انسانی جذبات اور احساسات کا احترام

ترتیب و تدوین: محمد یوسف منہاجین
معاون: محبوب حسین

اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:

لَقَدْ جَآئَکُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْکُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَئُوْفٌ رَّحِیْمٌ.

(التوبه، 9: 128)

’’بے شک تمہارے پاس تم میں سے (ایک باعظمت) رسول (ﷺ) تشریف لائے۔ تمہارا تکلیف و مشقت میں پڑنا ان پر سخت گراں (گزرتا) ہے۔ (اے لوگو!) وہ تمہارے لیے (بھلائی اور ہدایت کے) بڑے طالب و آرزومند رہتے ہیں (اور) مومنوں کے لیے نہایت (ہی) شفیق بے حد رحم فرمانے والے ہیں‘‘۔

حضور نبی اکرم ﷺ کے اخلاق کے بے شمار پہلو ہیں جن کا احاطہ انسان کی زبان اور اس کا فکر و فہم نہیں کرسکتا۔ حضور نبی اکرم ﷺ اپنی زندگی میں ہر شخص خواہ وہ اچھا ہو یا برا، اپنا ہو یا پرایا، مسلمان ہو یا غیر مسلم، نیک ہو یا بد، گناہگار ہو یا پرہیزگار، اس کے انسانی جذبات و احساسات کا خیال فرماتے۔ آپ ﷺ کے اس طرزِ عمل سے واضح ہوتا ہے کہ آپ ﷺ کی نظر میں انسانیت کے جذبات اور احساسات کے احترام کو کس قدر اہمیت حاصل تھی۔

مذکورہ آیتِ کریمہ میں اللہ رب العزت نے اس امر کی صراحت فرمائی ہے کہ بنی نوع انسان کو جو چیز بھی مشقت میں ڈالتی ہے، انہیں پریشان کرسکتی ہے، ان کے لیے تکلیف، بوجھ یا اذیت کا باعث ہوسکتی ہے یا اسے خوف زدہ کرسکتی ہے تو وہ ہمارے رسول ﷺ کو گوارا نہیں ہے۔ یاد رکھیں! وہ شے جس سے انسان کبھی خوفزدہ ہوتا ہے، کبھی شرمندہ ہوتا ہے، کبھی پریشان ہوتا ہے، کبھی اذیت، ٹینشن اور سٹریس محسوس کرتا ہے، کبھی سُبکی اور بے عزتی محسوس کرتا ہے، یہ سب ایک احساس ہوتا ہے۔ گویا اللہ رب العزت نے واضح فرمادیا کہ جو احساس بھی تمہیں کسی اعتبار سے پریشان کرتا ہے، وہ ہر احساس میرے محبوب ﷺ پر شاق گزرتا ہے۔ میرے حبیب ﷺ برداشت نہیں کرتے کہ انسانیت کو تکلیف پہنچے یا کوئی انسان شرمندہ ہو، کسی کی عزتِ نفس مجروح ہو، کوئی خوفزدہ ہوجائے، کسی کا مَن امن و سکون سے محروم ہوجائے، کوئی بے عزتی محسوس کرے اور خود کو غیر محفوظ محسوس کرے۔ الغرض وہ ساری کیفیات جس میں طرح طرح کے جذبات و احساسات جنم لیتے ہیں، یہ تمام کیفیات میرے محبوب ﷺ پر گراں گزرتی ہیں۔ وہ ہر انسان کو پرامن و پرسکون اور عزتِ نفس کی حفاظت کے ساتھ دیکھنا چاہتے ہیں۔

اخلاق کا مفہوم

انسانی جذبات اور احساسات کا احترام کرنا اخلاقِ محمدی ﷺ کا ایک حصہ اور گوشہ ہے۔ اس تناظر میں اخلاق کا معنی و مفہوم سمجھنے کی ضرورت ہے۔ یاد رہے کہ انسان کے احوال دو طرح کے ہوتے ہیں:

