نظم و ضبط مددِ الہٰی کا ذریعہ ہے
ڈاکٹر حافظ محمد سعداللہ
یہ بات چنداں دلائل اور وضاحت کی محتاج نہیں کہ دین دنیا کے ہر چھوٹے بڑے کام کو سرانجام دینے کا ایک مخصوص ومتعین طریقہ کار، ترتیب، اصول و ضوابط، حدود و قیود اور آداب ہوتے ہیں۔ آسان لفظوں میں انہی اصول و ضوابط، حدد و قیود اور آداب کی پابندی اور اس کام کو طریقے سلیقے سے کرنا، خوبصورتی سے کرنا اور منظم انداز میں کرنا، نظم و ضبط یا ڈسپلن (Discipline) کہلاتا ہے۔
روزمرہ کے مشاہدہ اور تجربہ کے مطابق کسی بھی کام میں پختگی، خوبصورتی، بہتری، نفاست، کامیابی، وقت کی بچت اور پائیداری نظم و ضبط سے ہی آتی ہے۔ اس کے برعکس جو کام بے ڈھنگے، غیر مرتب، بدنظمی اور اس کے لیے مختص طریقِ کار سے ہٹ کر کیا جائے گا وہ نہ صرف یہ کہ بدصورت، غیر پختہ، بکھرا ہوا، نفاست اور پائیداری سے خالی ہوگا بلکہ اس میں بعض اوقات دوسرے لوگوں کی حق تلفی، ان کے ساتھ زیادتی، وقت کا ضیاع اور امن و امان کے متاثر ہونے کا بھی خدشہ ہوتا ہے۔ اگر تھوڑا سا غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ سارا نظامِ کائنات ہماری تعلیم و تربیت کے لیے ایک نظم و ضبط کا پابند دکھائی دیتا ہے۔
بے شک ہمارا ذہن خلق و امرِ الہٰی کی وسعتوں اور باریکیوں کا احاطہ نہیں کرسکتا لیکن ہمیں جیسی بھی علمی استعداد ملی اور جیسا بھی نورِ بصیرت عطا ہوا اس کی بدولت اتنا ضرور سمجھ آتا ہے کہ ہمارا واسطہ ایک ایسی کائنات سے ہے جس کی تہہ میں کوئی بابصر تخلیقی مشیت کام کررہی ہے۔ اس کے جملہ مظاہر کی ایک اساس ہے اور ان میں کوئی اصولِ نظم و ضبط اور قانون کارفرما ہے۔ فرمانِ الہٰی کے مطابق آسمان ٹھہرے ہوئے، زمین بچھی ہوئی، پہاڑ اپنی جگہ پر قائم، دریا رواں، شمس و قمر مسخر، ہوائیں مسخر، اجرامِ سماوی اپنے اپنے مدار پر گردش کناں۔ (سورۃ الانبیاء، 21: 23) ان کا طلوع و غروب اپنے وقت کا پابند، نہ سورج کے لیے یہ ممکن ہے کہ چاند کو جالے، نہ رات دن سے آگے بڑھ سکتی ہے۔ (یٰسین، 36: 40) ہواؤں کا آنا، بادلوں کا اٹھنا، بارش کی روئیدگی، زندگی اور موت سب ایک سلسلے کی کڑیاں ہیں۔ سب مشیتِ الہٰیہ کے دائرے میں منسلک، سب اس کے حکم کے پابند۔ الغرض نظامِ کائنات کے اندر جاری و ساری یہ نظم و ضبط انسان کو اس کی ضرورت و اہمیت کا احساس دلاتا ہے۔
اسی طرح معاشرتی رویوں میں نظم و ضبط کی پابندی بنیادی حیثیت کی حامل ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اسلام تمام احکام و اعمال میں اپنے ماننے والوں کو ایک خاص نظم و ضبط کا پابند بناتا دکھائی دیتا ہے۔ مثال کے طور پر دینِ اسلام کا پہلا عملی تقاضا یا حکم نماز کی ادائیگی ہے۔ جس میں بدن،لباس، جائے نماز کی طہارت، وضو اور پھر نماز کی ادائیگی کا طریقہ کار ہمیں کسی بھی کام کو طریقے اور سلیقے سے کرنے کا سبق دیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک صاحب نے نبی اکرم ﷺ کے سامنے نماز پڑھی اور نماز میں مطلوب آداب دوسرے لفظوں میں نظم و ضبط کو ملحوظ نہ رکھا۔ نماز کے بعد وہ خدمتِ نبوی ﷺ میں حاضر ہوا تو حضور نبی اکرم ﷺ نے اس سے فرمایا:
اِرْجِعْ فَصَلِّ فَانَّکَ لَمْ تُصَلِّ.
