نظام المدارس پاکستان کے نصاب کی اہم خصوصیات (آخری حصہ)

مورخہ: 10 اگست 2021ء

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری

ترتیب و تدوین: محمد یوسف منہاجین
معاون: محبوب حسین


شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے نظام المدارس پاکستان کے زیرِ اہتمام 17 مارچ 2021ء کو ’’مدارسِ دینیہ اور عصرِ حاضر کے تقاضے‘‘ کے عنوان سے قومی کانفرنس سے خطاب فرمایا۔ جس میں پاکستان بھر سے علماء، مشائخ، مدارس کے مہتمم حضرات، مدرسین اور ہر طبقہ زندگی کی نمائندہ شخصیات نے خصوصی شرکت کی۔ اس کانفرنس سے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے نہایت علمی اور فکری خصوصی خطاب فرمایا۔ اس خطاب میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے علم کی اہمیت وفضیلت، مدارسِ دینیہ کے قیام کے مقاصد، صراطِ مستقیم کے حامل افراد کی تیاری کے مراکز اور موجودہ صورت حال، دینِ اسلام میں شخصیات کی اہمیت، نصابِ تعلیم کی خصوصیات، علماء کی ذمہ داریاں، قرآنِ مجید اور احادیث مبارکہ کے مطابق علماء کی فضیلت اور صفات، مدارسِ دینیہ کے نصاب میں تبدیلی کی ضرورت، سیرتِ مصطفی ﷺ کی روشنی میں علومِ دینیہ کا نصاب، مدارس کے قیام کے تاریخی پسِ منظر، مدارسِ دینیہ کے نصاب میں جمود کی وجوہات، نظام المدارس کے قیام کی ضرورت، نظام المدارس پاکستان کے نصاب کی اہم خصوصیات اور دیگر متعدد علمی و فکری نکات بیان فرمائے۔ شیخ الاسلام کے اس خطاب کے تین حصے ماہنامہ منہاج القرآن ماہ مئی، جون اور جولائی2021ء کے شماروں میں شائع ہوچکے ہیں۔ اس خطاب کا آخری حصہ نذرِ قارئین ہے:


4۔ اصول الحدیث

ترجمہ قرآن اور تفسیر، عقائد اور حدیث کے ترجمہ کے ساتھ ساتھ علوم الحدیث کی ابحاث، تاریخِ حدیث، مصطلحاتِ حدیث اور دیگر علومِ حدیث کو بھی نظام المدارس کے نصاب میں شامل کیا گیا ہے۔ اصولِ حدیث کے باب میں تمام مدارس صرف شیخ عبدالحق محدث دہلوی کا تحریر کردہ چھوٹا سا مقدمہ پڑھا دیتے تھے یا شرح نخبۃ الفکر پڑھادی۔ گویا اصول حدیث پر محنت ہی نہیں کروائی جاتی۔ اگر کوئی حدیثِ صحیح، حدیثِ حسن، حدیثِ ضعیف یا موضوع کی بات کرے تو ہمارا فارغ التحصیل طالب علم اس باب میں دو منٹ کی گفتگو نہیں کرسکتا۔ اسے پتہ ہی نہیں ہوتا کہ میں کیا اطلاقات کروں؟ حکم اور ترجیحات کیا ہیں؟ حدیث ضعیف کیسے بنتی ہے اور ضعیف کا ارتقاء کیسے ہوتاہے؟ حدیث ضعیف؛ حسن کیسے بنتی ہے اور حسن؛ صحیح کے درجے میں کیسے آتی ہے؟ کن امور میں حدیث ضعیف بھی قبول ہے؟ یہ ساری ابحاث جن کے ساتھ ہمارے عقائد، عبادات، ترغیبات، ترہیبات اور آداب متعلق ہیں، ان میں سے کوئی چیز مدارس میں تفصیل سے نہیں پڑھائی جاتی۔

