رہِ نوردِ اِنقلاب … پہلا منزل آشنا مسافر!
محمد شفقت اللہ قادری
وہی جواں ہے قبیلے کی آنکھ کا تارا
شباب جس کا ہے بے داغ، ضرب ہے کاری
نگاہِ کم سے نہ دیکھ اُس کی بے کُلاہی کو
یہ بے کُلاہ ہے سرمایۂ کُلہ داری
کسی بھی تحریکی اور اِنقلابی سرگرمی میں متحرک نوجوانوں کا ولولہ و جذبہ، اِستقامت اور مسلسل جدوجہد اس کی کامیابی کی ضامن ہوتی ہے۔ 1980ء میں تحریک منہاج القرآن کے قیام سے قبل ہی اِس کی بنیادوں میں نوجوانوں کے عزمِ مصمم اور آہنی اِرادے شامل ہوچکے تھے۔ ان نوجوانوں میں سرِ فہرست شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتے بھائی محمد جاوید قادری تھے جو اپنے برادرِ اَکبر کی قیادت میں اُمت و اِنسانیت کی خدمت میں جان و دل سب کچھ نچھاور کرنے کا پختہ اِرادہ کیے ہوئے تھے۔ لیکن ان کی زندگی نے وفا نہ کی اور یہ گوہرِ نایاب تحریک کے باقاعدہ قیام سے قبل ہی 30 مئی 1976ء بروز اتوار اِس دارِ فانی سے کوچ کرگیا۔ اگرچہ حضور شیخ الاسلام دامت برکاتہم العالیہ اِس دُرِ نایاب کے کھو جانے پر وقتاً فوقتاً اپنے جذبات کا اِظہار فرماتے رہتے ہیں، تاہم تحریک منہاج القرآن کی تاریخ میں محمد جاوید قادری مرحوم پر باقاعدہ بہت کم لکھا اور بولا گیا ہے۔ اِمسال ان کی 45ویں برسی کے موقع پر فریدِ ملتؒ رِیسرچ اِنسٹی ٹیوٹ (FMRi) کے ڈائریکٹر محمد فاروق رانا کی خصوصی کاوِش اور گذارِش پر محترم محمد شفقت اللہ قادری نے اپنے اِبتدائی زمانہ کے رفیق اور بہترین دوست محمد جاوید قادری مرحوم کے بارے میں اپنی خاص یاد داشتیں تحریر کی ہیں جو ہمارے قارئین کے لیے بالعموم اور اِنقلابی نوجوانوں کے لیے بالخصوص مشعلِ راہ کی حیثیت رکھتی ہیں۔ محمد جاوید قادری مرحوم کے اَفکار و خیالات راہِ اِنقلاب کے عظیم مسافروں کے لیے مثلِ زادِ راہ ہیں۔ ہم محمد شفقت اللہ قادری صاحب کے شکر گذار ہیں کہ انہوں نے ’یومِ جاوید‘ کے حوالے سے خصوصی تحریر فرمائی ہے۔ [اِدارہ]
گلستانِ اِنقلاب میں منتظرِ اِنقلاب، ولولہ انگیز پُر عزم دیوانہ وار جوانیاں لٹانے کے ترانے الاپنے والے مایہ ناز انقلابی سپوتو! قائدِ انقلابِ مصطفوی کے جواں ہمت، جراتِ حمزوی کے امین روحانی بیٹو اور بیٹیو! اِنقلاب میں حائل آہنی چٹانوں سے ٹکرانے والے مصطفوی جوانو! توقیرِ رداے زہرا بتولؓ پر قربان مصطفوی بیٹو! دخترِ علی کرم اللہ وجہہ الکریمؓ، خطیبِ شام حضرت زینب سلام اللہ علیہا کی کنیزو! اور شعلہ فشاں شمعِ اِنقلاب پر سترہ جون کو رقصِ بسمل کناں جاں نثار اِنقلابی پروانو اور فرزانو! فقط آپ کے نام!!!
