تحریک منہاج القرآن کا فروغِ علم میں عالمگیر کردار
علی وقار قادری
اللہ تعالیٰ نے انسان کو ایک شاندار ترکیب پر پیدا کیا ہے۔ اس کی ذات کے تین نمایاں جزو ہیں: جسم، روح اور شعور۔ ان تینوں کی ترقی انسان کو کامل بنا تی ہے۔ جسم مضبوط ہو اور روح نہ ہو تو انسان مردہ کہلاتا ہے۔ جسم مضبوط ہو اور عقل نہ ہو تو پاگل کہلاتا ہے۔ کامل انسان اسی کو کہتے ہیں کہ جس کا جسم، روح اور عقل، تینوں چیزیں سلامت ہوں۔ جسم کی ترقی کا زیادہ انحصار انسانی محنت و مشقت پر نہیں بلکہ قدرتِ الہٰیہ کے مرہونِ منت ہے۔ ہم نے کھانا ہے اور ہمارے تمام اعضاء ایک خاص تناسب سے عمر کے ساتھ ساتھ بڑھتے جائیں گے۔ اس میں ہماری محنت کو دخل نہیں کہ ہم نے آنکھیں کتنی بڑی کرنی ہیں، ہاتھ کتنے بڑے کرنے ہیں، پاؤں کتنے بڑے کرنے ہیں۔ الغرض یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ نے ایک خاص نظام کے تحت ہم میں جاری و ساری کردیا ہے جو خود کار طریقے سے کار فرما رہتا ہے۔ مگر ہر عضو کی نشوونما کے لیے الگ محنت نہیں کرنا پڑتی۔
دوسراحصہ شعوری وجود کا ہے، جس کی نشوو نما کا کل انحصار ہماری محنت، ریاضت اور جدوجہد پر ہے۔ یہ خود کار طریقے سے افزائش نہیں پاتا۔ جتنی ذہنی ریاضت ہوگی اتنی ہی شعوری نشوونما ہوگی۔ یہ حصہ کلیتاً انسان کے کسب سے متعلق ہے۔ انسانی معاشروں میں شعور کی ترویج کی اس جہت پر شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا کردار لازوال،متنوع،کثیر الجہتی اور اعلیٰ سطح پر قائم ہے۔ انسانی نشوونما کا جو پہلو انسان کے ذمہ رکھا گیا تھا اس کی تعمیر و ترقی کا انحصار انسانیت کے رہنماؤں پر ہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری تمام حدود و قیود سے بالا تر ہو کر ہر طبقہ کے لیے شعوری بالیدگی کاسامان مہیا فرما رہے ہیں۔
اصلاحِ امت کے لیے آپ کی خدمات کسی ایک جہت میں مقید نہیں بلکہ ہمہ جہت ہیں۔ اسی بنا پر تحریک منہاج القرآن کو رسول نما تحریک کہا گیا ہے۔ تحریک منہاج القرآن اور قائد تحریک کی پہچان و شناخت کے لیے اس سے زیادہ بہترین اصطلاح نہیں ہو سکتی۔ رسول نئی شریعت کے ساتھ انسانیت کی ہمہ جہت اصلاح کے لیے مبعوث ہوتے ہیں، جبکہ نبی پہلے سے موجود شریعت کی اتباع میں اُن اقدار کے احیاء کے لیے تشریف لاتے ہیں جو اپنی اصل کھو چکی ہوں۔ یہی فرق ہے رسول نما تحریک اور عام اصلاحی تحریک میں۔ رسول نما تحریک کا منصب زندگی کے ہر شعبہ کی اصلاح ہوتا ہے۔ تحریک منہاج القرآن اور شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے گزشتہ چاردہائیوں کے کام کا جائزہ لیں تو شاید ہی زندگی کا کوئی شعبہ ایسا ہو جس میںقومی اور بین الاقوامی سطح پر آپ کی طرف سے قابلِ ذکر حصہ نہ ڈالا گیا ہو۔
