منہاج القرآن کا شہرِ اعتکاف اللہ کی طرف لوٹنے اور نسبتِ نبوت و رسالت کو پختہ کرنے کی بستی ہے: شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے شہرِ اعتکاف کی چوتھی نشست سے ’’رویۂ احسان – ہر ایک کے ساتھ بھلائی‘‘ کے موضوع پر خطاب کیا۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جب تک اللہ کسی چیز کو منع نہیں فرماتا، اُس وقت تک وہ چیز حرام نہیں ہوتی۔ کسی کا ضمیر مردہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اسے گناہ کرنے پر پشیمانی ہی نہیں ہوتی۔ وہ مسلسل گناہ کرتا ہے مگر اسے شرمندگی کا احساس تک نہیں ہوتا۔ اِیمان، عملِ صالح اور تقویٰ کا سفر ہمیشہ جاری رہتا ہے، ان اَعمال میں ترقی ہوتی رہتی ہے۔ مومن کے ایمان کا سفر کبھی ختم نہیں ہوتا۔ اس کا ایمان ہمیشہ رُو بہ ترقی رہتا ہے۔ اگر نیک اَعمال میں اللہ کی ذات کی طرف فوکس کر دیا جائے تو یہ عمل تقویٰ بن جاتا ہے۔
مومن ایمان، عملِ صالح اور تقویٰ کے باب میں کبھی ایک جگہ نہیں ٹھہرتا بلکہ اُس کی خواہش ہوتی ہے کہ اِن تینوں چیزوں میں بلند سے بلند تر ہوتا چلا جائے۔ قرآنی تعلیمات کے مطابق بھلائی کے بلند ترین درجے کو اِحسان کہتے ہیں۔ جب مومن ایمان، عملِ صالح اور تقویٰ کے آخری مقام پر پہنچتا ہے تو اس مقام کو اِحسان کہتے ہیں۔ بندہ پیکرِ اِحسان ہوجائے تو بھلائی کا سرچشمہ بن جاتا ہے۔ پھر اُس کے وجود سے ہمہ وقت بھلائی کے اَعمال سرزد ہوتے ہیں۔ یوں وہ سراپائے بھلائی بن جاتا ہے اور اُس سے شر اور گناہ کا کام صادر ہی نہیں ہوتا۔ جب انسان بھلائی کرتے کرتے چراغ کی مثل بن جائے (کہ ہر سُو خیر اور بھلائی کی روشنی بکھیرے)، تو ایسے شخص کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ شخص بھلائی کا سرچشمہ بن گیا ہے۔ صاحبانِ اِحسان کی پہچان یہ ہے کہ وہ ہر عمل اللہ کی رضا کے لیے کرتےہیں۔ اپنی خواہش، اپنی سوچ اور اپنی ترجیح حتیٰ کہ اپنا سب کچھ اللہ کے حکم کے آگے سر نگوں کر دیں تو اِحسان کا جوہر نصیب ہونا شروع ہو جاتا ھے۔ ہم سراپا جھوٹ بن چکے ہیں۔ ہم سچ بھی بولتے ہیں تو جھوٹ میں لپیٹ کر بولتے ہیں۔ بدلہ نہ لینا طاقتور کا صبر ہے۔ اگر طاقت نہ ہونے کی وجہ سے بدلہ نہ لے تو یہ صبر نہیں۔ اللہ کا ذاکر ایسا ذاکر ہوتا ہے کہ اسے دیکھنے سے اللہ یاد آ جاتا ہے، وہ سراپا ذکر اور سراپا بھلائی بن جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ تحریک منہاج القرآن کی تعلیمات اور شہرِ اِعتکاف کا مقصد یہ ہے کہ اُمت کے مردہ جسم میں پھر سے حقیقی تصورات، فکر، مقصدیت، اَخلاقِ حسنہ اور آدابِ فاضلہ کی روح کو داخل کیا جائے۔ صاحبانِ اِحسان کا یہ شیوہ ہوتا ہے کہ وہ ہر برائی کو بھلائی کے ذریعے دور کرتے ہیں۔ پیکرانِ اِحسان کسی کے ساتھ برائی کر ہی نہیں سکتے۔ ان کی طبیعتوں سے برائی کا جوہر ہی ختم ہو جاتا ہے۔ اگر انسان بھلائی کا پیکر بن جائے تو نہ صرف یہ کہ وہ کسی سے لڑائی نہیں کر سکتا بلکہ کوئی اُس سے بھی لڑائی نہیں کر سکتا۔ جب وہ گالی کا جواب ہی نہیں دے گا تو لڑائی کیسے ہوگی؟۔ ہم بالعموم نیکی اور بدی کا مِکسچر ہیں۔ ہم اپنی زندگیوں میں نیکی اور بدی کو ساتھ ساتھ لے کر چلتے ہیں۔ یعنی: باغباں بھی خوش رہے، راضی رہے صیاد بھی۔
نشست میں چیئرمین سپریم کونسل ڈاکٹر حسن محی الدین قادری، ناظم اعلیٰ خرم نواز گنڈاپور سمیت تحریک منہاج القرآن کے مرکزی قائدین، سربراہان شعبہ جات، علماء و مشائخ اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی شخصیات نے شرکت کی۔
تبصرہ