قارِئین محتشم!جب بحر چاہتِ خانوادۂ اِنقلاب میں گم گُشتہ یادوں کے سفینے میں سوار جزیرۂ عشق پر اُترتے ہیں جہاں راہِ اِنقلابِ مصطفوی کا پہلا منزل آشنا مسافر، نویدِ اِنقلاب کا سندیسۂ جاں فزا سننے کے لیے ہمہ تن گوش منتظر ہے۔ میری مراد! میرا رفیقِ خاص! شفیق دوست، مرید غوث الثقلینؓ! مراد شیخ الاسلام، للکارِ علی اکبرؓ، جرأتِ حمزویؓ کا امینؒ، عزم و اِستقلال کی آہنی چٹان، وجیہِ جمیل، قوی الجسم، دستِ اِنقلاب، سفیرِ محبت، مصطفوی اِنقلاب کی شمشیرِ بے نیام، مصمم ارادوں کا نشان، شیخ الاسلام قائدِ اِنقلاب کے سفرِ اِنقلاب کا پہلا سنگِ میل، محاذِ حریت کا خادمِ اوّل و منتظمِ اعلیٰ ہے، جو بھری جوانی میں اِنقلابِ مصطفوی کی حسرت لیے گامزنِ راہِ عدم ہوگیا!
یعنی کہ! گلشنِ فرید الدین قادریؒ کا دوسرا گلِ نایاب، برادرِ عزیز از جان ڈاکٹر محمد طاہر القادری مدظلہ (محمد جاوید قادری مرحوم) ہے۔ جو 1955ء میں ’’گلشنِ فرید‘‘ میں گلِ نایاب کی مانند کھلا، اکیس بہاریں دامنِ زیست میں سمیٹیں اور بتاریخ 30 مئی 1976ء مطابق یکم جمادی الثانی 1396ھ بروز اتوار قبل از اذانِ مغرب دامنِ مطہور داعیِ اِنقلاب شیخ الاسلام کے دامن میں سر رکھ کر ایک حسرت بھری نگاہ سے دیکھا اور (بوجہ شدید علالت) آہستگی سے مخاطب ہوا: قبلہ بھائی جان! مجھے اس دنیا فانی چھوڑنے کا قطعی غم نہیں! میرا کربِ جاں بلب فقط اتنا ہے کہ میں آپ کو اکیلا چھوڑے جاتا ہوں! میں آپ کا دستِ اِنقلابِ مصطفوی نہ بن سکا! قبلہ مجھے معاف کردیں۔
قارئین کرام! منظر دیدنی تھا۔ جب کڑیل جوان صحنِ فرید ملت اور سینۂ قائد عظیم المرتبت کے ساتھ لیٹ کر دامنِ نزع میں سانس کی ڈوری ٹوٹنے کا انتظار کررہا تھا اور قائدِ عظیم المرتبت پیشانی پر بوسہ دیتے ہوئے رخصت فرما رہے تھے۔ میں بدنصیب بھی اپنا شفیق دوست کھونے کے لیے اس کے قریب مگر آنکھیں منظر سے چرا رہا تھا۔ قائدِ اِنقلاب کے چٹانی اور ایمانی حوصلے پر قربان، دیدۂ تَر مگر صبر کی تصویر بنے کڑیل جوان کو سپردِ خدا کررہے تھے۔ خدا کی قسم! میرا بھائی محمد جاوید قادری، فریدِ ملت کا لختِ جگر بیک وقت دس دس جوانوں پر غالب آنے اور اِنقلاب کے دشمنوں کے سامنے سینہ سپر ہونے کا عزم مصمم اور حوصلہ رکھتا تھا! اَہلِ خانہ کی بے ساختہ چیخیں بلند ہوئیں۔ قبلہ شیخ الاسلام نے محمد جاوید قادری کے اشارے پرتمام اَہلِ خانہ اور بالخصوص ہمشیران اور عزیر و اقارب کو خاموش رہ کر درود و سلام اور کلمہ طیبہ کا ورد کرنے کا حکم دیا، درود و سلام کی گونج میں صبر و استقلال کے قوی ہیکل نے اپنے والدِ عظیم فریدِ ملت کے حجرۂ عبادت میں نظر کو گھمایا کیونکہ آخری ایام میں اس کی خواہش کے اِحترام میں فرید ملت کے کمرۂ عبادت میں ٹھہرایاگیا تھا۔ خوناب آنکھیں، دائمی جدائی، قائد اور عزیز از جان بھائی میں پرنم مگر دامن پاکیزہِ طاہر میں مطمئن تھیں کہ آخری ہچکی لیتے ہوئے داعیِ اَجل کو لبیک کہہ گئے۔ (اِنا للہ وانا الیہ راجعون۔)