ہم نے نظام المدارس پاکستان کے نصاب میں ان تمام موضوعات پر فوکس کیا ہے۔ علوم الحدیث پر مقدمہ ابن الصلاح، امام نووی کی التقریب، امام جلال الدین سیوطی کی التدریب، شرح نخبۃ الفکر اور دیگر کتب شاملِ نصاب کردی ہیں تاکہ طلبہ ان کو پڑھیں اور علوم الحدیث میں پختہ اور مضبوط ہوں۔ علاوہ ازیں مصادر کتب کے معاون اور مطالعہ کے لیے بہت ساری کتب شاملِ نصاب ہیں۔ امام اعظم کے رسالہ الفقہ الاکبر کو باضابطہ طور پر ہمارے نصاب میں پڑھانے کا معمول ہی نہیں جبکہ دعویٰ ہم حنفیت کا کرتے ہیں۔ امام اعظم کی اس کتاب سے علم الکلام کی ابتدا ہوئی ہے، ہم نے اسے بھی شامل نصاب کیا ہے۔اصول حدیث پر لکھی گئی اکابر ائمہ کی کتب کے علاوہ عربی زبان میں میری اپنی لکھی ہوئی کتب بھی شاملِ نصاب ہیں۔

5۔ سیرت النبی ﷺ

نظام المدارس کے نصاب میں سیرت اور فضائل نبی ﷺ پر بطورِ خاص فوکس کیا گیا ہے۔ دوسرے مدارس میں علامہ نور بخش توکلیؒ کی کتاب سے سیرت و فضائل پر دو چار ابواب پڑھادیئے جاتے ہیں۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ عالمِ دین ہو اور حضور ﷺ کی سیرتِ طیبہ بھی 8 سال کے نصاب میں پوری نہ پڑھے۔ مدارس کے نصاب میں آپ ﷺ کی ولادت سے لے کے وصال تک مکی اور مدنی زندگی مفصل طریق سے نہیں پڑھائی جاتی۔ تھوڑے سے جزو پڑھا دینے سے سیرت النبی ﷺ کی کامل تفہیم میسر نہیں آتی۔

لہذا نظام المدارس کے نصاب میں سیرت النبی ﷺ کے باب میں مکی زندگی اور مدنی زندگی کے مکمل احوال شاملِ نصاب ہیں۔ سیرت النبی ﷺ کی عظیم کتب کے مقدمات کی نئی ابحاث کو بھی شاملِ نصاب کیا گیا ہے۔

امام قسطلانی کی المواہب اللدنیہ کو شاملِ نصاب کیا ہے جو پہلے مروّجہ نصاب میں نہیں تھی۔ اس میں سے معجزات و خصائص، اسریٰ و معراج اور تعظیم و شان رسالت مآب ﷺ اور حضور ﷺ کی اتباع کے وجوب کے ابواب رکھے ہیں۔

اسی طرح معارج السنن اور دیگر ائمہ کی بڑی کتب سے آقا علیہ السلام کی شان اقدس کے متعلق ابواب لیے ہیں۔ آقا علیہ السلام کے شمائل کے مطالعہ کے لیے شمائل ترمذی شاملِ نصاب کی ہے۔

سیرت و فضائل کے باب میں لکھی گئی کتب میں سے قاضی عیاض کی الشفاء ایک اہم مقام کی حامل کتاب ہے۔ ہم اس کتاب کا نام تو بہت لیتے ہیں مگر ہمارے نصاب میں یہ کتاب شامل ہی نہیں۔ اگر ہم حضور ﷺ کی سیرت و فضائل کے حوالے سے گزشتہ ایک ہزار سال میں لکھی گئی اونچے درجے کی صرف دو کتابوں کے نام لیں تو ان میں ایک ’’الشفاء‘‘ ہے اور دوسری کتاب امام قسطلانی کی ’’المواہب اللدنیہ‘‘ ہے۔ اگر یہ دونوں کتب ہمارے نصابات میں شامل نہیں تو ہمارے طلبہ ان کتب کے اسلوب اور ان میں موجود دلائل سے کس طرح واقف ہوں گے؟ ہم اپنے طلبہ و علماء میں خود علمی کمزوری پیدا کررہے ہیں اور اسی طرزِ عمل سے مسلک کے دلائل کمزور ہوئے، عزت کمزور ہوئی اور مسلک کا وقار مجروح ہوا۔ یاد رکھیں! دلائل کی کمی کی وجہ سے لوگوں کے ساتھ علمی رابطہ کم ہوتا ہے۔ یہ دونوں کتابیں آقا علیہ السلام کی شانِ اقدس اور آپ ﷺ کی عظمت سمجھاتی ہیں اور عقیدہ ثابت کرتی ہیں۔ لہذا اِن کتب کو بھی شاملِ نصاب کیا گیا ہے۔