یہ عالمگیر کام علم، شعور، آگہی، حکمت، دانش اور تدبر سے عبارت ہے۔ اس عالمگیر کام کے لیے آپ نے ابتدائی طور پر علم کے فروغ کے لیے نہایت قابلِ ذکر مساعی کیں جن سے صرف ایک دہائی میں دنیا کے کونے کونے سے آپ کے عشاق، تشنگانِ علم ودانش سمٹتے چلے آئے اور یوں اہلِ دانش و محبین کا ایک ایسا طبقہ میسر آیا جن کی اخلاقی طور پر تربیت کر کے تعلیمی انقلاب کے عظیم مقصد کے لیے افراد تیار کیے جاسکیں۔ یہ لوگ صرف دینی طبقہ سے ہی تعلق نہیں رکھتے تھے بلکہ زندگی کے تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والے اہلِ فکر و دانش تھے۔ اس طر ح سے علم ودانش کی وہ سلطنت جس کو آپ قائم فرماکر جہالت زدہ معاشرے کو علم کے نور سے منور کرنا چاہتے تھے، اس کی بنیادیں ڈالی جاچکی تھیں۔ ان بنیادوں پر دیواروں کا کام آپ کے سحر انگیراور پُرمغز خطابات نے کیا۔ آپ کا تکلم، الفاظ کا چناؤ، معانی میں گہرائی وگیرائی، دلفریب انداز اور وسعتِ علمی نے لوگوں کو آپ کے خطابات کا ایسا گرویدہ کردیا کہ جو سنتا سر دھنتا چلا جاتا۔ چند ہی سالوں میں ایک دنیا آپ کے سحر میں مبتلا ہوچکی تھی۔ ان دیواروںپر چھت کا کام آپ کی شاندار، بامقصد اور پر اثر کتب نے کیا، جو دیکھتے ہی دیکھتے اہلِ فکر کے افکار پرچھا گئیں۔
یہ سفر یہیں ختم نہ ہوا بلکہ اپنے علمی و الہامی افکار کے فروغ اور اشاعت کے لیے آپ نے باقاعدہ تعلیمی اداروں کی بنیاد رکھی جس میں ہر سطح کی تعلیم دی جا رہی ہے۔ پاکستان میں بالخصوص اور دنیا میں بالعموم آپ کے قائم کردہ تعلیمی ادارے شعور وآگہی کے فروغ میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ ان ادارہ جات کی تفصیل یوں ہے:
1۔ منہاج یونیورسٹی کا قیام
منہاج یونیورسٹی لاہور (MUL) اپنے شاندار ڈگری پروگرامز، محنتی اور تجربہ کار تدریسی عملہ، معیاری تعلیم و تربیت اور صاف ستھرے ماحول کے باعث اِس وقت پرائیویٹ سیکٹر میں تیز ی سے ترقی کرنے والی یونیورسٹی ہے۔ منہاج یونیورسٹی ہر سال مستحق طلبہ و طالبات کو کروڑوں روپے کا سکالر شپس کی صورت میں مالی ریلیف بھی مہیا کرتی ہے۔ منہاج یونیورسٹی لاہور پرائیویٹ سیکٹر کی واحد یونیورسٹی ہے جس میں اِنتہا پسندی کے خاتمے اور بین المذاہب رواداری کے فروغ کے لیے School of Peace اور Counter-Terrorism اور تصوف کے شعبہ جات قائم کیے گئے ہیں۔ یہ ڈگری پروگرامز نوجوانوں اور مختلف شعبہ جات میں خدمات انجام دینے والے پروفیشنلز میں بڑی تیزی سے مقبول ہو رہے ہیں۔
منہاج یونیورسٹی گزشتہ کئی سالوں سے بین المذاہب ہم آہنگی،اسلامک بنکنگ اینڈ فنانس جیسے اہم عصری مسائل پر بین الاقوامی کانفرنسز کرا رہی ہے جس میں دنیا بھر کی یونیورسٹیز کے ماہرین شریک ہوتے ہیں۔
2۔ نظام المدارس کا قیام
