اصلاحِ مریدین: سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانیؒ کی تعلیمات کی روشنی میں
ڈاکٹر نعیم انور نعمانی
اسلام کی بنیادی تعلیمات میں شریعت اور طریقت دونوں مشرب باہم لازم و ملزوم ہیں اور ان دونوں کو ایک دوسرے سے جدا نہیں کیا جاسکتا۔ شریعت اگر انسان کے ظاہر کو مطیع بناتی ہے تو طریقت انسان کے باطن میں اطاعت کا جذبہ پیدا کرتی ہے۔ اسلام کے ان دونوں سرچشموں کا مقصد افراد اور معاشرہ کے احوال کی اصلاح ہے۔ حضور غوث الاعظمؒ کی تعلیمات کا مطالعہ کیا جائے تو ہمیں وہاں شریعت و طریقت کے ان ہی مقاصد کے حوالے سے واضح رہنمائی میسر آتی ہے۔
حضور غوث الاعظمؒ کی تعلیمات اللہ تعالیٰ کی اطاعت، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت کی اتباع اور احکامِ شریعت کی پیروی پر مبنی ہیں۔ ان تعلیمات میں ہر حال میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ابتغاء و رضا طلبی کا سبق مضمر ہے۔ یہ تعلیمات احوالِ قلب، احوالِ نفس اور احوالِ روح کو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم کے موافق کرنے کی تعلیمات ہیں۔ نیز یہ ظاہر پر شریعتِ اسلامی کے وجوب اور نفاذ کی تربیت کا سامان بھی اپنے اندر سموئے ہوئے ہیں۔
ذیل میں اصلاحِ احوال کے لیے حضور غوث الاعظمؒ کی چند تعلیمات نذرِ قارئین کی جارہی ہیں:
سالک اور فقر لاز م و ملزوم ہیں
روحانیت میں سالک کو وصل کی راہوں پر چلایا جاتا ہے۔ محبت کا تعلق اپنے محبوبِ حقیقی سے فنائیت والا ہو تو پھر وصالِ حقیقی کی لذّتیں ملتی ہیں اور یہ کیفیات تب ملتی ہیں کہ جب سالک مکمل طور پر فقر میں ڈھل جائے۔ حضور غوث الاعظمؒ فرماتے ہیں:
جعلت الفقر والفاقة مطیة الانسان فمن رکبھا فقد بلغ المنزل قبل ان یقطع المفاوزو البوادی.
(تذکره قادریه، ص: 153)
’’فقر وفاقہ انسان کے لیے سواری بنائی ہے، پس جو کوئی اس پر سوار ہوا، وہ میدان اور وادی قطع کرنے سے پہلے ہی منزل مقصود پر پہنچ گیا‘‘۔
جب محب، محبوب کی محبت میں فنا ہوتا ہے تو اسے محبوب کا وصل میسر آتا ہے۔ فرمایا:
فاذا فنی المحب عن محبة وصل بالمحبوب.
’’جب محب محبوب کی محبت میں فنا ہوتا ہے تو اسے محبوب کا وصل مل جاتا ہے‘‘۔
(تذکره قادریه، ص: 152)
محب جب اپنے محبوب کے ساتھ وصل کا تعلق قائم کرلیتا ہے تو وہ فقر میں ڈھل جاتا ہے اور فقیر کے منصب پر فائز ہوجاتا ہے۔ فرمایا:
الفقیر الذی له امر فی کل شیء اذا قال لشیء کن فیکون.
(تذکره قادریه، ص: 154)
’’فقیر وہ ہے جس کا حکم تمام چیزوں میں نافذ العمل ہو، جب کسی چیز کو کہے: ہوجا، تو وہ ہوجائے، اس تصرف کا نام فقیری ہے‘‘۔
رب کی حضوری کی کیفیات اس وقت میسر آتی ہیں جب انسان راہِ فقر کا مسافر ہوجائے۔ اس لیے مکاشفاتِ الہٰیہ میں شیخ عبدالقادر جیلانیؓ سے فرمایا گیا:
من اراد منکم جنابی فعلیه باختیار الفقر.
’’جو میری حضوری کا ارادہ کرے پس اس پر فقر اختیار کرنا لازم ہے‘‘۔
(تذکره قادریه، ص: 155)
فقر کی انتہا یہ ہے کہ دل ماسویٰ اللہ سے خالی ہوجائے۔ دل میں فقط رب رہ جائے اور رب کی یاد اور محبت رہ جائے، اس لیے مکاشفات میں کہا:
من اراد منهم ان یصل الّی فعلیه بالخروج عن کل شیء سوائی.
