دعوت و تبلیغ کی اہمیت اور داعی کے اوصاف
مرتبہ: روبینہ ناز
دعوت دین میں عملی اور اخلاقی کشش کے بغیر کام موثر ثابت نہیں ہوتا۔ خوش بیانی کی نسبت خوش اخلاقی اور خوش عملی زیادہ کارگر ثابت ہوتی ہے داعی کی شیریں بیانی خوش اخلاقی اور تحمل مزاجی شدید ترین مخالف کا دل بھی اپنی طرف کھینچتی ہے سرور کونین ﷺ کا یہی طرز عمل کفار اور مشرکین کو کشاں کشاں دائرہ اسلام میں لے آیا۔ دعوت و تبلیغ کے میدان میں نرم گفتاری کی اہمیت سے کوئی داعی اور مبلغ بے خبر نہیں رہ سکتا قرآن مجید میں آنحضور ﷺ کو مخاطب کرکے فرمایا گیا:
وَلَوْ کُنْتَ فَظًّا غَلِیْظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِکَ.
(آل عمران، 3: 159)
’’اور اگر آپ تُندخُو (اور) سخت دل ہوتے تو لوگ آپ کے گرد سے چھٹ کر بھاگ جاتے۔‘‘
اس سلسلہ میں چند عملی مثالوں کا ذکر کیا جاتا ہے:
داعی اعظمؐ کی زندگی:
عکرمہ فتح مکہ کے بعد فرار ہوگیا اس کی بیوی نے آنحضور ﷺ سے اس کے لیے معافی طلب کی وہ واپس مکہ آنے سے ڈر رہا تھا کہ شاید یہ کوئی چال نہ ہو بہر حال بیوی کی یقین دہانی پر آگیا وہ جس وقت مسجد نبویؐ میں داخل ہوا حضور ﷺ اسے دیکھ کر اس قدر تیزی کے ساتھ اٹھے کہ چادر مبارک نیچے گر گئی اور آپ ﷺ نے آگے بڑھ کر عکرمہ کو گلے لگالیا وہ تو اندیشہ ہائے دور دراز میں مبتلا تھا کہ کہیں کسی سازش کا شکار نہ ہوجائے یہ حسن اخلاق دیکھ کر اس کی چیخیں نکل گئیں اور قدموں میں ڈھیر ہوگیا۔
فتح مکہ کے بعد کفار کی کمر ہمت ٹوٹ گئی سرداران مکہ میں سے اکثر کا قبول اسلام بخوشی نہ تھا ان میں ایک صفوان بن امیہ بھی تھا سرکار دو عالم ﷺ نے اسے تین سو اونٹ عنایت فرمائے اس کا بیان ہے کہ آپ ﷺ نے مجھے اتنا عطا کیا کہ شان فیاضی دیکھ کر میرے دل کا بغض ختم ہوگیا اور آپ میرے نزدیک محبوب ترین شخصیت بن گئے۔
آپ ﷺ ایک یہودی عالم کے مقروض تھے۔ ایک دن اس نے قرض کی واپسی کا تقاضا کیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اس وقت میرے پاس رقم نہیں وہ بضد ہوا اور آپ ﷺ کو ایک دن تک روکے رکھا صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اس گستاخی پر برہم ہوئے۔ آپ ﷺ نے انہیں ردعمل سے منع کیا اور فرمایا ’’مجھے اللہ نے کسی شخص پر ظلم کرنے سے منع کیا ہے‘‘ دن چڑھنے پر یہودی مسلمان ہوگیا اور نصف مال اللہ کی راہ میں صدقہ کردیا۔ کہنے لگا: میں نے یہ جسارت صرف آزمانے کے لیے کی تھی کیونکہ تورات میں نبی آخرالزمان ﷺ کے جو اوصاف درج ہیں میں ان کا ذاتی تجربہ کرنا چاہتا تھا۔
ایک شخص آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کچھ بکریاں مانگیں آپ ﷺ نے ایک بہت بڑا ریوڑ عطا کردیا وہ آپ ﷺ کی فیاضی سے اس قدر متاثر ہوا کہ واپس جاکر قبیلہ والوں کو اکٹھا کرکے کہا ’’مسلمان ہوجاؤ محمد ﷺ اس قدر عطا کرتے ہیں کہ مفلسی کا خدشہ باقی نہیں رہتا۔