یہ کام کئی صدیوں سے امت کے اہلِ دانش پر فرض تھا مگر یہ دہائیوں تک نظر انداز ہوتا رہا۔ ہمارے مدارس کا نظامِ تعلیم، نصاب منہجِ قدیم پر ہونے کے سبب جدید ضروریات سے مطابقت نہ رکھتا تھا۔یہی وجہ تھی کہ علمِ دین پڑھ کر ،کئی سال قرآن و سنت سے وابستہ رہ کر بھی بندہ معاشرے میں کوئی بلندمنصب حاصل نہیں کر سکتا تھا کیونکہ مدارس کی تعلیم ان پہلوؤں کے لحاظ سے طلبہ کو تیار نہ کرتی تھی۔ دوسرا پہلو یہ تھا کہ مدارس کا نصاب طلبہ کے اذہان کو ایک خاص حد میں بندکر دیتا تھا اور توسع و افزونی جو شعورِ انسانی کا بنیادی خاصہ ہے، اس کی مناسب افزائش نہ ہو پاتی تھی۔ تیسرا یہ کہ ان مدارس کے فارغ التحصیل طلبہ جدید علوم سے بالکل ناواقف ہوتے تھے۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے نظام المدارس کی بنیاد رکھ کر اس کمی کو پورا کر دیا ہے۔ نظام المدارس کا نصاب نہایت جامع اور متنوع ہے۔ اس میں قدیم علوم کے ساتھ ساتھ جدید علوم، فکری نشوونما کے لیے مناسب مواد اور معاشرے سے ہم آہنگ بنانے کا مکمل سامان موجود ہے۔
ابھی نظام المدارس کی بنیاد رکھے چند ماہ ہوئے کہ 1200 سے زائد مدارس نے نظام المدار س کے ساتھ الحاق کر لیا ہے۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ایک Missing Link تھا جس کو محسوس سب کر رہے تھے لیکن پورا شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے کیا۔
3۔ کالج آف شریعہ اینڈ اسلامک سائنسز
منہاج القرآن کے زیرِ اِہتمام تعلیمی شعبہ میں منفرد خدمات انجام دینے والا بڑا تعلیمی ادارہ کالج آف شریعہ اینڈ اسلامک سائنسز اور جامعہ اسلامیہ منہاج القرآن ہے۔ کالج آف شریعہ اینڈ اسلامک سائنسز کا لاہور بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن، منہاج یونیورسٹی لاہور اور عالم اِسلام کی ممتاز یونیورسٹی جامعۃ الازہر مصر سے اِلحاق ہے۔ کالج آف شریعہ اینڈ اسلامک سائنسز میں علومِ شریعہ کے ساتھ ساتھ جدید عصری علوم بھی پڑھائے جاتے ہیں۔
یہاں کا فارغ التحصیل بیک وقت دینی اسکالر بھی ہوتا ہے اور کامرس، آئی ٹی اور اسلامی معاشیات کا ماہر بھی ہوتا ہے۔ یہاں کے فارغ التحصیل اسکالرز اس وقت پاکستان سمیت دنیا کے 90 ممالک میں بطور پروفیشنلز مختلف اداروں میں کلیدی عہدوں پر شاندار ذمہ داریاں انجام دے رہے ہیں۔
4۔ منہاج ایجوکیشن سوسائٹی کا قیام