(تذکره قادریه، ص:165)
’’تم میں سے جو کوئی مجھے ملنے کا ارادہ رکھے پس اس پر لازم ہے کہ میرے سوا تمام کا خیال دل سے نکال دے‘‘۔
بندے کو فقر، وصل، محبیت اور محبوبیت کے مقامات تب ملتے ہیں، جب وہ اپنے اندر عاجزی و انکساری کی کیفیات اور عادت کو پیدا کرلے۔ اس لیے مکاشفات میں یہ راز شیخ عبدالقادر جیلانی سے بیان کیا گیا:
العجز منبع الانوار والعجب منبع الظلمة.
(تذکره قادریه، ص: 159)
’’عاجزی انوار کا خزانہ ہے اور تکبر اندھیروں کا سرچشمہ ہے‘‘۔
بندگی سرا سر عاجزی اور انکساری کا نام ہے اور تکبر اور غرور شانِ بندگی کے خلاف ہیں۔ اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
وما تواضع احد للہ الا رفعہ اللہ.
’’جس نے اللہ کی خاطر عاجزی و انکساری کی، اللہ اس کو سربلند کردے گا‘‘۔
(امام مسلم، الصحیح)
روحانیت میں مجاہدہ مشاہدے کے لیے لازم ہے
تصوف و روحانیت کا تقاضا یہ ہے کہ ایک سالک عبادت و ریاضت اور مشقت و مجاہدہ کو اختیار کرکے مشاہدہ کی منزل کو حاصل کرلے لیکن مشاہدہ، مجاہدہ کے بغیر میسر نہیں آتا۔
المجاهدة بحر من مشاهدة.
(تذکره قادریه، ص: 162)
’’مجاہدہ مشاہدے کا سمندر ہے‘‘۔
فمن اراد الدخول فی بحر المشاهدة فعلیه باختیار المجاهدة.
(تذکره قادریه، ص: 162)
’’جو کوئی مشاہدے کے سمندر میں داخل ہونے کا ارادہ کرے، اس پر لازم ہے کہ وہ مجاہدے کو اختیار کرے‘‘۔
اس لیے جو طالبانِ حق ہیں ان کے لیے مجاہدہ ضروری ہے۔
لا بد للطالبین من المجاهدة.
(تذکره قادریه، ص: 163)
’’طالبانِ حق کے لیے مجاہدہ کے بغیر کوئی چارہ نہیں‘‘۔
معرفتِ خداوندی کیلئے حصولِ علم ضروری ہے
مجاہدے کی منزل ہو یا مشاہدے کا مقام، ان دونوں کا حصول ایک سالک کے لیے صرف اور صرف علمِ حقیقی کے حصول کے ذریعے ہی ہوسکتا ہے اور اگر علم ترک کردیا جائے تو انسان شیطنت اور مکرو فریب کی راہ پر چلا جاتا ہے جو اس کو رحمن سے دور کردیتا ہے اور وہ نتیجتاً شیطان کا ساتھی بن جاتا ہے۔
لو ترک العلم عنده صار شیطانا.
’’اگر اللہ کی معرفت میں علم کو ترک کردیا جائے تو انسان شیطان بن جاتا ہے‘‘۔
(تذکره قادریه، ص: 161)
عالم جب مولا کے حضور پیش ہو تو پھر وہ اپنے علم کا زعم نہ کرے۔ مولا کے سامنے آئے تو لاعلم ہونے کا اظہار کرے اور اس کی زبان پر یہ کلمات ہوں:
لیس لصاحب العلم عندی سبیل الا بعد انکاره.
’’صاحبِ علم کا میرے نزدیک کوئی راستہ نہیں سوائے اس کے کہ وہ اپنے علم کا انکار کرکے آئے‘‘۔
(تذکره قادریه، ص: 161)
اس لیے علم کی انتہا یہی ہے کہ ہر چیز جان کر انسان یہی کہے کہ مجھے اس کا علم نہیں تھا۔
علم العلم ھو الجهل عن العلم.
