منہاج القرآن کے مرکزی سٹاف ممبران کا سالانہ تفریحی ٹوور 2020
مرکز منہاج القرآن کے سٹاف ممبران کا سالانہ تفریح ٹوور سکردو کے لئے گیا، جس کی خصوصی کاوش بریگیڈئر (ر) اقبال احمد خان، خرم نواز گنڈاپور، جواد حامد، رانا فیاض، مشتاق احمد، ایوب انصاری، امتیاز حسین اعوان رانا عتیق، قاضی محمود اور دیگر سینئر رہنماؤں نے کی، ٹوور کی خصوصی اجازت چیرمین سپریم کونسل منہاج القرآن ڈاکٹر حسن محی الدین قادری نے دی۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی خصوصی دعاؤں کے ساتھ قریب 60 افراد پر مشتمل قافلہ 2 بڑی کوسٹرز اور ایک ہائی روف پر 12 ستمبر ہفتہ کی شب رات 10 بجے مرکز سے روانہ ہوا۔
قافلے میں مرکز کی ہر نظامت و شعبہ سے سٹاف ممبر موجود تھے۔ قافلے میں موجود اکثریت لوگ پہلی بار سکردو جارہے تھے اس لئے سب لوگ پر جوش تھے۔ پہلا پڑاؤ چکری انٹرجینج پر ہوا جہاں سب لوگوں نے نماز فجر ادا کی اور فریش ہو کر دوبارہ عازم سفر ہوئے۔ صبح ناشتے کے لئے قافلے کا اگلا پڑاؤ بالا کوٹ تھا۔
ناران
ناران سے پہلے ایک جگہ آبشار کے پاس سب نے رک تصاویر بنوائیں۔ اس کے بعد شام قریب 4 بجے گاڑیاں ناران بازار سے ہوتی ہوئی ایک پر فضا مقام بٹہ کنڈی جا کر رکی جہاں ہوٹل میں رات قیام کا بندوبست تھا۔ بٹہ کنڈی بہت خوبصورت تفریحی مقام بنتا جا رہا ہے جہاں لوگ رات کو رکنے کوترجیح دیتے ہیں۔ سب لوگ سامان رکھ کر بازار کی طرف نکل پڑے۔ ہم لوگوں نے بازار سے پکوڑے اور چائے پی، انتظامیہ رات کے کھانے کے لئے مصروف عمل ہو گئی۔
رات 8 بجے سب نے بہترین لذیز کھانا تناول کیا اس کے بعد سب لوگوں نے تھکاوٹ کی وجہ سے کمروں میں آرام کرنے کو ترجیح دی۔ اگلی صبح قافلہ صبح 6:30 پر سکردو کی جانب روانہ ہو گیا۔ راستے میں بابو سرٹاپ سےگزرتے ہوئے گاڑیوں میں بیٹھے بیٹھے ہی سب کے جسموں میں سردی کی ایک لہر دوڑ گئی، صبح کے وقت بابو سر تاپ کا درجہ حرارت کافی حد تک نیچے ہوتا ہے۔
وقت کی کمی کی وجہ سے کوئی بھی گاڑی ادھر نہ رکی کیوں کہ ادھر رکنے کا پلان واپسی پر طے تھا اس کے بعد قافلہ جب چلاس کی حدود میں داخل ہوا تو گرم لو کے تھپیڑوں نے استقبال کیااور گاڑیوں کے ائیرکنڈیشنر آن کرنے پڑ گئے، چلاس میں بلند و بالا خشک اور ہیبت ناک پہاڑوں کے ساتھ ساتھ دریائے سندھ کے شور اور گہرائی نے ایک بار دل کو ہلا کر رکھ دیا دن 11 بجے قافلہ چلاس بائی پاس پہنچا جہاں پر سب کے لئے ناشتہ کا انتظام پہلے سے ہی کیا گیا تھا۔