تعلیم سے متعلق حکومتوں کی غیر سنجیدگی ،بے حسی اور جاری نظام تعلیم میں عدمِ مقصدیت ایسے عناصر ہیں جس نے شیخ الاسلام کو منہاج ایجوکیشن سوسائٹی کے قیام کی طرف متوجہ کیا۔1994ء میں باقاعدہ منہاج ایجوکیشن سوسائٹی کا قیام عمل میں لایا گیا اوربامقصد،معیاری،غیر منافع بخش، جدید اور اسلامی تعلیم کے امتزاج پر مبنی ادارہ معرض وجود میں آیا۔ منہاج ایجوکیشن سوسائٹی کے تحت ملک بھر میں چھ سو سے زائدتعلیمی ادارے کام کر رہے ہیں جن میں ڈیڑھ لاکھ سے زائد طلبہ زیرِ تعلیم ہیں اور دس ہزار سے زائد (اساتذہ و دیگر افراد) کا روزگار وابستہ ہے۔ گزشتہ 25سالوںمیں کم وبیش دو لاکھ سے زائد طلبہ وطالبات سکولنگ کے بعد اعلیٰ تعلیم اور بعض اعلیٰ عہدوں پر ملک و قوم کی خدمت کر رہے ہیں۔ منہاج ایجوکیشن سوسائٹی ہر سال ہزاروں قابل اور غریب طلبہ کو وظائف دیتی ہے جو کیش، کتب، یونیفارم اور فیس معافی کی صورت میں ہوتے ہیں۔ MES سالانہ بنیادوں پر پورے ملک میں لگ بھگ دو کروڑ کے تعلیمی وظائف دیتی ہے۔
منہاج ایجوکیشن سوسائٹی کا نصاب شیخ الاسلام کی تعلیماتِ امن و آشتی کا عکاس ہے۔ MES کے سکولز میں جدید تعلیم کے ساتھ ساتھ اسلامیات کا جامع نصاب پڑھایا جاتا ہے۔ہر کلاس میں القرآن، الحدیث، الفقہ اور تاریخِ اسلام کے عناوین سے اسباق ترتیب دیئے گئے ہیں جو بچے کے عقیدۂ محبتِ الہٰی، عشق و ادبِ رسالتِ مآب ﷺ ، اہلِ بیتِ کرام و اصحابِ رسول ﷺ کی تعظیم، اولیاء وصالحین کا ادب اور اعلیٰ تر علمی استنباطات و استدلالات کا مجموعہ ہیں۔ ساتھ ہی اردو ریڈر کے عنوان سے انبیائے کرامf، اہلِ بیت واصحاب رسول ﷺ کی مبارک زندگیاں کہانی کے انداز میں بچوں کو پڑھائی جاتی ہیں تاکہ ابتدائی سطح سے ہی بچہ اپنے لیے صحیح آئیڈیل کا تعین کر سکے۔ ابتدائی کلاسز میں قرآنی قاعدہ شاملِ نصاب ہے۔ اس کے ساتھ تعلیم القرآن کے عنوان سے قرآن مجید کا متن لفظی و بامحاورہ ترجمہ کے ساتھ پڑھایا جاتا ہے تاکہ بچے پر تفہیمِ مفردات کا دروازہ کھلے اور قرآن مجید کو براہِ راست سمجھنا شروع کرے۔ یہ نصاب شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری اور چیئرمین ڈاکٹر حسین محی الدین قادری کی طرف سے اس ملک کے تعلیمی نظام پر ایک احسان ہے۔
5۔ لارل ہوم انٹرنیشنل سکولز کا قیام
یہ جدید ڈیجیٹل CMS پر مبنی نظامِ تعلیم ہے جو جدید ترین تدریسی منہج کے ساتھ ساتھ دینی ،اخلاقی اوراعتقادی قدروں کا بھی ضامن ہے۔ اس میں جدید تعلیم کے ساتھ ساتھ اسلامیات کا جامع نصاب پڑھایا جاتا ہے۔ ہر کلاس میں القرآن، الحدیث، الفقہ اور تاریخ اسلام کے عناوین سے اسباق ترتیب دیئے گئے ہیں جو بچے کے عقیدۂ محبت الہٰی، عشق و ادب رسالت مآب ﷺ ، اہل بیت کرام واصحاب رسول کی تعظیم، اولیاء وصالحین کا ادب اور اعلیٰ تر علمی استنباطات اور استدلالات کا مجموعہ ہیں۔ یہ فرنچائز ماڈل ہے۔ محض تین سالوں میں اس کے تحت چلنے والے سکولز کی تعداد سو سے بڑھ چکی ہے۔