’’لوٹ جاؤ دوبارہ نماز پڑھو گویا تو نے نماز پڑھی ہی نہیں۔‘‘
اس آدمی نے دوبارہ بھی آداب اور نظم و ضبط کے مطابق نماز نہ پڑھی تو آپ ﷺ نے دوبارہ نماز پڑھنے کا حکم دیا۔ تین مرتبہ ایسا ہوا تو حضور نبی اکرم ﷺ نے اسے نماز کے آداب، نظم و ضبط کی تعلیم دی۔
(بخاری، الصحیح، کتاب الاذان باب وجوب القرأة للامام، 1: 105)
اسی طرح ادائیگی نماز میں استقبالِ قبلہ، قیام، رکوع، سجود، تلاوتِ قرآن، تسبیحات اور مفسدات وغیرہ نمازی کو مجسمِ نظم و ضبط بنادیتے ہیں۔ نماز کی جماعت میں صف بندی، امام کی امامت اور تقلیدِ امام سب اسی رویے کو مضبوط بناتے ہیں۔
(بخاری، الصحیح، کتاب الاذان باب تسویة الصفوف ببعد، 1: 100)
نظم و ضبط ۔ تہذیب و شائستگی کی علامت
نظم و ضبط کی پابندی کسی بھی قوم کے تہذیب یافتہ ہونے کی علامت ہے، جس کا ہمارے معاشرے میں عمومی طور پر فقدان نظر آتا ہے۔ کسی بھی جگہ پر قطار بندی اور اپنی باری کا خیال نہ کرنا، ٹریفک کے دوران اپنی لین سے تجاوز، غلط اوور ٹیکنگ اور اشاروں کو توڑنے کی کوشش، بازاروں، گزرگاہوں اور پارکوں میں دھکم پیل، شادی بیاہ اور دیگر تقریبات میں کھانے پر ٹوٹ پڑنا، بلاوجہ کھانا ضائع کرنا، اجتماعی مواقع پر لڑائی جھگڑا اور ناشائستہ الفاظ کا استعمال اور کسی آفت یا مسئلے کی صورت میں بھگدڑ مچانا وغیرہ نظم و ضبط کی پابندی نہ کرنے کا ہی نتیجہ ہیں۔ نظم و ضبط کی اس اہمیت اور افادیت کو خالقِ کائنات کے نازل کردہ دینِ اسلام اور تمام انسانوں کے ہادی و رہنما، معلم اور خاتم النبیین رحمۃ للعالمین سیدنا حضرت محمد مصطفی احمد مجتبیٰ ﷺ سے بڑھ کر کون سمجھ سکتا ہے۔ اس لیے اسلام اور پیغمبرِ اسلام ﷺ نے انفرادی و اجتماعی سطح پر معاشرت، معیشت، رہن سہن، کھانے پینے، اٹھنے بیٹھنے، سفر، میدانِ جنگ، حکومت و سیاست، مذہب و عبادت، خانگی معاملات، کاروبار، تعلیم و تعلم، خوشی و غمی، غرض زندگی کے ہر میدان میں نظم و ضبط کی پابندی کا حکم دیا ہے اور پیغمبرِ اسلام ﷺ نے اس سلسلے میں عام مصلحین اور قائدین کی طرح صرف زبانی تعلیمات اور ہدایات ہی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ ہر معاملے میں نظم و ضبط کو ملحوظ رکھ کر لوگوں کے سامنے ایک بہترین نمونہ چھوڑا اور سب سے زیادہ خود نظم و ضبط پر عمل کرکے دکھایا ہے۔ تعلیماتِ نبوی ﷺ میں نظم و ضبط پر کتنا زور دیا گیا ہے اور اس حوالے سے خود نبی اکرم ﷺ نے کیا عملی نمونہ پیش فرمایا ہے۔ اس کی چند جھلکیاں آئندہ سطور میں ہم پیش کرنے کی کوشش کریں گے:
