انسان پیدائش سے موت تک جماعتی نظم کا محتاج ہے
تحریم رفعت
انسان ہمیشہ سے مدنی الطبع رہا ہے اور اپنی فطرت میں پیدائش سے لے کر موت تک جماعتی زندگی کا محتاج ہے۔ معاشرے کا ہر فرد دوسرے فرد کی زندگی پر اثر انداز بھی ہوتا ہے اور ان سے متاثر بھی ہوتا ہے۔ معاشرتی استحکام اور بقا کا انحصار اللہ رب العزت کے وضع کردہ لافانی اور غیر متزلزل اصول و قوانین کی پیروی میں مضمر ہے، جہاں انسان اللہ تعالیٰ کے وضع کردہ اصولوں سے منحرف ہو کر بزعم خود مختار بنا اور خود عدل و انصاف کرنا چاہا وہیں سے انسان کا زوال شروع ہو جاتا ہے اور تب نہ تو کوئی مستقل اصول باقی رہتا ہے اور نہ ہی عدل و انصاف و راستی معاشرے میں باقی رہتی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے انصاف کے جو قوانین انسانیت کیلئے وضع کیے ہیں وہی قوانین اور ان کی من و عن پیروی ہی انسان کے گلشن ہستی کی ضمانت ہیں۔ ہم جب بھی اقوام عالم کی دستاویزات و دساتیر کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہر معاشرے میں جھوٹے امتیازات اور ظالمانہ مراعات کے صنم کدوں کے گرد درباری لوگ فرط محبت و عقیدت میں محو طواف نظر آتے ہیں۔ انسانی معاشرے کی بقا کا جو جامع نظریہ اسلام نے پیش کیا ہے دیگر مذاہب و ادیان عالم اس کی نظیر پیش کرنے سے قاصر ہیں، ہادی برحق حضور نبی اکرم ﷺ کی ذات مبارکہ اس اسلام کے عدل و انصاف کا کامل ترین نمونہ ہے جس کی نظیر دنیا کے قدیم و جدید دساتیر اور مجموعہ ہائے قوانین پیش نہیں کر سکتے۔
دین اسلام قیام امن عالم کا سب سے بڑا داعی ہے جس کی سب سے اہم کڑی عدل و انصاف کا پختہ اور واضح نظام قانون ہے۔ اسلام فقط مساوات کا ہی نہیں بلکہ عدل و انصاف کا بھی دین ہے۔ اسلامی عدل و انصاف کے قوانین کی نظر میں تمام ابن آدم شرف انسانی میں برابر ہیں خواہ ان کا تعلق کسی بھی مذہب، جنس و زبان، رنگ و نسل اور قبیلہ و برادری سے کیوں نہ ہو۔ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
إِنَّ اللّٰهَ یَأْمُرُکُمْ أَن تُؤَدُّواْ الْأَمَانَاتِ إِلَی أَهْلِهَا وَإِذَا حَکَمْتُم بَیْنَ النَّاسِ أَن تَحْکُمُواْ بِالْعَدْلِ إِنَّ اللّٰهَ نِعِمَّا یَعِظُکُم بِہِ إِنَّ اللّٰهَ کَانَ سَمِیعًا بَصِیرًا.
(النساء، 4: 58)
بے شک اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں اُنہی لوگوں کے سپرد کرو جو ان کے اَہل ہیں، اور جب تم لوگوں پر حکومت کرو تو عدل و انصاف کے ساتھ کیا کرو (یا: اور جب تم لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل و انصاف کے ساتھ فیصلہ کیا کرو)۔ بے شک اللہ تمہیں کیا ہی اچھی نصیحت فرماتا ہے، بے شک اللہ خوب سننے والا خوب دیکھنے والا ہے۔
ایک اور مقام پر ارشاد باری تعالیٰ ہے:
إِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ.