ناشتہ کرنے بعد سب لوگ دوبارہ اپنی اپنی گاڑیوں میں بیٹھ گئے اور اگلے مشکل ترین سفر کا آغاز ہوا۔ قریب 3 بجے رائے کوٹ میں نماز ظہر کے لئے سب گاڑیاں رکی اور 3:30 پر قافلہ جگلوٹ پہنچا جہاں سے گاڑیوں نے شاہراہ ریشم کو چھوڑ کو سکردو کے ڈیتھ روڈ پر اپنا سفر شروع کیا۔ اس سے پہلے گاڑی میں سب لوگ آپس میں خوش گپیوں میں مصروف تھے۔ لیکن خطرناک سفر کے شروع ہوتے ہی سب لوگ درود پاک و کلمہ طیبہ کا ورد کرنے لگے۔ جگلوٹ سے سکردو کا سفر 164 کلو میٹر ہے جو خطرناک اور نا ہموار ہونے کی وجہ سے قریب 9 گھنٹوں تک محیط بن گیا۔
راستے میں بہت جگہ گاڑیوں کو روکنا پڑا کیونکہ کبھی راستے میں بڑے بڑے پتھروں کو ہٹایا جا رہا تھا اور کسی جگہ سامنے سے آنے والے ٹرکوں کو راستہ دینے کے لئے اپنی گاڑیوں کو ریورس کرنا پڑتا تھا۔ ریورس کرنے پر سب کے دل تو دہل ہی جاتے تھے۔ خیر ڈرتے ڈراتے رات 12 بجے قافلہ اپنی منزل مقصود سکردو پہنچ گیا جہاں K2 ہوٹل میں انتظامیہ نے رہائش کا بندوبست کیا گیا تھا۔ رات پہنچتے ہی کھانا تیار تھا سب لوگ کھانا کھا کر اپنے اپنے کمروں میں آرام کرنے چلے گئے۔
شنگریلا
اگلی صبح ناشتہ کے بعد ہمیں بتایا گیا کہ آج شنگریلا ریزورٹ کا وزٹ کیا جائے گا۔ اکثر لوگوں نے یہ خوبصورت جگہ صرف تصویروں میں ہی دیکھی تھی اس لئے سب لوگ ادھر جانے کو بے تاب تھے، ہوٹل سے ایک گھنٹہ کی مسافت پر یہ خوبصورت جگہ واقع تھی۔ اس خوبصورت جگہ میں داخل ہونے کی 300 روپے فی بندہ انٹری فیس لی گئی۔ جب اس ریزورٹ پر پہلی نگاہ پڑی تو اس نے سب کو اپنے سحر میں جکڑ لیا۔ بلند و بالا پہاڑ وں کے دامن میں اتنی خوبصورت جھیل اور پارک قدرت کے حسین نظاروں میں سے ایک نظارہ تھا۔ سب لوگ ٹولیوں میں تقسیم ہو کر اپنا اپنا انجوائے کرنے لگے، سیبوں کے انگنت درخت اس خوبصورت جگہ کو اور حسین بنا رہے تھے۔ انتظامیہ نے بتایا کہ اس جگہ ایک رات رکنے کا کرایہ 27 ہزار سے 75 ہزار روپے تک تھا۔
3 گھنٹے پر فضا مقام پر گھومنے کے بعد ہمیں بتایا گیا کہ ایک اور جھیل (اپر کچورا) جانے کے لئے گاڑیوں میں آجائیں۔ شنگریلا سے 15 منٹ کی مسافت پر انتہائی خوبصورت قدرتی طور پر بنی اپر کچورا جھیل پہنچے جس کا نیلا پانی اپنی مثال آپ تھا۔ وہاں پر کشتی والے سے ریٹ طے کرنا بھی اچھا تجربہ رہا کافی بحث و مباحثہ کے بعد کشتی والے سے ریٹ طے ہو گیا او گروپ کی شکل میں سب لوگوں نے جھیل کا کشتی میں سوار ہو کر چکر لگایا۔
