دعوت کے آداب
مرتبہ: رافعہ عروج ملک
ہر کام کے کچھ آداب ہوتے ہیں جن کا لحاظ رکھے بغیر خاطر خواہ نتائج کی توقع نہیں کی جاسکتی دعوت و تبلیغ کے میدان میں اترنے سے قبل کچھ شرائط اور لوازمات کا پورا کیا جانا لازمی ہے۔ یہ آداب دعوت داعی کی زندگی میں اولیت کے حامل ہونے چاہئیں اگر آداب کا لحاظ نہ رکھا جائے تو داعی کو دعوت میں ناکامی اور مایوسی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
1۔ طرز عمل:
طرز عمل مثبت بھی ہوتا ہے اور منفی بھی ہوسکتا ہے اور برا بھی لیکن دعوتی نقطہ نظر سے اس کا فیصلہ مخاطب کی سوچ کے حوالے سے ہوگا۔ تمام تر خلوص اور نیک نیتی کے باوجود غلطی کا امکان باقی رہتا ہے اور غلطی خواہ کتنے ہی خلوص پر مبنی ہو نقصان کا باعث بن کر رہتی ہے۔
ممکن ہے تو جسے سمجھتا ہے بہاراں
اوروں کی نگاہ میں وہ موسم ہو خزاں کا
اس لیے اپنے طرز عمل پر نظر ثانی کرتے رہنا چاہیے۔
عَسٰٓی اَنْ تَکْرَهُوْا شَیْئًا وَّهُوَ خَیْرٌ لَّکُمْ ج وَعَسٰٓی اَنْ تُحِبُّوْا شَیْئًا وَّهُوَ شَرٌّلَّکُمْ.
(البقرة، 2: 216)
’’ممکن ہے تم کسی چیز کو ناپسند کرو اور وہ (حقیقتاً) تمہارے لیے بہتر ہو، اور (یہ بھی) ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو پسند کرو، اور وہ (حقیقتاً) تمہارے لیے بری ہو۔‘‘
طرز عمل کی خرابی مخلصانہ کاوشوں کے نتائج پر بھی پانی پھیر کر رکھ دیتی ہے۔ مختلف جماعتیں اپنے اپنے انداز سے دعوت دین کا کام کررہی ہیں ان کے بارے میں حسن ظن سے کام لیا جائے انہیں حریف نہیں بلکہ اپنا معاون و مددگار سمجھا جائے جب کام کی نوعیت ایک ہے مقصد ایک ہے تو پھر محاذ آرائی کیوں؟ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی سبیلیں کس لیے؟ قول و فعل کے تضاد سے بڑھ کر دعوت کا کوئی اور دشمن نہیں ہوسکتا۔
دعوتی کام کی درجہ بندی کرکے اگر ترجیحات کا تعین کرلیا جائے تو رفتار کو تیز کرنے میں بہت ممدو معاون ثابت ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر ایک شخص بیک وقت تحریر، تقریر اور ذاتی ملاقاتوں اور رابطوں سے دعوت کا کام کرتا ہے تو اسے اپنی صلاحیتوں، اوقات اور مختلف کاموں کے نتائج کو سامنے رکھ کر ترجیحات کا تعین کرلینا چاہیے پہلے کون سا کام کرنا ہے اوقات کار کی تقسیم بھی اسی اعتبار سے ہونی چاہئے۔ جس میدان میں نتائج بہتر نکل رہے ہیں اسے پہلی ترجیح پر رکھنا چاہیے کیونکہ شیطان کے حملوں میں سے ایک حملہ آدمی کو کم اہم کاموں کی طرف لگانے کی کوشش ہوتا ہے وہ جب محسوس کرتا ہے کہ کوئی نیک شخص کوئی اہم کارنامہ سرانجام دینے کی کوشش میں مصروف ہے یا ایسا کام کررہا ہے جو اللہ کو بہت پسند ہے اور اسے راہ راست سے ہٹایا بھی نہیں جاسکتا تو وہ بھرپور کوشش کرتا ہے کہ اس کی توجہ اس اہم کام سے ہٹا کر کسی دوسرے کم اہم کام کی طرف لگادی جائے۔