1۔ نبی اکرم ﷺ اور نظم و ضبط
حضور نبی اکرم ﷺ کی پوری زندگی نظم و ضبط سے عبارت نظر آتی ہے۔ اتنی مربوط، منظم، مرتب، باقاعدہ اور نظم و نسق کی حامل زندگی انسانی تاریخ میں کہیں دکھائی نہیں دیتی۔ محدثین اور سیرت نگاروں نے آپ ﷺ کے شمائل، خصائل، عادات، شب و روز کے معمولات اور مصروفیات کی جو تفاصیل دی ہیں، ان میں ایک خاص ترتیب، باقاعدگی، مستقل مزاجی، ہر قیمت اور ہر حال میں نظم و ضبط کی سختی سے پابندی اور کسی بھی معاملے میں قطعاً کسی کوتاہی اور لاپرواہی کو برداشت نہ کرنے جیسی خوبیاں نظر آتی ہیں۔ اعلانِ نبوت کے بعد صرف 23 سال کے مختصر عرصہ میں دعوتِ توحید، تبلیغ و ترویجِ اسلام، تعلیم و تزکیہ نفوس، معاشرت، فتوحات، انسان سازی اور حکومت و سیاست کے میدان میں بے نظیر اور منفرد کامیابیوں میں جہاں اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت، آپ ﷺ کی تعلیمات، حسنِ اخلاق اور حسنِ تدبیر کا عمل دخل ہے وہاں یقینا اس ہمہ جہت کامیابی میں طہارت، اٹھنے بیٹھنے، چلنے پھرنے، کھانے پینے، ملنے جلنے، سلام دعا اور ملاقات جیسے معمولی مسائل سے لے کر مذہب، بین الاقوامی معاملات، عبادات، اخلاقیات اور حکومت و سیاست جیسے اہم مسائل میں حضور نبی اکرم ﷺ کی نظم و ضبط اور اصول و ضوابط کی پابندی کا بہت بڑا حصہ ہے۔ یہ اسی نظم و ضبط کی پابندی کا ہی نتیجہ اور اثر تھا کہ ایک دفعہ حضور نبی اکرم ﷺ نے مسجد میں کھڑے لوگوں سے جب یہ فرمایا کہ: اِجْلِسُوْا (بیٹھ جاؤ) تو حضرت عبداللہ بن مسعودؓ یہ حکم سن کر راستے میں ہی مسجد کے دروازے پر بیٹھ گئے۔(مشکوۃ المصابیح، کتاب الصلوۃ باب الخطبۃ والصلوۃ، ص124)
2۔ مجلسِ نبوی ﷺ کا نظم و ضبط
اللہ کریم نے قرآن مجید کی سورہ حجرات میں اہل ایمان کو مجلسِ نبوی ﷺ کے آداب اور نظم و ضبط کی تلقین فرمائی ہے۔ علاوہ ازیں باہر سے آنے والے لوگوں یا وفود کو چونکہ بارگاہِ نبوی ﷺ کے آداب اور نظم و ضبط کا علم نہ ہوتا تھا، اس لیے جب کوئی وفد حضور اکرم ﷺ سے ملاقات کے لیے مدینہ طیبہ پہنچتا تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ان کی طرف ایک خاص آدمی بھیجتے جو انہیں حاضری کے آداب بتاتا اور مطلوبہ نظم و ضبط کی تعلیم دیتا۔ چنانچہ تفسیر روح المعانی میں ہے:
وارسل الیهم ابوبکرؓ من یعلمهم کیف یسلمون ویامرهم بالسکینة والوقار عند رسول اللّٰه ﷺ.
