شیخ الاسلام اور قرآنی استدلال میں امتیازی حیثیت
ڈاکٹر نعیم انور نعمانی
قرآن علم کا ایک سمندر ہے، ہر کوئی حاجت مند ہوکر اس بحرِ علم کی طرف بڑھتا ہے۔ اس کے نزول سے لے کر اب تک ہزاروں، لاکھوں افراد زبان اور قلم لے کر اس کے معانی و معارف، اسرار و حکم کی معرفت اور اس کے اصول و احکام کی وضاحت میں بڑھے ہیں۔ بے شمار اپنی صلاحیت اور ہمت کے ساتھ اس کی طرف بڑھے ہیں اور لاتعداد نے اس کو سعادت عظمیٰ جانتے ہوئے اس کے لیے اپنی زندگیاں وقف کی ہیں۔ ہر زمانے میں اس کے معانی و معارف اور علوم و تفسیر کے ساتھ وابستہ خوش بختوں کا شمار ممکن نہیں ہے۔ اس راہ کے سارے طالبوں اور مسافروں کو دیکھ کر اور ان کی جدوجہد اور سعی کو جان کر قرآن اور صاحب قرآں کے لیے یہی کہنا پڑتا ہے کہ
زندگیاں بیت گئیں اور قلم ٹوٹ گئے
تیرے اوصاف کا اک باب بھی پورا نہ ہو
قرآن سے استدلال فکر
عصر حاضر میں قاری قرآن کے طور پر جب ہم شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی ذات کو دیکھتے ہیں تو وہ قرآن کے سمندرِ علم سے خوب اخذ و استدلال کرتے اور امت مسلمہ کو درپیش مسائل کا حل قرآنی استنباط کے ذریعے پیش کرتے نظر آتے ہیں۔ اگر ہم ہر روز اپنی نماز میں پڑھی جانے والی سورۃ فاتحہ کے تناظر میں ان کے قرآنی استدلات اور استنباطات کو دیکھیں تو ذہن و عقل ان کی قوت استدلال پر حیرت و استعجاب کا شکار ہوجاتی ہے۔
ہم سب سے پہلے شیخ الاسلام کے سورۃ فاتحہ اور اس کے اسماء کے استدلال کے حوالے سے بیان کرتے ہیں کہ: ’’فاتحہ بمعنی ازالہ اغلاق اور رفع اشکال کا ہے تو یہ سورۃ فاتحہ وہ ہے جو انسان کی زندگی میں بندش اور رکاوٹ کو دور کرکے اور اس کی زندگی کی مشکلات کو رفع کرے۔ اسی طرح فاتحہ کا معنی ازالہ رنج ہے اور ارتفاعِ الم ہے یہ سورۃ فاتحہ ظاہری مرادوں کے دروازے کھولتی ہے اور باطنی رنج و الم اور غم و اندوہ کو دور کرتی ہے اور لوگوں کی احتیاجات کو پورا کرنے کا سبب بنتی ہے۔ فاتحہ فتح سے ہے جس کا مطلب ہے کہ یہ سورۃ برکات ارضی اور سماوی کے دروازے کھولنے والی ہے۔ یہ انسان کو ذہنی کرب اور فکری الجھنوں سے نجات دلانے والی ہے۔ اس اعتبار سے یہ سورۃ فتح البرکات کا ذریعہ ہے۔
اسی طرح فاتحہ کا تیسرا معنی فتح علوم اور ہدایت کرتے ہیں۔ فاتحہ سے انشراح صدر ہوتا ہے اور علوم و معارف کا دروازہ کھلتا ہے اور مغیبات ربانی انسان کے دل پر ظاہر ہوتے ہیں۔ علم کے کھلنے سے مراد صحیفوں والے علم کا بھی کھلنا ہے اور سینوں والے علم کا بھی منکشف ہونا ہے۔ وہ ذات باری مفاتیح الغیب کی مالک ہے اور جس پر چاہتی ہے اس پر علوم غیبی کو عیاں کردیتی ہے۔ وہ علوم جو اوروں سے مخفی ہوتے ہیں رب کی کرم نوازی سے یہ علوم غیب بندہ مرتضی کو عطا کردیئے جاتے ہیں۔ اس اعتبار سے فاتحہ، فتح مغیبات کا نام ہے۔
اسی طرح فاتحہ کا معنی غلبہ و تسلط بھی ہے۔ یہ سورۃ اور اس کی آیات کسی کے غلبہ و تسلط کو ختم کرنے کا باعث بنتی ہے اور یہ سورۃ فتح و کامیابی کا باعث بنتی ہے۔ فتح اور استفتاح کے الفاظ کامیابی و کامرانی کے معنی کو بیان کرتے ہیں چنانچہ فتح و کامرانی کی راہیں کھولنے والی سورۃ کو فاتحہ کہتے ہیں۔ یہ سورۃ ایسی راہیں کھولتی اور کشادہ کرتی ہے کہ انسان سیدھا منزل پرپہنچ جاتا ہے اس سورت کے مضامین پر انسان عمل کرکے تو یہ سورۃ فتح مہمات بن جاتی ہے تو اس اعتبار سے یہ سورۃ فتحِ مہمات کی حیثیت رکھتی ہے‘‘۔