آخری سال میں سیرت کے مضمون میں میثاق مدینہ کی صورت میں موجود دستورِ مدینہ کو شامل کیا ہے، جس پر اسلامی ریاست استوار ہوئی۔ یہ چیزیں اس لیے شامل کیں تاکہ ہمارے طلبہ اس کا تجزیاتی مطالعہ کریں۔

6۔ تصوف و اخلاق

تصوف کے مضمون کو بھی نظام المدارس پاکستان کے نصاب میں اول سال سے ہی شامل کیا گیا ہے کیونکہ جب تک متعلم کا اخلاق نہ سنورے، اس کے اندر صدق و اخلاص، زہد و ورع، تعلق باللہ، اخلاقِ حسنہ اور آدابِ زندگی پیدا نہ ہوں تو پھر اس علم سے اس نے کیا حاصل کیا؟ اس کے لیے پہلے ہی سال سے رسالہ القشیریہ شامل کردیا ہے۔ اسی طرح تصوف و اخلاق کی وہ ابحاث جو خلفائے راشدین، ائمہ اربعہ اور سلاسل طریقت کے اکابرین سے متعلق ہیں، ان کے لیے ’’تذکرے اور صحبتیں‘‘ شامل کردی ہے۔ اسی طرح امام سلمی کی الطبقات الصوفیہ، حضور داتا گنج بخش کی کشف المحجوب، کتاب اللمع اور سیدنا غوث الاعظم کی غنیۃ الطالبین سے تصوف کے حصے لیے ہیں۔ اول سال سے آخر تک تصوف کی کتب سے سیرت و اخلاق کے مضامین شامل کیے ہیں اور اس طرح مدرسہ کو خانقاہ اور روحانی تربیت کا مرکز بھی بنادیا ہے۔

تصوف و اخلاق کے ساتھ ساتھ التصوف الآداب کے عنوان سے ایک نیا مضمون بھی شاملِ نصاب ہے۔

7۔ ادب التعلیم والتعلم

تصوف و اخلاق کے ذیل میں ’’آداب التعلیم والتعلم‘‘ مضمون کو بطور خاص شاملِ نصاب کیا ہے تاکہ طلبہ کو تعلیم، معلم و شیخ اور مدرسہ کے آداب آئیں، اسی طرح اختلاف کرنے اور پڑھنے پڑھانے کے آداب آئیں۔ الغرض ادب کا ایک پہلو جو ائمہ کے ہاں بہت متداول تھا، ان کتب کو بھی شاملِ نصاب کیا ہے۔ سیرت و اخلاق کو اعلیٰ اقدار پر استوار کرنے کے لیے مزید ایسی کتابیں بھی شامل کی ہیں جو متعلمین کو اجلا، ستھرا اور خوبصورت اخلاق دیں۔

8۔ فقہ حنفی کا قرآن و سنت سے اثبات

برِصغیر پاک و ہند میں رہنے والوں کی اکثریت حنفی المذہب ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم مدارس میں صرف حنفی المذہب فقہ کی کتب پڑھاتے ہیں۔ مگر افسوس یہ کہ ہمارے مدارس کے نصاب میں کوئی ایک کتاب بھی ایسی نہیں جس میں فقہ حنفی کو سنت و حدیث کے ذریعے پڑھایا اور سمجھایا جائے۔ سوچیں! ہم کس مسلک کادفاع اور خدمت کررہے ہیں؟ ہم صرف تقریروں میں نعرے لگاتے ہیں کہ مسلکِ اہلِ سنت زندہ باد جبکہ ہمارے 8 سال کے نصاب میں مذہب حنفی کے اثبات کے لیے دلائلِ شرعیہ اور حدیث و سنت کے دلائل پر مبنی کوئی کتاب ہی شامل نہیں ہے۔ ہر طالب علم جب مدرسہ سے فارغ ہوتا ہے تو وہ اس حوالے سے مختلف ذرائع سے سیکھتا رہتا ہے مگر مدرسہ اور نصاب کے ذریعے اسے اس باب میں کچھ نہیںملا ہوتا۔