رب عظیم تیری مرقد پر رحمت کا نزول جاری رکھے۔ میری خونی نسبتِ قربت کے باعث ایامِ علالت میں روزانہ حاضری ہوتی تھی! فقط ایک ہفتہ کی علالتِ مرگ نے شدید کمزوری طاری کردی تھی۔ عالم گیر اِنقلابِ مصطفوی کے عظیم اِنقلابی قائد کی روح پر کڑیل جوان اکیس سالہ محمد جاوید قادری مرحوم کی جدائی کا داغ آج بھی ہرا اور تازہ ہے! جب ہمارے درمیان کبھی جواں سال مرحوم اِنقلابی بھائی کا ذکر آتا ہے کہ آنکھوں میں ضبط مگر قلب و روح سے آہ سی نکل جاتی ہے! اس کی قلیل مگر پُرشجاع زندگی اور دلیری کے قصے یاد فرما کر روح تازہ فرماتے ہیں۔ فرماتے ہیں کہ شاید میرے مشن کی اِنقلابیت میں شہید ہوگیا ہوتا یا پھر عظیم قربانی کے لیے ہمہ وقت کمر بستہ ہوتا! نجانے کیا ہوتا! مجھے ایک روز فرمایا: شفقت، جاوید لاثانی اپنی مثال آپ تھا، مجھے اس کی کمی ہمیشہ شدت سے رہے گی۔
معزز قارئین! فرزندِ اِنقلاب کے منظر آخریں سے تھوڑا باہر آئیں تاکہ محمد جاوید قادری کی علمی و اِنقلابی زندگی پر کچھ روشنی ڈالیں۔ یقینا دلفریب کرب ناک منظر کشی نے آپ کے قلوب و اذہان پر رقت توضرور طاری کردی ہوگی! اب محمد جاوید قادری مرحوم کے اِنقلابی اَوصاف پر روشنی ڈالیں گے جو نہایت اہمیت کے حامل اور فقیدالمثال ہیں اور اِنقلابی جوانوں کے لیے مشعلِ راہ بھی ہیں۔
اِنقلابی اَوصاف
ابتداء ہی سے محمد جاوید تنظیمی نظم و نسق میںخاص مہارت کے حامل تھے۔ 1975ء میں قائدِ عظیم المرتبت نے اِنقلابی نوجوانوں پر مشتمل تربیتی حلقہ ’محاذِ حریت‘ کی بنیاد رکھی جس کے میزبان اور منتظم اعلی محمد جاوید قادری تھے اور چھوٹا ہونے کے باعث میں دیگر انتظامات میں شامل ہوتا تھا۔ تربیتی حلقات اور درسِ قرآن ہمارے معمولات کا خاص حصہ تھے۔ 1976ء میں نوجوانوں میں بیداریِ شعور اُجاگر ہوا جس کے نتیجے میں کچھ تعداد بڑھی، ابتدائی اجلاس دار الفرید (فریدیہ ٹرسٹ) میں اِنعقاد پذیر ہوئے تھے اور بعدازاں درسِ قرآن کا حلقہ پورے شہر پر محیط ہوگیا تھا۔ محمد جاوید قادری جملہ اِنقلابی ساتھیوں کا Physical Commander of Training تھا اور دیگر معاملات بھی محمد جاوید قادری مرحوم کی ذمہ داری میں شامل تھے۔ ایک لحاظ سے اِنقلابی ونگ کے انچارج تھے۔
ایک خاص نشستِ اِنقلاب منعقد ہوئی۔ چند احباب اور رفقاء خاص نے قائد اِنقلاب کے دستِ مبارک پر قرآن کو گواہ بنا کر بیعتِ اِنقلاب کی۔ میں گواہ ہوں! محمد جاوید قادری نے سب سے پہلے قرآن کے روبرو قائد اِنقلاب کے دستِ مبارک پر بیعتِ اِنقلاب کی اور تن من دھن قربان کرنے کا عزمِ کامل کیا۔ تاہم زندگی نے وفا نہ کی اور راہیِ ملکِ عدم ہوگئے۔ بعد ازاں جھنگ کے چند دیگر اَحباب نے بھی حلفِ وفا اٹھایا جو میری دانست کے مطابق قائم و دائم ہیں۔ جسمانی مضبوطی کے لیے جس کھیل کا چنائو کیا گیا وہ محمد جاوید قادری کی نگرانی میں جوڈو کراٹے تھا، جس کے انچارج چوہدری مبارک علی صاحب تھے۔ اس کے علاوہ محمد جاوید قادری محاذِ حریت کے نوجوانوں کو چاک و چوبند رکھنے اور جسمانی طور پر توانا رکھنے کے لیے کُشتی اور کبڈی کی طرف بھی رغبت رکھتے تھے اور مقامی طور پر صحت مند مقابلہ جات کا اِنعقاد بھی کیا جاتا تھا۔