اس کے بعد سب لوگوں نے اپنے یادگار لمحوں کو کیمروں کی آنکھ میں محفوظ کیا۔ اس کے بعد واپسی پر ہماری گاڑی سکردو مین بازار جا کر رکی جہاں سب نے شاپنگ کی۔ سکردو شہر میں سوائے مٹی کہ کچھ نہیں ہر وقت مٹی اڑتی رہتی ہے، شہر میں خشک میوہ جات کی قیمتیں گلگت اور ناران سے مہنگی ہیں اس لئے بہت کم لوگوں نے خشک میوہ جات سکردو شہر سے خریدے۔ اس کے بعد سب لوگ واپس ہوٹل کی طرف روانہ ہو گئے۔ رات کا کھانا کھا کر سب لوگ اپنے اپنے کمروں میں آرام کے لئے چلے گئے۔
خپلو قلعہ
اگلی صبح ہماری منزل خپلو قلعہ (جو ضلع گھانچے میں آتا ہے ) اور منٹھو کا واٹر
فال (جو ضلع کھرمنگ میں آتی ہے) تھا۔
اس بار ہمیں ذرا جلدی نکلنا پڑا کیوں کہ سفر زیادہ تھا اور وقت تھوڑا سکردو شہر سے
قریب 3 گھنٹے کی مسافت پر پہلے منٹھو کا واٹر فال پہنچے جہاں قدرت کا عجیب ہی رنگ
دیکھنے کو ملا۔ بلند پہاڑ سے قدرتی چشمہ کا پانی اتنی رفتار سے نیچے کو بہتا ہے کہ
بندہ نیچے زیادہ دیر تک کھڑا نہیں رہ سکتا اور جہاں آبشار کا پانی گرتا ہے وہی پر
قوس قزاح بھی بنتی دیکھ کر ہر کوئی ششدر رہ گیا۔
اس موقع پر سینئرز اور بزرگ قائدین کہیں بھی جوانوں سے پیچھے نظر نہ آئے چاہے وہ
پہاڑوں پر ہائکنگ ہو یا تصاویر بنانے کا مقابلہ ہو۔
آبشار کے سامنے موجود ہوٹل سے سب لوگوں نے گرما گرم پکوڑے اور چائے نوش کی اس کے بعد ہماری منزل ضلع گھانچے کی خوبصورت وادی خپلو تھی، راستے میں ہمیں بتایا گیا کہ منہاج القرآن صوبہ گلگت بلتستان کے ناظم علامہ محمد محسن، فاضل جامعہ اسلامیہ منہاج القرآن علامہ علی محمد بلتی او ر علامہ محمد اسماعیل بلتی (تینوں بھائی ) ان کی والدہ ہ کچھ دن پہلے وفات پا گئی تھیں ان کے گھر خپلو وادی سے 12 کلو میٹر آگے اظہار افسوس کے جانا ہے اور واپسی پر خپلو قلعہ دیکھنے جائیں گے۔
اس راستے پر بھی دریائے سندھ ہمارے ساتھ ساتھ ہی رہا۔ راستے میں ایک جگہ لینڈ سلائڈنگ کی وجہ سے روڈ بند تھا اور مزدور راستے سے بڑے بڑے پتھر ہٹانے میں مصروف تھے۔ قافلے میں موجود لوگوں نے بھی مزدورں کی مدد کی اور راستہ کلئیر کیا۔ خپلو سے آگے سرمو پہنچے تو وہاں پر موجود میزبان تحریکی ساتھیوں نے پرتپاک استقبال کیا۔ اتنے دور افتادہ علاقہ جہاں موبائل سگنلز بھی بہ مشکل آتے ہیں اور یہاں سے سیاچن (پاک انڈیا بارڈر ایریا) صرف 50 کلو میٹر پر واقع ہو ایسے علاقہ میں اپنے تحریکی ساتھی مل جائیں تے دل کی کیفیت کو بیان نہیں کیا جا سکتا۔ وہاں کے قدیم رواتی گھروں میں داخل ہوتے ہوئے عجیب سی اپنائیت محسوس کی۔