(تذکره قادریه، ص: 164)
’’علموں کا علم تمام علموں سے لاعلمی ہے‘‘۔
سالک وہ ہے جسے اپنے علم پر ناز نہ ہو بلکہ مزید جاننے کی آرزو ہو اور اس کا علم اللہ کی معرفت میں رکاوٹ نہ بنے۔
طاعت اور معصیت بھی ایک حجاب ہے
راہِ سلوک میں ایک مقام ایسا بھی آتا ہے کہ جب سالک اطاعت گزار ہوتا ہے تو وہ اطاعت اس کے لیے حجاب بن جاتی ہے اور اگر سالک گنہگار ہے تو معصیت اس کے لیے حجاب بن جاتی ہے۔ اس لیے مکاشفات میں آپ کو فرمایا جاتا ہے:
اھل المعاصی محجوبون للمعاصی
واھل الطاعات محجوبون بالطاعات
(تذکره قادریه، ص: 159)
’’گنہگار گناہوں کے باعث اور پرہیزگار طاعت و عبادت کی وجہ سے مجھ سے محجوب ہیں اور میری دید سے محروم ہیں‘‘۔
اس حجاب کی وجہ بھی بیان کرتے ہیں اہلِ طاعت ہر وقت اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو یاد کرتے رہتے ہیں جبکہ اہلِ عصیاں گناہ کرنے کے بعد ہر وقت مغفرت مانگتے رہتے ہیں۔ اللہ کی ذات تک پہنچنے میں اہلِ طاعت کے لیے نعمتوں میں مشغول ہونا رکاوٹ بن جاتا ہے اور اہلِ معصیت کا گناہ کرکے معافی طلبی میں لگے رہنا، رکاوٹ بن جاتا ہے۔ یوں اس کی ذات تک دونوں نہیں پہنچ پاتے، اس لیے مکاشفات میں فرماتے ہیں:
اهل الطاعات یذکرون النعیم
واھل العصیان یذکرون الرحیم
’’نیکو کار ہر وقت نعمتوں کا ذکر کرتے رہتے ہیں اور گنہگار ہر وقت رحمت و مغفرت کو طلب کرتے ہیں‘‘۔
(تذکره قادریه، ص: 159)
گنہگاروں اور طاعت گزاروں کے حجابات
سالک کا مقصود اس کے حسنِ مطلق کو دیکھنا اور ہمہ وقت اس کی طرف متوجہ رہنا تھا مگر سالک اس نورِ حق کے مشاہدہ کی طرف راغب نہ ہوا اور نہ ہی اس میں اس نورِ ازل کے مشاہدے کی صلاحیت تھی۔ یہ سالک اس نورِ سرمدی کے جلوئوں کو اپنے اندر سمانے کے لیے متوجہ نہ ہوا اور نہ ہی وہ اس صلاحیت کا حامل ٹھہرا جس کی بناء پر بندہ عام و خاص، ظلمت کے حجابات میں گرفتار ہوگیا اس لیے مکاشفات میں فرمایا گیا:
خلقت العوام فلم یطیقوا نور بھا فجعلت بین وبینهم حجاب الظلمة وخلقت الخواص فلم یطیقوا مجاورتی فجعلت الانوار بینی وبینہم حجابا.
’’میں نے عام لوگوں کو پیدا کیا جب وہ میرے نور کی روشنی برداشت نہ کرسکے تو میں نے اپنے اور ان کے درمیان تاریکی کا پردہ بنادیا اور جب خاص لوگوں کو پیدا کیا تو انہوں نے میری نزدیکی برداشت نہ کی تو میں نے اپنے اور ان کے درمیان انوار کا پردہ بنادیا‘‘۔
(تذکره قادریه، ص: 140)
اللہ تبارک و تعالیٰ کی معرفت و قربت تک پہنچنے کے لیے ہمیں اپنے بشری وجود کو طاعات و عبادات کے اعمال بجا لاکر اسے نوری وجود بنانا ہوگا۔ جس قدر طاعات و عبادات کا سلسلہ بڑھتا چلا جائے گا توں توں ہمارے بشری وجود کی کثافتیں ماند پڑتی جائیں گی اور نوری کیفیتیں اس جلوۂ حق کو اپنا مسکن بنالیں گی۔ پھر حجابات مرتفع ہوجائیں گے اور نور علی النور ذات کی دید کے لیے وجود نوری ہوجائے گا۔ یہ موافقت ہی وصل کی منزل تک لے جائے گی۔
ہمارے لیے حجابات ہمارے نفس کے گناہ ہیں، ہماری شب و روز کی نافرمانیاں ہیں اور ہمارے نفس کاہر لمحہ معصیت کے لیے کوشاں رہنا ہے۔ ہمارے نفس پر خیر کا نہیں بلکہ شرکا غلبہ ہوتا ہے۔ یہ نفس نیکی سے دور اور برائی کے قریب ہوتا ہے لہذا یہ برائی کی طرف فوری آمادہ ہوتا ہے۔ خیر کی طرف اس کے قدم فوری نہیں اٹھتے ہیں۔ اس نفس میں گناہوں کا یہ میلان اور گناہوں سے اس قدر دلچسپیاں اور گناہوں میں لت پت ہونے کا یہ رجحان اس نفس کو قربت و معصیت اور معرفت کی وادی میں داخل نہیں ہونے دیتا۔
سالک کے لیے توبہ فرض ہے
شیخ عبدالقادر جیلانیؒ مکاشفے کے ذریعے اپنے مریدوں کی اصلاح یوں کرتے ہیں کہ تمہارے لیے گناہوں سے توبہ کرنا انتہائی ضروری ہے اور توبہ یہ ہے کہ تمہارا وجود گناہ سے پاک ہوجائے اور معصیت کو کلیتاً ترک کردے۔ مکاشفے میں باری تعالیٰ یوں مخاطب ہوتا ہے:
اذا اردت التوبه فعلیک باخراجهم الذنب عن النفس ثم باخراج الخطرات من القلب تصل الی.