مثلاً: ہمارا فقہی مشرب یہ ہے کہ ہم بیس تراویح پڑھتے ہیں، ہم رفع یدین نہیں کرتے، علی ہذا القیاس ہمارے اور دوسرے مذاہب کے درمیان ایک فرق ہے، علماء اور طلبہ کے لیے ضروری ہے کہ انہیں پتہ ہو کہ ہم جس مسلک اور فقہ پر عمل پیرا ہیں، حدیثِ نبوی ﷺ میں اس مذہب حنفی کے دلائل کیا ہیں؟ انہیں معلوم ہو کہ ہمارا مذہب مبنی بر فقہ ہے یا مبنی بر حدیث ہے؟ اگر کہہ دیں کہ ہمارا مذہب مبنی برفقہ ہے تو اب جو بندہ چاہے اس کا انکار کردے، فقہی طور پر ہم کسی پر فتویٰ ہی نہیں لگاسکتے لیکن اگر یہ کہہ دیں کہ ہمارا مذہب مبنی بر سنت و حدیث نبوی ﷺ ہے اور اس کے دلائل یہ ہیں تو اب کوئی اسے ٹھکرا نہیں سکتا۔

پس جب نظام المدارس کے تحت طالب علم 8 سال گزار کر فیلڈ میں جائے گا تو مذہب حنفی اور اپنے عقیدہ و مسلک کے دلائل اس کے پاس ہوں گے۔ ہم اسے علمی طور پر محتاج اور مسکین بناکر نہیں بلکہ علمی و فکری اعتبار سے نہایت جامع بناکر اصلاحِ معاشرہ کے لیے میدان میں اتاریںگے۔ اس کمی کو پورا کرنے کے لیے نظام المدارس پاکستان کے نصاب میں شیخ اسعد سعید الصاغرجی کی کتاب الفقہ الحنفی وادلتہ کو شاملِ نصاب کیا گیا ہے۔

9۔ فقہ اور اصولِ فقہ

نظام المدارس پاکستان کے نصاب میں فقہ کی 22 اہم کتب کو شامل کیا گیا ہے۔ ان میں سے ہر ایک کتاب کا تعارف کروایا جائے گا۔ علاوہ ازیں حنفی فتاویٰ کو شامل کیا ہے جن میں فتاویٰ سراجیہ، فتاویٰ قاضی خان، فتاویٰ بزازیہ، فتاویٰ قاسم بن قطلوبغا، فتاویٰ خیریہ، فتاویٰ ہندیہ یا عالمگیریہ اور فتاویٰ رضویہ وغیرہ شاملِ نصاب ہیں۔ اساتذہ ان فتاویٰ کے مباحث اور اسلوب طلبہ کو سمجھائیں گے۔

اسی طرح اصول فقہ کی کتب کا تعارف بھی شاملِ نصاب ہے یعنی طلبہ کو چاروں مذاہب حنفیہ، شافعیہ، مالکیہ اور حنبلیہ کے اصول و قواعد سے روشناس کروایا جائے گا۔ علاوہ ازیں تاریخ الفقہ بھی نظام المدارس پاکستان کے نصاب میں ایک نئے مضمون کے طور پر شامل ہے۔

10۔ عربی ادب و شاعری

عربی ادب و شاعری کے حوالے سے مروجہ نصابِ مدارس میں دورِ جاہلیت کا جاہلی ادب پڑھایا جاتا تھا جسے بعض اوقات اساتذہ کو پڑھاتے ہوئے اور طالب علم کو پڑھتے ہوئے شرم آتی ہے۔ نظام المدارس پاکستان کے نصاب میں ان کو رسماً برقرار رکھا تاکہ کوئی یہ نہ کہے کہ یہ کتابیں نکال دی ہیں، مگر ان کے ساتھ ساتھ زیادہ حصہ قصیدہ بردہ شریف اور قصائد حسان بن ثابتؓ شامل کردیئے ہیں۔ اس لیے کہ جب عربی ادب و شاعری پڑھانے ہیں تو کیوں نہ امام بوصیری کو پڑھائیں تاکہ عربی ادب بھی آئے اور عشق رسول ﷺ بھی آئے۔