علامہ محسن اور ان کے بھائیوں سے سب قافلے والوں کا تعارف علامہ محمد وسیم افضل (سیکرٹری نظامت امور خارجہ) نے کروایا اور علامہ محسن، علامہ علی محمد اور علامہ محمد اسماعیل کی تحریکی خدمات کے حوالے سے سب قافلے والوں کو آگاہ کیا۔ سنئیرز قائدین نے علامہ محمد محسن اور اہل خانہ کو قائد تحریک حضور شیخ الاسلام، زادگان اور مرکزی قیادت کی طرف سے ان کی والدہ کی وفات پر اظہار افسو س کیا اور دعائے مغفرت کی۔ علامہ محسن نے شیخ الاسلام اور مرکزی قیادت کا وفد بھیجنے پر شکریہ ادا کیا اور علاقہ میں تحریک کے کام کے حوالہ سے گفتگو کی۔ اس کے بعد سب مہمانوں کے لئے پرتکلف کھانے کا اہتمام کیاگیا جس میں مقامی اور روائتی کھانے بھی شامل تھے جس کو سب لوگوں نے جی بھر کر کھایا، واپسی پرمیزبان محفل کے ساتھ پورے وفد کا گروپ فوٹو ہوا۔
علامہ محسن کے گھر سے نکلتے نکلتے سورج غروب ہو چکا تھا اور جب خپلو قلعہ پہنے تو رات ہو چکی تھی، خپلو قلعہ پہنچنے پر معلوم ہوا کہ قلعہ کرونا وائرس کی وجہ سے سیاحوں کے لئے کافی عرصہ سے بند ہے اس لئے کسی کو اندر جانے کی اجازت نہیں۔ اس وجہ سے کچھ ہی فاصلے پر موجود 700 سال پرانی تاریخی مسجد کا وزٹ کیا گیا۔ جو حضرت امیر کبیر علی ہمدانی نے 786 ہجری میں بنائی اور اس علاقہ میں اسلام کی اشاعت کا آغاز کیا۔ وہاں پر موجود انتظامیہ کے ایک فرد نے اس مسجد کی تاریخ کے حوالے سے بریفنگ دی۔
اس کے بعد سب لوگ واپس ہوٹل روانہ ہوئے۔ یہ رات سکردو میں ہماری آخری رات تھی
کیونکہ اگلے روز دیوسائی کے وزٹ کے بعد قافلے کی واپسی کا سفر شروع ہو جانا تھا۔
انتظامیہ کا پلان یہ تھا کہ دیو سائی کوسٹرز پو ہی جایا جائے اور دیو سائی میدان کی
دوسری جانب نیچے استور کی وادی میں اتر کر رات کا قیام استور میں کیا جائے تاکہ
واپسی کا سفر بھی اس سائیڈ سے کم ہو گا اور استور میں موجود راما جھیل اور دوسرے
تفریحی مقامات کا وزٹ بھی ممکن ہو سکے گا لیکن ڈرائیورز کے مطابق بڑی کوسٹرز دیو
سائی جانے والا راستہ خراب ہونے کی وجہ سے ادھر نہیں جا سکتی اس لئے یہ فیصلہ کیا
گیا کہ دیو سائی جیپوں پر جایا جائے اور واپس سکردو پہنچ کر رات 10 بجے واپسی کا
سفر شروع کیا جائے۔
دیوسائی
اگلی صبح دنیا کے اس عجوبے (دیوسائی) کو دیکھنے کے لئے سب لوگ جلد ہی تیار ہو گئے اور ناشتہ کرنے بعد جیپوں میں سوار ہو گئے۔ ہر جیپ میں 8 لوگ سوار ہوئے۔ 40 منٹ کی مسافت کے بعد قافلہ سدپارہ جھیل (ڈیم) پہنچا جو اپنے نیلے اور سبز پانی کی وجہ سے بہت مشہور ہے۔ وہاں پر قافلہ کے قیام مختصر رہا سب نے اپنی تصاویر بنوائی اور دوبارہ جیپوں میں سوار ہو کر دیوسائی کی طرف روانہ ہوئے۔ سدپارہ جھیل تک سڑک بہترین رہی اس کے بعد سڑک انتہائی خراب اور دشوا ر ہو گئی۔ آپ کے بائیں جانب گہری کھایاں اور دائیں جانب بلند و بالا پہاڑ کسی بھی کمزور دل شخص کا دل دہلا دینے کے لئے کافی تھے۔ خیر ڈیڑھ گھنٹہ کے بعد گاڑیاں دیوسائی میدان کے داخلہ پوائنٹ پر پہنچی جہاں سب کی انٹری فیس ادا کی گئی۔
