ہیں یعنی مصنف کون ہے؟ کتاب کب شائع ہوئی؟ کہاں شائع ہوئی؟ کون سے پریس میں چھپی؟ کتنے صفحات یا جلدوں پر مشتمل ہے؟ آپ کو اکثر کتابوں کے وہ صفحات نمبر تک یاد ہوتے ہیں جہاں تحقیق سے متعلقہ مواد لکھا ہوتا ہے۔ آپ وہاں ٹیگ (Tag) بھی لگا دیتے ہیں، بہت تیزی سے گہرا مطالعہ کرلیتے ہیں اور کتاب کے مندرجات کے حوالے سے معلومات کو ذہن نشین بھی کرلیتے ہیں۔

ریسرچ اسکالرز کو پراجیکٹس پر بریف کرتے ہوئے آپ بیسیوں کتب کے مصنفین اور کتب کے حوالہ جات اس رفتار سے بتا رہے ہوتے ہیں کہ انہیں لکھنے میں مشکل پیش آتی ہے، چنانچہ اسکالرز ریکارڈ کر لیتے ہیں کہ کہیں کوئی ریفرنس رہ نہ جائے۔ ایسا بھی ہوا کہ اسکالرز کے ساتھ یہ نشستیں گھنٹے دو گھنٹے کے لئے ہوئیں مگر ذوق ایسا پیدا ہو جاتا کہ صبح ہو تو شام ہو جائے اور رات ہو تو رات بیت جائے۔

آپ گزشتہ کئی برس سے کینیڈا میں مقیم ہیں۔ وہاں بھی آپ کے ورک سٹائل اور اوقات کار میں چنداں تبدیلی نظر نہیں آتی۔ صبح دس بجے سے نماز تہجد اور صلوٰۃ الفجر تک آپ کی مصروفیات ویسے ہی جاری و ساری ہیں۔ آپ صبح 10بجے ہی اسٹڈی روم میں تشریف لاتے ہیں اور تفسیر کے پراجیکٹ پر کام شروع کردیتے ہیں۔ اسی دوران مرکز سے اور دنیا بھر میں تنظیمات کے ساتھ روابط جاری رکھتے ہیں اور رہنمائی اور ہدایات فرماتے ہیں۔ تفاسیر کی پرانی کتب اور جدید لٹریچر مطالعے کے لیے کھول کر رکھے ہوتے ہیں اور ظہر کی نماز تک یہ کام جاری رہتا ہے اور دوپہر کے کھانے کے وقفے کے بعد پھر کام شروع کردیا جاتا ہے اور مطالعہ اور تفسیر کا یہ کام رات گئے تک جاری رہتا ہے۔

آپ نے ایک ہزار کتب بھی تصنیف فرمائی ہیں جن میں سے 596 چھپ چکی ہیں اور باقی اشاعتی مراحل میں ہیں۔ لوگ 100 یا 150 صفحات کی کتاب شائع کرنے میں کئی سال لگا دیتے ہیں مگر شیخ ا لاسلام کی بات اور ہے۔ آپ کا نظامِ تصنیف و تحقیق اور پرنٹنگ اور پبلشنگ کا جدید نظام ایسا ہے جو 24گھنٹے جاری و ساری رہتا ہے۔ قرآن مجید، احادیث، تفسیر، فقہ، فلسفہ اور دیگر سائنسی اور غیر سائنسی علوم پر تازہ ترین کتب اور کلاسک کتب آپ کے زیر مطالعہ ہوتی ہیں۔ فرید ملت ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے سکالرز کو جو پراجیکٹس کمپوزنگ، پروف ریڈنگ، تخریج، ترتیب و تدوین کے لئے دیے جاتے ہیں، شیخ الاسلام انہیں ایک ایک مرحلہ پر ہدایات دیتے اوران کی نگرانی کرتے ہیں۔ کسی بھی پراجیکٹ پر کام کے آغاز سے قبل شیخ الاسلام مدظلہ خود بھرپور تیاری کرتے ہیں اور پھر ایک ایک نکتہ سمجھاتے ہیں اور مآخذ اور مراجع پر تفصیل سے روشنی ڈالتے ہیں۔ ریسرچ اسکالرز کو یہ اعزاز حاصل ہوتا کہ وہ گھنٹوں آپ کی صحبت میں رہتے ہیں اور آپ ان کی تفصیل سے رہنمائی کرتے اور انہیں ہدایات دیتے ہیں۔چیکنگ کے دوران اکثر ایسے ہوتا ہے کہ آپ کی نگاہ رسا اسی صفحے پر جاٹکتی ہے جہاں کوئی نہ کوئی کوتاہی یا غلطی موجود ہوتی ہے۔