سورۃ فاتحہ اور حقائق حیات
اسی طرح شیخ الاسلام نے سورۃ فاتحہ کی مزید تفسیر بیان کرتے لکھا ہے: ’’فاتحہ بمعنی انکشاف حق ہے اور بمعنی ازالہ شبہات ہے جس کے نتیجے میں فیصلہ قطعیہ اور یقینیہ تک انسان پہنچتا ہے۔ فاتحہ سے مراد ایسا قول ہے جو حق کو منکشف کرنے والا ہو اور تمام تر شکوک و شبہات کا ازالہ کرنے والا ہو۔ گویا فاتحہ قول قطعی کا نام ہے، قیامت کے دن کو اسی معنی کے اعتبار سے اسے یوم الفتح قرار دیا گیا ہے۔ اس سورۃ کو اس معنی کے اعتبار سے خاتمہ اس لیے کہتے ہیں کہ یہ حق و باطل کے درمیان فرق و امتیاز کردینے والی ہے۔ اس اعتبار سے فتح قطعی کا معنی رکھتی ہے۔
فاتحہ کا ایک اور معنی اول و آخر ہونا بھی بیان کرتے ہیں۔ اس میں کسی شے کو کھولنے اور افتتاح کا مفہوم پایا جاتا ہے جہاں سے کسی چیز کا افتتاح ہوتا ہے وہیں سے اس کا نقطہ آغاز ہوتا ہے اور اسی نقطے پر آکر اس کا اختتام ہوتا ہے جیسے درخت کا بیج ہے اسی بیج کو زمین میں بوتے ہیں اور کونپل نکلتی ہے پھر تناور درخت بنتا ہے بعد ازاں اسی درخت میں پھل لگتے ہیں۔ ان پھلوں کو انسا ن کھاتا ہے پھر وہی بیج انسان کے ہاتھ میں رہ جاتا ہے، جس کو اس نے بویا تھا اسی طرح وہ بیج نقطہ آغاز بھی بنا اور نقطہ انجام بھی۔ حیات انسانی کی کائنات میں بھی جو کچھ ہے وہ اسی سورۃ کی پہلی بھی اور آخری حقیقت بھی ہے اگر حیات انسانی ایک سفر ہے تو یہ فاتحہ اس کا مقام آغاز ہے۔ اگر وہ ایک جمال ہے تو یہ اس کا پہلا نظارہ ہے اگر وہ ایک نغمہ ہے تو یہ اس کی پہلی صدا ہے اگر وہ ایک وقت ہے تو یہ اس کا پہلا لمحہ ہے۔ اگر وہ ایک درخت ہے یہ اس کا تخم اولیں ہے اگر وہ ایک دائرہ ہے تو یہ اس کا نقطہ ابتداء ہے۔ غرضیکہ حیات انسانی کی حقیقتوں اور سعادتوں میں جو کچھ ہے وہ اسی سے نمود پاتا ہے اور اسی سے کمال کو پہنچتا ہے۔
یہی وجہ ہے یہ سورۃ قرآن حکیم کے 23 سالہ دور نزول میں سب سے پہلے نازل ہونے والی ہے۔ باوجود ترتیب نزولی اور ترتیب تدوینی کے فرق کے یہ صحیفہ قرآن میں اپنے نزول کے اعتبار سے بھی اول ہے اور قرآن میں لکھے جانے والے کے حساب سے بھی اول ہے۔ یہ انداز اس سورۃ کے سواء کسی اور سورت کو میسر نہیں آسکا اسی طرح اس سورۃ کا نام ام الکتاب بھی رکھا گیا ہے۔ ام اصل کو کہتے ہیں، درخت کی اصل جڑ ہوتی ہے تو اس اعتبار سے سورۃ فاتحہ قرآن کی اصل ہے۔ گویا یہ سورت شجر قرآن کی جڑ ہے علوم قرآن کی تفصیلات کا یہ سورۃ اجمال ہے اور یہ سورۃ جملہ معارف و اسرار اور علوم القرآن کا خلاصہ ہے اور تمام تعلیمات کا اصل ہے‘‘۔
قرآن جامع العلوم ہے
امام رازی بیان کرتے ہیں کہ تمام الہامی کتابوں کے علوم کو باری تعالیٰ نے قرآن میں جمع کردیا ہے اور قرآن کے سارے علوم کو سورۃ فاتحہ میں جمع کردیا ہے۔ اسی طرح اس سورۃ کو سورۃ الکنز بھی کہتے ہیں یہ سورت جملہ علوم و ہدایات اور معانی و اسرار اور معارف و رموز کا خزانہ ہے۔