(المائدة، 5: 42)
بیشک اللہ عدل کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
إِنَّ الْمُقْسِطِیْنَ عِنْدَاللّٰهِ عَلیٰ مَنَابِرَ مِنْ نُوْرٍ عَنْ یَمِیْنِ الرَّحْمٰنِ عَزَّوَجَلَّ، وَکِلْتَا یَدَیْهِ یَمِیْنٌ: اَلَّذِیْنَ یَعْدِلُوْنَ فِیْ حُکْمِهِمْ وَاَهْلِیْهِمْ، وَمَا وَلُوْا.
(صحیح مسلم، کتاب الإمارة، رقم: 4721)
انصاف کرنے والے اللہ تعالیٰ کے پاس دائیں طرف نور کے منبروں پر ہوں گے اور اللہ کے دونوں ہاتھ دائیں ہیں (یہ) وہ لوگ ہیں جو اپنے فیصلوں اور گھر والوں اور جن کے نگران بنے تھے، ان میں انصاف کرتے تھے۔
صالح اور پرامن معاشرے کے قیام و استحکام کیلئے عدل و انصاف ہی وہ معیار اور پیمانہ ہے جس کی بدولت عالم انسانی کا نظام قائم ہے۔ اگر معاشرے سے عدل و انصاف مفقود ہو جائے یا عدل و انصاف کے تقاضوں کی صحیح معنوں میں تکمیل نہ کی جائے تو وہ معاشرہ پرامن نہیں رہتا اور ظلم و جبر اور درندگی کی بدولت اس کا استحکام بھی خطرے میں پڑ جاتا ہے۔ ایسا معاشرہ عدم توازن اور انتشار کا شکار ہو جاتا ہے۔
یہ عالمگیر صداقت ہے کہ عدل و انصاف ایسا عالی وصف ہے جسے اپنانے والی اقوام سرفراز ہوئی ہیں اور کنارہ کشی کرنے والی اقوام روبہ زوال ہو کر تباہی و بربادی سے دوچار ہو جاتی ہیں۔ اگر کسی قوم یا معاشرے کا مجموعی مزاج عدل و انصاف کے تقاضوں کے مطابق بن جائے تو پھر نہ صرف دنیا میں سرخرو اور عروج پر نظر آتی ہیں بلکہ آخرت میں بھی فلاح و کامیابی ان کا مقدر ہو سکتی ہے کیونکہ عدل و انصاف ہی ان کے استحکام اور بقا کا ضامن ہے۔
مشہور چینی فلسفی کنفیوشس کے مطابق اگر قوم کے پاس فقط تین چیزیں انصاف، معیشت اور دفاع ہو اور باامر مجبوری کسی چیز کو ترک کرنا پڑے تو دفاع اور معیشت کو ترک کر دینا چاہیے کیونکہ اگر اس قوم میں انصاف رائج ہوا تو افراد معاشرہ کو حکومت پر اعتماد ہوگا اور لوگ پیٹ پر پتھر باندھ کر بھی دشمن کا راستہ روک لیں گے۔
افراط و تفریط سے بچنا ہی عدل و انصاف ہے، چونچہ اسلام کے عطا کردہ عدل و انصاف کے نظام و قوانین انسانی زندگی کے انفرادی و اجتماعی تمام پہلوؤں کو محیط ہیں، ان میں معاشی و معاشرتی، قانونی و مذہبی، سیاسی و سماجی الغرض ہر شعبہ ہائے زندگی میں اسلام اپنے پیروکاروں کو اعتدال کے ساتھ ہدایت و رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ افراد معاشرہ کے اقوال و افعال سمیت ہر نوع کا عدل انسانیت کیلئے فرض کی حیثیت رکھتا ہے۔ معاشرتی عدل و انصاف اس بات کا متقاضی ہے کہ ہر فرد کو اس کا حق ملے اور کسی کی بھی حق تلفی نہ ہو، عدل و انصاف کو ذاتی خواہش اور رشتہ دار و عز و اقارب کے جذبوں کی تسکین غرض سے پسند و ناپسند کے سانچے میں نہ ڈھالا جائے بلکہ اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ ﷺ کے عطا کردہ اصول و قوانین کی پیروی کی جائے۔ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں عدل اجتماعی کا نکتہ کمال مساوات انسانی ہے یعنی افضلیت اور تعصب و عناد سے پاک اور تمام بنی نوع آدم کو برابری کی نظر سے دیکھنا ہے۔ یہ اسلام کا طرہ امتیاز ہے کہ تمام ابن آدم شرف انسانیت میں برابر ہیں، تمام اجسام انسانی مٹی سے بنے ہیں لہٰذا عدل و انصاف کا تقاضہ ہے کہ عربی و عجمی، آقا و غلام، مسلم و کافر کے درمیان امتیازی سلوک کی بجائے عدل و انصاف کے تقاضوں کو ملحوظ خاطر رکھا جائے۔ خطبہ حجۃ الوداع انسانی حقوق اور تمام عالم انسانیت کیلئے جامع چارٹر کی حیثیت رکھتا ہے۔
درایں اثنا اگر ہم پاکستان میں قیام عدل و انصاف اور فراہم عدل و انصاف کی بات کریں کہ یقیناً ہر حق شناس پر یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ وطن عزیز پاکستان میں عدل و انصاف ناپید ہوتا جا رہا ہے، یہاں عدل و انصاف امرا اور طاقتوروں کا غلام نظر آتا ہے، غریب اور مظلوم کے حصہ میں فقط ٹھوکریں اور در در کی گرد چھاننا لکھ دیا گیا ہے۔ یہاں طاقتوروں کیلئے تو ایوان عدل مقررہ اوقات کے علاوہ چھٹی کے دن بھی کھل جاتا ہے مگر مظلوم و محکوم اور غریب و لاچار کیلئے عام دنوں میں بھی عدل و انصاف پر تالے نظر آتے ہیں۔ یہاں پر میڈیا کے سامنے دن دھاڑے سینکڑوں لوگوں کو پولیس گردی کا نشانہ بناتے ہوئے تو دیکھا جا سکتا ہے مگر عدل و انصاف کا حصول تو دور کی بات کمزور اور مظلوم کی ایف آئی آر تک مقتدر اداروں کی مداخلت کے بغیر درج نہیں کی جا سکتی، سانحہ ماڈل ٹاؤن پاکستانی میں انسانی تاریخ کا وہ بدصورت اور دہشت ناک باب ہے جو حکومتی و سرکاری اعما پر سرکاری مشینری کو سرعام حرکت میں لاتے ہوئے پنجاب پولیس کو سرعام خواتین و نہتے لوگوں پر گولیاں برسائی گئیں اور انہیں شہید کیا گیا۔ جو نہ صرف موقعہ واردات پر موجود پاکستان کے میڈیا چینلز نے پوری دنیا کو دکھایا بلکہ اس خون کی ہولی کے دوران کم و بیش بارہ سے چودہ گھنٹے تک پاکستان کے تمام مقتدر ادارے اور اعلیٰ عدلیہ نے بھی دیکھا، مگر اپنی زبان پر تالے اور آنکھوں پر پٹی باندھ کر خاموش رہے، جہاں سوموٹو تو دور کی بات کسی نے اس واقعہ کو رکوانے کی کوشش تک نہ کی۔ بعدازاں اس کے خلاف قانونی کاروائی میں بھی تاحال کوئی حوصلہ افزاں خبر لواحقیق و پسماندگان سانحہ ماڈل ٹاؤن کو نہ مل سکی، جو اس بات کی شاہد ہے کہ چونکہ اس میں حاکمین وقت اور طاقتور ظالم حکمران خود شامل تھے لہٰذا انہیں ہر سطح پر تحفظ فراہم کیا جا رہا ہے اور مظلوم لواحقین آج بھی انصاف کیلئے جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ظالم حکمرانوں نے نام نہاد آزاد عدلیہ اور مقتدر قومی اداروں سمیت ہر چیز کو طاقت اور پیسے کے بل بوتے پر اپنا زر خرید غلام بنا رکھا ہے۔
