منہاج القرآن انٹرنیشنل کے زیراہتمام شبِ قدر کے موقع پر عالمی روحانی اجتماع
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا فلسفہ دعا کے موضوع پر خصوصی خطاب
عالمی روحانی اجتماع میں ہزاروں معتکفین، علماء و مشائخ، مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی شخصیات نے شرکت کی
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سورۃ البقرۃ کی آیت نمبر 186 میں اللہ تعالی نے اپنا ذکر صیغہ واحد متکلم کے ذریعے 7 مرتبہ فرمایا ہے۔ یہ بندوں پر خاص کرم نوازی اور عنایت ہے۔ سورۃ البقرۃ کی آیت نمبر 186 میں اللہ تعالی جتنی مرتبہ اپنا ذکر کرتا ہے، اُتنی بار بندے کو اپنے قریب کرتا ہے، 7 پردے اٹھا کر انہیں اپنی بارگاہ میں حضوری سے باریاب کرتا ہے۔ کسی لمحے دعا ترک نہ کرو۔ دعا خود اللہ کی بارگاہ میں حضوری کا ایک دروازہ ہے۔ دعا کو اپنے نقطۂ نظر سے نہ دیکھو، بلکہ دعا کو اُس مولا کی قربت اور حضوری کے تناظر میں دیکھو۔ ہم دعا کو اپنی حاجات و ضروریات کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہمارا نقطہ نظر تبدیل فرمایا ہے۔ دعا سے کیا مل رہا ہے، یہ سمجھ میں آئے یا نہ آئے۔ اس پر دھیان نہ دو۔ دعا درحقیقت پردے اٹھاتی ہے اور بندے کو مولا کی حضوری نصیب ہو جاتی ہے۔
دعا سے انسان اللہ تعالی کا قُرب حاصل کرتا ہے۔ جب دینے والا نظر نہ آرہا ہو، اُس وقت مانگنے کی کیفیت اور ہوتی ہے۔ لیکن جب حجابات اور پردے اٹھا دیے جائیں، اُس وقت مانگنے کی کیفیت ہی کچھ اور ہوجاتی ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لوگوں کی ذہنی سطح اور شعور کے مطابق گفتگو فرماتے اور روز مرہ زندگی سے عام فہم مثالیں دے کر اپنی بات واضح فرماتے۔ الحدیث: اپنی جانوں پر رحم کرو، سختی نہ کرو۔ تم کسی ایسی ہستی کو نہیں پکار رہے ہو جو تم سے دور نہیں بلکہ تمہارے بہت قریب ہے۔ جب دعا کرنے والے کو حضوری نصیب ہوتی ہے، دعا قبولیت کا درجہ پا لیتی ہے۔ قرآن کی رُو سے اللہ تعالی ہماری شہ رگ سے بھی قریب ہے۔ یہ جگہوں اور فاصلوں کا قرب نہیں، بلکہ اللہ تعالی کے رتبے کا قرب ہے۔
انہوں نے کہا کہ الحدیث: بندے کے دل اور انسان کی جان کے درمیان اللہ ہوتا ہے۔ اللہ تعالی کے لیے جمع کا صیغہ اُس کی بزرگی اور عظمت پر دلالت کرتا ہے۔ اللہ تعالی کے لیے صیغہء واحد میں اُس کی محبت اور قرب کا تاثر ملتا ہے، تاکہ بندے کی جھجک ختم ہوجائے۔ اُس کو محبت اور قربت کا تاثر نصیب ہو۔ اللہ تعالی کا قُرب، قُرب سے بھی زیادہ قریب ہے۔ اللہ تعالی انسان پر انسان سے بھی زیادہ شفیق ہے۔ قریب ہونے کا تصور جہاں تک انسانی شعور کو لے جا سکتا ہے، اللہ تعالی اُس سے بھی بہت قریب ہے۔ وہ اس طرح قریب نہیں ہے جس طرح انسان ایک دوسرے کے قریب ہوتے ہیں۔ سورۃ البقرۃ کی آیت نمبر 186 کے مطابق اللہ تعالی ہر پکارنے والی کی پکار اور دعا کو سنتا ہے۔ سورۃ البقرۃ کی آیت نمبر 186 میں اللہ تعالی نے مرتبہء دعا میں اپنی قربت کا پیغام دیا ہے۔ جب تک دعا کرنے والا دعا کرتا رہتا ہے، اللہ تعالی اُسے اتنے اَنوارِ قُرب سے نوازتا رہتا ہے۔
