نفس، شیطان، خواہش اور دنیا بندے کو اللہ کی قربت سے محروم کرتے ہیں: شیخ الاسلام کا ’’لیلۃ القدر‘‘ کے عالمی روحانی اجتماع سے خطاب
تحریک منہاج القرآن کے زیراہتمام ساتویں شب ’’لیلۃ القدر‘‘ کے سالانہ عالمی روحانی اجتماع میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے ’’قرب الہی‘‘ کے موضوع پر خصوصی خطاب کیا۔ اس موقع پر چیئرمین سپریم کونسل ڈاکٹر حسن محی الدین قادری اور صدر منہاج القرآن ڈاکٹر حسین محی الدین قادری بھی موجود تھے۔ شیخ الاسلام نے اپنے خطاب میں کہا کہ نفس، شیطان، خواہش اور دنیا، یہ چار عناصر ہیں، جو بندے کو اللہ کی قربت سے محروم کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ قرب الہیٰ وہ ہے جسے بندہ اپنے قلب میں محسوس کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ بندے سے اتنا قریب ہے کہ اس کا قرب تمہاری سمجھ میں ہی نہیں آ سکتا۔
اللہ رب العزت جسم اور جسمانیت سے پاک ہے اور اس کا کوئی حسی وجود نہیں ہے۔ مادی وجود اور جسموں کے لیے قرب اور بعد کا معنیٰ اور ہوتا ہے۔ اسی طرح اللہ رب العزت کی ذات جہتوں سے پاک ہے، جیسے آگے پیچھے کی جہت، دائیں بائیں جانب کی جہت ہے، پانچویں اور چھٹی جہت فوق اور تحت ہے، اللہ ان تمام جہات سے پاک ہے۔
جب اللہ پاک بعد قرب مکانی سے پاک ہے تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ قرب الہی کا معنی کیا ہوا؟ اللہ قرآن مجید میں فرماتا ہے کہ ’’اے میرے حبیب جب تجھ سے میرے بندے میری نسبت سوال کریں تو میں ان کے قریب ہوں۔‘‘
اس آیت میں اللہ پاک نے اپنی وحی میں یہ لفظ نہیں بولا کہ ’’اے حبیب آپ انہیں بتا دیں‘‘ کہ میں قریب ہوں۔ اگر یہ لفظوں کا اضافہ ہو جاتا کہ ’’آپ انہیں بتا دیں‘‘ تو اللہ کے قرب میں دو لفظوں کا اضافہ ہو جاتا، جس کو اللہ نے اپنے اور بندے کے درمیان قرب میں ان دو لفظوں کے اضافہ کو بھی گوارا نہیں کیا۔ اللہ نے فرمایا کہ اتنا قریب ہوں کہ میں نے قرب میں کسی لفظ کی بھی رکاوٹ نہیں رکھی۔
اللہ پاک نے ایک دوسرے مقام پر قرآن میں فرمایا کہ ’’ہم بندے کی شاہرگ سے بھی زیادہ قریب ہیں‘‘ شاہرگ اور انسان کی زندگی میں کوئی فاصلہ نہیں۔ یعنی زندگی شاہرگ میں ہے اور شاہرگ کے کٹتے ہی زندگی ختم ہو جاتی ہے۔
اللہ فرماتا ہے کہ میں اتنا قریب ہوں کہ میرا قرب تمہاری سمجھ میں ہی نہیں آ سکتا۔ انسان کا وجود زندگی سے ہے اور اللہ اس سے بھی زیادہ قریب ہے۔ قرب الہیٰ وہ ہے جسے بندہ اپنے قلب میں محسوس کرتا ہے۔ بندہ جب کسی بڑے کے قریب ہوتا ہے تو اس کا اتنا زیادہ حیا ہوتا ہے۔ ڈر لگتا ہے کہ کوئی خطا نہ کر بیٹھوں، کہیں اسے ناراض نہ کر بیٹھوں۔ جتنا جتنا تڑپ، حیا اور احساس آپ زیادہ کرتے ہیں تو توں توں بندہ اللہ کے قریب ہوتا چلا جاتا ہے۔
شیخ الاسلام نے کہا کہ سات حجاب بندے کو اللہ کی قربت سے دور کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم اپنے اعمال کی وجہ سے اللہ سے دور ہیں۔ ہم حجابات میں رہتے ہیں اور ہم اللہ سے دور ہوتے چلے جاتے ہیں۔
پہلا حجاب کفر و شرک کا حجاب ہے۔ بندہ اللہ کو مانتا ہی نہیں اور اس پر ایمان ہی نہیں رکھتا۔
دوسرا حجاب عقائد فاسدہ کا ہے۔ بندے کے گمراہ کن، غلط خیالات و نظریہ بندے کو اللہ سے دور کر دیتے ہیں۔
تیسرا حجاب باطنی گناہوں کا ہے۔ جیسے حسد، کبر، تکبر، خود پسندی، رعایاکاری، کینہ، دنیا کا حرص، دنیاوی مال اور لالچ دل میں رکھنا ہے۔ جب یہ چیزیں دل میں پیدا ہوتی ہیں تو یہ کبیرہ گناہ ہوتی ہے، جو بندے کو اللہ سے دور کرتی چلی جاتی ہیں۔