یہاں تہذیب بِکتی ہے، یہاں فرمان بِکتے ہیں
ذرا تُم دام تو بدلو، یہاں ایمان بِکتے ہیں
سانحہ ماڈل ٹاؤن کے بعد ان ظالم حکمرانوں نے حسب عادت سابق غریب اور مظلوم کے خون کی بولی لگائی تو غیور اور محب وطن لواحقین نے یہ کہہ کر رد کر دیا کہ ہمارے پیاروں کے خون کی بولی لگانے والوں جو قیمت تم نے لگائی ہے ہم اس سے دو گنا قیمت تمہیں آفر کرتے ہیں اور تم اپنے پیاروں کو ہمارے حوالے کر دو۔ پاکستانی تاریخ کی شاید یہ پہلی مثال ہوگی جب وطن کے غیور اور محب وطن افراد نے ظالم حکمرانوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ڈنکے کی چوٹ پر اپنے لواحقین کے خون کا سودا نہیں کیا بلکہ انصاف کے حصول کیلئے جدوجہد جاری رکھنے کو ترجیح دی۔ ایک موقع پر اپنے رفقاء و کارکنان سے گفتگو کرتے ہوئے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے کہا تھا کہ اس دنیا میں ہر ایک قیمت مقرر ہے، کوئی سستا بکتا ہے تو کوئی مہنگا، کوئی نام و نمود اور شہرت کے لالچ میں بکتا ہے تو کوئی عہدہ و منصف کی ترقی کیلئے بکتا ہے۔ اگر اس دنیا میں کوئی چیز ناقابل خرید و فروخت ہے تو وہ فقط منہاج القرآن کے رفقا اور سانحہ ماڈل ٹاؤن کے غیور لواحقین ہیں، اگر یہ لوگ قارون کے خزانوں سمیت دنیا کے تمام خزانے پر لے کر آ جائیں تو حضور غوث الاعظم کے غلاموں کا جوتا تک نہیں خرید سکتے۔
سانحہ ماڈل کے شہداء کیلئے حصول انصاف کی یہ جدوجہد مختلف مراحل سے گزار رہی ہے، کوئی موڑ اور کوئی مرحلہ ایسا نہیں جہاں حکومتی اشاروں پر انصاف کی راہ میں رکاوٹیں نہ کھڑی کی جا رہی ہوں، ظالموں کو تحفظ نہ فراہم کیا جا رہا ہو، اور متعدد بار عدل و انصاف کے نظام کو معطل نہ کیا گیا ہو۔ موجودہ حکومت نے اقتدار سنبھالنے سے قبل مظلوم شہداء کے حق کیلئے آواز بلند کی اور ببانگ دہل وعدے کیے تھے کہ وہ مظلوم کو انصاف دلوانے میں بھرپور کردار ادا کریں گے، سانحہ ماڈل ٹاؤن کا انصاف روز روشن کی طرح عیاں نظر آتا تھا مگر شاید اب ان کی آنکھوں پر بھی کرپٹ نظام عدل و انصاف کی گرد جم چکی ہے یا پھر یہ سب اقتدار تک پہنچے کی ایک سیڑھی تھی۔
مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کرو گے
منصف ہو تو اب حشر اٹھا کیوں نہیں دیتے
اس بات میں ذرا برابر شک نہیں کہ وطن عزیز پاکستان کو غیرت مند، بے باک، نڈر اور ہمہ اقسام لالچ سے پاک باکرار قیادت کی اشد ضرورت ہے، تب ہی وطن عزیز میں عدل و انصاف کا بول بالا ہو سکتا ہے اور عدلیہ حقیقی معنوں میں آزاد ہو سکتی ہے، تبھی مظلوم کو اس کا حق مل سکتا ہے اور ظالم قرار واقعی سزا کو پہنچ سکتے ہیں۔ معاشرتی قیام امن اور بقا کیلئے ضروری ہے کہ عدل و انصاف کی بنیاد اسلامی اصول و قوانین پر رکھی جائے اور اسے حقیقی معنی میں معاشرے میں رائج کیا جائے۔
ماخوذ از ماہنامہ دخترانِ اسلام، جولائی 2021ء
تبصرہ