دعا اِس طرح کرو کہ تیرا وجود خود بندگی بن جائے، تیرا وجود خود دعا بن جائے۔ دعا اِس طرح کرو کہ تیرا وجود خود بندگی بن جائے، تیرا وجود خود دعا بن جائے۔ دعا بندے کو اللہ کے قریب لاتی ہے اور دوری کو قربت میں بدل دیتی ہے۔ بندہ اللہ کے قریب نہیں ہوتا، بلکہ اللہ بندے کو اپنے قریب کرتا ہے۔ جتنا قریب کرنا چاہتا ہے، قریب کرتا ہے۔ جب اللہ بندے کے قریب ہوتا ہے تو پھر اُس بندے کو قُرب کا شوق دیتا چلا جاتا ہے۔ ہمہ وقت دعا کرتے رہا کرو۔ دعا سب عبادات سے افضل مقام رکھتی ہے۔ عبادت مخصوص اوقات میں کی جاتی ہے، جب کہ دعا کا کوئی خاص وقت مقرر نہیں ہے۔ جہاں چاہیں جب چاہیں، اللہ تعالی سے ہر وقت دعا کرتے رہیں۔ کیوں کہ دعا خود بندے کو یہ شرف بخشتی ہے کہ اللہ اُسے اپنے قریب کرتا چلا جاتا ہے۔ خود کو کبھی دعا سے محروم نہ کرو۔ انسان کو یہ معلوم نہیں دعا کے عمل میں کتنی برکتیں، سعادتیں اور رحمتیں مخفی ہیں۔
دعا کی قبولیت کی دو شرائط ہیں: پہلی شرط یہ ہے کہ انسان خدا کو سنے کہ وہ اس سے کیا چاہتا ہے۔ انسان خدا کی بات مانے تاکہ خدا انسان کی بات مانے۔ ساری زندگی ہم اللہ کی نافرمانی کرتے رہیں اور اُس کے اَحکامات کی خلاف ورزی کرتے رہیں۔ گویا ہم نے اُس سے رشتہ بندگی توڑ دیا ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ جب ہم اُس سے مانگیں تو وہ ہماری مان لے؟ جیسی دعا ہوگی ویسی قبولیت ہوگی۔ نافرمانی اور معصیت کاری کے ساتھ دعا قبول نہیں ہوتی۔ دعا کا مطلب ہے جب اللہ سے مانگنا ہے تو اُس نے جو حکم دیا ہے، وہ بھی سنو اور مانو۔
انہوں نے مزید کہا کہ دعا عبادات میں سب سے مکرم ہے۔ لہٰذا جو شے سب سے زیادہ محبوب اور عظیم ہوتی ہے، اُس کے تقاضے اور شرائط بھی اتنی عظیم ہوتی ہے۔ دعا کی شرائط پورا کریں تو قبولیت ہوتی ہے۔ اُصولوں کی خلاف ورزی کریں تو دعا رد کردی جاتی ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ گناہوں میں لت پت رہیں اور مولا کی نافرمانی میں زندگی گزاریں؛ لیکن جب دعا کا وقت آئے تو ہماری دعا قبول ہوجائے! ہماری دعائیں کیوں قبول نہیں ہوتیں؟ ... ہم اپنے اَحوال اور معاملات کا جائزہ لیں تو ہمیں اِس طرح کے بہت سے سوالات کا جواب مل جائے گا۔ ایک مرتبہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعا کرنے کا ارادہ فرمایا تو پہلے خونی رشتے توڑنے والے کو اپنی مجلس سے باہر بھیج دیا۔ الحدیث: جس جگہ یا جماعت میں خونی رشتے توڑنے والا بیٹھا ہو، اُس مجلس پر اللہ تعالی اپنی رحمت نازل نہیں فرماتا۔ (ایک شخص کی قطع رحمی پوری مجلس کو رحمت سے محروم کردیتی ہے۔ ) خاندان میں کسی ایک شخص کی قطع رحمی کی وجہ سے سارا خاندان رحمت سے محروم ہوجائے تو یہ کتنی بڑی بدبختی کی بات ہوگی! ہم نے اپنے بُرے اعمال کی وجہ سے اللہ کی رحمت کے دروازے خود بند کر دیے ہیں۔ دعا کی قبولیت کی پہلی شرط یہ ہے کہ بندہ ہر وقت اللہ تعالی کی اطاعت اور فرماں برداری میں رہے۔