  1. احوال طبعیہ
  2. احوال عادیہ

1۔ وہ احوال جو انسان کے کنٹرول میں نہیں ہوتے، انسان انہیں جنم نہیں دیتا، انہیں Develope نہیں کرتا، وہ احوال اللہ رب العزت کی طرف سے اس کی جبلّت میں رکھے ہوئے ہوتے ہیں، یہ طبعی احوال کہلاتے ہیں۔ مثلاً: جب غصے اور پریشانی کی صورتحال پیدا ہوجائے تو ہیجان محسوس ہوتا ہے جبکہ اچھی اور خوشگوار بات آجائے تو انسان کے چہرے پر ایک اچھا تاثر پھیل جاتا ہے۔ پریشانی آجائے تو چہرے پر غم کے اثرات ظاہر ہوجاتے ہیں اور اگر خوف آجائے تو خوفزدگی طاری ہوجاتی ہے۔

الغرض اس طرح کے بہت سارے پہلو ایسے ہیں جو انسان کی طبیعت میں ودیعت کردیئے گئے ہیں، ایسی چیزوں کے اظہار کو اخلاق نہیں کہتے بلکہ یہ فطرت (Nature) ہے۔

2۔ احوال عادیہ وہ ہیں جو انسان کی جبلّت میں تخلیق کے طور پر تو موجود نہیں مگر عادت کے طور پر کسی انسان نے انہیں اپنایا اور بڑھاتا چلا گیا اور اتنا بڑھایا کہ اس نے انہیں اپنی عادت، اپنی جبلّت اور خلقت بنادیا۔ انسان کا دوسروں کے ساتھ نیکی و بھلائی، عفو و درگزر، سخاوت، محبت و شفقت، صداقت و سچائی کے ساتھ پیش آنا اور اس جیسے دوسری اقدار کا تعلق اخلاق سے ہے۔

انسانی خصائل کی تخلیق کے عوامل اور اخلاق

انسان کے اندر ان تمام خوبیوں کے جنم لینے کے دو عوامل ہوسکتے ہیں:

  1. انسان اپنے اوپر جبر کرکے مجبوراً اچھے اخلاق کا اظہار کرے۔ مثلاً: مجبوراً سچ بولنا، مجبوراً خود کو سخی ظاہر کرنا، مجبوراً بھلائی کرنا، مجبوراً شفقت دکھانا، مجبوراً چہرے پر مسکراہٹ لانا۔ بھلائی کے یہ سارے معاملات انسان اگر اپنے اوپر جبر کرکے اہتمام و کوشش کے ساتھ اپنی زندگی میں ظاہر کرتا ہے تو اسے اخلاق نہیں کہتے۔
  2. اسی طرح انسان اگر کسی مفاد کی وجہ سے یا کسی خوف کی وجہ سے اخلاقی اقدار ظاہر کرتا ہے تو تب بھی یہ اخلاق نہیں ہیں۔ یعنی کسی مصلحت اور کسی غرض سے اچھے برتائو کا اظہار کرنا بھی اخلاق نہیں ہیں کیونکہ یہ تمام کیفیات مصنوعی ہیں، ان میں تکلّف ہے۔

گویا اگر کوئی بندہ اپنے مفاد یا کسی خوف کی وجہ سے کسی سے اچھا برتائو کرتا رہے لیکن جب یہ مفاد یا خوف ختم ہوجائے یا اس کی ضرورت ختم ہوجائے تو اس کی وہ ساری خوبیاں جو وہ اپنے کردار میں دکھاتا تھا، وہ بھی ختم ہوجائیں اور وہ پلٹ کر اپنی اصل پر آجائے اور جو کچھ اس کی عادات میں اصلاً تھا، وہ ظاہر ہونا شروع ہوجائے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ اچھے اخلاق کا مظاہرہ محض بناوٹ کے طور پر کررہا تھا۔

مثلاً: پہلے وہ شفیق نظر آتا تھا، اب غصے والا دکھائی دے گا۔۔۔ پہلے محبت کرنے والا نظر آتا تھا، اب اس میں نفرت دکھائی دے گی۔۔۔ پہلے وہ معافی دینے والا دکھائی دیتا تھا، یکلخت بڑا منتقم اور ناقابل برداشت رویہ رکھنے والا نظر آئے گا۔ پس وہ چیزیں جو اس قسم کے عارضی ماحول اور ضروریات کی وجہ سے انسان اپنے اوپر مسلط کرے اور پھر ان کا اظہار کرے، یہ بھی اخلاق نہیں ہیں۔