اسی طرح سورۃ کو سورۃ النور بھی کہتے ہیں۔ یہ سورت قرآن حکیم کے انوار و تجلیات کا منتہائے کمال اور سورۃ قرآنی انوار کی جھلک اول ہے، اس سورۃ کو السبع المثانی بھی کہتے ہیں اس میں وہ سات آیات ہیں جو بار بار پڑھی اور دہرائی جاتی ہیں۔ یہ سورۃ پانچوں نمازوں میں لازمی دہرائی جاتی ہے۔ سورۃ فاتحہ تمام علوم قرآن کا اجمال ہے اور پورا قرآن اس کی تفصیل ہے۔ ان سات آیات کو دہرا کر ہم گویا سارے قرآن کو دہرا لیتے ہیں۔ باری تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدس کو اس قرآن کا اجمال سورۃ فاتحہ کی صورت میں عطا کیا ہے اور اس کے اجمال کی تفصیل پورے قرآن کی صورت میں عطا کی ہے۔
اس سورۃ فاتحہ کو اساس القرآن کا نام بھی دیا گیا ہے۔ اساس بنیاد کو بھی کہتے ہیں جس طرح پوری عمارت کو قائم کیا جاتا ہے اور ساری عمارت کا انحصار اسی بنیاد پر ہوتا ہے۔ اس سورۃ فاتحہ کو پہلی سورت ہونے کی بنا پر قرآن کی ساری تعلیمات کا خلاصہ اور مدار بنایا ہے اس لیے یہ اساس القرآن ہے۔
اس سورۃ کو سورۃ الحمد، سورۃ المناجات اور سورۃ الشکر بھی کہتے ہیں۔ یہ اللہ کی حمدو ثنا اور اس کی تمجید و توصیف کو بیان کرتی ہے۔ اس سورۃ میں بندے کی رب کی بارگاہ میں مناجات کا بھی ذکر ہے اور یہ سورۃ اللہ کی بارگاہ میں انعامات اور احسانات کے تذکرے سے بھی بھری پڑی ہے۔ اس سورت کا پڑھنا از خود شکر الہٰی قرار دیا گیا ہے کیونکہ کسی دینے والے کی عطا و احسان کے حوالے سے اس کی تعریف کرنا شکر کہلاتا ہے۔
اس سورۃ فاتحہ کو سورۃ الصلوۃ بھی کہتے ہیں۔ نماز میں اس سورۃ کا پڑھنا واجب ہے اس کو ترک کرنے سے نماز کامل نہیں ہوتی۔ نماز میں دوسری سورتوں کو بدل بدل کر تو پڑھا جاسکتا لیکن سورۃ فاتحہ کے متبادل کوئی سورت نہیں پڑھی جاسکتی۔ اس سورۃ کو سورۃ التفویض بھی کہتے ہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ انسان اللہ کی عبادت اور اس کی مدد و نصرت کا ذکر کرتے ہوئے اپنے جملہ معاملات اللہ کے سپرد کردیتا ہے اور عبادت کی روح اللہ کی استعانت و نصرت طلب کرتا ہے۔
قرآن اور انسانی احتیاجات
سورۃ فاتحہ کو سورۃ الدعا اور سورۃ تعلیم المسئلہ کہتے ہیں۔ یہ سورت بندوں کو آداب دعا سکھاتی ہے اور بارگاہ الوہیت اور ربوبیت میں سوال کرنے کا سلیقہ سکھاتی اور رب سے مانگنے کی تعلیم سے بھی ہمیں آشنا کرتی ہے اور اس سورۃ کو سورۃ الکافیہ بھی کہتے ہیں کیونکہ یہ سورت اپنے علوم و معارف اور ہدایات و جامعیت کے اعتبار سے کافی ہوجاتی ہے۔ اس سورۃ کا پڑھنا اجرو ثواب میں دوتہائی قرآن کے برابر ہے اور ایک مرتبہ سورۃ اخلاص پڑھنا تہائی قرآن کے برابر ثواب عطا کرتا ہے۔ یوں ایک مرتبہ سورۃ فاتحہ اور ایک مرتبہ سورۃ اخلاص پڑھنا پورے قرآن کے برابر ثواب میں ہوجائے گی۔ اسی طرح اس سورۃ کو اجرو ثواب میں کثرت کی بنا پر سورۃ الوافیہ بھی کہتے ہیں۔ اسی طرح اس سورۃ کے دیگر ناموں میں الشفا اور الشافیہ بھی ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا یہ سورۃ فاتحہ ہر مومن کے لیے شفاء ہے۔ یوں فرمایا:
فاتحه الکتاب شفاء من کل دا فاتحة الکتاب.