اس پوائنٹ پر ایک بڑے سائن بورڈ پر سیاحوں کے لئے خصوصی ہدایات بھی لکھی گئی ہیں۔ اس پوائنٹ سے گزرنے کے بعد جیسے ہی گاڑیاں دیو سائی کے میدان میں داخل ہوئی تو ایک عجیب ہی منظر دیکھنے کو ملاآپ کے سامنے اونچے نیچے ٹیلوں پر محیط تا حد نگاہ ایک میدان شروع ہو جاتاہے گہرے نیلے آسمان میں بادل روئی کے گالوں کی طرح دکھتے ہیں، اس جگہ کو یوٹیوب پر دیکھ کر بہت تجسس تھا اور یہ خواہش منہاج ٹوور نے پوری کی جس پر ان کا جتنا بھی شکریہ اد ا کیا جائے کم ہے۔
اس جگہ آکسیجن کی کمی ہو جاتی ہے اس وجہ سے ہمای گاڑی میں موجود علامہ وسیم افضل کی طبیعت کچھ خراب ہوئی لیکن ندیم احمد اعوان نے فوری طور پر چاکلیٹس نکال کر علامہ کو کھلائی جس سے ان کی طبیعت بھال ہو گئی۔ اس میدان میں ہمارا سفر قریب 1:30 گھنٹے کا رہا راستے میں کالا پانی اور بڑا پانی بہت ہی خوبصورت جگہیں ہیں۔ ہم لوگ چونکہ آوٹ آف سیزن میں دیو سائی میں گئے اس لئے وہاں کے خوبصورت پھول ہمیں بہت کم دکھائی دئیے اسی طرح برفانی ریچھ کے بارے بھی بہت سی باتیں سن رکھی تھیں وہ بھی ہمیں کہیں دکھائی نہیں دیا مقامی لوگوں نے بتایا کہ وہ رات کو کالا پانی، یا سیوشر جھیل کے پاس پانی پینے کے لئے آتے ہیں۔ ان کا بسیرا زیادہ تر پہاڑوں میں ہی ہوتا ہے۔
یہاں ریچھ تو نظر آنا نہیں تھا اور نہ نظر آیا البتہ ایک چھوٹا جانور جو دکھنے میں گلہری جیسا، سائز میں بلی سے بھی بڑا اور دانت خرگوش جیسے ہوتے ہیں اس کو مقامی زبان میں مارموٹھ کہا جاتا ہے وہ ہمین اس میدان میں کثرت سے نظر آئے۔ جو ہمارے قریب جانے سے فورا اپنی بل میں گھس جاتے تھے۔
سیوشر جھیل
سیوشر جھیل ہمارے اس ٹوور پر آخری مقام تھا اور اس جھیل کو دیکھ کر ہماری تمام
راستے کی تھکاوٹ دور ہو گئی ہمارے سفر کے پیسے پورے ہو گئے۔ گہرے نیلے سیاہی مائل
رنگ کی یہ جھیل قدرت کا عظیم شہکار ہے۔ جس کو دیکھ کر ہر کوئی انگشت بدندان رہ گیا۔
سیکنڑوں کلو میٹرمیں پھیلے میدان میں واقع یہ خوبصورت جھیل بہت ہی خوبصورت منظر پیش
کرتی ہے، جھیل کاسمندر کی لہروں کی طرح کناروں سے ٹکراتا پانی اردگرد کی خاموشی میں
گونج پیدا کرتا ہے جو بہت ہی دلفریب ہوتا ہے۔
سب لوگ جھیل کے چاروں طرف پھیل گئے، کوئی تصویر بنانے میں مصروف تھا کوئی وی لوگ
بنانے میں تو کوئی سلوموشن ویڈیو بنانے میں مصروف رہا۔ ہمیں بہت سے لوگ بھی ملے جو
لاہور سے دیو سائی موٹر بائیکس پر سیر کرنے پہنچے ہوئے تھے۔