دعا کی قبولیت کی دوسری شرط یہ ہے کہ بندہ قطع رحمی کرنے والا نہ ہو۔ خونی رشتے کاٹنے والے کی دعا قبول نہیں ہوتی، بلکہ اُس کے دیگر نیک اعمال بھی رد کر دیے جاتے ہیں۔ دعا کی قبولیت کی تیسری شرط رزقِ حلال ہے۔ حرام رزق دعا کی قبولیت کا دروازہ بند کردیتا ہے۔ ہم ہر وقت دولت بنانے اور مال جمع کرنے کی فکر میں ہیں۔ نیکیاں جمع کرنے میں بھلے کتنے قلاش ہوتے جائیں! ہم ہر وقت امیر بننے کی فکر میں رہتے ہیں، دین میں بھلے کتنے غریب ہوتے جائیں! حرام کی کمائی صرف چوری اور ڈاکہ زنی سے نہیں ہوتی۔ بلکہ جھوٹ بولنے، قیمت غلط بتانے، ناپ تول میں کمی کرنے اور دھوکہ دہی کے ذریعے کمایا گیا مال بھی حرام ہوتا ہے۔ ذخیرہ اندوزی یعنی قیمتیں بڑھنے کے انتظار میں جمع کیے گئے مال سے حاصل ہونے والی آمدنی بھی حرام ہوتی ہے۔ دین بیچ کر حاصل کی گئی کمائی بھی حرام ہوتی ہے۔ ہماری دنیا تو کاروبار تھی، ہم نے دین کو بھی کاروبار بنا لیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ نعت اور تقریر کے پیسے مقرر کرکے مال کمانا حرام ہے۔ کسی کی سادگی کا فائدہ اُٹھا کر مال کمانا حرام ہے۔ عیاری سے حاصل کی گئی کمائی حرام ہے۔ دعا کی قبولیت کی ایک شرط یہ ہے کہ اس کی قبولیت میں جلدی نہ کی جائے۔ دعا کو فوری قبول کرنے یا مؤخر کرنے کا فیصلہ اللہ تعالیٰ کا ہوتا ہے۔ دعا توبہ کے ساتھ ہونی چاہیے۔ توبہ یہ ہے کہ بندہ برے کام پر نادم ہو اور اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرلے۔ جب دعا کی جائے، پورے آداب کے ساتھ کی جائے۔ پورا جسم و روح اللہ کے حضور پیش ہو۔ دعا کی قبولیت کی مختلف صورتیں ہوتی ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ایک ہی صورت ہے۔ دعا کی قبولیت کی مختلف شکلیں ہوتی ہیں۔ ہماری مانگی ہوئی چیز ہمارے مانگے ہوئے وقت پر ہمارے مانگے ہوئے انداز میں نہ ہو تو ہم سمجھتےہیں کہ ہماری دعا قبول نہیں ہوئی۔ ہمارا کام مانگنا اور دعا کرنا ہے، قبول کرنا اور دینا اُس مالک کا کام ہے۔ الحدیث: تین صورتوں میں سے کسی بھی ایک صورت میں دعا قبول ہوسکتی ہے۔ ایک صورت یہ ہے کہ بلا تاخیر جو مانگا ہے مل جائے۔ قبولیت کی دوسری صورت یہ ہے کہ جو مانگا ہے، وہ آخرت کے لیے محفوظ کر دی جاتی ہے۔ دعا کی قبولیت کی چوتھی شکل یہ ہے کہ مانگی گئی دعا کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ بندے کے گناہ معاف فرما دیتا ہے۔
دعا کی قبولیت کی پانچویں صورت یہ ہے کہ اللہ تعالی دعا کے بدلے میں کوئی ایسی نعمت فرما دیتا ہے جوبندے کے مقدر میں نہیں لکھی ہوتی۔ دعا کی قبولیت میں جلدی کرنے سے مراد ہے کہ انسان یوں کہے: دعا کرتے اتنا عرصہ ہوگیا ہے، ابھی تک قبول نہیں ہوئی۔ اس طرح کہنے سے دعا کی قبولیت کا دروازہ بند ہوجاتا ہے۔ دعا کو قبول کرنا اللہ تعالیٰ کی freedom of will ہے۔ لہٰذا دعا کی قبولیت اللہ تعالیٰ پر چھوڑ دینی چاہیے۔
اختتام پر شیخ الاسلام ڈاکٹر طاہرالقادری نے وطن عزیز کی سلامتی، خوش حالی اور بحرانوں سے نجات کے لئے دعا کروائی، ہزاروں معتکفین نے ایمان اور پاکستان کی سلامتی کے لئے اللہ کے حضور گڑ گڑا کر دعائیں۔
تبصرہ