ہر مومن کے لیے شفا ہے۔
تفسیر ابن کثیر، 1: 176
صحابہ کرام سانپ اور بچھو کے کاٹنے پر سورۃ فاتحہ سے دم کرتے رہے ہیں۔ اسی طرح جنون پاگل پن اور مرگی کے مرض کا علاج اس سورۃ فاتحہ کے ذریعے کرتے رہے ہیں۔ اسی نسبت سے اس سورۃ کو سورۃ الرقیہ بھی کہتے ہیں۔ یہ سورت اپنے اثرات اور برکات کے سبب انسان کو شدائد اور مصائب سے بھی بچا لیتی ہے۔ اس میں تعوذ کا اثر بھی پایا جاتا ہے اور اس کی تلاوت سے انسان شیطانی فتن و شرور اور مصائب و آلام سے محفوظ و مامون ہوجاتا ہے۔ لہذا اس نسبت سے ان کا نام سورۃ الواقعیہ بھی ہے۔
عصر حاضر میں محکم استدلال بالقرآن میں درجہ امامت
قرآن حکیم سے اخذ احکام، استدلال اور شرعیہ میں شیخ الاسلام دامت برکاتہم العالیہ کی ذات اقدس کو باری تعالیٰ نے خصوصی استعداد اور ملکہ عطا کیا ہے۔ آپ کے اسلوب فہم القرآن نے بڑے بڑے علماء عرب و عجم کو ورطہ حیرت میں ڈالا ہے، آپ نے ان کو اپنے استدلال کی قوت سے انگشت بدنداں کیا ہے، اپنے استنباط و استخراج کی ثقاہت پر اُن کے سر تسلیم خم کرائے ہیں اور اپنے تفکر قرآن کے منہج پر ان سے اعتراف لسان اور قلم کرایا ہے اور اپنی دلیل کے محکم ہونے پر عدالتوں میں ججز سے لے کر مدارس میں علماء متحصصین سے اظہار تسلیم کرایا ہے، جہاں جہاں اساطین علم پائے جاتے تھے ان کی مجلسوں اور محفلوں میں جاکر اپنے فہمِ اسلام اور استدلال و استنباط قرآن پر اُن سے مہر تصدیق ثبت کرائی ہے، اپنی اسی فضیلتِ علمی کے باب میں اپنوں اور غیروں کا فرق و امتیاز روا نہیں رکھا ہے۔ آپ ہر کسی کے ہاں گئے ہیں جس نے بھی بلایا ہے اسے زیور علم سے آراستہ کیا اور ہر کسی کے ہاں طلوع ہونے والے آفتاب، نصف النہار سورج اور بدر منیر کی طرح بولے ہیں اور ایسا بولے ہیں کہ اپنے بول کو اسی مجلس سے سب کی بولی بنادیا ہے۔ علم کی دنیا میں کسی قول کو اپنا بول بنالینا اس کے قول کی ثقاہت اور صحت کو عیاں کرتا ہے اور اس کے قول کے مستند اور معتبر ہونے کو واضح کرتا ہے۔
ان کا استدلال قیاس پر مبنی ہوتا ہے ذوات و شخصیات پر طعن، مخالفین سے ذاتی عناد اور تعصب، غیر مسالک سے غیریت اور عداوت، ذاتی پسند اور ناپسند، واعظانہ اور خطیبانہ وکالت اور سطحیت کا نہیں ہوتا بلکہ ان کا استدلال استنباط اور استخراج علمی معیار صحت پر تلتا اور دوسروں کو بھی تولتا ہے۔ اس میں اپنے اور غیر کی تمیز نہیں، جس کی دلیل شافی ہوگی اس کی بات ہی ان کے نزدیک کافی ہوگی۔
آپ دلیل کے بندے ہیں دلیل سے بات کرتے دلیل سے بات منواتے اور دلیل کو ہی انہوں نے اپنی تقریر اور اپنی تحریر کا کمال بنایا ہے۔ علم و تحقیق کی دنیا میں وہ ذاتیات اور شخصیات کو نہیں بلکہ استدلات اور استنباطات اور دلیلات کو ترجیح دیتے ہیں۔
عصر حاضر میں فہم دین اور ابلاغ اسلام میں آپ غزالی وقت بھی ہیں، رازی دوراں بھی ہیں اور بخاری عصر بھی ہیں۔ وہ اپنی فقاہت میں امام ابو حنیفہ کے امین بھی ہیں اور ثقاہت شافعی کے وارث بھی ہیں اور کمالات مالکی کے مسند نشین بھی ہیں اور تحقق حنبلی کے جانشیں بھی ہیں۔