دورانِ سفر علمی و تحقیقی امور کی تکمیل

پاکستان میں قیام کے دوران صبح کے مطالعاتی اوقات کے بعد مرکز کے امور اور معاملات پر ہدایات کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ چونکہ آپ دو لفظوں یا دو جملوں کو سنتے ہی معاملے کی تہہ تک پہنچ جاتے ہیں، اس لیے کم وقت میں بہت سے معاملات نمٹا دیتے ہیں۔ جن معاملات پر میٹنگ کی ضرورت ہوتی، آپ ہدایات فرمادیتے۔ میٹنگز اور ملاقاتیوں کا شیڈول ہوتا جس کے مطابق جملہ سرگرمیاں جاری رہتیں۔ PAT کے معاملات اور انتخابات کی تیاری کے حوالے سے شیخ الاسلام کی مصروفیات دن ہو یا رات جاری رہتیں۔ مگر اہم امور کو ایک ساتھ نبٹاتے جب کہ ایسا کرنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔

مجھے یاد ہے ریسرچ کے تین چار پراجیکٹس کی چیکنگ اور اسکالرز کی رہنمائی بلدیاتی انتخابات کی تیاری کی وجہ سے مؤخر ہوتی جارہی تھی۔ آپ نے لاہورسے نارووال تک انتخابی دورہ کرنا تھا اور متعلقہ PAT قیادت نے جگہ جگہ بیسیوں مقامات پر عوامی اجتماعات منظم کررکھے تھے جن سے شیخ الاسلام نے خطاب کرنا تھا۔ PAT کی سرکردہ قیادت ہمراہ تھی۔ ان کا خیال تھا کہ وہ آپ کے ساتھ گاڑی میں بیٹھیں گے اور مختلف معاملات پر مشاورت ہوتی رہے گی، مگر آپ نے ریسرچ سکالرز کی ٹیم کو اپنے اپنے پراجیکٹس ساتھ لے کر گاڑی میں بیٹھ جانے کی ہدایت فرمائی۔ چنانچہ ہم لوگ گاڑی میں بیٹھ گئے اور اس طرح بلدیاتی انتخاب کے سیاسی ٹور کے سفر کا آغاز ہوا۔ PAT قائدین دوسری گاڑیوں میں ساتھ ساتھ تھے۔ سفر شروع ہوتے ہی آپ نے ایک ایک پراجیکٹ پر کیے ہوئے کام کی فائل دکھانے کو کہا۔ آپ کام چیک کرتے رہے، کچھ ہدایات مختلف صفحات پر لکھتے رہے اور کچھ زبانی نصائح فرماتے رہے حتی کہ پہلا عوامی اجتماع آگیا۔ وہاں PAT کے کارکنان اور عوام جھنڈے اٹھائے PAT کے نعرے لگاتے، سڑک کے کنارے موجود تھے۔ آپ نے گاڑی سے باہر نکلنے کی بجائے اس کی Sunroof window کھولی، گاڑی کے اندر ہی کھڑے ہوکر اپنا چہرہ باہر نکالا اور موبائل سائونڈ سسٹم پر لوگوں سے خطاب کرنے لگے، انہیں خوش آمدید کہا، استقبال کا شکریہ ادا کیا، انتخابی سرگرمیوں کے لیے ہدایات دیں اور ہمت اور ثابت قدمی کی دعا دے کر خطاب مکمل کیا۔

