شہر اعتکاف 2024: تحریک منہاج القرآن کے زیراہتمام عالمی روحانی اجتماع
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا ’’حضرت بشرالحافیؒ سے ملاقات‘‘ کے موضوع پر خطاب
تحریک منہاج القرآن کے زیراہتمام عالمی روحانی اجتماع میں شریک ہزاروں فرزندانِ توحید سے حضور شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری دامت برکاتہم العالیہ نے ’’حضرت بشرالحافیؒ سے ملاقات‘‘ کے موضوع پر خطاب کیا۔
اس موقع پر انہوں نے کہا کہ ایمان ایک بیج کی طرح ہے جو دل کی زمین پر بویا جاتا ہے۔ یہ خود بخود پروان نہیں چڑھتا اور پھل دار نہیں بنتا، بلکہ ایمان کی مضبوطی و پختگی کے سارے مرحلے اندرونی و بیرونی کوشش کے محتاج ہوتے ہیں۔ ایمان بیج کی طرح ہمارے دلوں میں آجاتا ہے لیکن ایمان کے پودے کو پھل دار بنانے کے لیے مسلسل محنت درکار ہوتی ہے۔ اگر ہم ہر قدم پر اِس کی حفاظت نہیں کریں گے تو پھر ہم اِس کے پھل سے محروم ہو جائیں گے۔ (العیاذ باللہ) ہم اِس غلط فہمی میں ہیں کہ چونکہ ہم مسلمان گھرانوں میں پیدا ہوئے ہیں، اس لیے ہمارے ایمان کا بیچ خود بخود پھل دار بن جائے گا۔ ہمیں ہر وقت ایمان کے اس پودے کی حفاظت کی ضرورت رہتی ہے۔ نیکیوں، اَعمالِ صالحہ، نماز، روزہ، حج، زکوۃ، تلاوت قرآن اور سنتِ مصطفیٰ ﷺ کی پیروی سے ایمان کی حفاظت کرنا ہوگی۔ نیک اَعمال ایمان کے محافظ اور promoter ہیں، اَعمالِ صالحہ سے ایمان کی افزائش (growth) ہوتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ تصور غلط ہے کہ ہم دل کے مسلمان ہیں اور ہمارا دل نیک، پاک اور صاف ہے۔ جس شخص کا ظاہر طیب، مطہر اور پاک نہیں اور اس میں فسق و فجور ہے، اس کا باطن کبھی مسلمان اور پاکیزہ نہیں ہوسکتا۔ یہ تصور Godless فکر اور سوچ کا دیا ہوا ہے کہ زندگی میں ہر لمحہ حرام کماتے اور کھاتے رہیں اور پھر اسے اپنا پرائیویٹ معاملہ قرار دے دیں۔ ظاہر اور باطن کے اپنے اپنے فوائد ہوتے ہیں۔ اَعمالِ صالحہ نہ کرنا اور اِسے اپنا اور رب کا معاملہ قرار دینا بالکل غلط تصور ہے۔ یہ اِیمان کو کفر اور اِلحاد کی طرف لے جانے والی فکر ہے۔ جس طرح کسی پھل کا ظاہر اس کا چھلکا ہوتا ہے۔ اگر اسے اتار کر پھینک دیا جائے اور اس کا گودا جسے ہم بالعموم کھاتے ہیں، بچا کر رکھ لیں تو کچھ گھنٹوں بعد وہ پھل خراب ہو جاتا ہے۔ اِسی طرح اگر ایمان کے ظاہر کی حفاظت نہیں کریں گے تو اس کا بیج یعنی ہمارا باطن بھی درست نہیں رہے گا۔ ہمیں ہر وقت نیک اعمال کے ذریعے ایمان کے ظاہر اور باطن دونوں کی حفاظت کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایمان کے معاملے میں انسان کا کوئی معاملہ ذاتی نہیں رہتا۔ ہر معاملہ اللہ اور اُس کے رسول ﷺ کے اَحکامات کے تابع ہوگا تو ایمان محفوظ رہے گا۔
