تبلیغ دین کیلئے صوفیاء کرام نے عظیم خدمت انجام دی: ڈاکٹر طاہرالقادری
خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ طریقت کے امام اور شریعت کے جامع تھے
آپ کے علم و فضل اور فیوض و برکات سے برصغیر اسلام کے نور سے منور ہوا
قائد تحریک منہاج القرآن کا خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ کے 809ویں عرس کے موقع پر بیان
لاہور (15 فروری 2021ء) تحریک منہاج القرآن کے بانی و سرپرست اَعلیٰ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے حضرت معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ المعروف خواجہ غریب نواز کے 809ویں عرس کے موقع پر اپنے بیان میں کہا ہے کہ دعوت و تبلیغ دین اور اسلام کی نشر و اشاعت کے لیے صوفیاء عظام نے عظیم اصلاحی و تربیتی کردار ادا کیا اور خدمات انجام دی ہیں۔ اولیاء کرام کو اللہ رب العزت کی بارگاہ سے زہد و ورع اور حکمت و تدبر کا وافر حصہ عطا ہوا۔ خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ طبقہ صوفیاء کے درخشندہ ستارے اور آسمانِ ولایت کے آفتاب ہیں۔ آپ اسلامی تصوف کی تاریخ میں برگزیدہ ترین ہستیوں میں سے ایک ہیں۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے کہا کہ خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ طریقت کے ہی امام نہیں تھے بلکہ علم شریعت کے بھی جامع تھے۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ کی پوری زندگی خدمت اسلام اور خدمت انسانیت میں صرف ہوئی۔ برصغیر میں اسلامی سلطنت کا قیام و استحکام آپ کے ہی طفیل انعقاد پذیر ہوا اور آپ ہی کے علم و فضل اور فیوض و برکات سے برصغیر اسلام کے نور سے منور ہوا۔ انہوں نے کہا کہ خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ کے ایمان و یقین کی قوت، جرأتِ ایمانی، اخلاق کی پاکیزگی، حد درجہ زاہدانہ اور بے طمع زندگی، خلقِ خدا کے ساتھ ہمدردی اور بلا تفریق مذہب و ملت، انسانیت سے محبت اور اس کے احترام کی بدولت ہدایت کے بے شمار چراغ روشن ہوئے۔ خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ سردار الاولیاابو الحسن علی بن عثمان ہجویری رحمۃ اللہ علیہ المعروف داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ کے مزار پر بھی کسب فیض کے لیے معتکف رہے۔
انہوں نے کہا کہ خواجہ غریب نوازکے عرسِ مبارک کے موقع پر دنیا بھر میں موجود آپ کے متوسلین اور مریدین کو مبارک باد پیش کرتا ہوں اور انہیں نصیحت کرتا ہوں کہ اسلام کی تبلیغ و اشاعت میں خواجہ غریب نواز کے طریقہ محبت اور حکمت و اعتدال پر مبنی تعلیمات کو اپنا وتیرہ بنائیں۔ انہوں نے دعا کی کہ اللہ تعالیٰ خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ کے فیوضات کا سلسلہ تاقیامت جاری رکھے۔
تبصرہ