Sunroof window بند کی اور گاڑی اپنی اگلی منزل کی طرف بڑھنا شروع ہوگئی اور شیخ الاسلام نے جس علمی و فکری پراجیکٹ پر نظر ثانی جہاں سے چھوڑی تھی وہیں سے پھر شروع کردی اور اس طرح وہ دوبارہ ریسرچ کے کام میں مصروف ہوگئے۔ غلطیوں کی نشاندہی اور ضروری اضافوں کی ہدایات دیں۔ نارووال تک ایسا کئی بار ہوا کہ آپ عوامی اجتماعات سے خطاب بھی فرماتے اورریسرچ کا کام بھی چیک کرتے اور اسی طرح ہمارے تمام ریسرچ پراجیکٹس چیک ہوگئے۔ کام مکمل کرکے ہمیں واپس لاہور چلے جانے کا حکم فرمایا۔ ہم واپس چل دیے اور آپ اپنی سیاسی سرگرمیوں کے سلسلہ میں اگلے سفر پر روانہ ہوگئے۔

دیگر مصروفیات کے احوال

یہ نہیں کہ آپ کی مصروفیات کا دائرہ کار صرف علمی و تحقیقی امور تک محدود ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ آپ کی دیگر تنظیمی و انتظامی سرگرمیاں بھی جاری و ساری رہتی ہیں۔

لاہور میں عموماً دیکھا کہ آپ مرکز پر شعبہ جات کے ساتھ اور فیلڈ سے آئے ہوئے کارکنوں کے ساتھ بہت سا وقت میٹنگز کو دیتے جبکہ مختلف سیاسی پارٹیوں کے رہنما بھی ملنے کے لیے آتے اور آپ انہیں الگ الگ ملاقات کا وقت دیتے جبکہ بیرونی ممالک سے آئے ہوئے مہمانوں کے لیے خصوصی طور پر وقت نکالتے اور ٹیلیفونک رابطے کرتے حتی کہ رات ہوجاتی۔ ایسے میں کبھی کبھی یاد آتا کہ ناشتہ آیا تھا، چائے ٹھنڈی ہوگئی تھی۔ پھر گرم چائے منگوائی گئی، وہ بھی ٹھنڈی ہوگئی تھی اور ناشتہ تو کیا ہی نہیں مگر شیخ الاسلام کی نہ آواز سے، نہ چہرے سے اورنہ گفتگو سے ایسا کوئی تاثر ملتا کہ آپ کو کام کرتے ہوئے 12یا 14 یا 16 گھنٹے گزر چکے ہیں اور آپ تھک گئے ہیںبلکہ آپ تازہ دم ہوتے۔ دن بھر میں جو کام شیڈول تھے اور بوجوہ نہ ہوسکے تو ان کے بارے میں خود سیکرٹری سے پوچھتے اور دوبارہ شیڈول کراتے۔ پھر وہ مطالعہ کے لیے وقت نکالتے اور رات گئے تنہائی کے لمحات میں ضروری مطالعہ مکمل کرتے۔

موضوع سے متعلقہ امور کی تیاری، تحقیق اور مشاورت

یہاں یہ ذکر ضروری سمجھتا ہوں کہ شیخ الاسلام مدظلہ نے کبھی ریسرچ اسکالرز کی میٹنگ یا کسی شعبے یا فیلڈ ورکرز کے وفد یا آئے ہوئے مہمانوں سے ملاقات یا میٹنگز، انٹرویوز یا پریس کانفرنسز متعلقہ موضوع پر بغیر تیاری کے نہیں کی۔ ہر طرح کی گفتگو ملاقات یا میٹنگ سے پہلے آپ تیاری ضرور کرتے ہیں۔