(علامه آلوسی بغدادی، روح المعانی، الجزء السادس والعشرون، ص: 135)
’’حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ان لوگوں کی طرف ایسے آدمی کو بھیجتے جو انہیں اس امر کی تعلیم دیتا کہ انہیں کس طرح سلام کرنا ہے۔ نیز انہیں رسول اللہ ﷺ کے پاس سکینت اور وقار کو ملحوظ رکھنے کا حکم دیتا۔‘‘
محدثین نے حضور نبی اکرم ﷺ کے معمولاتِ ملاقات اور ملاقات کے وقت کے نظم و ضبط کی تفصیل بیان کرتے ہوئے لکھا ہے:
’’جو شخص حاضر ہونا چاہتا، دروازے پر کھڑے ہو کر پہلے السلام علیکم کہتا پھر پوچھتا کہ کیا میں اندر آسکتا ہوں؟ (آپ ﷺ خود بھی کسی سے ملنے جاتے تو اسی طرح اجازت مانگتے) کوئی شخص اس طریقے کے خلاف کرتا تو آپ ﷺ اس کو واپس کردیتے۔ ایک دفعہ بنو عامر کا ایک شخص آیا اور دروازہ پر کھڑے ہوکر کہنے لگا کہ کیا میں اندر آسکتا ہوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ جاکر اس کو اجازت طلبی کا طریقہ سکھا دو یعنی پہلے سلام کرکے پھر اجازت مانگتے ہیں۔
(ابوداؤد، السنن، کتاب الادب باب فی الاستیذان، رقم الحدیث: 5175)
مجلس نبوی ﷺ کے نظم و ضبط میں یہ بات بھی داخل تھی کہ جب ایک مسئلہ طے ہوجاتا تو دوسرا پیش کیا جاتا۔ بعض اوقات آپ ﷺ کی گفتگو جاری ہوتی اور اس دوران آدابِ مجلس سے ناواقف کوئی بدوی آکر اگر سوال کرتا تو آپ ﷺ گفتگو جاری رکھتے اور فارغ ہوکر اس کے سوال کا جواب دیتے۔
نبی رحمت ﷺ کی مجلس کے عام معمول یا نظم و ضبط میں یہ امر بھی داخل تھا کہ اگر پاس بیٹھنے والوں میں سے کسی کو کھانے پینے کی کوئی چیز عنایت فرماتے تو دائیں جانب بیٹھنے والے کو اس کا زیادہ حق دار سمجھتے ہوئے اسی کو دیتے اور اگر بائیں جانب بیٹھنے والے کسی بزرگ صحابی کو خلافِ قاعدہ دینا چاہتے تو دائیں طرف بیٹھنے والے اصولی حقدار سے اجازت طلب فرماتے اور یہ ترتیب ہمیشہ ملحوظ رہتی، چاہے بائیں طرف بیٹھنے والا آدمی کتنی ہی بڑی حیثیت والا ہوتا۔
(بخاری، الصحیح، کتاب الاشربة باب الایمن فالایمن فی الشرب، 2: 840)
3۔ گھریلو زندگی میں نظم و ضبط کا اہتمام
نبی کریم ﷺ کی پوری زندگی اور شب و روز میں نظم و ضبط کا اہتمام نظر آتا ہے۔ آپ ﷺ گھر کی چار دیواری کے اندر خلوت میں ہوتے یا باہر پبلک میں ہر جگہ ڈسپلن اور نظم و ضبط کو ملحوظ رکھتے۔ گھر کے اندر آپ ﷺ کے معمولات کی ایک جھلک ملاحظہ ہو:
آپ ﷺ نے اپنے گھر میں قیام کے وقت کو یا ایک روایت کے مطابق دن کو تین حصوں میں تقسیم کر رکھا تھا۔ ایک حصہ اپنے رب کی یاد کے لیے، دوسرا حصہ گھر والوں کے لیے اور تیسرا حصہ اپنی ذات (آرام وغیرہ) کے لیے مختص ہوتا تھا۔ پھر اپنے ذاتی وقت کو بھی اپنے اور لوگوں کے درمیان تقسیم کررکھا تھا۔ اس میں آپ ﷺ کا طریقِ کار یہ تھا کہ اہلِ علم و فضل کو آداب و اطوار سے روشناس کرانے کو ترجیح دیتے۔ دینی حالت و مرتبہ کے موافق ان کی تربیت میں اس وقت کو تقسیم کرتے۔ بعض کو ایک ضرورت لاحق ہوتی بعض کو دو اور بعض متعدد ضروریات میںمبتلا ہوتے۔ آپ ﷺ ان کے ساتھ مشغول ہوجاتے اور ان کو اصلاحی امور میں مصروف رکھتے اور ان کو مناسب احوال سے آگاہ کرتے اور ان کو مسائل سے باخبر کرکے فرماتے:
تم لوگ ایسے لوگوں کی حاجتیں (کام) مجھ تک پہنچاؤ جو کسی مجبوری کے سبب اپنی حاجت مجھ تک نہیں پہنچاسکتے۔جو شخص ایسے حاجت مند لوگوں کی حاجت مجھ تک پہنچائے گا جو اپنی حاجت میرے پاس نہیں لاسکتے ہیں تو وہ آدمی (سفارشی) قیامت کے دن ہر قسم کے خوف سے امن میں ہوگا۔
(قاضی عیاض، الشفاء بتعریف حقوق المصطفی، 1: 136)، (ابن کثیر، سیرة النبیؐ، 3: 327)
گھر کے نظم و ضبط میں یہ امر بھی داخل تھا کہ حضور نبی اکرم ﷺ جب غزوات وغیرہ کے سلسلے میں کسی سفر پر روانہ ہوتے اور کچھ دنوں کے لیے مدینہ منورہ سے باہر جاتے تو شہر اور گھر میں کسی صحابی کواپنا نائب مقرر فرماکر جاتے جو گھریلو معاملات اور امور کی نگرانی کرتا۔
4۔ میدانِ جنگ میں نظم و ضبط
تعلیمات نبوی ﷺ میں جب عبادات اور عام معاشرتی معاملات میں ہر جگہ نظم و ضبط کا لحاظ رکھا گیا ہے تو کیسے ممکن تھا کہ میدانِ جنگ میں جنگ کے وقت نظم و ضبط کو ملحوظ نہ رکھا جاتا۔ تمام غزوات نبوی ﷺ میں کس قدر نظم و ضبط کی سختی سے پابندی کی گئی۔ ڈاکٹر محمد حمیداللہ لکھتے ہیں:
’’عربوں میں صف بندی کا رواج نہ تھا۔ جوش کا بے وقت اور بے محل استعمال اور اسلحہ کا بیکار خرچ بھی عام چیز تھی۔ جنگ بدر ہی سے حضور نبی اکرم ﷺ نے اپنے سپاہیوں میں صف بندی شروع کردی تھی اور معائنے میں جو آگے پیچھے نظر آتا تھا، اسے درست کیا جاتا تھا (حوالہ ابن ہشام) فتح مکہ کے وقت توصف آرائی ایک مخصوص افسر کے سپرد ہوگئی تھی جو وازع کہلاتا تھا (حوالہ طبری)۔ ہر فوج کی مہم پر روانگی سے پہلے شہر کے باہر معائنہ (عرض) ہوتا تھا اور کم عمر رضا کار یا سواری اور اسلحہ نہ رکھنے والے یا اور طور پر نامناسب افراد (مثلاً مشرکین، یہودی وغیرہ) واپس کردیئے جاتے تھے۔ (حوالہ ابن سعد۔ ابن ہشام، طبری)۔ جنگ بدر میں صف آرائی کے بعد جو جامع ہدایات دی گئی تھیں، وہ یہ تھیں کہ جب تک میں حکم نہ دوں کوئی اپنی جگہ سے حرکت نہ کرے۔ دشمن دور ہو تو تیر چلا کر بے کار ضائع نہ کرے بلکہ زد پر آئے تو مارے۔ اس سے قریب آئے تو پتھر پھینک کر مارے۔ اس سے بھی قریب آئے تو نیزہ اور پھر تلوار چلائے۔ وردی کی غیر موجودگی میں اور شبخون کی ضرورتوں کے لیے سپاہیوں کے لیے شعار (واچ ورڈ) مقرر کیے گئے تھے اور ہر دو بدو مقابلے کے وقت سپاہی اسے دہراتا اور حریف وہ لفظ نہ دہرتا تو اطمینان ہوجاتا کہ وہ رفیق نہیں ہے بلکہ دشمن (حوالے ایضاً) خندق کے ذریعے محصور شہر کی مدافعت اسی اصول کی ایک دوسری مثال ہے۔ چنانچہ جنگِ خندق میں شہرِ مدینہ پر دشمن کو حملہ آور ہونے سے اسی کے ذریعے سے روک کر ناکام واپس کیا گیا۔‘‘