عربی شعر و ادب کے باب میں قصیدہ بانت سعاد، دیوان ابی طالب، دیوان مالک بن عوف، امام بوصیری کا قصیدہ محمدیہ، خلفائے راشدین اور اہل بیت اطہار رضوان اللہ علیہم اجمعین کی شان میں امام شافعی کے دیوان میں سے اشعار شاملِ نصاب ہیں اور پھر شعر جاہلی کے منتخب معلقاتِ سبعہ کو شاملِ نصاب کیا ہے۔

اسی طرح حضور ﷺ کی عظمت و شان، صحابہ کرام، خلفائے راشدین، اہل بیت اطہار رضوان اللہ علیہم اجمعین پر لکھے گئے امام جلال الدین محمد بن نباتہ کے اشعار اور فرزدق کے اشعار شامل کیے ہیں۔ گویا اس انداز کے ساتھ وہ ساری چیزیں رکھی ہیں کہ جب لوگ پڑھیں تو ایمان بھی تازہ ہو، عقیدہ بھی نہایت خوبصورت طریقے سے اجاگر ہو اور عربی ادب سے بھی آشنائی ہو۔

اسی طرح امام نبھانی کا چار جلدوں پر مشتمل عظیم الشان ذخیرہ مجموعہ النبہانیہ بھی شاملِ نصاب ہے جس میں صحابہ کرام کے زمانے سے لے کر ائمہ عرب کے کل قصائد مدیحۃ النبیؐ جمع ہیں۔ مقصود یہ ہے کہ جاہلی ادب کے بجائے ہم وہ اشعار پڑھائیں جن سے مدیحۃ النبیؐ ثابت ہو، نعت پڑھنے کا جواز ثابت ہو، حضور ﷺ کی شان بیان ہو، عشقِ رسول ﷺ پیدا ہو اور آنکھیں نم ہوں۔ عربی ادب بھی آئے، شعر بھی آئے، ذوق بھی پیدا ہو اور عقیدہ بھی درست ہو۔ اس اسلوب کے مطابق کوشش کی ہے تاکہ تعلیم کے تمام مقاصد نصاب کے ذریعے پورے ہوسکیں۔

11۔ فضائل صحابہ و اہلِ بیت اطہار رضوان اللہ علیہم اجمعین

خلفائے راشدین، صحابہ کرامؓ اور اہل بیت اطہارؓ کے فضائل و مناقب پر کوئی باقاعدہ کتاب مدارس کے نصاب میں شامل نہیں ہے۔ سوائے اس کے کہ کتبِ حدیث سے چند ایک احادیث پڑھا دی جاتی ہیں۔ نظام المدارس پاکستان کے نصاب میں اس موضوع پر بھی کتب شامل کردی ہیں۔ اس سلسلہ میں امام الآجری کی کتاب الشریعہ اور امام سخاوی کی ’’استجلاب ارتقاء الغرف‘‘ سے ابواب شاملِ نصاب کیے ہیں۔ یہ تمام کتب اس لیے ضروری ہیں تاکہ ہمارے عقیدے کے منابع تک طلبہ کی رسائی ہو۔

اس مضمون پر الانابہ فی مناقب الصحابہ، مکانۃ الصحابہ وحقیقۃ الخلافہ، قرابۃ النبی، الاجابہ فی مناقب القرابۃ کو بھی شاملِ نصاب کیا ہے۔

12۔ حبِ اولیاء کرامؒ

اولیاء کے مقام و مرتبہ کے حوالے سے درس نظامی کے نصاب میں کوئی کتاب اور کوئی مباحث نہیں صرف چند اولیاء کی کرامات پڑھ لیتے ہیں، جیسے شرح عقائدِ نسفیہ جیسی کتاب میں کوئی جملہ پڑھ لیا کہ کراماتِ اولیاء حق ہیں مگر محض ایک اس جملے سے سارا عقیدہ تو ثابت نہیں ہوجاتا۔ لہذا شانِ اولیاء اور کرامت و ولایت کے باب میں امام نبھانی کی کتاب جامع کراماتِ اولیاء اور ’’اصول اعتقاد اہل السنہ‘‘ کو بھی نظام المدارس پاکستان کے نصاب میں شامل کیا گیا ہے۔