’’جب تو توبہ کا ارادہ کرے پس تجھے چاہیے کہ گناہوں کا خیال و ارادہ وجود سے نکال دے، پھر وسوسوں کو دل سے نکال کر مجھ سے واصل ہوجا‘‘۔
(تذکره قادریه، ص: 162)
توبہ کیا ہے اور توبہ کی حقیقت کیا ہے؟ بہت خوبصورت انداز میں اس مکاشفے میں اس کو واضح کیا گیا ہے۔ یعنی توبہ نفس سے گناہ اور ارادۂ گناہ کو ختم کرنے کا نام ہے۔ اگر ہماری ایسی توبہ ہوجائے تو ہمارے احوالِ حیات سنور جائیں، بسا اوقات جب ہم نیکی کی راہ پر چلتے ہیں تو ہمارا نفس اس وقت جہاں نیکی کے ماحول میں رہتا ہے تو اس پر شیطانی حملے بھی زیادہ ہوجاتے ہیں، ہم اس وقت کسی کام کو نیکی سمجھ کر کر رہے ہوتے ہیں جبکہ دوسروں کی نگاہوں میں ہمارا وہی کام عملِ بدی و برائی ہوتا ہے۔ انسان ہر بدی سے، ہر شر سے اور ہر فتنے سے خود کو بچاتا ہے۔ صدقِ دل سے ادا کیے جانے والا انسان کا یہی عمل اللہ تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ میں توبہ بن جاتا ہے۔
پس بندہ جب ’’اخراج الذنب عن النفس‘‘ گناہوں کو وجود سے نکالنے والا اور ’’اخراج الخطرات من القلب‘‘ دل سے وساوس اور گناہ کو مٹانے والا بن جاتا ہے تو اب اس کی توبہ کو یہ مقام حاصل ہوجاتا ہے جس کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حدیث مبارکہ میں ارشاد فرمایا:
التائب من الذنب کمن لا ذنب له.
(ابن ماجه، السنن، کتاب الزهد، باب ذکر التوبه، 2: 1419، رقم: 4250)
’’گناہ سے سچی توبہ کرنے والا اس شخص کی مانند ہے جس نے کوئی گناہ کیا ہی نہ ہو‘‘۔
توبہ وصلِ حق کے قابل بناتی ہے
جب انسان کا نفس گناہ اور ارادۂ گناہ سے پاک ہوجاتا ہے تو یہی نفسِ امارہ پھر نفسِ مطمئنہ، نفسِ راضیہ اور نفسِ مرضیہ بن جاتا ہے۔ جب انسانی نفس اس مقام پر پہنچتا ہے تو اس کو اللہ کی بارگاہ سے یہ ندا آتی ہے:
یٰٓـاَیَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ. ارْجِعِیْٓ اِلٰی رَبِّکِ رَاضِیَةً مَّرْضِیَّةً. فَادْخُلِیْ فِیْ عِبٰـدِیْ. وَادْخُلِیْ جَنَّتِیْ.