لارل ہوم سکولز میں بچوں کی اخلاقیات کو پروان چڑھانے کے لیے Character based activity Calendar متعارف کروایا گیا ہے۔ یہ کیلنڈر ہر ماہ کی ایک قدر متعین کرتا ہے اور پھر اس ماہ کے چارہفتوںمیں اس قدر کو بچے کی شخصیت کا حصہ بنانے کے لیے سرگرمیاں کرائی جاتی ہیں۔ اس کیلنڈر میں اہم ترین اقدار میں سے سچائی، دیانت، خدمتِ خلق اور ادب شامل ہیں۔ ان اقدارکے احیاء کے ذریعے لارل ہوم سکولز معاشرے کو سچے، دیانتدار، مخلص اور باادب افراد دینے کا کام کر رہا ہے۔
6۔ منہاج کالج برائے خواتین کا قیام
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے 1996ء میں منہاج کالج برائے خواتین کی بنیاد رکھی۔ آپ کا پہلے دن سے یہ موقف ہے کہ خواتین کو زندگی کے ہر شعبہ میں نمائندگی دی جائے۔ جہاں تک تعلیم و تعلم کا تعلق ہے تو اس کو آپ لازمی قراردیتے ہیں۔ ماں تعلیم و تربیت سے آشنا ہوگی تو پوری نسل کی تربیت درست ہوگی۔
اسی ضرورت کے تحت آپ نے کم وبیش چار دہائیاں قبل جب تحریک منہاج القرآن کی بنیاد رکھی تو ساتھ ہی ویمن لیگ کا فورم قائم فرمایاجس پر اس وقت کے تنگ نظر لوگوں نے فتوے لگائے، مگر شیخ الاسلام کی نگاہ کئی دہائیاں آگے دیکھتی ہے۔ آج وہی لوگ اس ضرورت کے قائل ہوگئے ہیں۔
منہاج کالج برائے خواتین کا امتیاز یہ ہے کہ اس میں جدید تعلیم اور دینی علوم کاشاندار امتزاج پایا جاتا ہے۔یہ ادارہ بچیوں کے لیے انٹرمیڈیٹ (ایف اے،آئی سی ایس،آئی کام) کے ساتھ ساتھ الشہادۃ الثانویۃ کی سند بھی مہیا کرتا ہے، گریجویٹ (بی ایس) کے ساتھ لازمی تعلیم کے طور پر الشہادۃ العالیۃ اور ماسٹر کی پروفیشنل ڈگری کے ساتھ الشہادۃ العالمیۃ کی ڈگری بھی مہا کرتا ہے۔ یعنی منہاج گرلز کالج کی ہر سٹوڈنٹ بیک وقت دینی و عصری علوم حاصل کرتی ہے۔ اس کے علاوہ ایم فل پروگرام اور بہت سے شارٹ کورسز کا بھی وقتاً فوقتاً انعقاد کیا جاتا ہے۔
منہاج کالج برائے خواتین میں سیکڑوں طالبات زیرِ تعلیم ہیں اور اب تک اس کالج سے فراغت پانے والی خواتین کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ پاکستان جیسے ترقی پذیراور مذہبی طور پر تنگ نظر اور متشدد معاشرے میں دین دنیا کے امتزاج والی خواتین کی اتنی بڑی تعداد پیدا کرنا یقینا پاکستان پر اور اہلِ پاکستان کی آئندہ نسلوں پرشیخ الاسلام کا بہت بڑا احسان ہے۔ منہاج کالج برائے خواتین کے ذریعے شعورو آگہی کے فروغ اور شرح خواندگی میں اضافہ بھی خاطر خواہ حدتک ہو رہا ہے کیونکہ ایک عورت کو شعور دینا صرف ایک عورت کو نہیں بلکہ کئی نسلوں کو شعور دینا ہے۔
7۔ آغوش آرفن کئیر ہوم کا قیام
اہلِ پاکستان کے لیے شیخ الاسلام کا یہ ایک ایسا تحفہ ہے جس کا کوئی نعم البدل نہیں ۔آغوش کمپلیکس میں چار ادارے کام کر رہے ہیں۔
- آغوش آرفن کئیر ہوم
- تحفیظ القرآن
- آغوش گرائمر سکول
- منہاج کالج آف مینجمنٹ اینڈ ٹیکنالوجی