(ڈاکٹر محمد حمیدالله، عهد نبوی میں نظام حکمرانی، ص: 195۔ 196)
5۔ تفُّرد و تفُّرق ۔ ناپسند
کسی جگہ لوگوں کے الگ تھلگ متفرق انداز میں یا فرداً فرداً اور ٹولیوں کی شکل میں علیحدہ علیحدہ بیٹھنے میں جہاں ان کے درمیان باہمی اختلاف کا شبہ ہوسکتا ہے وہاں یہ ظاہری اعتبار سے بھی حسن و خوبصورتی، نظم و ضبط، جماعتی رعب و دبدبہ اور ترتیب کے بھی خلاف ہے۔ اس لیے نبی رحمت ﷺ نے ایسے مواقع پر بھی حسنِ عمل کا مظاہرہ کرنے کی ہدایت فرمائی۔ چنانچہ حضرت ابو ثعلبہ الخشنی کا بیان ہے کہ:
’’لوگ جب کسی جگہ پڑاؤ کرتے تو پہاڑی راستوں اور وادیوں میں الگ الگ ہوکر بیٹھ جاتے۔ یہ دیکھ کر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: بے شک تمہارا اس انداز میں راستوں اور وادیوں میں الگ الگ ہوکر بیٹھنا شیطان کی طرف سے ہے۔ اس کے بعد صحابہ کا یہ حال ہوگیا کہ وہ جس مقام پر بھی پڑاؤ کرتے، ایک دوسرے کے قریب ہوکر بیٹھتے حتی کہ یہ بھی کہا گیا کہ اگر ان پر کوئی ایک کپڑا ہی پھیلادیا جائے تو وہ سب پر پورا آجائے گا۔‘‘
(ابوداؤد، السنن، کتاب الجهاد باب مایومر من انضمام العسکر و سعة، 1: 377، رقم: 2628)
اسی طرح حضرت جابر بن سمرہؓ کا کہنا ہے کہ (ایک مرتبہ) اللہ کے رسول ﷺ مسجد میں داخل ہوئے تو لوگ مختلف حلقوں، ٹولیوں کی شکل میں الگ الگ بیٹھے تھے۔ یہ دیکھ کر آپ ﷺ نے فرمایا:
مالی اراکم عزین
’’کیا وجہ کہ میں تمہیں ایک مجلس میں جمع ہوکر بیٹھنے کی بجائے متفرق ٹولیوں کی صورت میں بیٹھے دیکھ رہا ہوں۔‘‘
(ابوداؤد، السنن، کتاب الادب باب فی التحلق، 2: 321، رقم: 4823)
رسول اکرم ﷺ نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو الگ الگ ٹکڑیوں کی شکل میں بیٹھے دیکھا تو اچھا نہ لگا اس لیے ہدایت فرمائی کہ قرینے سے مل کر اکٹھے ہوکر بیٹھو کیونکہ بعض دوسری احادیث کے مطابق ظاہری تفریق و تشتُّت کا اثر باطن پر بھی پڑتا ہے جبکہ مل کر اور ساتھ ساتھ بیٹھنے سے دلوں میں بھی قرب اور توافق پیدا ہوتا ہے۔
الگ الگ اور متفرق انداز میں بیٹھنے یا باہمی تفرقہ اور گروہ بندی کے نتیجہ اور انجام کی وضاحت کرتے ہوئے نبی رحمت ﷺ نے ایک حدیث میں فرمایا:
الشیطان ذئب الانسان کذئب الغنم یاخذ الشاة الشاذة والقاصیة والناحیة فعلیکم بالجماعة والالفة والعامة والمساجد و ایاکم والشعاب.