13۔ الوسطیہ

اعتدال اور توازن پیدا کرنے کے لیے نظام المدارس کے نصاب میں ’’الوسطیہ‘‘ کے عنوان سے ایک مضمون رکھا ہے جس کا مقصود معاشرے میں محبت کا فروغ، تشدد کے رجحان کا خاتمہ، مسلم و غیر مسلم کے تعلقات، خدمتِ انسانیت اور اعتدال کی فضا کو قائم کرنا ہے تاکہ انسانی زندگی میں اندرونی و بیرونی سطح پر امن کی فضا پیدا ہو۔

14۔ الدعوہ والارشاد

الدعوہ والارشاد کے عنوان سے ایک نیا مضمون بھی نظام المدارس کے نصاب میں شامل کیا ہے تاکہ طلبہ کو معلوم ہو کہ اصولِ دعوت کیا ہیں؟ دعوت کس طرح دینی ہے اور دعوت کے قواعد و ضوابط کیا ہیں؟ یہ تمام امور مدارسِ دینیہ کے نصاب میں شامل نہیں تھے۔

15۔ دنیاوی تعلیم

نظام المدارس پاکستان کے نصاب میں دنیاوی تعلیم کو بھی شاملِ نصاب کیا گیا ہے۔ کمپیوٹر، انگلش، ریاضی اور مطالعہ پاکستان بھی نصاب میں شامل ہیں۔ میٹرک اور ایف اے کے امتحانات باضابطہ بورڈ سے دلوائیں گے اور بی اے یا بی ایس کا امتحان یونیورسٹی سے ہوگا یعنی وہ ڈگری ہولڈرز ہوں گے۔ دینی و دنیاوی تعلیم سے آراستہ ہونے کے بعد اب وہ جو مرضی فیلڈ اختیار کریں۔ ان میں ایک عالم دین اور معاشرے میں رائج تمام پروفیشنز (پیشوں) کے حوالے سے بنیادی صلاحیت موجود ہوگی۔ وہ وکالت، کمپیوٹر، تدریس، معیشت، فنانس الغرض جو فیلڈ بھی اختیار کرنا چاہے گا حتی کہ مقابلہ کے امتحان کے بعد کسی بھی ریاستی ادارے میں خدمات سرانجام دینا چاہے گا تو وہ بآسانی ان کے لیے موزوں ہوگا۔ اس لیے کہ اس اس میں ان میادین کے لیے بنیادی استعداد و صلاحیت موجود ہوگی، اس کی شخصیت میں ایک توازن اور اعتدال ہوگا۔

16۔ متفرق مضامین

علاوہ ازیں نظام المدارس پاکستان کے نصاب میں درج ذیل نئے مضامین کا بھی اضافہ کیا گیا ہے:

  1. عربی تکلم و انشاء
  2. اسلامی افکار و نظریات
  3. تقابل الادیان
  4. اسلام اور جدید سائنس
  5. فقہ السنہ
  6. ادب الاختلاف

اس تمام گفتگو سے یہ واضح کرنا مقصود ہے کہ وہ کتب جن کی بنیاد پر ہمارے طلبہ نے عالم بننا اور تبلیغ کرنی ہے، اگر ہم وہ مضامین اور موضوعات انہیں پڑھا کر نہیں بھیجیں گے اور بغیر علم کے انھیں الشہادۃ العالمیہ کی ڈگری دے کر میدان میں اتار دیں گے تو وہ علمی مباحث میں دین اور مسلک کا دفاع کیسے کریں گے؟ جب ہم انھیں علمی و فکری مقابلہ کرنے کے لیے 8 سال تک اس سلسلے میں تیار ہی کچھ نہیں کرائیں گے تو وہ اس محاذ پر اسلام کا دفاع کیسے کریں گے؟