آغوش آرفن کئیر ہوم کا قیام 2005ء میں شیخ الاسلام کے دستِ مبارک سے عمل میں آیا۔ یتیم اور غریب بچوں کی تعلیم و تربیت کے لیے یہ پروجیکٹ بے مثال ہے۔یہ یتیم بچوںکے لیے بہترین رہائش،معیاری تعلیم،اچھی خوراک،مناسب لباس اور شاندار تربیت کا ضامن ہے۔ اس کا مقصد ایسے بچوں میں احساس کمتری کو ختم کر کے، تعلیم وتربیت کے ذریعے ان کی صلاحیتوں کو اجاگر کرنا ہے تاکہ وہ معاشرے کے دیگر طبقات کے ساتھ برابری کی سطح پر زندگی گزاریں اور معاشرے کے مفید اور کار آمد فر د بن سکیں۔ الحمدللہ سیکڑوں بچے آغوش کی آغوش میں تعلیم یافتہ ہو کر باعزت زندگی گزار رہے ہیں۔
گزشتہ 15 سالوں میں آغوش نے 1048خاندانوں کے چشم و چراغ سڑک سے اٹھا کر تعلیم وتربیت کے مراحل سے گزار کر باوقار فرد بنا دیئے ہیں۔ شیخ الاسلام کا یہ پاکستان کی شرح خواندگی کے اضافہ میںبھی شاندار حصہ ہے اور کرائم ریٹ کو کم کرنے میں بھی شاندار حصہ ہے۔ ان بچوں کی تعلیم نے 1000 سے زائد خاندانوں کو معیاری زندگی بھی عطا کر دی۔ یہ پروجیکٹ معاشرے کے بے یارومدد گار اور پسے ہوئے طبقے کو شعور و آگاہی اور خواندہ کرنے کے حوالے سے بے مثال ہے۔
8۔ انسدادِ دہشت گردی اور فروغِ امن کیلئے جدوجہد
شیخ الاسلام نے قومی اور بین الاقوامی سطح پر قیامِ اَمن کے لیے فکری، تحریری اور تقریری ہر میدان میں فقید المثال خدمات انجام دی ہیں اور اپنی تصنیفات و تالیفات اور خطابات کے ذریعے دنیا کو باور کروایا ہے کہ اِسلام اِنتہا پسندی کا نہیں بلکہ اَمن و محبت، اِعتدال و میانہ روی اور ہم آہنگی و رواداری کا دین ہے۔
خدمتِ اِنسانیت کے اِس باب میں چھ سو صفحات پر مشتمل اِنسدادِ دہشت گردی کا فتویٰ شیخ الاسلام کی ایک ایسی علمی و فکری کاوش ہے جسے اپنوں اور پرایوں سبھی نے بے حد سراہا ہے۔
تحریکِ منہاج القرآن کے پلیٹ فارم سے 40 سے زائد کتب پر مشتمل فروغِ اَمن اور اِنسدادِ دہشت گردی کا اِسلامی نصاب مرتب کیا گیا ہے جس کا برملا اِعتراف عالمِ اِسلام کی سب سے بڑی نمائندہ تنظیم OIC کی طرف سے بھی کیا گیا ہے۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی فروغِ اَمن کی کاوشوں کے نتیجے میں مغربی دنیا نے اِسلام کے اَمن بیانیہ کو پذیرائی دی اور امریکہ میں شیخ الاسلام کے اَمن بیانیے کو نصاب میں شامل کیاگیا ہے۔ یہ کسی ایک فرد یا ادارے کی نہیں بلکہ پورے عالم اِسلام کی سعادت و کامرانی ہے۔ تحریکِ منہاج القرآن کو اَقوامِ متحدہ (UN) میں خصوصی مشاورتی درجہ بھی حاصل ہے۔
9۔ عالمگیر تعلیمی، دعوتی انفراسٹرکچر
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے پاکستان اور بیرونِ پاکستان پوری دنیا میں اِسلامی مراکز، کمیونٹی سینٹرز اور تعلیمی اِدارہ جات قائم کیے ہیں جو مقامی آبادی کو علم و حکمت کے نور سے منوّر کرتے ہوئے ان کی فکری اور اَخلاقی و رُوحانی اِصلاح کا فریضہ بخوبی نبھا رہے ہیں۔ یہ سلسلہ جاپان اور آسٹریلیا سے لے کر یورپ کے بیشتر ممالک سمیت امریکہ تک پھیلا ہوا ہے۔