اس کی ایک مثال یہ ہے کہ جب آپ کو OIC کے سربراہان کے اجلاس سے خطاب کی دعوت ملی تو ساتھ ہی تیاری شروع ہوگئی تھی۔ انگلش میں تین کتب تیار ہورہی تھیں جن کی ایک ماہ میں تصنیف و اشاعت کا کام کٹھن مرحلہ تھا۔ فرید ملت ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر محترم محمد فاروق رانا ہمہ وقت شیخ الاسلام کی ہدایات اور رہنمائی کے لیے تیار رہتے۔ ایسا بھی ہوا کہ رانا صاحب نے رات 12 بجے تک ہدایات لیں لیکن گھر گئے توایک بجے پھر شیخ الاسلام مدظلہ نے رابطہ فرمایا اور تازہ ہدایات عطا فرمائیں جن کے مطابق صبح ان پر کام شروع کردیا گیا۔ بالآخر یہ کام روانگی سے دو روز قبل پایہ تکمیل کو پہنچا۔ جب آپ اس کام کے لیے لاہور تشریف لائے تو آپ خود کمپیوٹر پر اصلاحات فرماتے، ریسرچ سکالرز کو اپنے ساتھ بٹھایا ہوتا جنہیں کمپوزنگ کی ہدایات دیتے اور یہ کام آپ کی ائر پورٹ روانگی سے دو گھنٹے قبل تک جاری رہا۔

اسی طرح کسی کے بارے میں اگر کوئی شکایت موصول ہو تو شکایت کرنے والا کتنا ہی سینئر یا معتبر کیوں نہ ہو، آپ فریق ثانی کی بات ضرور سنتے ہیں اور ہر طریقے سے کنفرم کرتے ہیں کہ شکایت درست یا غلط یا جزوی طور پر درست یا غلط ہے۔ حد درجہ تحقیق کے بعد ہی کوئی فیصلہ فرماتے ہیں اور فیصلے سے پہلے مشاورت انتہائی ضروری سمجھتے ہیں، خواہ معاملہ کتنا ہی اہم یا غیر اہم کیوں نہ ہو۔ اس عمل میں جتنا بھی وقت لگ جائے، لگاتے ہیں۔

2014ء کے دھرنے کے دوران ہزاروں کی تعداد میں کارکن آپ کے ساتھ موجود تھے، انتظام و انصرام کے حوالے سے شکایات آپ تک پہنچتی تھیں تو آپ ان حالات میں بھی چھوٹی سے چھوٹی بات بھی سنتے، اس پر پوری توجہ دیتے اور شکایات کے ازالے کے لیے ہر سطح پر مشاورت کرتے اور پھر فیصلہ فرمادیتے۔

فیضِ محمدیہ کے امین و قسیم

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری مدظلہ کا مرتبہ و مقام روٹین کے اوقات کار سے ماوراء ہے۔ اوقات کار طے کر کے روزانہ کی کارگزاری کا اصول تو ہم جیسے غافل لوگوں کے لئے ہے۔ دین مصطفی a کے ابلاغ اور نفاذ کا پروگرام لے کر زندگی کو غلامی مصطفیa میں وقف کر کے مصروف جد و جہد رہنے والے مجدد وقت کے لئے تو وقت خود تابع ہو کر چلتا ہے۔

قرآن مجید کا اردو ترجمہ عرفان القرآن کرتے وقت ایسے بھی لمحات آئے جب آپ واضحیت کی توثیق کے لیے کئی کئی گھنٹے تحقیق میں گزار دیتے۔ مجھے آپ کی وہ رات یاد ہے جب آپ سورۃ الفتح کی آیت نمبر ۲ ’’مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِکَ وَمَا تَاَخَّرَ‘‘ کا ترجمہ کررہے تھے۔ اس پر سورۃ المومن کی آیت نمبر ۵۵ بھی مد نظر تھی اور آپ گھنٹوں کے حساب سے علوم القرآن کی کتابیں کھول کر ان کا مطالعہ کرتے رہے۔ ان کے قلب و نظر میرے اور آپ کے قلب و نظر نہیں جو حقیقتِ محمدی a کے نورِ محض کو نہ پہچانتے۔ آپ کے قلب و نظر میں تو نور محمدیa کا چراغ روشن ہے جو ترشحاتِ لامکاں میں ’’ذنبک‘‘ میں امت کے گناہوں کو دیکھ رہا تھا اور جب انہیں واضحیت کی تحصیل ہوگئی، تب اس کا ترجمہ فرمایا۔

