ایمان کا سب سے بلند درجہ اللہ تعالیٰ انبیاء کو عطا کرتا ہے: پروفیسر ڈاکٹر حسین محی الدین قادری
جب دل عبودیت میں ڈوب کر ربوبیت کی روشنی محسوس کرے، تو وہی ایمانِ تحقیقی ہے: صدر منہاج القرآن
ایمانِ تحقیقی وہ کامل اور روشن ایمان ہے جو محض تقلید یا زبانی اقرار سے نہیں بلکہ معرفت، یقین اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ شعور سے حاصل ہوتا ہے۔ یہ ایمان اُس وقت پیدا ہوتا ہے جب اللہ تعالیٰ اپنے بندے کے دل پر اپنی ربوبیت کی تجلّی فرما دیتا ہے، اور بندہ اپنے باطن میں اس نور کو محسوس کر کے حق کو دل کی گہرائیوں سے پہچان لیتا ہے۔ ایمانِ تحقیقی میں شک، وسوسہ اور تردد کی گنجائش نہیں رہتی، کیونکہ یہ عقل کے دلائل سے نہیں بلکہ دل کے یقین اور روح کے ادراک سے حاصل ہوتا ہے۔ ایسا ایمان دلیل کا محتاج نہیں ہوتا بلکہ دل خود گواہی دیتا ہے کہ حق وہی ہے جو اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے فرمایا۔ یہ ایمان ان بندوں کا نصیب بنتا ہے جو عبودیت میں فنا ہو کر رب کی معرفت سے بقا پاتے ہیں، اور جن کے دل ایمان کی روشنی سے منور ہو جاتے ہیں۔
ایمان تحقیقی کی تعریف
پروفیسر ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ: حضور سیدنا غوثِ اعظم سیدنا عبدالقادر جیلانیؓ نے ایمانِ تحقیقی کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ: یہ وہ ایمان ہے جس کے بارے میں اللہ رب العزت فرماتا ہے کہ ابھی تم صرف یہ کہو کہ: ہم مسلمان ہیں۔ جب یہ چیز تمہارے دل میں داخل ہو جائے تو پھر کہنا: میں ایمان لے آیا۔ یعنی حقیقی ایمان وہ ہے جو زبان سے نہیں بلکہ دل کی گہرائی سے پیدا ہو اور انسان کے وجود کا حصہ بن جائے۔
پھر حضور غوث الاعظم فرماتے ہیں: ایمان کے بھی درحقیقت تین درجے ہیں، ہر شخص ایمان کے ایک درجے پر فائز نہیں ہے۔ ایمان کا سب سے بلند درجہ اللہ تعالیٰ انبیاء کو عطا فرماتا ہے، جو اللہ رب العزت شہداء کو عطا کرتا ہے، صدیقین کو عطا کرتا ہے اور ہر دور کے اہل اللہ کو عطا کرتا ہے وہ سب سے بلند درجہ ایمان ہے۔ حضور غوث الاعظم فرماتے ہیں کہ: اس ایمان کو ایمانِ تحقیقی کہتے ہیں یعنی یہ وہ ایمان ہے جو کوشش سے حاصل نہیں ہوتا، یہ وہ ایمان کی قسم ہے جو محنت سے حاصل نہیں ہوتی، یہ اللہ رب العزت اپنی شانِ ربوبیت کی تجلّی جب انسان کے دل پر فرماتا ہے اور اُس کا دل شانِ عبودیت کے ساتھ اُن تجلیات کو محسوس کرتا ہے، اپنے اوپر وارد کرتا ہے، تو اُس تجلّی کے ساتھ جو کیفیت دل کو نصیب ہوتی ہے اُسے ایمانِ تحقیقی کہتے ہیں۔ یعنی جب دل عبودیت میں ڈوب کر ربوبیت کی روشنی محسوس کرے، تو وہی ایمانِ تحقیقی ہے۔
ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ: ایمانِ تحقیقی وہ ایمان ہے جو کسی کے ڈالنے سے نہ آیا ہے اور نہ کسی کے نکالنے سے نکلے گا، یہ داخل بھی خدا کرتا ہے، اِس کو نکالتا بھی خدا ہے، اور جس ایمان کو خدا داخل کرے وہ پھر ہر دلیل سے ماوراء ہوتا ہے، اُس ایمان کو مضبوطی کے لیے پھر دلائل کی ضرورت نہیں ہوتی۔