10۔ بیداریٔ شعور
اہلِ پاکستان میں بالخصوص اور پوری امت مسلمہ میں بالعموم بیداریٔ شعور کے حوالے سے کام شیخ الاسلام کے عظیم مشن کا ہمیشہ سے بنیادی ستون رہا ہے۔ آپ سیاسی، مذہبی، معاشرتی اور روحانی،الغرض ہر سطح پر بیداریٔ شعور کے خواہاں ہیں اور اس کے لیے حتی الوسع مساعی کر رہے ہیں۔ معاصرین کا آپ سے بڑا اختلاف ہی یہ ہے کہ آپ و ہ سربناتے ہیں جسے جھکنا نہیں آتا۔ بیداری شعور کا یہ عظیم کام گزشتہ 41 سال سے تحریکی و انقلابی جدوجہد کا جزولاینفک ہے۔ مختلف حالات میں اس کے لیے آپ مختلف انداز اپناتے رہے، کہیں یہ کام علم کو عام کر کے کیا، کہیں یہ کام پسے ہوئے طبقہ کے لیے آواز اٹھا کر اور اسے اس کے حقوق کا احساس دلا کر کیا، کہیں یہ کام 1000سے زائد کتب لکھ کر امت کو اس کے اصل اثاثہ سے جوڑنے کی صورت میں کیا،کہیں یہ کام نوجوانوں کو شدت پسندی سے بچانے کی صورت میں کیا۔ اِسی سلسلے میں 10 سال قبل ملک گیر سطح پر بیداریِ شعور کی باقاعدہ مہم کا آغاز کیا گیا تھا۔ بیداریِ شعور کی اس تحریک کا مقصد عوام کو درپیش مسائل اور چیلنجز سے آگاہ کرنا اور ان کے حل کے لیے جد و جہد پر آمادہ کرنا ہے۔ کسی بھی معاشرے میں اس وقت تک تبدیلی نہیں آسکتی جب تک قوم تبدیلی کی ضرورت اور اس کے تقاضوں سے مکمل طور پر آگاہ نہ ہو۔ آپ کے نزدیک مجموعی طور پر چار بنیادی اُمور تبدیلی اور بیداریٔ شعورکا تقاضا کرتے ہیں:
1۔ یہ ایک منتشر (scattered) اور پارہ پارہ قوم ہے جسے اتحاد اور یگانگت کی سخت ضرورت ہے تاکہ دوبارہ وحدت کے رشتے میں پروئی جائے۔ مگر یہ کیسے ممکن ہے؟ اس کے لیے حقیقی تبدیلی کی ضرورت ہے۔
2۔ پاکستانی قوم مایوسی کے گرداب میں دھنستی جا رہی ہے، اسے یاس و ناامیدی کی دلدل سے نکال کر امید اور یقین کے نور سے بہرہ ور کرنے کی ضرورت ہے لیکن اس کے لیے بھی حقیقی تبدیلی کی ضرورت ہے۔
3۔ بدقسمتی سے ہماری قوم بے مقصدیت کا شکار ہوگئی ہے۔ اِس کے سامنے ایسا کوئی نصب العین نہیں جو ٹکڑوں میں بٹ کر منتشر ہو جانے والے جتھوں کو ایک اکائی میں پرو کر متحد کرسکے جو سب کو بحیثیت ایک قوم کے جینے اور ترقی کرنے کا سلیقہ سکھا سکے۔ بے مقصد قوم کو مقصدیت کا شعور دینے کے لیے حقیقی تبدیلی کی ضرورت ہے۔
4۔ ہماری قوم بے سمت ہوگئی ہے۔ کراچی سے خیبرپختونخواہ تک اور کشمیر سے چمن کی سرحدوں تک من حیث القوم اس کی کوئی سمت ہی نہیں رہی۔ اس کی سوچیں، وفاداریاں، مفادات، ترجیحات اور ایجنڈے سب متضاد ہیں۔ بائیس کروڑ عوام کا بے ہنگم ہجوم ایک قوم، ایک وحدت اور اکائی بن کر ایک مقصد کے ساتھ ایک سمت کی طرف چل پڑے؛ لیکن یہ کیسے ممکن ہوگا؟ اس کے لیے ایک ہمہ گیر تبدیلی کی ضرورت ہے۔