طبعاً مومن مزاج اور اِنقلابیت میں مردِ آہن تھے
ہو حلقۂ یاراں تو بریشم کی طرح نرم
رزمِ حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن
محمد جاوید قادری مرحوم طبعاً انتہائی مومن مزاج، انصاف پسند، ہمدرد اور منکسر المزاج تھے۔ تاہم ’اپنا حق ظالم کے پاس چھوڑو نہ اور کسی کا حق قطعی چھیڑو نہ‘ کے اصول پر کار فرما تھے۔ وہ درج ذیل قرآنی آیت کی عملی تفسیر تھے:
مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللهِ ط وَالَّذِیْنَ مَعَهٗٓ اَشِدَّآءُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَآءُ بَیْنَهُمْ تَرٰهُمْ رُکَّعًا سُجَّدًا یَّبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اللهِ وَرِضْوَانًا ز سِیْمَاهُمْ فِیْ وُجُوْهِهِمْ مِّنْ اَثَرِ السُّجُوْد.
’’محمد (ﷺ) اﷲ کے رسول ہیں، اور جو لوگ آپ (ﷺ) کی معیت اور سنگت میں ہیں (وہ) کافروں پر بہت سخت اور زور آور ہیں آپس میں بہت نرم دل اور شفیق ہیں۔ آپ انہیں کثرت سے رکوع کرتے ہوئے، سجود کرتے ہوئے دیکھتے ہیں وہ (صرف) اﷲ کے فضل اور اس کی رضا کے طلب گار ہیں۔ اُن کی نشانی اُن کے چہروں پر سجدوں کا اثر ہے (جو بصورتِ نور نمایاں ہے)۔‘‘
(الفتح، 48: 29)
ہمیشہ مظلوم کا ساتھ دینا۔۔ شیوۂ مردانہ تھا
کالج اور پرائیویٹ زندگی میں بھی محمد جاوید قادری مرحوم ہمیشہ مظلوم کے ساتھ اور ظالم کے خلاف نظر آتے تھے۔ ظلم برداشت کرنا شیوہ نہ تھا۔ پڑوس اور گرد و نواح میں اچھے اوصاف اور خوبیوں والے نوجوانوں میں شمار ہوتا تھا۔
قبلہ شیخ الاسلام کا احترام
حضرت فرید ملتؒ ڈاکٹر فرید الدین قادری کی حیات میں اور بعد ازاں بھی قبلہ شیخ الاسلام کا باپ کی طرح احترام اور تقدس رکھتے تھے۔قائد محترم کو سوئی بھی لگتی تو محمد جاوید کی جان پر بن جاتی تھی۔ قائد محترم کی ادنیٰ سی تکلیف بھی جاوید سے نہ دیکھی جاتی۔
اِحساس ذمہ داری کے خوگر تھے
ان کی شخصیت میں احساسِ ذمہ داری کا عنصر بدرجہ اَتم موجود تھا۔ میں نے اپنے مشاہدہ میں بچپن سے جوانی تک ان کی طبیعت میں کبھی حکم عدولی نہیں دیکھی۔ قبلہ فرید ملتؒ اور قبلہ شیخ الاسلام کے کلیتاً احکامات پر عمل کرنا اپنا فرضِ عین سمجھتے تھے۔ ایک مرتبہ دوران تعلیم کسی سبب گھر سے خرچہ موصول نہ ہو سکا۔ محمد جاوید نے خاموشی سے ملتان میں کالج سے دور جاکر چند دن مزدوری کی اور گھر پتہ بھی نہ لگنے دیا۔ یوں کالج میں اپنے تعلیمی اخراجات کا بندوبست کرلیا۔ میری نظر میں بھی یہ فریدِ ملت اور شیخ الاسلام کی ابتدائی اِنقلابی تربیت کا ایک حصہ تھا جو ہمارے اِنقلابی نوجوانوں کے لیے مشعلِ راہ ہے۔