سوال پیدا ہوتا ہے کہ اپنے اوپر جبراً مسلط کردہ اچھے اعمال و احوال بھی اگر اخلاق نہیں ہیں اور کسی مفاد یا خوف کے پیش نظر اچھا برتائو کرنا اور اچھے طریقے سے پیش آنا بھی اخلاق نہیں ہے تو پھر ہمارے اقوال و اعمال اخلاق کب بنتے ہیں؟

یاد رکھیں! نیکی، عفو و درگزر، احسان، سچائی، سخاوت، شجاعت الغرض خیر اور بھلائی کے سارے پہلو اس وقت اخلاق کہلائیں جب انسان محنت کرکے بغیر مفاد، خوف، مصلحت اور غرض کے انہیں اپنے اندر راسخ کرلے اور یہ تمام اخلاق اس کی طبیعت کا حصہ بن جائیں اور ان چیزوں کا اظہار اس سے بڑے ذوق و شوق اور آسانی و سہولت کے ساتھ، بغیر تکلف و تصنع اور اہتمام کے خود بخود ہوتا چلا جائے اور وہ اس کے برخلاف کچھ اور کر بھی نہ سکے۔ اگر حالات بدلتے رہیں، تغیرات بھی آئیں، تب بھی اس کی یہ طبیعت اور صفت نہ بدلے بلکہ قائم رہے تو اب یہ اعمال اس کے اخلاق کہلائیں گے۔

مثلاً: مشکل وقت میں بھی وہ نفرت نہ کرسکے۔۔۔ کسی کے غصہ دلانے پر بھی اشتعال میں نہ آسکے۔۔۔ اپنے پاس کم ہو یا کچھ بھی نہ ہو تب بھی سخی رہے۔۔۔ اپنی جیب میں کچھ بھی نہ ہو مگر طبیعت میں سخاوت رہے۔۔۔ مشکل سے مشکل وقت میں بھی سچائی کا اظہار کرتا رہے۔۔۔ ہر حال میں لوگوں کے ساتھ بھلائی ہوتی رہے۔۔۔ وہ کسی سے انتقام نہ لے اور نہ کسی کو اذیت دے۔ الغرض طبیعت کا ان خطوط پر بغیر تکلف و تصنع کے استوار ہوجانا اور بندے کو ان اعمال پر دوام و استقامت نصیب ہوجانا اخلاق کہلاتا ہے۔

گویا اخلاق میں تصنع، بناوٹ اور اہتمام نہیں ہوسکتا۔ اخلاق ایسے ہے جیسے کوئی رواں چشمہ، دریا، سمندر یا آبشار ہے جو خود بخود بہتی چلی جاتی ہے۔ صاحبِ اخلاق آدمی میں اس چشمے کی طرح بغیر رکاوٹ کے اعمال و اخلاق حسنہ رواں بہتے چلے جاتے ہیں۔ یہ بات ذہن میں رہے کہ اخلاق کو بندہ Manage نہیں کرتا، اپنے اوپر مسلط نہیں کرتا، کسی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے اس کا اہتمام نہیں کرتا بلکہ اس کی فطرت، طبیعت، خصلت، شخصیت اندر اور باہر سے سہولت و رغبت کے ساتھ ایک ہوجاتے ہیں۔

احساسات اور جذبات کا احترام: سیرتِ طیبہ کی روشنی میں

اللہ تعالیٰ نے حضور نبی اکرم ﷺ کے اخلاقِ حسنہ کا تذکرہ قرآن مجید میں ایک مقام پر یوں ارشاد فرمایا:

فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللهِ لِنْتَ لَهُمْ ج وَلَوْ کُنْتَ فَظًّا غَلِیْظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِکَ ص فَاعْفُ عَنْهُمْ وَاسْتَغْفِرْلَهُمْ وَشَاوِرْهُمْ فِی الْاَمْرِج فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَکَّلْ عَلَی اللهِ ط اِنَّ اللهَ یُحِبُّ الْمُتَوَکِّلِیْنَ.