انتشار، مایوسی، بے مقصدیت اور بے سمتی میں مبتلا قوم مجموعی طور پر اکثر شعبہ ہائے حیات میں زوال پذیر ہوتی جا رہی ہے اگرچہ انفرادی اور گروہی طور پر اس کی کارکردگی قابلِ رشک ہے۔
تحریکِ منہاج القرآن اپنے قیام کے وقت سے ہی قوم کو مقصدیت سے رُوشناس کرانے کے لیے سرگرمِ عمل رہی ہے۔ اس کے لیے اس کے بانی قائد اور سرپرستِ اَعلیٰ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے ہر طبقۂ فکر کو مخاطب کرتے ہوئے اپنا پیغام ان تک پہنچایا۔ تحریکِ منہاج القرآن کے پلیٹ فارم پر مختلف فورمز کا قیام عمل میں لایا گیا۔ مثال کے طور پر نوجوانوں تک پیغام پہنچانے اور انہیں مقصدیت سے آگاہ کرنے کے لیے منہاج القرآن یوتھ لیگ (MYL) اور طلبہ و طالبات کے لیے مصطفوی اسٹوڈنٹس موومنٹ (MSM) قائم کی گئیں۔ پاکستان کی نصف سے زائد آبادی کو اس کی ترقی میں عملی طور پر شریک کرنے کے لیے منہاج القرآن ویمن لیگ (MWL) قائم کی گئی۔ مذہبی اسکالرز کو ایڈریس کرنے کے لیے منہاج القرآن علماء کونسل (MUC) قائم کی گئی، جس کے تحت ہر مسلک کے علماء اور سرکردہ قائدین تک پاکستان کی ترقی اور مذہبی ہم آہنگی کا ایجنڈا زیر بحث لایا گیا اور مذہبی سطح پر طاری جمود ختم کرنے کے لیے عملی کاوشیں کی گئیں۔ سیاسی جد و جہد اور سیاسی سطح پر عوام میں بیداریِ شعور کے لیے پاکستان عوامی تحریک (PAT) قائم کی گئی۔ دیگر مذاہب کے ساتھ ہم آہنگی کے فروغ اور بین المذاہب عدمِ برداشت کا رجحان ختم کرنے کے لیے Directorate of Interfaith Relations خدمات سرانجام دے رہا ہے۔ اسی طرح تعلیمی سطح پر زوال اور جمود ختم کرنے کے لیے منہاج ایجوکیشن سوسائٹی کے تحت اس وقت تک 600 سے زائد اسکولز اور کالجز قائم کیے جاچکے ہیں جہاں مذہبی و غیر مذہبی ہر دو علوم کی تدریس کی جاتی ہے۔ منہاج یونیورسٹی لاہور اپنی نوعیت کا پہلا اداراہ ہے جہاں قدیم و جدید علوم کی بیک وقت تعلیم دی جاتی ہے۔ علاوہ ازیں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی اردو، انگریزی، عربی اور دنیا کی دیگر زبانوں میں ایک ہزار تالیفات میں سے 600 سے زائد کتب طبع ہوچکی ہیں جب کہ سیکڑوں موضوعات پر دس ہزار سے زائد خطابات موجود ہیں تاکہ قوم زیورِ علم سے آراستہ ہوکر ہر سطح پر شعور و آگہی کی دولت سے مالا مال ہو۔
لہٰذا یہ کہنا قطعاً بے جا نہ ہوگا کہ پاکستان کی تاریخ میں تحریک منہاج القرآن ہی وہ تحریک ہے جس نے سب سے پہلے بیداریٔ شعور کے لیے فی الواقع تمام مفادات سے بالا تر ہو کر صرف اور صرف انسانیت، اسلام اور پاکستان کے لیے کام کیا۔
ماخوذ از ماہنامہ منہاج القرآن، اکتوبر 2021ء
تبصرہ