پھر ایسا ہی ہوتا ہے کہ سیدنا صدیقِ اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بارگاہ میں کوئی آ کر کہے کہ وہ رات کے تھوڑے سے عرصے میں رب تعالیٰ کے حضور عرشِ معلّی سے حاضر ہو کر واپس لوٹ آیا ہے، کیا آپ مان لو گے؟ آپؓ نے فرمایا: نہیں مانوں گا، اگر یہ بات عام شخص کہے تو میں نہیں مانوں گا، لیکن اگر یہ میرے آقا ﷺ نے فرمایا ہے، تو بے شک یہ حق ہے، میں اسے دل و جان سے تسلیم کرتا ہوں۔
یہی ایمانِ تحقیقی ہے، یعنی ایسا ایمان جو دلیل، منطق اور ظاہری ثبوت سے ماورا ہوتا ہے؛ جو لوگوں کی تائید یا شہرت کا محتاج نہیں۔ جس دل میں یہ ایمان جاگزین ہو جائے، وہ اس بات کی پروا نہیں کرتا کہ اس کے ساتھ کتنے لوگ ہیں یا مخالف کتنے ہیں، کیونکہ اس کے دل میں رب کی تجلّی جا گزیں ہو چکی ہوتی ہے۔ اگر سارا جہان ایک طرف ہو اور محبوبِ حق دوسری طرف، تو اس کا دل صرف محبوبِ حق کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے۔ یہی ایمان ہے جو دلیل سے نہیں، رب کی عنایت اور تجلّی سے نصیب ہوتا ہے۔ اور یہی ایمان سب سے اعلیٰ و ارفع درجہ ہے جسے اللہ تعالیٰ اپنے خاص بندوں کو عطا فرماتا ہے۔ انسان کو چاہیے کہ اپنی زندگی میں اسی کامل ایمان کے حصول کی جستجو رکھے۔
ایمانِ تحقیقی کی حفاظت اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے ایمانِ تحقیقی کے متعلق مزید توضیح کرتے ہوئے کہا کہ: ایمانِ تحقیقی ایسا درجہ ہوتا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کسی کو ایمانِ تحقیقی عطا فرماتا ہے تو پھر خود اس کی حفاظت فرما دیتا ہے۔ وہ شخص اپنا ایمان بچانے کی فکر میں نہیں رہتا، بلکہ دوسروں کے ایمان کی حفاظت کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ ہم تو اپنا ایمان بچانے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں، مگر وہ بندہ دوسروں کے ایمان کا محافظ بن جاتا ہے۔ اس لیے انسان کو چاہیے کہ اپنی زندگی میں اسی بلند ایمان اور مقام کو حاصل کرنے کی کوشش کرے۔
حاصلِ کلام
ایمانِ تحقیقی دراصل ایمان کا وہ بلند اور باطنی درجہ ہے جو محض علم یا تقلید سے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی تجلّی اور معرفت کے نور سے نصیب ہوتا ہے۔ یہ ایمان انسان کے دل میں اس وقت پیدا ہوتا ہے جب ربّ کائنات اپنی ربوبیت کی روشنی سے اس کے باطن کو منوّر کر دیتا ہے، اور بندہ یقینِ کامل کے ساتھ حق کو پہچان لیتا ہے۔ اس درجے کا ایمان دلیل یا منطق کا محتاج نہیں رہتا بلکہ دل خود گواہی دیتا ہے کہ جو کچھ اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے فرمایا وہی حق ہے۔ یہی ایمان صدیقین، شہداء اور اولیاءِ کاملین کا سرمایہ ہے، جسے اللہ تعالیٰ اپنے خاص بندوں کو عطا کرتا ہے اور خود اس کی حفاظت فرماتا ہے۔ ایسا ایمان انسان کو نہ صرف اپنے ایمان کا محافظ بناتا ہے بلکہ دوسروں کے ایمان کے لیے بھی باعثِ استقامت اور ذریعۂ ہدایت بنا دیتا ہے۔


















تبصرہ