(آل عمران، 3: 159)

’’(اے حبیبِ والا صفات!) پس اللہ کی کیسی رحمت ہے کہ آپ ان کے لیے نرم طبع ہیں اور اگر آپ تُندخُو (اور) سخت دل ہوتے تو لوگ آپ کے گرد سے چھٹ کر بھاگ جاتے، سو آپ ان سے درگزر فرمایا کریں اور ان کے لیے بخشش مانگا کریں اور (اہم) کاموں میں ان سے مشورہ کیا کریں، پھر جب آپ پختہ ارادہ کر لیں تو اللہ پر بھروسہ کیا کریں، بے شک اللہ توکّل والوں سے محبت کرتا ہے ‘‘۔

اس آیت کریمہ میں اللہ رب العزت نے اخلاق کی مکمل تعریف بیان فرمادی ہے کہ طبیعت میں نرمی کا ہونا اخلاق ہے یعنی حضور نبی اکرم ﷺ نے کسی کو دکھانے کے لیے نرمی کو اپنے اوپر مسلط نہیں کیا، اس کا اہتمام نہیں کیا کہ لوگ مجھے رحیم کہیں، لوگ مجھے شفقت والا نبی کہیں، لوگ مجھے انسانیت کا رہبر کہیں۔ نہیں، بلکہ فرمایا: آپ ﷺ سراپا رحمتِ الہٰیہ ہیں، آپ کو رحمۃ للعالمین بنادیا ہے کہ آپ ﷺ کی طبیعت نرم ہے، آپ ﷺ کی عادت و دل میں سختی نہیں، اسی وجہ سے آپ کے برتائو میں سختی نہیں۔ چونکہ مَن کے اندر سختی نہیں ہے، اس لیے باہر بھی سختی نظر نہیں آتی۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ آپ ﷺ کی طرف دوڑے دوڑے چلے آتے ہیں اور جو آجاتا ہے پھر وہ آپ ﷺ سے دور نہیں بھاگتا۔

آیئے! اب اس مضمون کی مثالیں آپ ﷺ کی زندگی کے احوال مبارکہ سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں:

1۔ بچوں کے احساسات کا خیال

(1) حضرت انس ابن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ

لقد خدمت رسول الله ﷺ عشر سنین لا والله ما سبنی سبة قط ولا قال لی اف قط، ولا قال لی لشئی فعلته لم فعلته، ولا لشئی لم افعله الا فعلته.

(مسند احمد، 3: 197، رقم: 13057)

میں نے آقا علیہ السلام کی پورے دس سال خدمت کی ہے، جو کام آپ ﷺ میرے ذمے لگاتے، میں وہ کام کبھی آپ ﷺ کی منشاء کے مطابق اور کبھی آپ ﷺ کی منشاء کے مطابق سرانجام نہ دے سکتا تھا کیونکہ میں ابھی چھوٹا تھا مگر پورے دس سال کے عرصہ میں آپ ﷺ نے مجھے کبھی اُف تک نہیں فرمایا اور کبھی ایک بار بھی ایسا نہیں فرمایا کہ تو نے یہ کام کیوں کیا۔۔۔؟ اگر کوئی غلط کام کر بیٹھتا، پھر بھی نہیں فرماتے تھے کہ ایسا کیوں کیا۔۔۔؟ اور اگر کوئی کام نہیں کرسکتا تھا توکبھی ایسا نہیں فرمایا تھا کہ انس فلاں کام کا تجھے کہا تھا، کیوں نہیں کیا۔۔۔؟

یہ بات سمجھنے والی ہے کہ آپ ﷺ حضرت انس رضی اللہ عنہ کے ساتھ ایسا طرزِ عمل کیوں اختیار فرماتے۔۔۔؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ ﷺ جانتے تھے کہ اس طرح کے سوال کرنے سے یہ بچہ گھبرا جائے گا، سہم جائے گا، ڈر جائے گا، ممکن ہے سٹریس اور ٹینشن محسوس کرے، لہذا آپ ﷺ اُس کے جذبات اور احساسات کا خیال رکھتے ہوئے اُس سے نرم رویہ اختیار فرماتے۔

(2) حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے دس سال حضور ﷺ کی خدمت کی، اس دوران اگر مجھ سے غلطی بھی ہوگئی تو

ولا عاب علی شیئا قط.