ظلم کی بات تو یہ ہے کہ دوسروں کا علاج کرنے والے خود اس بیماری میں مبتلا ہوگئے ہمیں تو بزرگان دین سے یہ بات پہنچی ہے کہ اگر کسی شخص کے بارے میں نناوے وجوہات بدگمانی کی ہوں اور ایک وجہ حسن ظن کی ہو تو ننانوے وجوہات کو نظر انداز کرکے اپنی طبیعت پر حسن ظن کے پہلو کو غالب کیا جائے لیکن ہمارا معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے۔ بدگمانی سارے فتنہ و فساد کی جڑ ہے۔ دعوت کے میدان میں دوسروں کو اہمیت دینا اور اپنے آپ سے بہتر گرداننا از بس ضروری ہے حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ کا ایک قول ہے ’’جو شخص اپنے آپ کو ایک خارش زدہ کتے سے بھی بہتر سمجھے اسے معرفت کی ہوا نہیں لگ سکتی۔‘‘
داعی ایک ایسا خاموش کارکن ہوتا ہے جو اپنی ذات کی نفی کرکے دوسروں کی فلاح کی ضمانت بن جاتا ہے۔
انسان کان کا بہت کچا واقع ہوا ہے کسی کی برائی بیان کی جائے تو جلد اثر قبول کرتا ہے جبکہ خوبی تسلیم کرنے میں بہت دیر لگادیتا ہے۔ افواہوں پر کان دھرنے والے لوگ بہت جلد دوستو کا اعتماد کھودیتے ہیں اگر براہ راست حقیقت حال کو معلوم کرلیا جائے تو انسان بہت سی بدگمانیوں سے بچ جاتا ہے۔ غیبت کرنے والے شخص کو بات کرنے سے فوراً روک دینا چاہیے۔ بات سچی بھی کررہا ہو تب بھی یقین نہیں کرنا چاہیے اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ آئندہ آپ کے سامنے کسی کی برائی بیان کرنے کی جرات نہیں کرے گا۔
اعتدال کی روش ہی ہر حال میں سلامتی کی ضمانت فراہم کرتی ہے۔ دوسروں کے ساتھ معاملہ کرتے ہوئے رواداری، وسعت قلبی اور ہمدردی درکار ہوتی ہے کھلے دل کا مالک شخص ہی سب کے لیے قابل قبول ہوسکتا ہے۔ تعصب اور تنگ نظری دعوت کے میدان کو محدود کردیتے ہیں۔ انتہا پسند شخص ٹھوکریں کھاتا رہتا ہے۔ معتدل مزاجی کے باعث کچھوے کی چال چلتے رہنا اس تیز رفتاری سے کہیں بہتر ہے جس کے نتیجے میں کسی حادثہ سے دوچار ہونا پڑے اس بات کی قطعاً پرواہ نہیں کرنا چاہیے کہ لوگ کیا کہیں گے لوگ تو کچھ نہ کچھ کہتے ہی رہتے ہیں ہمارے پیش نظر صرف ایک بات ہونی چاہیے کہ ہم نے جو طرز عمل اپنا رکھا ہے اللہ کی نگاہ میں پسندیدہ ہے کہ نہیں۔ اگر اللہ اور اس کا رسول ﷺ راضی ہیں تو پھر کوئی پرواہ نہیں لوگ پسند کریں یا نہ کریں جھوٹ انا اور وقار کو رضائے الہٰی کے لیے قربان کردینا ہی سعادتمندی ہے۔
دعوتی نقطہ نظر سے دور دراز علاقوں کے سفر کے دوران طرح طرح کی تکالیف کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ دلجمعی اور یکسوئی رخصت ہوکر انتشار طبع کا باعث بن جاتی ہے مختلف طبائع کے مالک افراد کے ساتھ اختلاف کے باعث دل پر کچھ گردو غبار آنے لگتا ہے اس صورت حال کا بروقت علاج ہونا چاہیے ورنہ دیگر عبادات میں کوتاہی اور سستی کا ظہور ہوگا ایک اور خطرہ طبیعت کا سیرو تفریح اور دیگر دلچسپ مشغولیات کی جانب مائل ہونا ہے جس سے عمل کی خرابی جنم لیتی ہے۔ مختلف لوگوں کے حالات اور مزاج مختلف ہوتے ہیں ہر ایک سے ایک جیسے کام کی توقع نہیں رکھنی چاہیے۔ ایک دوڑ لگا سکتا ہے۔ ممکن ہے دوسرا صرف چند قدم چلنے کے قابل ہو ایسا فرق تو ہمیں صحابہ کرامؓ کی سوانح حیات میں بھی ملتا ہے۔ انفاق کے معاملہ سب کچھ لٹا دینے کا کہیں حکم نہیں آیا لیکن ایک موقع پر حضرت صدیق اکبرؓ اپنا سارا مال پیش کرکے سب پر بازی لے گئے۔ مقامات اور درجات کے معاملہ میں ہر کوئی اپنی حیثیت کے مطابق آگے بڑھتا ہے۔
داعی کی شرافت، اعلیٰ ظرفی اورنیک نامی دعوت میں کشش کا باعث بنتی ہے اگر ترجمانی بھی احسن انداز سے ہوجائے تو اثر پذیری کے کیا کہنے! پیغام خواہ کتنا ہی اہم کیوں نہ ہو جب تک انداز میں دلکشی نہ ہو لوگ متوجہ نہیں ہوتے۔
بعض اوقات چھوٹی چھوٹی باتوں کو انا کا مسئلہ بناکر بدمزگی پیدا کردی جاتی ہے جہاں کہیں محسوس ہوکر ان تلوں میں تیل نہیں تو قرآنی ہدایت قالوا سلاما پر عمل کرتے ہوئے سلام کرکے الگ ہوجانا چاہیے تاکہ فضا مزید خراب ہونے سے بچ جائے ایسے جاہلوں کو زیادہ منہ نہیں لگانا چاہیے اگر کہیں تلخی کا سماں پیدا ہوجائے تو حق پر ہونے کے باوجود خاموشی اختیار کرلینے میں ہی عافیت ہوتی ہے ڈٹے رہنے سے حالات پر قابو نہیں رہتا اور لڑائی جھگڑے کی صورت میں بالآخر داعی کو ہی ندامت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یہ امر بھی مسلمہ ہے کہ تشدد اور شعلہ بیانی سے دل نہیں بدلا کرتے دل بدلنا اللہ کے اختیار میں ہے۔
دعوت وفد کی صورت میں دی جارہی ہو تو بات سربراہ کرے کوئی دوسرا بولنے کی کوشش نہ کرے باقی سب خاموش اور ہمہ تن گوش رہیں البتہ سربراہ کی اجازت سے بات کی جاسکتی ہے۔ محفل کی صورت میں ترنم کے ساتھ بآواز بلند اللہ کا ذکر، استغفار اور درود شریف پڑھ لینے سے توجہ کے ساتھ سننے کا ایک ماحول پیدا ہوتا ہے اور برکت بھی ہوتی ہے۔
2۔ صوفیانہ انداز کا لحاظ:
دعوت کے دو طرق معروف ہیں ایک طرق صوفیاء اور دوسرا طریق علماء۔ پہلا طریقہ زیادہ دلکشی اور جاذبیت کا حامل ہے اور اس کے اثرات بھی وسیع اور دیرپا ہوتے ہیں پوری اسلامی تاریخ اس حقیقت پر گواہ ہے صوفیاء دلوں پر دستک دیتے ہیں جو ایک بار قریب آتا ہے انہی کا ہوکر رہ جاتا ہے۔ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ جب اپنے مواعظ حسنہ کے اختتام پر یہ جملہ ارشاد فرمایا کرتے ’’اب ہم قال سے حال کی جانب آتے ہیں‘‘ تو مجمع پر وجد کی کیفیت طاری ہوجاتی رجوع الی اللہ اور وارفتگی کا وہ ایسا حال وارد ہوتا کہ ہزاروں لوگ گناہوں سے تائب ہوتے اور سینکڑوں غیر مسلم اسلام قبول کرلیتے۔ صوفیاء اس فلسفہ کے قائل ہیں کہ دل تشدد سے نہیں محبت سے بدلتے ہیں۔ اس لیے بے جا سختی نہیں کرنی چاہیے۔ دل جیتنے کے لیے مومنانہ سیرت و کردار کی ضرورت ہے سفر جاری رہنا چاہیے مایوسی اور بددلی کو قریب نہ پھٹکنے دیا جائے رسول اکرم ﷺ نے ایک بار فرمایا:
’’اے علی! خدا کی قسم! اگر تیرے ذریعے ایک شخص بھی ہدایت پاجائے تو یہ تیرے لیے سرخ اونٹوں سے بہتر ہے۔‘‘
گویا ایک آدمی کا راہ راست پر آجانا بھی بہت بڑی کامیابی ہے حدیث کے ان الفاظ سے دعوتی کام کی غیر معمولی اہمیت کا اندازہ بھی ہوتا ہے۔ بس اللہ کا شکر ادا کرتے رہنا چاہیے کہ اس نے خدمت دین کی توفیق عطا فرمائی وہ یہ کام کسی اور سے بھی لے سکتا ہے۔ لہذا کبھی اپنی سعی اور بھاگ دوڑ پر نظر نہیں رکھنی چاہیے بلکہ نصرت الہٰی کے لیے سراپا دعا رہنا چاہیے کیونکہ نتیجہ خیزی اس کے ہاتھ میں ہے انسان کے بس میں نہیں۔
ویسے بھی دعوت کے کام میں کبھی آخری مقام (Saturatin) نہیں آیا کرتا لہذا کسی بھی سٹیج پر کوئی یہ کہنے کی پوزیشن میں نہیں ہوتا کہ اس نے بہت کچھ کرلیا ہے بلکہ ہر بڑھتا ہوا قدم یہ احساس دلاتا ہے کہ ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے ہر بلند سطح کچھ اور بلندیوں کا پتہ دیتی ہے۔ گویا
ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
ابھی عشق کے امتحان اور بھی ہیں
یہ سفر تو اس وقت تک جاری رہے گا جب تک ہر ایک مسلمان صحیح معنوں میں (In True Sense) مسلمان نہیں بن جاتا اور دنیا کا آخری غیر مسلم بھی مسلمان نہیں ہوجاتا۔
3۔ تالیف قلب:
تالیف قلب کا مطلب مائل کرنا اور دل میں جذبات محبت پیدا کرنا ہے۔ کسی شخص کو دعوت کی جانب مائل کرنے کے لیے اس کے ساتھ خیر خواہی اور ہمدردی کا مظاہرہ کرنا، مالی امداد فراہم کرنا، آڑے وقت میں کام آنا لطف و عنایت کا سلوک کرنا تالیف قلب کے ذیل میں آتا ہے۔
4۔ سہولت و رعایت اور انداز و تبشیر:
لوگوں کے سامنے دین کو مشکل بناکر پیش نہ کیا جائے۔ سارا بوجھ ایک ہی بار گردن پر نہ ڈال دیا جائے بلکہ پہلے عقائد پھر رفتہ رفتہ اعمال کی بات کی جائے۔ دوسروں کی سہولت کا خیال رکھنا چاہیے تاکہ بیزاری اور نفرت کی فضا پیدا نہ ہو محسن انسانیت ﷺ نے جب معاذ بن جبلؓ کو یمن کا گورنر بناکر بھیجا تو فرمایا:
یسرا ولا تعسرا بشروا ولا تنفرا.
(بخاری)
’’آسانی پیدا کرنا تنگی نہیں۔ لوگوں کو خوشخبری سنانا نفرت نہ دلانا۔‘‘
گویا دین کو اس طرح آسان بناکر پیش کیا جائے کہ لوگ خوش دلی کے ساتھ اسے قبول کریں ناروا پابندیاں سمجھ کر انکار نہ کردیں اس ضمن میں اس بات کا خیال بھی رہے کہ اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کو بشیر اور نذیر بناکر بھیجا۔ جہاں آپ خوشخبری سنایا کرتے تھے وہاں لوگوں کو برے اعمال کے انجام بد سے ڈرایا بھی کرتے تھے دعوت میں یقینا تبشیر کا پہلو غالب رہنا چاہیے۔
5۔ جبر سے اجتناب:
اسلام دین فطرت ہے اس لیے سلیم الفطرت انسان اسے قبول کرنے میں کوئی تامل محسوس نہیں کرتا اللہ تعالیٰ نے اس بات سے منع فرمادیا کہ کسی کو جبراً مسلمان بنایا جائے۔
لَآ اِکْرَاهَ فِی الدِّیْنِ.