عقیدہ توحید اور رسالت کا قرآن سے منفر استدلال
عقیدہ توحید اور رسالت میں ان کے استدلال قرآنی کا مطالعہ کریں تو وہ سورۃ اخلاص کا ذکر کرتے ہیں:
قُلْ هُوَ اللہُ اَحَدٌ. اَللہُ الصَّمَدُ.
’’(اے نبی مکرّم!) آپ فرما دیجیے: وہ اللہ ہے جو یکتا ہے۔ اللہ سب سے بے نیاز، سب کی پناہ اور سب پر فائق ہے‘‘۔
(الاخلاص، 112: 1-2)
آپ فرماتے ہیں ’’یہ ساری کی ساری سورت مضمون توحید کو بیان کرتی ہے پہلی آیت پر غور کریں قل ھواللہ احد، اے حبیب و محبوب آپ فرمادیجئے کہ وہ اللہ ایک ہے۔ اب اس آیت میں اللہ کی وحدانیت کا بیان ھو اللہ احد سے شروع ہوتا ہے جبکہ لفظ قل اضافی ہے لیکن یہ ایسا اضافی ہے کہ اس کے بغیر اصلی بات توحید کا بھی پتہ نہیں چلتا۔ اب سوال یہ ہے کہ بیان توحید کو کیا قل کے بغیر نہیں بیان کیا جاسکتا اس کے لانے کی آخر ضرورت کیا ہے؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ وہ رب اپنے نبی کے واسطے کے بغیر براہ راست اپنے بندوں سے مخاطب نہیں ہوتا ہے جب بھی وہ اپنی بات کرتا ہے نبی اور رسول کو اپنے اور اپنے بندوں کے درمیان واسطہ اور وسیلہ بناتا ہے تو تب وہ اپنی کوئی بات اور کوئی خیر حقیقت بندوں تک پہنچاتا ہے۔
وہ رب اس قرآنی اسلوب سے اپنے بندوں کو آگاہ کررہا ہے کہ میرے نبی کے واسطے کے بغیر تم میری توحید کو نہیں پاسکتے اور میرے احکام کو جان نہیں سکتے، جان لو تمہارے اوپر لازم ہے پہلے اس مخبر خبر دینے والے کو جانو اور بعد ازاں خبر توحید کو مانو، پہلے پر ایمان لائو اور بعد میں خبر توحید پر عقیدہ قائم کرو پہلے رسول کے ہوجائو اور پھر خدا کے ہوجائو، پہلے رسالت اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لائو اور پھر توحید اور اللہ پر ایمان لائو، پہلے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے امتی بنو پھر میرے بندے بنو، پہلے رسول کی چاہت میں آئو پھر میری محبت میں آئو جو مخبر کا منکر ہے وہ میرا بھی کافر ہے۔ رسالت توحید کو لازم ہے اور توحید رسالت کو لازم ہے۔
گویا توحید اور رسالت باہم لاز م و ملزوم ہیں، ایک کو ماننے سے دوسرے کو ماننا ہے اور دوسرے کو ماننے سے پہلے کو ماننا ہے۔ توحید کے دلائل میں سے سب سے پہلی اور مضبوط دلیل خود ذات رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔ اس لیے اہل مکہ کو پہلی دعوت اور اس دعوت کی صداقت اور حقانیت پر پہلی دلیل توحید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدس تھی۔ اس لیے کہ کفار و مشرکین نے آپ کی پہلی دعوت توحید پر جب دلیل طلب کی تو آپ نے ان کے سامنے اپنی ذات اقدس کو بطور دلیل توحید کے پیش کیا اور یوں ارشاد فرمایا:
فَقَدْ لَبِثْتُ فِیْکُمْ عُمُرًا مِّنْ قَبْلِهٖ اَفَلاَ تَعْقِلُوْنَ.