اسی طرح احادیث کی ابواب بندی اور عصرِ حاضر کی ضروریات کے پیش نظر ان کی عامۃ المسلمین تک رسائی کے لیے حدیث پراجیکٹ ’’انسائیکلو پیڈیا آف سنۃ‘‘ پر تحقیقی کام شروع کرایا جو 30 جلدوں پرمشتمل ہو گا۔اس پر کام اختتامی مراحل میں ہے۔ اس میں آپ حدیث کا ایک ایک باب اور فصل خود دیکھتے اور کنفرم کرتے ہیں، خواہ اس میں دن بیت جائے یا رات یا کئی دن رات۔ اوقات کار کا کوئی Concept نہیں۔ قرآنی انسائیکلوپیڈیا پر بھی اسی طرح آپ کی ہدایات اور رہنمائی میں کام ہوتا رہا۔

زندگی کا ایک ایک لمحہ مشن کی نذر ہے اور آپ کی حیات کا ایک ایک ثانیہ اس آیہ کریمہ کی تفسیر ہے:

اِنَّ اﷲَ اشْتَرٰی مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اَنْفُسَھُمْ وَاَمْوَالَھُمْ بِاَنَّ لَھُمُ الْجَنَّۃَ.

’’بے شک اﷲ نے اہلِ ایمان سے ان کی جانیں اور ان کے مال، ان کے لیے (وعدۂ) جنّت کے عوض خرید لیے ہیں۔‘‘

(التوبۃ، 9/111)

شیخ الاسلام مدظلہ کو بارگاہ رسالت سے جو نسبت حاصل ہے اس کے وسیلے سے آپ کو حضور رسالت مآبa کے خصائل و فضائل کا فیض حاصل ہے۔ کرہ ارض میں آپ کے مصطفوی مشن کو جو کامیابیاں، وسعتیں اور بلندیاں عطا ہوئی ہیں وہ سب اسی فیض کی مظہر ہیں۔

حالاتِ حاضرہ سے باخبر

اپنی اس تمام تر تحقیقی علمی و فکری اور تنظیمی و انتظامی مصروفیات کے ساتھ ساتھ شیخ الاسلام حالاتِ حاضرہ سے بھی باخبر رہتے ہیں، اُن سے کسی بھی تازہ عالمی یا قومی مسئلہ پر بات ہو تو وہ اس سے اس طرح باخبر نظر آتے ہیں جس طرح ایک پروفیشنل صحافی اُس خبر کی تمام تفصیلات سے آگاہ ہوتا ہے اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ ورلڈ پریس پر ان کی گہری نظر ہے اور وہ الیکٹرانک میڈیا سے پوری طرح آگاہ ہیں۔ چنانچہ مطالعاتی اور تحقیقی کام کے دوران بریک لیتے ہیں اور پریس میں تازہ ترین صورتحال سے آگاہی حاصل کرتے ہیں۔