(الهندی، کنزالعمال فی سنن الاقوال والافعال، کتاب الایمان والاسلام، قسم الاقوال، 1: 116، رقم: 1023)
’’شیطان انسان کا (بھی) بھیڑیا ہے جس طرح بکریوں کا بھیڑیا ہے۔ وہ اس بکری کو پکڑ لیتا ہے جو (ریوڑ سے) الگ، اکیلی اور علیحدہ ہو۔ لہذا تمہارے اوپر لازم ہے کہ تم جماعت، باہمی الفت، عامۃ الناس اور مساجد کے ساتھ جڑے رہو (یعنی جماعتِ جمہور اور محلہ کی مسجد چھوڑ کر ڈیڑھ اینٹ کی الگ مسجد بنانے سے گریز کرو) اور گروہ بندی سے بچو۔‘‘
حضرت بُسر بن محجن اپنے باپ محجن سے روایت کرتے ہیں کہ وہ (محجن) ایک مجلس میں اللہ کے رسول ﷺ کے ساتھ تھے کہ نماز کے لیے اذان دی گئی تو اللہ کے رسول ﷺ کھڑے ہوگئے اور نماز پڑھائی۔ پھر آپ ﷺ واپس تشریف لائے مگر محجن آپ ﷺ کی مجلس میں بیٹھے رہے اور آپ ﷺ کے ساتھ نماز نہ پڑھی۔ یہ دیکھ کر اللہ کے رسول ﷺ نے تہدید آمیز انداز میں پوچھا:
مامنعک ان تصلی مع الناس؟الست برجل مسلم؟
لوگوں کے ساتھ نماز پڑھنے سے تجھے کس چیز نے روکے رکھا؟ کیا تو ایک مسلمان آدمی نہیں؟
انہوں نے عرض کیا: کیوں نہیں، یارسول اللہ ﷺ ! دراصل میں اپنے اہلِ خانہ میں نماز پڑھ چکا ہوں۔ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: جب تو (کسی مجلس میں) آئے تو لوگوں کے ساتھ نماز بھی پڑھ اگرچہ تو پہلے پڑھ چکا ہو۔
(مالک بن انس، الموطا، کتاب صلاة الجماعة باب اعادة الصلوة مع الامام، رقم: 298)
نظم و ضبط۔ مددِ الہٰی کا ذریعہ
10 ھ میں نجران سے قبیلہ بنو الحرث کا ایک وفد اسلام قبول کرنے کے بعد بارگاہِ نبوی ﷺ میں حاضر ہوا تو چونکہ یہ لوگ بڑے بہادر تھے اور مدِ مقابل پر ہمیشہ غالب رہتے تھے اس لیے آپ ﷺ نے ان سے دریافت فرمایا: تم کس بناء پر لوگوں پر غالب رہتے ہو؟ انہوں نے عرض کیا: ہم ہمیشہ متفق رہتے ہیں، آپس میں اختلاف نہیں کرتے اور نہ آپس میں ایک دوسرے پر حسد کرتے ہیں۔ کسی پر پہلے ظلم نہیں کرتے نیز سختی اور تنگی کے وقت صبر کرتے ہیں۔ آپ ﷺ نے (ان کی تائید کرتے ہوئے) فرمایا: تم سچ کہتے ہو۔
اس روایت سے مترشح ہوتا ہے کہ کسی بھی کام میں نظم و ضبط اور مطلوبہ اصول و قواعد کی پابندی اسباب کی دنیا میں مددِ الہٰی کے حصول کا ایک ذریعہ اور سبب بھی ہے۔ علامہ یوسف القرضاوی کہتے ہیں:
’’یہ امر محال ہے کہ اللہ تعالیٰ سرگرم عمل لوگوں کے مقابلے میں کاہلوں کی اور متحد و منظم لوگوں کے مقابلے میں ان لوگوں کی مدد فرمائے جو انتشار کا شکار ہوں۔ یہ سنتِ الہٰی کے خلاف ہے کہ وہ منظم گروہ کے مقابلے میں پراگندہ حال لوگوں کی اور منصوبہ بند لوگوں کے مقابلے میں بے پروا لوگوں کا مددگار ہو یا اپنی ملت کے غم میں فکر مند رہنے والوں کو چھوڑ کر وہ ان لوگوں کی مدد کو پہنچے جنہیں اپنے ذاتی مفاد کے سوا کسی چیز کی فکر دامن گیر نہیں ہوتی۔‘‘ (یوسف القرضاوی، غلبہ اسلام کی بشارتیں)
آج ہر میدان میں مسلمانوں کی پسماندگی کی ایک وجہ اس نظم و ضبط، اتحاد و اتفاق، محنت، اسلامی و انسانی خیر خواہی اور اس اخلاص کا فقدان بھی ہے جس کی اسلام نے تعلیم دی ہے۔
ماخوذ از ماہنامہ منہاج القرآن، ستمبر 2021ء
تبصرہ