ایک مرتبہ کسی یہودی کا ایک بچہ آپ ﷺ کی خدمت کیا کرتا تھا بیمار ہوکر قریب المرگ تھا آپ خود چل کر اس کے گھر گئے تیمارداری کی اور اسلام قبول کرنے کی دعوت دی اس نے اجازت کے لیے باپ کی طرف دیکھا یہودی آپ ﷺ کے حسن سلوک سے اس قدر متاثر ہوگیا کہ بیٹے سے کہنے لگا دیکھتے کیا ہو؟ ایسے مہربان شخص پر فوراً ایمان لے آؤ۔
ایک دفعہ آپ ﷺ نماز پڑھانے کے لیے مصلے پر کھڑے ہوئے ایک اعرابی کی آواز آئی اور اس نے آپ ﷺ کو پکڑ کر پیچھے کھینچ لیا آپ نے پہلے اس کی حاجت پوری کی پھر نماز پڑھائی۔
حضرت معاویہ بن سکم رضی اللہ عنہ نماز پڑھ رہے تھے کہ کسی کی چھینک پر یرحمکم اللہ کہہ دیا۔ دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین انہیں گھورنے لگے کہ دوران نماز یہ کیا کردیا لیکن نبی اکرم ﷺ نے صحابہؓ کو تو منع کیا لیکن حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو ڈانٹا تک نہیں بلکہ پیار سے بتلایا کہ نماز اللہ کی بڑائی کے لیے قائم ہوجاتی ہے اس میں بات چیت کرنا منع ہے۔
رسول اکرم ﷺ کا دلنواز انداز دعوت:
رسول اللہ ﷺ اکثر اپنے گردو پیش میں موجود روزمرہ کی معمولی مثالوں کے ذریعے بھی اسلامی تعلیمات ذہن نشین کروایا کرتے تھے۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں ایک بار سفر جہاد کے دوران ایک بستی پر ہمارا گزر ہوا آنحضرت ﷺ نے اہل بستی سے پوچھا تم لوگ کون ہو انہوں نے عرض کیا ہم مسلمان ہیں وہاں ایک عورت کھانا پکا رہی تھی وہ بار بار اپنے بچے کو آگ سے دور ہٹاتی وہ آپ ﷺ کے پاس آئی اور عرض کیا کیا آپ ﷺ اللہ کے رسول ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا بے شک میں اللہ کا رسول ہوں اس نے کہا کیا خدا سب سے بڑھ کر رحم کرنے والا نہیں۔ آپ ﷺ ے فرمایا ہاں اللہ سب سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے اس نے کہا کیا اللہ اس سے کہیں بڑھ کر مہربان ہے جتنا ماں اپنے بچے پر ہوتی ہے آپ ﷺ نے فرمایا ہاں اللہ اس سے بھی بڑھ کر مہربان ہے۔ عورت نے کہا: ماں تو کبھی اپنے بچوں کو آگ میں پھینکنا گوارا نہیں کرتی۔ رحمت دو عالم نے سرجھکا لیا اور پھر یقین بھری آواز میں ارشاد فرمایا: اللہ ہر گز کسی کو عذاب میں نہیں ڈالے گا سوائے ان لوگوں کے جو سرکشی اور تکبر میں اللہ کا انکار ہی کردیں۔
ایک دفعہ آپ ﷺ نے فرمایا ’’میری اور اس شخص کی مثال بالکل ایسے ہے جیسے کسی کے پاس ایک اونٹنی تھی جو رسی تڑوا کر بھاگ کھڑی ہوئی لوگوں نے اسے زبردستی پکڑنا چاہا وہ اور بھی سرکش ہوگئی اور قابو میں نہ آئی اس کا مالک آگے بڑھا اور: کہا پیچھے ہٹ جاؤ میں اسے پکڑنے کی ترکیب خوب اچھی طرح جانتا ہوں وہ سامنے کی جانب سے ہاتھ میں کچھ گھاس لئے آگے بڑھا اونٹنی کو پیار سے چمکارا وہ قریب آئی گھاس منہ میں لے کر بیٹھ گئی اس نے اونٹنی پر کجاوہ باندھا اور سوار ہوکر اطمینان سے رخصت ہوگیا۔