’’بے شک میں اس (قرآن کے اترنے) سے قبل (بھی) تمہارے اندر عمر (کا ایک حصہ) بسر کرچکا ہوں، سو کیا تم عقل نہیں رکھتے‘‘۔
(یونس، 10: 16)
تو اس آیت کریمہ کے ذریعے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے سامنے اپنی چالیس سالہ زندگی کو دلیل توحید کے طور پر رکھا ہے۔ گویا یوں فرمایا ہے کہ میری کتاب کا ایک ایک ورق تمہارے سامنے ہے میری خلوتیں، میری جلوتیں، میرے صبح و شام اور میرے سفرو حضر سب کچھ تمہارے سامنے ہیں اگر تم کو میری کتاب زندگی کے کسی صفحے، کسی سطر اور کسی سطر کے کسی لفظ پر اور کسی لفظ پر کوئی اعتراض ہے تو اس پر اپنی انگشت اعتراض رکھو اور تمہیں کسی جگہ کوئی عیب نظر آئے تو تم میرا دعوی رسالت اور میرا پیغام توحید قبول کرنے سے انکار کردینا، ہاں ہاں تم کو میرے کردار میں کوئی جھول نظر آئے کوئی کجی اور کوئی کمزوری دکھائی دے تو تمہیں اختیار ہے انکار خدا کرینا۔
اسی طرح میری ذات میں، میری سیرت میں، میری حیات میں اور میرے بچپن سے نوجوانی تک اور نوجوانی سے لے کر جوانی تک اور اب تک کی حیات میں کوئی خامی اور کوئی جھول نظر آئے تو میرے دعویٰ رسالت او دعویٰ توحید کو مسترد کردینا اور ہاں ہاں اگر کچھ عیب نہ پائو، کوئی کمزوری نہ دیکھو اور کوئی خامی نہ پاسکو اور مجھے ہر اعتبار سے بے عیب پائو تو پھر وہ ذات جو توحید میں بے عیب اور لاریب ہے اس ذات کو وحدہ لاشریک مان لو، اس کی الوہیت واحدہ کے قائل ہوجائو اور اس ذات و صفات میں ایک ماننے والے بن جائو۔ یہی عقیدہ توحید ہے اور یہی دعوت نبوت ہے اور یہی مقصد بعثت رسالت ہے۔
قرآنی فکر کے استدلال پر زمانے کی شہادت
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے قرآنی استدلات سے ان کی تصانیف بھری پڑی ہیں اور ان کے محاضرات اور خطابات اس پر گواہ و شاہد ہیں۔ پاکستان ٹی وی پر چلنے والا ان کا فہم القرآن کا پروگرام سارے مسلمانوں اور پاکستانیوں سے ان کے قرآن کے فہم میں مستند ہونے کی سند قبولیت لے چکا ہے۔ اس پروگرام کو تمام اہل علم، جملہ علمائ، فقہاء اور عامۃ الناس سنتے اور دیکھتے رہے ہیں۔ آپ نے اپنی دعوت کا مدار اور انحصار منہاج القرآن پر کیا ہے۔ یہی آپ کی دعوت کا منہاج ہی آپ کے زندگی کے مشن، آپ کے ادارے اور آپ کی تحریک کا نام بھی بالترتیب منہاج القرآن، ادارہ منہاج القرآن اور تحریک منہاج القرآن بن گیا ہے اور آپ کی تصنیف کردہ تفسیر کا نام بھی روز اول سے منہاج القرآن سے تفسیر منہاج القرآن ٹھہرا ہے اور آپ کے دعوت کے ابتدائی دروس بھی ایک عرصہ تک منہاج القرآن کے نام سے متعارف رہے ہیں مگر آپ نے منہاج القرآن کو صرف اپنی تحریک اور اپنی