طلبہ چونکہ علم کے ساتھ مسلح نہیں ہوتے، اس وجہ سے جھگڑے و فساد، انتہا پسندی اور فرقہ واریت ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ طالب علم کی علمی سطح گر کر منفی انداز کے ساتھ فتنہ و فساد کی طرف منتقل ہوجاتی ہے۔ یاد رکھ لیں! جو آدمی علم سے مسلح ہے، جس کے پاس قرآن و سنت اور سلف صالحین کے دلائل ہیں، وہ کبھی غصہ نہیں کرتا، وہ انتہا پسندی، فرقہ واریت، قتل و غارت اور گالی گلوچ نہیں کرتا۔ گالی گلوچ اور للکارتا صرف وہ ہے جس کے پاس دلیل، علم اور مطالعہ نہیں ہوتا۔ طلبہ کے دلائل سے نابلد رہنے کے ذمہ دار ہمارے مدارس ہیں کہ انھوں نے انھیں دلائل سے آشنا کیا ہی نہیں۔

حرفِ آخر!

1۔ نظام المدارس پاکستان کے نصاب نے طالب علم کو اپنے عقائداور افکار و نظریات کے دفاع میں مضبوط قلعہ بنادیا ہے۔ اس حوالے سے مناظرانہ، فرقہ وارانہ، فتویٰ بازی اور نفرت پر مبنی طریق کے بجائے قرآن و حدیث کے مثبت دلائل پر مبنی اکابرین کی جو کتب مل سکتی تھیں، وہ شاملِ نصاب کردی ہیں۔ اس نصاب میں علوم القرآن، حدیث، اصول الحدیث، مذہب حنفی، عقائد اور تصوف کے باب میں میری تصانیف اس وقت شامل کی گئی ہیں، جہاں خاص ضرورت تھی اور ان سے بہتر کوئی کتاب میسر نہیں آئی۔

نظام المدارس پاکستان کے ساتھ شامل ہونے والے علماء و اساتذہ کو اگر ان موضوعات پر انتہا پسندی اور فرقہ وارانہ نظریات سے ہٹ کر صرف اور صرف مثبت دلائل اور فقط علم اور دلائلِ کتاب و سنت پر مبنی شاملِ نصاب کتب سے بہتر اکابرین کی کتب مل جائیں یا اس سے بہتر نہیں تو کم از کم ان جیسی ہی مل جائیں، جو ان مقاصد اور ضرورت کو پورا کریں تو وہ ہمیں مطلع کرے، ہم اسے شاملِ نصاب کردیں گے۔ اس حوالے سے کوئی تامل اور تنگ نظری آڑے نہیں آئے گی۔ ہم نے اس نصاب کو شریعت کی طرح حتمی و قطعی نہیں رکھا کہ دروازہ بند کردیا ہے بلکہ قابلِ عمل تجاویز کو شامل کیا جائے گا اور مشاورت بھی ہوتی رہے گی۔ اس نظام سے متعلق جتنی کمی بیشی کی تجاویز دینا چاہیں دیں، مرکز ہمیشہ آپ کی تجاویز کو سنے گا، خوش آمدید کہے گا اور بہتری کے لیے انہیں قبول کرے گا۔

2۔ نظام المدارس کی کامیابی کے لیے اللہ رب العزت کے حضور التجا ہے کہ وہ ہمیں توفیق دے، کیونکہ اس کی توفیق کے بغیر کچھ بھی ممکن نہیں ہوگا۔ یہ ہماری ایک معمولی سی سعی ہے مگر کسی کے ساتھ کوئی مقابلہ یا مسابقہ نہیں ہے۔ ہماری نظر میں سب اچھے ہیں اور ہم نے اپنی حیثیت و استعداد کے مطابق دین، دینی علوم، عقیدہ و مسلک، مذہب، علم وفن اور طلبہ کی سیرت و کردار میں تصوف، زہد و ورع اور اخلاص کے فروغ کے لیے ایک حقیر سی کاوش کی ہے تاکہ علم کا معیار بلند ہو اور جو طلبہ یہاں سے فارغ التحصیل ہوں؛ ان میں استحکام نظر آئے، وہ عقائد، علوم و فن، بول چال، اخلاق اور طور طریقے میں پختہ ہوں تاکہ لوگ ان کو دیکھیں تو ایک خوشگوار اور قابلِ فخر احساس پیدا ہو، ان کا چہرہ، ان کے عادات و اطوار اور معاملات کو دیکھ کر ان کا دل خوش ہو اور وہ کہیں کہ ہاں اللہ اور اس کے رسول ﷺ کا ان پر خاص کرم ہے۔