چوتھا حجاب ظاہری گناہ میں کبیرہ گناہ ہے۔ جیسے قتل نفس، والدین کی نافرمانی، حرام کھانا اور محرمات سے حرام کرنا ہے۔
پانچواں حجاب صغائر گناہوں میں کبیرہ گناہ ہے۔ ہر وہ کام جو اللہ اور اس کے رسول کی ناراضگی کا سبب بنے۔ یہ گناہ کثرت عبادات سے کرنے سے اس کے عذاب میں کمی تو ہو سکتی ہے لیکن جب تک اس صغیرہ گناہ کو ترک نہیں ہوں تو یہ دل پر پڑا ہوا پردہ نہیں اٹھے گا۔
چھٹا حجاب جو صغیرہ اور کبیرہ گناہ بھی نہیں اور باطنی گناہ بھی نہیں ہے۔ لیکن فضول چیزیں ہوتی ہیں، وہ اس میں شامل ہوتی ہیں۔ جیسے لغویات اور فضولیات۔
ساتواں حجاب غفلت ہے۔ یعنی آپ دل میں تسبیح کرتے ہیں، لیکن دل اس تسبیح کے ساتھ جڑا ہوا نہیں ہے۔ آپ عبادت کر رہے ہیں لیکن دل اس عبادت میں نہیں ہے۔
یہ سات حجاب بندے کو اللہ سے دور کرتے چلے جاتے ہیں۔ قرب الہی کی ابتدا ادب سے ہے۔ ادب جیسا کوئی اور عمل نہیں جو بندے کو اللہ کے سب سے زیادہ قریب کرتا ہے۔
جب فرعون نے موسیٰ علیہ السلام کو معاذاللہ شکت دینے کے لیے جادوگروں کو بلایا تو فرعون نے انہیں کہا کہ تم موسیٰ علیہ السلام کو شکست دے دو تو میں تمہیں اپنا قرب دوں گا۔ فرعون کی جب شکست ہوئی تو اس کے جادوگر سجدے میں گر پڑے تو یہ سجدہ ان کے قرب الہی کا باعث بنا۔ جو بندہ جتنا زیادہ سجدہ ریزی کرتا ہے تو اتنے ہی زیادہ قرب الہیٰ کے اس کے لیے دروازے کھلتے جاتے ہیں۔ فرعون کو شکست ہونے کے باوجود ایک ادب تھا، جس نے جادو کی شکست نے انہیں ایمان والا مومن بنا دیا۔ جس عمل نے انہیں اس درجہ پر پہنچایا، وہ ادب ہے۔
شیخ الاسلام نے پیغام دیتے ہوئے کہا کہ لوگو اللہ کا قرب چاہتے ہو تو نماز کو قرب الہی کا دروازہ بنا لو۔ جب نماز پڑھو تو دل میں تصور کرو کہ اس مولا سے باتیں کر رہے ہو۔ نماز وہ قربت دیتی ہے جو جنت کو جنتوں میں نہیں ملے گی۔ اس لیے حضور ﷺ نے نماز کو مومن کی جنت نہیں کہا بلکہ نماز کو مومن کی معراج کہا ہے۔ جنت عرش الہی کے نیچے اور معراج عرش الہی کے اوپر ہے۔ اگر نماز کی معراج کی کیفیت مل جائے تو معراج عالم او ادنیٰ پر لے جاتی ہے۔
ساتویں شب کا عالمی روحانی اجتماع
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے خطاب سے پہلے عالمی روحانی اجتماع کا باقاعدہ آغاز شب 12 بجے قاری نور محمد کی تلاوت قرآن مجید سے ہوا، انہوں نے انتہائی مسحور کن آواز و انداز میں تلاوت قرآن پاک کی۔ نقابت کے فرائض صفدر علی محسن نے ادا کیے۔
محفل میں الحاج محمد رفیق ضیاء قادری، شہزاد حنیف مدنی اور ملک پاکستان کے نامور ثناء خوانوں نے ثناء خوانی کی۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی نئی شائع ہونے والی کتب کا تعارف فرید ملت ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر محمد فاروق رانا نے پیش کیا۔
شیخ الاسلام نے اپنے خطاب میں بتایا کہ گوشہ درود کے قائم کردہ نظام کے تحت گوشہ درود اور دنیا بھر سے پڑھا گیا بھیجا جانے والا درود پاک صرف ایک ماہ مارچ 2022ء میں 23 ارب، 35 کروڑ، 5 لاکھ، 65 ہزار 98 ہے۔ جبکہ اب تک مجموعی طور پر گوشہ درود کا مجموعی پڑھا گیا درود پاک 5 کھرب اور 20 ارب کے قریب ہو چکا ہے۔
ستائیسویں شب کے عالمی روحانی اجتماع میں ملک پاکستان کے مختلف طبقہ ہائے فکر سے معزز مہمانوں، علماء و مشائخ، ثناء خوانوں، اسکالرز، وکلاء، قانون دان اور دیگر معزز شخصیات نے بھی شرکت کی۔
عالمی روحانی اجتماع کے اختتام پر شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے رقت امیر دعا کرائی۔ اس موقع پر عالم اسلام و پاکستان کی ترقی و خوشحالی، انسانیت اور امت کی سلامتی کے لیے بھی خصوصی دعائیں کی گئیں۔
تبصرہ