’’اے اطمینان پا جانے والے نفس! تو اپنے رب کی طرف اس حال میں لوٹ آ کہ تو اس کی رضا کا طالب بھی ہو اور اس کی رضا کا مطلوب بھی (گویا اس کی رضا تیری مطلوب ہو اور تیری رضا اس کی مطلوب)۔ پس تو میرے (کامل) بندوں میں شامل ہو جا۔ اور میری جنتِ (قربت و دیدار) میں داخل ہو جا‘‘۔
(الفجر، 89: 27 تا 30)
نفس کا یہی مقام، مقامِ وصل ہے، جب بندہ خود کو طاعت و عبادت کے نور سے اس قابل بنالیتا ہے کہ اب اسے وصل کی کیفیات ملیں، اب اس کے سارے حجابات اٹھا دیئے جائیں۔ اس لیے کہ اب اس بندے نے فنا فی اللہ کا سفر طے کرکے خود کو اس قابل بنالیا ہے کہ اس نورِ حق، نورِ سرمدی اور اس حسنِ مطلق کو دیکھ سکے۔ اس لیے کہ اس کا ظاہرو باطن مولا کے علاوہ ہر چیز سے خالی ہوچکا ہے۔
اس لیے مکاشفات میں شیخ عبدالقادر جیلانیؓ سے فرمایا گیا:
من اراد منهم ان یصل الی فعلیه بالخروج عن کل شیء سوائی.
(تذکره قادریه، ص: 162)
’’تم میں سے جو کوئی مجھے ملنے کا ارادہ کرے، پس اس پر لازم ہے کہ میرے سوا تمام کا خیال دل سے نکال دے‘‘۔
اب بندۂ مومن کا قلب و روح مولا کی یاد میں رہتا ہے، قلب سے ہر خیال و گمان نکل گیا ہے۔ اب اس قلب میں رب کے ڈیرے ہیں، اس قلب کو اس نے اپنا مسکن بنالیا ہے اور یہ دل اس کے بسنے سے نور علی نور ہوگیا ہے۔ اب یہ قلب اپنی قربت میں بیٹھنے والے پر اثر انداز ہوتا ہے اور اپنا نور اور اپنا فیض دوسروں کے دلوں تک پہنچاتا ہے۔ جب دلوں میں یوں موافقت و موانست پیدا ہوتی ہے تو یہ دل آپس میں اکٹھے کردیئے جاتے ہیں۔ دلوں کے اس اکٹھے ہونے کے عمل کو وصل کہتے ہیں۔ وصلِ یار کے لیے سب کو اپنے نفوسِ امارہ سے جدائی و فصل کرنا ہے۔ وصل کی نعمت دنیا کی نعمتوں اور تعیشات کے فصل کے بغیر ممکن نہیں۔ اللہ کی عبادت و معرفت میں انسان کے لیے وصل ہی اصل العبادت ہے۔
انسان اس وصل کا طالب ہوتا ہے مگر صدقِ دل سے نہیں ہوتا اور صدقِ دل سے طالب ہونا یہ ہے کہ بندے کی نماز کبھی بھی نہ چھوٹے۔ بندہ اپنی زندگی میں نماز سے کبھی دور نہ ہو۔ نماز انسان کے لیے وصل بنتی ہے اور یہ وصل ہمیں نماز کی نعمتِ معراج تک لے جاتا ہے۔ اس لیے مکاشفے میں فرمایا:
المحروم عن الصلٰوة ھو المحروم عن المعراج عندی.
(تذکره قادریه، ص: 164)
’’جو نماز سے محروم ہے، وہ میرے نزدیک اپنی زندگی اور اپنے مولا کے تعلقِ بندگی کی معراج سے بھی محروم ہے‘‘۔
مریدوں کیلئے شیخ کی روحانی سرپرستی
وہ مرید جو صحیح معنوں میں تعلیماتِ غوثیہ پر عمل پیرا ہوجاتا ہے اور شاہِ جیلاںؒ کی روحانی ہدایات کو اپنا عمل بنا لیتا ہے اور خود کو فنائے مرشد کرلیتا ہے تو ایسے مرید کو شاہِ جیلاںؒ یوں مخاطب کرتے ہوئے خوشخبری دیتے ہیں:
وعزة اللّٰہ وان یدی علی مریدی کالسماء علی الارض اذ لم یکن مریدی جیدا فانا جید.