(مسند احمد، 3: 100، رقم: 11993)

یعنی آپ ﷺ نے کبھی اس غلطی اور عیب کو میری طرف منسوب نہیں کیا اور یہ نہیں فرمایا کہ یہ برا کام کیوں کیا ہے۔۔۔؟ یا یہ کام برا ہے، تم نے اچھا نہیں کیا۔ یعنی میرے کام کا عیب تک نہ نکالا۔ یعنی اگر کسی چیز کو میں اچھا انجام نہیں دے سکا، نبھا نہیں سکا، کوئی خرابی کر بیٹھا تو آقا علیہ السلام نے کبھی اس کام کی برائی بیان نہیں کی، عیب نہیں نکالا، مجھے عار نہیں دلایا اور اس کام کے برا ہونے پر مجھے یا میرے کئے گئے کام کو برا نہیں کہا۔ یہاں تک کہ:

فلم یضر بنی ضربة. ولم یسبنی ولم یعبس فی وجهی.

کبھی چھوٹا سا طمانچہ بھی نہیں مارا۔کبھی درشت لفظ نہیں بولا اور میں نے کبھی آپ ﷺ کے چہرہ انور پر ناگواری نہیں دیکھی۔

(المعجم الاوسط، 6: 123، رقم: 5991)

یعنی آپ ﷺ کے اخلاق کا عالم یہ تھا کہ کبھی آپ ﷺ کے چہرۂ انور پر فطری ناگواری بھی نہیں دیکھی گئی۔ اس ایک واقعہ سے ہی دوسروں کے جذبات اور احساسات کے احترام کے حوالے سے آپ ﷺ کے اخلاق کا پہلو واضح ہوجاتا ہے۔ نہ صرف حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بلکہ تمام صحابہ کرامؓ کے اقوال کا جائزہ لیا جائے تو ہمیں وہاں بھی حضور نبی اکرم ﷺ کے بارے میں ان ہی خیالات کا اظہار ملتا ہے کہ آپ ﷺ صحابہ کرامؓ سمیت تمام انسانوں کے انسانی جذبات اور احساسات کا بے حد احترام فرماتے۔

ہمارا افسوسناک طرزِ عمل!

آپ ﷺ کی طبیعتِ مقدسہ میں خُلق عظیم اور انسانیت کے جذبات و احساسات کا احترام کرنا اس قدر بلند مرتبہ کا تھا مگر افسوس کہ ہمارے ہاں یہ سب کچھ مٹ گیا ہے۔ ایسے لگتا ہے کہ ہمارا معاشرہ انسانی معاشرہ ہی نہیں رہا۔ اس میں انسانی قدریں ختم ہوگئی ہیں اور ایک دوسرے کا احترام نہیں رہا۔ دوسروں کے لطیف جذبات اور احساسات کا خیال رکھنا کہ ہمارے کسی قول و فعل سے کسی کا دل نہ ٹوٹ جائے، وہ اپنے اندر پریشانی خیال نہ کرے، سہم نہ جائے، خوفزدہ نہ ہوجائے، یہ تو بہت بلند تصور ہے، ہمارے ہاں تو معاشرے میں کھلم کھلا ظاہری عزت کو بھی پامال کردیا جاتا ہے۔

افسوس! ہمارے ہاں تو مذہبی و دینی طبقات بھی ایک دوسرے کو للکارتے ہیں، ایک دوسرے پر طعنہ زنی کرتے ہیں، ایک دوسرے کی تکفیر، تضحیک، تضلیل، توہین اور تحقیر کرتے ہیں۔ دوسروں کو حقیر جاننا بھی ایک الگ بات ہے، ہمارے ہاں تو نجی اور عوامی سطح پر دوسروں کو حقیر کہنے کی روش بھی عام ہے۔ ایک دوسرے کو گمراہ کہنا، فاسق و فاجر کہنا، جہنم میں دھکیلنا، نفرتیں پھیلانا اور غصے کا اظہار کرنا ہمارے رویے بن چکے ہیں۔ ان رویوں کا دور دور تک حضور نبی اکرم ﷺ کی سیرتِ طیبہ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ وہ دینی و مذہبی لوگ جن کی بات سن کر لوگ دین و مذہب کی رہنمائی لیتے ہیں، جن سے لوگ دین کا اسوہ اور طریقہ سیکھتے ہیں، جو دین کے نمائندہ ہیں، اگر ان کے منہ پر بھی گالی آجائے تو سوسائٹی میں دین کا کیا بچ جائے گا۔۔۔؟ دین کا نمائندہ اور پہچان کہلوانے والے لوگ جنہیں دیکھ اور سن کر لوگ دین سیکھتے ہیں، اگر ان کی زبان پر گالی آئے، وہ نفرت اور طعن و تشنیع کی زبان بولیں، ایک دوسرے کو للکاریں، ان کی زبان سے نفرت اور غیض و غضب پھیلے، منافرت پھیلے تو عامۃ الناس کے اندر دیندار طبقے، دین کے نمائندوں اور دین کا کیا تصور قائم ہوگا؟