محسن انسانیت ﷺ دعوت دین میں اس بات کا ضرور لحاظ رکھا کرتے تھے کہ مخاطب میں نفرت اور بیزاری کے جذبات پیدا نہ ہوں بلکہ وہ دعوت کو اپنی چیز سمجھ کر قبول کرے۔
فتح مکہ کے دوسرے دن نبی رحمت ﷺ کعبہ کا طواف کررہے تھے کہ آپ ﷺ کی محویت کا عالم دیکھ کر فضالہ ابن عمیر کے دل میں آقائے دو جہاں ﷺ کا کام تمام کرنے کا خیال پیدا ہوا وہ برے ارادے سے حضور ﷺ کی جانب بڑھا جب قریب ہوا تو آنحضرت ﷺ اس کی جانب متوجہ ہوئے اور پوچھا ’’کیا فضالہ آ رہا ہے‘‘ اس نے کہا جی ہاں میں فضالہ ہوں حضور ﷺ نے پوچھا بتاؤ کس ارادے سے آئے ہو اس نے کہا کوئی خاص ارادہ نہیں بس اللہ اللہ کررہا ہوں آپ ﷺ اس کا جواب سن کر مسکرائے اور فرمایا تم تو کسی اور ہی ارادے سے آئے تھے وہ ذرا چونکا آپ ﷺ نے محبت و شفقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے فرمایا۔ فضالہ اپنے رب سے معافی مانگو اور آپ ﷺ نے اپنا دایاں ہاتھ اس کے سینے کے اوپر رکھ دیا۔
فضالہ کا کہنا ہے کہ حضور ﷺ کے ہاتھ نے میرے اندر سکون اور سرور کی ایک عجیب کیفیت پیدا کردی۔ میں جس شخص کی جان لینے آیا تھا اب دنیا میں اس سے زیادہ محبوب کوئی اور نہ تھا۔ میں تھوڑی دیر ٹکٹکی باندھے انہیں دیکھتا رہا جس سے میری روح کو مزید تازگی اور فرحت ملی۔
سفر ہجرت میں سو اونٹوں کے لالچ میں سراقہ بن جعشم حضور ﷺ کا تعاقب کرتے کرتے قریب پہنچ گیا جب آقا ﷺ کی نظر اس پر پڑی تو دعا کی یا اللہ ہمیں اس کے شر سے محفوظ فرما ادھر آپ ﷺ نے دعا کی ادھر سراقہ کے گھوڑے کے پاؤں زمین میں دھنس گئے اور وہ نیچے گر گیا وہ سمجھ گیا کہ اللہ نے اپنے نبی ﷺ کی خصوصی حفاظت کا بندوبست کیا ہوا ہے اس نے معذرت کرتے ہوئے آپ ﷺ سے جان کی امان طلب کی آپ ﷺ نے معاف فرمادیا۔ اس نے وعدہ کیا کہ تعاقب میں آنے والے ہر شخص کو واپس کردوں گا۔ جب وہ پلٹنے لگا تو آنحضور ﷺ نے فرمایا: رکو! سراقہ اس وقت تمہاری شان کا عالم کیا ہوگا جب بادشاہ کسریٰ کے کنگن تمہارے ہاتھ میں پہنائے جائیں گے۔کچھ عرصے بعد سراقہ حاضر خدمت ہوکر مسلمان ہوگئے۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور میں ایران فتح ہوا اور کسریٰ کے زیورات اور نواردات آپ کو پیش کیے گئے تو آپ نے سراقہ رضی اللہ عنہ کو بلاکر سونے کی کنگن انہیں پہنادیئے۔
یہ دعوت دین کا وہ طریقہ کار ہے جو اللہ کے رسول حضور نبی اکرم ﷺ نے ہمارے لیے بطور نمونہ دیا۔ اگر ہم آئندہ آنے والی نسلوں کو دین منتقل کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں حضور ﷺ کے اُس دعوت کو اپنانا ہوگا۔
ماخوذ از ماہنامہ دخترانِ اسلام، ستمبر 2021ء
تبصرہ