انہوں نے کہا کہ اللہ رب العزت نے قرآن مجید کے جملہ اَحکامات میں توبہ، ایمان اور عملِ صالح کو جوڑا ہے۔ عمل اور شے ہے اور تقریر اور شے۔ اگر دین عمل میں نہیں ڈھلا تو پھر کسی تقریر کا کوئی فائدہ نہیں، نہ دنیا میں نہ آخرت میں۔ آج اکثر واعظین کا حال یہ ہے کہ تقریر میں عمدہ گفتگو کے فضائل بتاتے ہیں مگر اپنے عمل میں بد زبانی پر عمل پیرا رہتے ہيں۔ تقریر میں اچھے اخلاق کا پرچار کرتے ہیں مگر معاملات میں بد اَخلاقی کا مظاہرہ کرتے رہتے ہیں۔ قول و عمل کے اس تضاد سے معاشرے میں کوئی مثبت تبدیلی نہیں آسکتی۔ جب بھی آپ کہیں جاتے ہیں، کسی نہ کسی کی نمائندگی کر رہے ہوتے ہیں۔ آپ نے جہاں جانا ہے وہاں آپ نے اپنی اصل کی حفاظت بھی کرنی ہے۔ یہ ذمہ داری اللہ کے دین کے نمائندوں پر زیادہ بھاری ہے کہ ان کے ہر عمل کو ان کی جماعت، مسلک اور مذہب کے ساتھ جوڑا جائے گا۔ وہ جیسے ہی کوئی غلط عمل کریں گے تو کہا جائے گا: صرف یہ نہیں بلکہ اس کی جماعت، مسلک، مذہب اور خدا ہی غلط ہے۔
انہوں نے کہا کہ امام احمد بن حنبل فرماتے تھے: بشر الحافی کا مقابلہ کون کرسکتا ہے؟ بشر الحافی جیسا کون ہوسکتا ہے؟ ... اللہ کی بارگاہ میں ان کا مقام و مرتبہ بہت بلند ہے۔ اللہ کی حرام کردہ تمام اشیاء کو ترک کردینا اور اپنی زندگی کو ہر حرام سے پاک کرلینا تقویٰ کی ابتداء ہے۔ زندگی کو حرام سنگت و صحبت سے پاک کرلینا حقیقی تقویٰ ہے۔ شریعت کے اَحکام کی حفاظت کرنا مسلمانی ہے، اور شریعت کے آداب کی حفاظت کرنا تقویٰ ہے۔ خود کو ہر اُس شے سے بچائیں جو آپ کے دل و دماغ میں فسق و فجور ڈالے اور آپ کو اللہ اور اُس کی یاد سے دور کرے۔ تقویٰ یہ ہے کہ انسان ہر اُس جگہ نہ ہو جہاں خدا اُسے دیکھنا نہیں چاہتا، اور ہر اُس جگہ موجود ہو جہاں خدا اُسے دیکھنا چاہتا ہے۔ [فرمانِ غوث الاعظمؒ]۔کسی عورت نے امام احمد بن حنبل سے مسٔلہ دریافت کیا کہ میں اپنی چھت پر سوت کات رہی تھی کہ اُس راستے سے شاہی لشکر کا گزر ہوا۔ میں نے اُس لشکر کی روشنی میں تھوڑا سا سوت کات لیا۔ کیا وہ سوت میرے لیے جائز ہے؟ یہ سن کر امام احمد بن حنبل نے فرمایا: پہلے یہ بتاؤ کہ تم کون ہو؟ اس عورت نے جواب دیا: میں بشر الحافی کی ہمشیرہ ہوں۔ امام احمد رو پڑے اور فرمایا: وہ سوت تمہارے لیے جائز نہیں۔ تم حضرت بشر الحافی کی بہن ہو جو اَہل تقوی ہیں، آپ کو اپنے بھائی کے نقشِ قدم پر چلنا چاہیے جو مشتبہ کھانے پر اگر ہاتھ بڑھاتے تو ہاتھ بھی ان کی پیروی نہیں کرتا تھا۔