کیا ہمارے ان رویوں کا کوئی تعلق اللہ کے دین، قرآن، سنت نبوی اور سیرت محمدی ﷺ سے ہے۔۔۔؟ ہمارے ان رویوں سے آئندہ نسلوں پر دین اسلام کا کیا امیج پید اہوگا۔۔۔؟ وہ دین کے قریب کیسے آئیں گے۔۔۔؟ جبکہ دوسری طرف پوری دنیا میں کفر کی یلغار ہے، کفر کے نظریات، ثقافت، فحاشی و عریانی، بے حیائی، بے دینی، بے حیائی اور دین گریزی کا کلچر ہے۔ دین سے دور کھینچنے والے عوامل رات دن مصروف عمل ہیں۔ اب دنیا گلوبل دیلج ہے، پہلے زمانوں میں کفر اگر ایک کونے میں ہوتا تھا تو دوسرے کونے والوں کو خبر نہیں پہنچتی تھی، ہر کوئی اپنے لوکل ماحول سے متاثر ہوتا تھا لیکن آج الیکٹرانک اور سوشل میڈیا نے دنیا کو گلوبل ویلج بنادیا ہے، اب موبائل کی صورت میں دنیا ہاتھ پر آگئی ہے۔ ساری کائنات ہر وقت ہمارے ہاتھ پر ہے۔ ہر قسم کا شر، فحاشی، عریانی، دین سے بیزاری، دینی قدروں کو مٹانے والی جو کچھ بھی خرابیاں اور برائیاں ہیں، وہ سب ہاتھ میں ہیں۔ دین گریز قوتیں لوگوں کو دین سے ہٹا رہی ہیں۔ ان حالات میں بہت کم افراد، طبقے اور عوامل رہ گئے ہیں جو عامۃ الناس اور نوجوان نسلوں کو دین کی طرف بلارہے ہیں اور دین کی محبت دلوں میں پیدا کررہے ہیں۔ دین کی محبت لوگوں میں تب پیدا ہوگی جب محبت کا پیغام دینے والے کے الفاظ میں بھی محبت جھلکے اور ان کے روّیوں میں بھی شفقت، ادب، حیائ، لحاظ، تعظیم و تکریم اور اقدار ہوں۔ گمراہی اور کفر کے اس طاقتور ماحول کے اندر نوجوان نسل کا نیکی اور دین کی طرف راغب ہونا مشکل ترین ہوچکا ہے۔ علماء کی بھرپور کاوشوں کے باوجود نیکی کا ایک کمزور سا اثر نوجوان نسل پر ہوتا ہے مگر افسوس کہ دین کی نمائندہ کہلوانے والی شخصیات کے شدت پسندانہ رویوں کی وجہ سے سوسائٹی پر ہونے والے اس تھوڑے سے اثر کی بھی جڑیں کاٹ دی گئی ہیں۔

ان حالات میں ضرورت اس امر کی ہے کہ آقا علیہ السلام کی سیرتِ طیبہ کے خلقِ عظیم کے اس پہلو کو فروغ دیا جائے اور ہر شخص تک سیرتِ طیبہ کے اس نمایاں پہلو کو پہنچانے کے لیے کماحقہ اقدامات کیے جائیں۔

2۔ حضور ﷺ کا صحابہ کرامؓ سے حسنِ سلوک

(1) حضرت جابر بن سمرہؓ سے کسی نے پوچھا کہ کیا آپ نے آقا علیہ السلام کو قریب سے دیکھا ہے؟ یعنی کیا آپ ﷺ کی عاداتِ طیبہ، خصائلِ مبارکہ اور اخلاقِ مبارکہ سے آپ واقف ہیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہاں اور پھر انہوں نے حضور نبی اکرم ﷺ کی چند عاداتِ مبارکہ کا تذکرہ کیا۔ وہ فرماتے ہیں کہ

وکان اصحابه یتناشدون الشعر عنده ویذکرون اشیاء من امر الجاهلیة ویضحکون فیتبسم معهم اذا ضحکوا.