راقم نے اچھرہ کے ایک بھائی سے جو موٹر سائیکل پر دیو سائی پہنچے ہوئے تھے ان سے موٹر بائک کی لفٹ مانگی تو انہوں نے لفٹ دینے کی بجائے بائیک ہی میرے حوالے کر دی کہ آپ بائیک لے جائیں اور اگلے مقام پر کھڑی کر دیں ہم وہاں سے لے لیں گے۔ ان کی فراح دلی دیکھ کر بہت خوش ہوئی پھر ندیم اعوان کے ساتھ دنیا کے بلند ترین میدان میں بائیک چلا کر اپنے سفر کو مزید دوبالا کیا۔
کالا پانی
اب وقت واپسی کا تھااور دل نہیں کر رہا تھا کہ واپس جایا جائے لیکن وقت کی کمی وجہ سے اس خوبصورت جگہ کو چھوڑنا پڑا اور واپس جیپوں میں سوار ہو کر واپسی کا سفر شروع ہوا۔ واپسی پر کالا پانی پر ایک ڈھابے پر چائے پینے رکے۔ وہاں پر راقم نے سرکار دو عالم صلی اللہ علی وآلہ وسلم کی شان میں نعت بھی پڑھی۔ ڈھابے کے ویٹر نے گرما گرم چائے لا کر ٹیبل پر رکھی سرد ہوا کی وجہ سے 10 سیکنڈ کے اندر اندر چائے ٹھنڈا مشروب بن گئی اور ہمیں وہ ٹھنڈی چائے ہی پینی پڑی۔ اس کے بعد تھکاوٹ بہت زیادہ ہوچکی تھی اور ہم واپس ہوٹل روانہ ہو گئے۔
شام 7 بجے کے قریب ہم ہوٹل پہنچ گئے اور واپسی کے لئے پیکنگ شروع کر دی۔ پیکنگ کرنے بعد سب کے لئے کھانا تیار تھا سب نے کھانا کھایا اسی دوران شانی صدیقی کی طبیعت پہلے سے خراب تھی وہ مزید بگڑ گئی اس کو ہسپتال لے کر گئے اور ات 10 بجے واپس آئے اور ہمارا واپسی کا سفر شروع ہوا، سب لوگ ہی ڈرے ہوئے تھے کہ اتنا خطرناک رستہ اور رات کا سفر اللہ خیر فرمائے۔
ڈرائیورز بہت زیادہ تجربہ کار تھے وہ بڑی مہارت سے گاڑیاں چلا رہے تھے۔ رات کے 11 بجے شروع ہونے والا سفر رات 3 بجے رک گیا اور ہمیں بتایا گیا کہ آگے لینڈ سلائڈنگ کی وجہ سے روڈ بند ہے۔ نیند پہلے ہی نہیں آرہی تھی اس خبر نے سب کے ہوش بھی اڑا دئیے۔ اکثریت لوگ گاڑیوں میں ہی موجود دہے اور کچھ لوگ باہر نکل کر صورتحال کا جائزہ لینے لگے ابھی باہر نکلے چند منٹ ہی ہوئے ہوں گے کہ ایک دل دہلا دینے والا زور دار دھماکہ ہوا۔ جس سے بڑے دل والے بھی ایک بار سہم گئے، دھماکہ ہماری گاڑیوں سے ایک کلومیٹر دور ہوا تھا لیکن دھماکہ کی گونج رات اور خاموشی ہونے کی وجہ سے اتنی زیادہ تھی جیسے کوئی ایٹم بم پھٹا ہو۔ دھماکہ کے بعد وہاں کے مقامی لوگ جو اس جگہ پہلے سے پھنسے تھے انہوں نے بتایا کہ یہ آرمی والوں نے راستہ کھلا کرنے کے لئے پہاڑ کو بم لگا کر توڑا ہے او ر اس وجہ سے یہ راستہ کم از کم ایک دن کے بند رہے گا۔