(البقرة، 2: 256)
’’دین میں کوئی زبردستی نہیں۔‘‘
اسلام میں کسی کو جبراً مسلمان کرنے کی کلی ممانعت کردی گئی ہے اور پوری اسلامی تاریخ اس پر گواہ ہے کہ مسلمانوں نے آدھی دنیا پر حکومت کی لیکن کوئی ایک واقعہ بھی ایسا نہیں ملتا کہ کسی غیر مسلم کو بزور شمشیر اسلام قبول کرنے پر مجبور کیا گیا ہو۔ایسے علاقے جن پر کبھی مسلمان حکمران نہیں رہے کروڑوں مسلمان رہتے ہیں۔ یہ سب اسلام کی آفاقی تعلیمات اور مسلمانوں کے حسن سلوک سے متاثر ہوکر مسلمان ہوئے ہیں۔
6۔ حسن سلوک:
دعوت کی قبولیت کے ضمن میں حسن سلوک سے بڑھ کر اور کوئی چیز کارگر نہیں ہوتی۔ نرمی اور ہمدردی انسانوں کو قریب کرتی ہے خوئے دلنوازی، انداز دلبری اور اک طرز دلکشی درکار ہے درشتی اور سخت مزاجی لوگوں کو بھگانے کا باعث بنتی ہے تمام بھلائیاں نرم خوئی میں جمع کردی گئی ہیں۔ سخت گیری اور درشت روئی نفرت اور خندہ پیشانی اور شگفتگی محبت کا باعث بنتی ہیں۔ حسن اخلاق میں یہ قوت ہے کہ وہ دشمنی کو دوستی میں بدل سکتا ہے۔ کلام میں رعونت، خشونت اور شدت نہ پائی جائے بلکہ نرمی، شیرینی اور حدت کا مرقع ہو۔
دوسروں کے ساتھ معاملات کے ضمن میں جہاں غلطی محسوس ہو اس کا اعتراف کرلینا ایک مستحسن عادت ہے لیکن یہ عادت ثانیہ بن جائے تو اس کے منفی اثرات بھی مرتب ہوتے ہیں طبیعت میں لاپرواہی اور اعراض عن الفرائض کا عنصر بڑھ جائے گا۔ غفلت اور سستی کا غلبہ ہوگا کیونکہ ہر بار معذرت کو ڈھال بنالیا جائے گا۔ اعتراف تقصیر کی اس عادت کو عام طور پر عاجزی اور انکساری کا مظہر سمجھ کر پسندیدہ نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے حالانکہ اس قسم کا عاجزانہ تکبر ایک نہایت خطرناک پوشیدہ بیماری سے مریض کو اس کا احساس نہیں ہوتا داعی کے لیے منکسرانہ رویہ قابل فخر کارنامہ بن جاتا ہے جس کے باعث لوگ آہستہ آہستہ اسے ناپسند کرنے لگتے ہیں انسانی دنیا میں تعلقات کی بڑی اہمیت ہے ہر ایک شخص دوسروں کے ساتھ اچھے تعلقات کا خواہاں ہوتا ہے۔ اگرچہ اغراض و مقاصد مختلف ہوتے ہیں۔ دنیا کا نظام تعاون کی بنیاد پر چلتا ہے لہذا کوئی شخص بھی تعلقات کی خرابی کا متحمل نہیں ہوسکتا۔
7۔ بالواسطہ اصلاح:
اگر آپ دوسروں کو حسب خواہش بدلنا چاہتے ہیں تو انہیں اس بات کا احساس نہ ہونے دیں کہ آپ دانستہ ایسا کررہے ہیں۔ احوال کے لیے بالواسطہ طریقہ کار زیادہ مناسب ہے اس طرح دوسرا شخص رد عمل کا اظہار نہیں کرتا رسول اکرم ﷺ کی عادت مبارک تھی انفرادی اصلاح احوال کے لیے بھی کسی شخص کا نام لے کر متوجہ نہ کرتے بلکہ مجمع میں گفتگو کا آغاز اس طرح فرماتے:
ما بال اقوام یفعلون کذا.
’’لوگوں کو کیا ہوگیا ہے اس طرح کے کام کرتے ہیں۔‘‘
جس کو سنانا مقصود ہوتا وہ بھی سن لیتا اور اپنی اصلاح کرلیتا یہ ایسا پر حکمت طریق کار ہے جس کے باعث مخاطب کو شرمندگی کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ غلطیوں کی نسبت اپنی جانب کرکے خطاب کیا جائے تو سننے والوں کو گراں نہیں گزرتا جیسے
وَمَا لِیَ لَآ اَعْبُدُ الَّذِیْ فَطَرَنِیْ وَاِلَیْهِ تُرْجَعُوْنَ.
(یٰسین، 36: 22)
’’اور مجھے کیا ہے کہ میں اس ذات کی عبادت نہ کروں جس نے مجھے پیدا فرمایا ہے اور تم (سب) اسی کی طرف لوٹائے جاؤگے۔‘‘
ماخوذ از ماہنامہ دخترانِ اسلام، اگست 2021ء
تبصرہ