(سنن البیهقی الکبریٰ، 10: 240، رقم: 20907)

صحابہ کرامؓ آقا علیہ السلام کی بارگاہ میں بیٹھتے تھے تو شعر بھی پڑھتے تھے۔ وہ دورِ جاہلیت میں سے کئی چیزوں کا ذکر کرتے، کوئی قصہ، کوئی واقعہ سنا رہے ہوتے اور انہیں یاد کرکے ہنس رہے ہوتے تو آقا علیہ السلام بھی ان کے ساتھ تبسم فرماتے تاکہ وہ جو کچھ کہہ رہے ہیں، اس پر یہ محسوس کریں کہ میں بھی ان کی باتوں کو انجوائے کررہا ہوں۔

یعنی آپ ﷺ صحابہ کرامؓ سے لاتعلق نہیں رہتے تھے۔ وہ شعر پڑھ رہے ہوتے تو آپ ﷺ یہ نہ فرماتے کہ میرا شعر و شاعری سے کوئی تعلق نہیں، تم یہ کیا پڑھ رہے ہو؟ بلکہ ان کے ساتھ مانوسیت ظاہر کرتے۔

(2) حضرت زید بن ثابتؓ فرماتے ہیں کہ ہم آقا علیہ السلام کی خدمت میں بیٹھے ہوتے تھے:

اگر ہم آخرت کی بات شروع کردیتے تو آقا علیہ السلام بھی ہمارے ساتھ آخرت کا موضوع شروع فرمادیتے۔ اگر ہم دنیا کی بات شروع کردیتے، تجارت اور لوگوں کے احوال کی بات کرتے تو آقا علیہ السلام بھی ہمارے ساتھ دنیا کی بات شروع کردیتے۔ ہم اگر کھانے پینے کی بات شروع کردیتے تو آقا علیہ السلام ہمارے ساتھ کھانے پینے کی باتوں میں شریک ہوجاتے۔

صحابہ کرامؓ کے ساتھ اس طرح شریک ہونے کا آپ ﷺ کایہ عمل ظاہر کررہا ہے کہ آپ ﷺ انسانی جذبات و احساسات کا اس قدر خیال فرماتے اور احترام کرتے کہ ہر شخص آپ ﷺ سے اپنائیت اور مانوسیت محسوس کرتا۔ یعنی مجلس میں صحابہ کرامؓ جو بھی جائز بات کررہے ہوتے، جس بھی موضوع پر بات کرتے، آقا علیہ السلام کبھی اس بات سے لاتعلق نہیں رہتے تھے۔ حضور ﷺ اپنے اور صحابہ کرامؓ کے درمیان فاصلہ قائم نہیں کرتے تھے بلکہ ان کے موضوع کے ساتھ شریک ہوجاتے اور اپنائیت پیدا کرلیتے اور اس سے ان کی عزت افزائی ہوتی اور وہ مزید کھل کر باتیں کرتے۔

(3) ایک اور روایت کے الفاظ ہیں کہ:

اگر صحابہ کسی بات پر تعجب کرتے تو حضور ﷺ بھی اپنے چہرۂ انور کے تاثر میں تعجب لاتے یعنی صحابہ کرامؓ کی کیفیات کے ساتھ حضور ﷺ اپنی کیفیات کو ملاتے اور ان کے احساسات کے ساتھ اپنے احساسات کوملاتے۔ آپ ﷺ دوسرے کے جذبات و احساسات اور عزت نفس کا اس قدر خیال رکھتے کہ حضرت انس بن مالکؓ فرماتے ہیں کہ

کان إذا لقیه احد من أصحابه فقام معه قام معه فلم ینصرف حتی یکون الرجل هو الذی ینصرف عنه.