حضرت بشر الحافی کی توبہ کا واقعہ بیان کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ حضرت محمد بن صلت بیان کرتے ہیں: حضرت بِشر بن حارث (الحافی) سے ان کی توبہ کے معاملہ اور سلوک و تصوف کی ابتداء کے بارے میں پوچھا گیا: بے شک آپ کا نام لوگوں میں ایسے ہی محترم ہے جیسے کسی نبی کا نام ہو، اس کی کیا وجہ ہے؟ آپ نے فرمایا: یہ سراسر فضلِ اِلٰہی ہے۔ میں آپ کو اس فضل کے بارے میں بتاتا ہوں۔ میں بڑا آوارہ اور غلط دوستیاں رکھنے والا شخص تھا۔ ایک دن میں گزر رہا تھا کہ اچانک مجھے راستے میں کاغذ کا ایک ٹکڑا نظر آیا، اسے میں نے اٹھا لیا۔ میں نے دیکھا کہ اس پر {بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ} لکھی ہوئی ہے۔ میں نے اسے پونچھا، صاف کیا اور اسے چوم کر اپنی جیب میں رکھ لیا۔ میرے پاس اُس دِن دو درہم تھے، ان کے علاوہ میرے پاس کچھ نہ تھا۔ میں عطر فروشوں کے پاس گیا، ان دو درہموں سے میں نے قیمتی عطر خریدا اور اسے کاغذ کے ٹکڑے پر مَل دیا۔ اُس رات میں سویا تو خواب دیکھا۔ گویا کوئی کہنے والا مجھے کہہ رہا تھا: اے بشر بن حارث! تو نے راستے سے ہمارا نام اٹھایا اور اسے خوشبو لگائی، میں ضرور بالضرور تمہارے نام کو دنیا و آخرت میں پاکیزہ کردوں گا۔ اور پھر ایسا ہی ہوا۔
انہوں نے کہاکہ علم بیان کرنے کے لیے نہیں بلکہ عمل کرنے کے لیے ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انبیاء کرام علیہم السلام کو علم عطا کیا اور انہوں نے اِس علم کے ذریعے اِنسانیت کی راہ نُمائی فرمائی۔ آخرت کا عمل ہو اور بندہ اس سے دنیا کمائے۔ ... اس سے قبیح عمل کوئی نہیں۔ جو شخص نیک اَعمال اِس نیت سے کرے کہ وہ پہچانا جائے، اِس سے بری نیت کوئی نہیں۔ جو اپنے علم کے ذریعے یہ خواہش رکھے کہ وہ پہچانا جائے اور اسے عزت و تکریم ملے، وہ نیک اَعمال کی لذت نہیں پاسکتا۔ ... اگر نیک اعمال کی لذت پانا چاہتے ہو تو ہر چیز سے بے نیاز ہو جاؤ۔ اپنی نیکیوں کو اُسی طرح چھپاؤ جیسے اپنے گناہوں کو چھپاتے ہو۔ جب آپ سنگتیں اور دوستیاں بناتے ہیں تو دیکھیں کن دوستیوں اور سنگتوں سے دل سخت ہوتا جا رہا ہے اور دین کی محبت کم ہوتی جا رہی ہے۔ گویا دل مردہ ہوتے جارہے ہیں۔ فوراً ایسی مجلس چھوڑ دیں۔مُردوں اور زندوں کا فرق جاننا ہے تو چلتے پھرتوں کو زندہ نہ جانو اور فوت شدگان کو مُردہ نہ جانو۔ حقیقی زندہ وہ لوگ ہیں جن کے ذکر سے مُردہ دلوں کو راحت، حیات اور لذتِ اِیمانی مل جائے۔ جن کی دوستی، صحبت اور سنگت سے دل مردہ ہوجائیں وہ مردہ لوگ ہیں۔ مُردوں اور زندوں کا فرق جاننا ہے تو چلتے پھرتوں کو زندہ نہ جانو اور فوت شدگان کو مُردہ نہ جانو۔ حقیقی زندہ وہ لوگ ہیں جن کے ذکر سے مُردہ دلوں کو راحت، حیات اور لذتِ اِیمانی مل جائے۔ جن کی دوستی، صحبت اور سنگت سے دل مردہ ہوجائیں وہ مردہ لوگ ہیں۔ اللہ کی نافرمانی چھوڑ دینے کا نام دعا ہے۔ دعا کی حقیقت یہ ہے کہ بندہ گناہ چھوڑ دے تو اللہ بن مانگے عطا کر دیتا ہے۔ نماز کو لمحۂ ملاقات بنا لیں۔ کسی قیمت پر نماز نہ چھوٹے۔
تبصرہ