علماء کے نام پر جب یہ لوگ معاشرے میں جائیں تو دورِ جدید میں بھی عزت پائیں اور لوگ سمجھیں کہ ہاں یہ غزالی اور رازی کی نمائندگی کرنے والے لوگ ہیں، ان کا اخلاق دیکھیں تو کہیں کہ ہاں ان میں ہجویریؒ، رومیؒ، جیلانیؒ، اجمیریؒ اور ان جیسے علماء و صوفیاء کی جھلک موجود ہے۔ مقصد یہ ہے کہ کبار ائمہ و صلحاء کی تعلیمات کا کچھ نہ کچھ رنگ ان کی طبائع میں پیدا ہو اور تعلیم سے محروم لوگوں کی قیادت کرنے کے منصب جلیلہ پر فائز ہونے کے حقدار بن سکیں۔

3۔ اس ضمن میں ایک اور اہم بات یہ ہے کہ میری اس تمام گفتگو کا فوکس یہ نہیں کہ سارے مدارس ’’نظام المدارس‘‘ کے تحت آجائیں اور دوسرے وفاق کو چھوڑ دیں۔ نہیں، یہ سب کا اپنا اپنا چنائو ہے۔ ’’نظام المدارس پاکستان‘‘ نے اپنا منہج و اسلوب اور اہداف و مقاصد واضح کردیئے ہیں۔ مدارس دینیہ کے مذکورہ مقاصد اور علماء و طلبہ کا مذکورہ خصوصیات و اوصاف سے مزین ہونے کی منزل کا حصول جہاں پورا ہوسکتا ہے، مدارس کو وہاں منسلک رہنا چاہیے۔ ان مذکورہ مقاصد کی تکمیل پہلی ترجیح ہونی چاہیے اور باقی چیزوں کو پیچھے رکھنا چاہیے۔ اگر کوئی کسی کے ساتھ تعلق، نسبت، دوستی، ارادت یا کسی کی دشمنی اور مخالفت کی وجہ سے کسی وفاق کا انتخاب کرتا ہے تو اس سے کچھ حاصل نہ ہوگا؟ اگر مقصود پورا نہیں ہوتا تو کسی وفاق سے الحاق یا مدرسہ کے قیام کا کوئی فائدہ نہیں۔ پہلے ہی بڑا نقصان ہوچکا ہے۔ لہذا مخالفت، عداوت، دوستی، تعلق اور رشتے کی بنا پر فیصلے نہ کریں۔ میری معروضات کا مقصد فوکس کو درست کرنا ہے کہ اس بات کو سمجھا جائے کہ ہمارا مقصد کیا ہے۔۔۔؟ ہم کدھر جارہے ہیں۔۔۔؟ ہم کیا تھے اور کیا ہوچکے ہیں۔۔۔؟ ہمیں کدھر جانا چاہیے۔۔۔؟ کیا ہم اپنا احیاء اور تشخص ان مقاصد کے مطابق چاہتے ہیں یا نہیں۔۔۔؟ کیا ہم اپنا مستقبل روشن کرنا چاہتے ہیں یا نہیں۔۔۔؟ یہ سوچ کر ہمیں فیصلہ کرنا ہوگا۔

ابھی یہ ارتقاء کا سفر ہے، ہم تدریجاً سفر کرتے کرتے جہاں تک ممکن ہوسکا اسے کمال تک لے جائیں گے اور نصاب میں بھی نئے دور کے تقاضوں کے مطابق اضافہ ہوتا رہے گا۔ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی خاص توفیق، مدد و نصرت اور حضور نبی اکرم ﷺ کے نعلین پاک کی خیرات سے ممکن ہوگا۔ ہم نے بغیر لالچ و خواہش کے ایک بیڑا اٹھایا ہے، اللہ تعالیٰ اسے قبول فرمائے، اس میں کامیابی دے اور سرخرو کرے تاکہ ہم دین، علمِ دین، عالمِ دین اور طالبِ دین کی کچھ نہ کچھ خدمت کرسکیں۔ آمین بجاہ سیدالمرسلین ﷺ

ماخوذ از ماہنامہ منہاج القرآن، اگست 2021ء

تبصرہ

ویڈیو

Ijazat Chains of Authority
Top