حرمین شریفین حاضری کے معمولات

حرمین شریفین میں شیخ الاسلام مدظلہ کے معمولات حرمینِ مقدسہ میں حاضری کے ساتھ ساتھ مطالعہ، ریسرچ اور دنیائے عرب کے سرکردہ علماء اور مفکرین و محدثین کے ساتھ رابطوں پر مشتمل ہوتے ہیں۔ علمی اور فکری پروگرام ہوتے ہیں جہاں انہیں عرب علماء مدعو کرتے ہیں اور آپ کے خیالاتِ عالیہ اور فکرِ رسا سے فیض یابی کے لیے آپ کے خطاب کے منتظر ہوتے ہیں۔ میری خوش بختی کہ 2018ء ربیع الاول میں شیخ الاسلام مدظلہ مدینہ منورہ تشریف لائے تو میرے بھی وہاں قیام کے دو چار دن باقی تھے۔ اس طرح ایک دیرینہ تمنا پوری ہوئی۔ آپ مدظلہ کی معیت میں بارگاہِ رسالتa کے لیے دیر سے ملتجی تھا۔ الحمد للہ! مغرب اور عشاء کی نمازیں آپ کے ساتھ مسجد نبوی میں ادا کیں۔ پھر ایک محفل تھی جس میں شیخ الاسلام مدظلہ نے شرکت کے لیے فرما دیا۔ دنیائے عرب کے چوٹی کے علمائے حق آپ کی جو قدر و منزلت کرتے ہیں اسے اپنی آنکھوں سے دیکھا اور کانوں سے سنا۔ آپ نے شاہد و مشہود کے موضوع پر عربی زبان میں خطاب فرمایا جسے علماء نے بہت سراہا اور پسند کیا۔ پھر علامہ رفاعی صاحب جو خصوصی شرکت کے لیے تشریف لائے تھے، انہوں نے قصیدہ بردہ شریف پر اپنی تضمینوں سے محفل کو عود و عنبر بنا دیا۔ رات ڈیڑھ بجے تک یہ محفل جاری رہی۔ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں حاضری کے دوران آپ کے معمولات کی یہ ایک چھوٹی سی جھلک تھی۔

مطالعہ اور ریسرچ کے امور وہاں بھی ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ عمرہ اور روضۂ رسول a پر حاضری کے لیے آئے ہوئے رفقاء آپ کی تشریف آوری کے منتظر رہتے ہیں اور آپ انہیں اپنی معیت میں حرمِ نبوی میں حاضری کے لیے لے کر جاتے ہیں اور حب رسول a میں ڈوبے ہوئے یہ لمحات ہماری یادوں کا انمول اور لازوال سرمایہ بن جاتے ہیں۔

’’اوقاتِ کار‘‘ اور ’’شیخ الاسلام‘‘ عجیب سی بات لگتی ہے۔ اوقات کار کے الفاظ توہم جیسوں کو اپنے فرائضِ منصبی سے صحیح طور پر عہدہ بر آہونے کے لئے استعمال کیے جاتے ہیں اور ان پر بھی یار لوگ کامل پابندی کا مظاہرہ کرنے سے قاصر رہ جاتے ہیں اور دعا کرتے ہیں کہ دیے گئے رفتار کار اور معیار کار پر پورا اتر سکیں۔ کہاں یہ ادنیٰ لوگوں کی بات اور کہاں قطبِ زمانہ جن کے حضور احقر نے اولیائے وقت کو مؤدب اور سرنگوں دیکھا ہے۔ ہماری خوش بختی ہے کہ وہ ہم میں موجود ہیں۔ وقت ان کے تابع ہے اور وہ کسی اوقات کار کے پابند نہیں۔ ان کے بعض کارکن جنہیں وہ جانتے ہیںاور جو آپ کی خصوصی توجہات سے فیض پاتے ہیں، ایسے ہیں کہ سالوں کا کام مہینوں میں یا مہینوں کا ہفتوں میں یا ہفتوں کا دو تین دنوںمیں کر گزرتے ہیں۔ ان سے پوچھیں کہ یہ کیسے ہوا؟ تو یہی جواب ملتا ہے کہ شیخ الاسلام کی دعا سے۔ انہیں خود معلوم نہیں ہوتا مگر دعائے قائد پر یقین رکھتے ہیں۔ ظاہری آنکھ رکھنے والے تو صاف صاف کہہ دیتے ہیں:

A Miracle or a Project Impossible!

ذرا غور کریں تو یہی محسوس ہوتا ہے کہ اس میں ہمارے لیے سیکھنے کو اخلاص، حسنِ نیت، مشن کی محبت، رضائے الٰہی اور رضائے نبی a کی تڑپ ہے جو ہمیں بھی اوقات کار سے ماوراء کردے گی۔

ماخوذ از ماہنامہ منہاج القرآن، فروری 2020ء

تبصرہ

ویڈیو

پیش آمدہ مواقع

Ijazat Chains of Authority
Top