یہ سن کر تو سب ہی پریشان ہو گئے اس ویران راستے میں رات کے تین بجے ایسی مایوس کن خبر سن کر سب کا دل بیٹھ گیا اور کئی لوگوں کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور بس وہ یہی فریاد کر رہے تھے کہ کسی طرح ہمیں لاہور پہنچا دیں۔ اس کے بعد اکثریت لوگ گاڑیوں میں آکر سو گئے، قریب 2 گھنٹے بعد پتہ چلا کہ رستہ کھل گیا ہے اور ٹریفک چل پڑی ہے۔ یہ سن کر اللہ کا شکر ادا کیا دھماکے والی جگہ جا کر معلوم ہوا کہ رات کو دھماکہ دریا کے اندر کیا گیا تھا پہاڑ توڑنے والی خبر غلط تھی۔
اتنے میں دن کا اجالا بھی ہو گیا تھا، اس سے آگے بھی متعدد بار گاڑیوں کو رکنا پڑا کیوں کہ سامنے سے آنے والے ٹرکوں کو راستہ دینے کے لئے اپنی گایوں کو گہری کھائی کے دھانے پر کھڑا کرنا پڑتا تھا اور گاڑیوں کے پچھلے ٹائرز آدھے کھائی میں اتر جاتے تھے وہ منظر بہت خوفناک ہوتا تھا۔
بابو سرٹاپ
اس موقع پر ہماری گاڑی میں موجود قاضی محمود اور رانا عتیق گاڑی سے اتر کر خطرناک جگہوں پر سب گاڑیوں کو کلئیر کرواتے رہے۔ صبح قریب 9 بجے قافلہ مشکل راستوں کو کراس کرتا ہوا شاہراہ ریشم پر آگیا۔ شاہراہ ریشم کو دیکھ کر سب کی جان میں جان آئی۔ شاہرہ ریشم سے ہوتے ہوئے ہم لو گ رائے کوٹ 11 بجے پہنچے جہاں سب لوگوں نے ناشتہ کیا، ناشتہ کر کے سب لوگ فریش ہوئے اور پھر چلاس سے ہوتے ہوئے بابو سر ٹاپ دن 3 بجے پہنچے جہاں اتنی ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی کہ بیان کرنا ممکن نہیں، سب لوگوں نے ادھر بھی خوب انجوائے کیا۔
ناران
اس کے بعد ناران کی طرف سفر شروع ہوا اور شام کو قافلہ قریبا 38 گھنٹے مسلسل سفر کے بعد ناران بازار پہنچا جہاں ہوٹل میں رات کا قیام تھا۔ اس رات سب لوگوں نے رات گئے تک بازار سے شاپنگ کی اور ناران بازار میں گھومتے رہے۔ اگلی صبح 8 بجے ہمارا سفر لاہور کی طرف شروع ہوا ناران بازار سے نکلتے ہی 2 کلو میٹر کے فاصلے پر ایک ہوٹل میں سب نے ناشتہ کیا اور ناشتہ کرنے بعد لاہور کی طرف روانہ ہوئے اور19 ستمبر کو رات 10 بجے واپس مرکز پہنچے اور اس طرح یہ 7 دن کا یادگار سفر بخیر وعافیت اختتام پذیر ہوا۔
آخر میں میں اپنے تمام دوستوں جو اس سفر میں ساتھ رہے ان کی طرف سے شیخ الاسلام، ڈاکٹر حسن محی الدین قادری، ڈاکٹر حسین محی الدین قادری، خرم نواز گنڈاپور، بریگیڈئر (ر) اقبال احمد خاں اور دیگر سنئیرز رہنماء جہنوں نے اس ٹوور کو کامیاب بنانے میں اپناا پنا کردار ادا کیا ان سب کا تہہ دل سے شکر گزار ہیں اور دعا گو ہیں کہ اللہ پاک شیخ الاسلام اور صاحبزادگان کا سایہ تا دیر ہم سب کے سروں پر قائم رکھے اور ان کی شفقتوں کا سلسلہ ہمیشہ ہم سب پر اسی طرح جاری و ساری رہے آمین۔
رپورٹ : قاضی مدثرالاسلام (اسسٹنٹ ڈائریکٹر DFA)
تبصرہ