تفسیر کا نام ہی نہیں رہنے دیا بلکہ آپ نے عام پاکستانی مسلمانوں تمام اہل ایمان اور تمام مکاتب فکر کے طلباء اور علماء کو بھی قرآن کے منہاج سے عملاً وابستہ کیا ہے، آپ کی کوئی بھی دعوت قرآن کی دعوت کے بغیر نہیں ہے آپ کی کوئی بھی تقریر قرآن کی تفسیر کے بغیر نہیں ہے اور آپ کی کوئی بھی تحریر قرآن کی تعبیر کے بغیر نہیں ہے آپ نے قرآن کو کتاب ثواب ہونے کے ساتھ ساتھ اس کے کتاب ہدایت ہونے کا بہت زیادہ شعور پاکستانی قوم اور امت مسلمہ کو دیا ہے اور اس تصور کو ایک نظریہ اور ایک فکر تک ہی محدود نہیں رہنے دیا بلکہ عملاً ہر جدید مسئلہ کا حل قرآن حکیم سے اخذ و استنباط کرکے دیا ہے اور رسول اللہ کے فرمان کے مطابق امت کو تمسک بالکتاب والسنۃ پر کاربند کیا ہے۔ اپنی ہر دعوت، تحریر اور تقریر کو تمسک بالکتاب والسنہ سے مزین کیا ہے۔ آپ نے عقائد اسلام کو براہ راست قرآن کے ساتھ استدلال و استنباط کرکے لوگوں کے سامنے دلائل کے ساتھ پیش کیا ہے جس کی بنا پر امت مسلمہ میں گروہی اور فرقہ وارانہ اختلافات کو کم کیا ہے۔ تعصبات اور گروہوں میں لپٹے ہوئے لوگوں کو تفکر اور تقدیر فی القرآن کی طرف گامزن کیا ہے اور اپنے عمل بالقرآن کے ذریعے اعتصام بحبل اللہ کا مفہوم اور مطلب لوگوں کو سمجھایا ہے۔
شیخ الاسلام نے اپنی فکر کی بنیاد فکر قرآن کو ٹھہرایا ہے۔ آج احیاء اسلام اور کردار مسلم کے احیاء کی ضمانت قرآنی فکر کو قرار دیا ہے۔ قرآن سے مسلمان کی حیات ہے اور قرآن سے ہی اسلام کا حقیقی احیاء ممکن ہے۔ احیائے اسلام کی کوئی تحریک قرآنی فکر کے بغیر موثر اور نتیجہ خیز نہیں ہوسکتی۔ آپ کے پانچ ہزار سے زائد محاضرات اور خطابات قرآنی فکر کو عیاں کرتے ہیں اور 1000 کے قریب تصنیفات میں سے 500 سے زائد مطبوعہ کتب ہر مسئلے میں قرآنی فکر کو دلائل کے ساتھ واضح کرتی ہیں۔
قرآن حکیم کے الفاظ دہائی کو تفسیر و تاویل کے اسلوب میں بتاتے بھی ہیں اور سمجھاتے بھی ہیں۔ آپ سے سن اور پڑھ کر آیت اپنا مفہوم خود زبان ناطق بن کر سمجھا دیتی ہے۔ قرآنی فکر پر ان کی بہت زیادہ سعی و کاوش کی وجہ امت مسلمہ کی زوال پذیری کو عروج میں بدلنے کی وہ سوچ ہے جو فکر قرآنی کی تاریخ تسلسل میں عصر قریب میں فکر اقبال کی بھی شناخت رہی ہے۔ اقبال بھی اسلام اور امت مسلمہ کے احیاء کی فکر کو یوں بیان کرتے ہیں:
وہ معزز تھے زمانے میں مسلماں ہوکر
تم خوار ہوئے تارک قرآں ہوکر
باری تعالیٰ ہمیں عصر حاضر میں تحریک منہاج القرآن اور شیخ الاسلام کی فکر قرآن سے وابستہ ہونے اور اس کے اپنانے اور اس کو فروغ دینے کی توفیق عطا فرمائے۔
ماخوذ از ماہنامہ دخترانِ اسلام، فروری 2020ء
تبصرہ