تعلیمی قابلیت
محمد جاوید گورنمنٹ کالج آف ٹیکنالوجی ملتان سے CHEMICAL ENGINEERING میں ڈگری ہولڈر تھے۔
ملازمت
ابھی انجینئرنگ کے امتحانات منعقد ہوئے چند ماہ ہی گزرے تھے اور نتیجہ بھی نہ آیا تھا، لیکن اپنا احساس ذمہ داری محسوس کرتے ہوئے! FSc کے باعث ایئرپورٹ سیکیورٹی میں انسپکٹر کے طور پر انٹرویو دے رکھا تھا۔ اس کی تقرری کے آرڈرز اس وقت آئے جب جنازہ اُٹھ رہا تھا۔ شیخ الاسلام بہت حیرت زدہ ہوئے کہ میرے ہوتے ہوئے اسے یہ نوبت کیوں پیش آئی۔ ابھی انجینئرنگ کا رزلٹ تو آیا نہیں، اسے ملازمت کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ معلوم ہوا کہ دن رات محمد جاوید پریشانی میں مبتلا رہتے تھے کہ میں قبلہ بھائی جان کا مالی لحاظ سے بھی دست و بازو بنوں! لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ قارئین! درس کے طور پر یہ بھی اِنقلابی ویژن ہی ہے۔
خالقِ کائنات میرے رفیق خاص، شفیق دوست اور بھائی محمد جاوید قادری کو کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے۔ جس کی زیستِ قلیل بے مثل جواں مردی اور صبر و استقامت کی مضبوط دلیل ہے۔ ہر لحاظ سے اس کی فیوضاتی اِنقلابی جد و جہد ہمارے نوجوانوں کے لیے مشعلِ راہ ہے۔ رب تعالیٰ اس کا یوم وفات تزک و احترام سے منانے کی توفیق عطا فرمائے۔ ایسے اِنقلابی سپوتوں کے ایام منانا ہمارے نوجوانوں کے لیے اِنقلابی جد و جہد میں تحرک اَفزا ہے۔
منظوم کلام بزبان محمد جاوید قادریؒ
30 مئی کو وقتِ نزع راقم خود برادرم محمد جاوید قادری مرحومؒ کی صحبت آخریں میں قبلہ شیخ الاسلام کے ساتھ دار الفرید میں جھنگ صدر میں موجود تھا کہ جب روحِ محمد جاوید قادری مرحوم قفسِ عنصری سے پرواز کررہی تھی۔ گو اِنتہائی سخت اور جاں گُسّل لمحہ تھا مگر میرے وجدانی جذبات و احساسات نے محمد جاوید اِنقلابی کی زبان سے جو سماعت کی اور ان کے جذبات سے جو محسوس کیا، وہ نوجوانوں کے لیے خصوصاً پیشِ خدمت ہے:
میں حسرتِ ناتمام لیے جاتا ہوں
زخمِ بے بسی روح پر سرِ عام لیے جاتا ہوں
میں تیرا دست و بازو نہ بن سکا اَخی
کسکِ اِنقلاب رُوح کے ساتھ لیے جاتا ہوں
اے ملکِ اَجل تم نے پوچھا کہ کوئی ہے زادِ سفر
ارے دیکھو تو سہی! میں دردِ اِنقلاب ساتھ لیے جاتا ہوں
میں تیرا نہ بن سکا بھائی نِکما ٹھہرا
تجھے یاد کروں گا ہر دم یہی کام لیے جاتا ہوں
میں تجھ پر راضی ہوں جاوید، ہو خدا نگہباں تیرا بھائی
کہا اَخی طاہر نے یہی آخری بات لیے جاتا ہوں
حاضر و ناظر! معاف کرنا لبیک داعیِ اَجل کہتا ہوں
خوناب آنکھوں میں حسرتِ ملاقات لیے جاتا ہوں
اس اُمید سے جاتا ہوں کہ تشریف لائیں گے سرکار دو عالمؐ
ماتھا چوم لیا ہے جو میرا سفارشِ ملاقات لیے جاتا ہوں
وہ آخری جملہ کپکپیِ نزع میں کہتا گیا شفقت
بھری دنیا سے تہی دست حسرتِ ناتمام لیے جاتا ہوں
ماخوذ از ماہنامہ دخترانِ اسلام، جون 2021ء
تبصرہ