اگر آقا علیہ السلام جارہے ہوتے اور اصحاب میں سے کوئی شخص آپ ﷺ سے ملنے کے لیے راستے میں کھڑا ہوجاتا تو آپ ﷺ بھی اس کے لیے کھڑے رہتے اورجب تک وہ خود چلا نہ جاتا آپ ﷺ تب تک اس سے اپنی توجہ کو نہ ہٹاتے تھے۔

(4) پھر فرمایا:

وإذا لقیه أحد من أصحابه فتناول یده ناوله إیاها فلم ینزع یده منه حتی یکون الرجل هو الذی ینزع یده عنه.

اگر کوئی آدمی آپ ﷺ سے ملتا اور ہاتھ ملاتا تو آپ ﷺ بھی اپنے دستِ اقدس سے مصافحہ فرماتے اور جب تک وہ خود اپنا ہاتھ پیچھے نہ ہٹاتا، تب تک آپ ﷺ بھی اپنا ہاتھ نہ ہٹاتے۔

اس سے مقصود یہ ہوتا کہ اگر میں نے مصافحہ کے دوران اپنا ہاتھ پہلے کھینچ لیا تو کہیں اس کی طبیعت میں اس کا کوئی اور معنی نہ آجائے، کہیں وہ شرمندگی محسوس نہ کرے یا یہ خیال نہ آجائے کہ میں نے ناپسند کیا، اس لیے ہاتھ کھینچ لیا۔ لہذا ہاتھ کھینچ لینے کے خیال سے بھی دوسرے کے دل کو محفوظ رکھنے کے لیے آپ ﷺ اپنا دست مبارک اس کے ہاتھ میں قائم رکھتے۔

یہاں تک کہ فرمایا کہ ایک بار بھی ایسا نہیں ہوا کہ آقا علیہ السلام نے کسی شخص سے مصافحہ کیا ہو اور ہاتھ ملانے والے سے پہلے اپنا ہاتھ کھینچ لیا ہو۔

گویا ہر شخص جو آقا علیہ السلام سے ملتا، اس کی کیا حاجت و ضرورت ہے؟ وہ آپ ﷺ کی طرف کیوں متوجہ ہوا ہے اور کیا چاہتا ہے؟ آپ ﷺ اس کے احساس کو پڑھ کر اپنا پورا رویہ اس کے احساس اور جذبات پر قائم فرماتے۔

(5) اور پھر فرمایا:

وإذا لقیه أحد من أصحابه فتناول أذنه ناوله إیاها ثم لم ینز عھا عنه حتی یکون الرجل هو الذی ینزعھا عنه.

(کنزل العمال، ج: 7، ص: 58، رقم: 18486)

اسی طرح کوئی شخص آپ ﷺ سے بات کرتا تو آپ ﷺ اپنے کان مبارک آگے کر دیتے یعنی دھیان سے سنتے رہتے اور جب تک وہ اپنی بات ختم نہ کرلیتا اور اپنا موضوع بدل نہ لیتا یا بات کرنے سے رک نہ جاتا، تب تک آپ ﷺ اپنے کان اسی کی طرف رکھتے۔

اسی طرح اگر کوئی شخص آپ ﷺ کے پاس آکر بیٹھ گیا تو آپ ﷺ کبھی اسے چھوڑ کر مجلس سے اٹھ کر نہیں گئے۔ پہلے وہ شخص اٹھتا پھر بعد میں آپ ﷺ تشریف لے جاتے۔

اتنی دلجوئی انسانی زندگی میں ممکن نہیں ہے۔ کون ایسا شخص ہے جو لوگوں کے جذبات اور احساسات کا اتنا احترام کرے، جتنا احترام اور احساس حضور نبی اکرم ﷺ فرماتے ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے آقا علیہ السلام کو یہ خلق عطا کیا ہے اور اسی خلق کے اظہار کا نام اسلام ہے۔ اسی کا نام سیرت محمدی ﷺ اور خُلق محمدی ﷺ ہے۔ خفیف سے خفیف تر اور لطیف سے لطیف تر احساسات اورجذباتِ انسانی کا خیال رکھنا اور ان کا احترام کرنا بلاشک و شبہ وہ سوچ و فکر ہے جس کی بنیاد حضور نبی اکرم ﷺ کی سیرتِ طیبہ اور حیاتِ مبارکہ کے ہر گوشہ سے میسر آتی ہے۔

(جاری ہے)

ماخوذ از ماہنامہ منہاج القرآن، دسمبر 2020ء

تبصرہ

ویڈیو

Ijazat Chains of Authority
Top