’’مجھے اللہ کی عزت و جلالت کی قسم! میرا ہاتھ اپنے مریدوں پر اس طرح ہے جس طرح زمین پر آسمان کا سایہ ہے۔ اگر میرا مرید عالی مرتبہ نہیں تو کوئی مضائقہ نہیں، میں تو اللہ کی بارگاہ میں عالی مرتبہ ہوں‘‘۔
(بهجة الاسرار، ص: 100)
آپؓ نے جس کو اپنی نسبت دی ہے اور جس کو اپنا مرید کہا ہے، آپؓ نے اس مرید کی محنت و ریاضت اور عبادت و مجاہدہ کا منظر یوں کھینچا ہے:
رجالی فی ھواجرهم صیام
وفی ظلم اللیالی کاللالی
(تذکره قادریه، ص: 331)
’’میرے مرید موسم گرما میں بھی روزے رکھتے ہیں اور رات کی تاریکی میں عبادت کی روشنی سے موتیوں کی طرح چمکتے ہیں‘‘۔
اس لیے اپنے مریدوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
مریدی ھم وطب واشطح و غنی
و افعل ماتشاء فالاسم عالی
’’اے میرے مرید! سرشارِ عشقِ الہٰی ہو، خوش رہ اور بے باک ہو اور خوشی کے نغمے گا اور اطاعت میں جو چاہے کر کیونکہ میرا نام بلند ہے‘‘۔
(تذکره قادریه، ص: 330)
- اس سے بھی بڑھ کر ایک مرید کو یہ مژدہ جانفزا سناتے ہیں:
مریدی لا تخف اللّٰہ ربی
عطانی رفعة نلت المنالی
’’اے میرے مرید! کسی سے مت ڈر، اللہ میرا پروردگار ہے اس نے مجھے وہ بلندی عطا فرمائی ہے کہ جس سے میں نے اپنی مطلوبہ آرزوکو پالیا ہے‘‘۔
(تذکره قادریه، ص: 330)
- اس لیے فرماتے ہیں:
بلاد اللّٰہ ملکی تحت حکمی.
’’اللہ تبارک و تعالیٰ کے تمام شہر میرا ملک ہیں اور ان پر میری حکومت جاری ہے‘‘۔
(تذکره قادریه، ص: 330)
- ان شہروں اور ان ملکوں میں آپ کی روحانی حکومت کس طرح جاری و ساری ہے اس حقیقت کو بھی یوں واضح کیا:
نظرت الی بلاد اللّٰہ جمعاً
کخردلة علی حکم التصالی
’’اللہ تبارک و تعالیٰ کے تمام شہروں کو اس طرح دیکھتا ہوں جیسے رائی کا دانہ ہو اور میرا حکم اتصال جاری ہے۔
ولانی علی الاقطاب جمعا
فحکمی نافذ فی کل حال
’’اللہ تعالیٰ نے مجھے جملہ اقطاب پر حاکم بنایا ہے پس میرا حکم ہر حال میں جاری و ساری ہے‘‘۔
خلاصہ کلام
تصوف و سلوک، روحانیت و احسان اور طریقت و حقیقت کی دنیا میں جسے مرید کہا جاتا ہے وہ مرید تب بنتا ہے جب وہ ’’من اراد‘‘ کی کیفیت میں ڈھلتا ہے۔ مرید ’’من اراد‘‘ میں اپنا ارادہ، اللہ کی معرفت کا کرتا ہے، اس کا ارادہ، رب کی قربت، توحید کی پہچان، اللہ کو معبود حقیقی جاننا اور سمجھنا، اسے اپنا خالق و مالک، رازق، شافی، داتا و مولا، ہر چیز پر قادر اور ہر شے سے زیادہ طاقتور جاننے کا ہوتا ہے۔ وہ مرید اپنے شیخ کی تعلیم و تربیت کے ذریعے توحید کی معرفت بھی حاصل کرتا ہے اور مقامِ رسالت کا فہم بھی حاصل کرتا ہے۔۔۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت بھی سیکھتا ہے اور قربت کی لذّت بھی پاتا ہے۔۔۔ مرید کا ارادہ اللہ، اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، اس کے دین کی معرفت اور دینِ اسلام کے فروغ و اشاعت کی خدمت سے استوار ہوتا ہے۔ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تعلق میں استقامت اور دین کی تعلیمات کو معاشرے میں فروغ دینے پر ثابت قدمی کا نام ہی پیری مریدی ہے اور یہی کام ایک مرشد اور مرید کا فرضِ اولین ہے۔
تصوف و سلوک دین کی تعلیمات کو ظاہر کے ساتھ ساتھ باطن میں بھی مضبوط و مستحکم کرنے کا نام ہے تاکہ دینی اقدار کی ظاہر داری ان کی باطنی استواری کے ذریعے مضبوط و مستحکم ہوجائے۔
ماخوذ از ماہنامہ منہاج القرآن، نومبر 2020ء
تبصرہ