مسلمانوں نے علم و فن اور مہذّب طرزِ زندگی کی بنیاد رکھ کر پوری انسانیت پر احسان کیا: پروفیسر ڈاکٹر حسین محی الدین قادری
جب دنیا تاریکی میں ڈوبی ہوئی تھی، مسلمان علم و فن کی روشنی بانٹ رہے تھے: صدر منہاج القرآن
جب آقا علیہ الصلاۃ والسلام نے ظاہری طور پر اس دنیا سے پردہ فرمایا تو خلافتِ راشدہ کے دور میں امتِ مسلمہ نے علم، تہذیب اور تمدن کی ایک نئی دنیا قائم کر دی۔ وہی امت جس نے اندھیروں میں ڈوبی دنیا کو علم و شعور کی روشنی عطا کی، شہری منصوبہ بندی، صفائی، سیوریج سسٹم اور پانی کی فراہمی جیسے بنیادی اصول متعارف کروائے۔ اُس زمانے میں جب یورپ کے بڑے شہر جیسے پیرس اور لندن تاریکی، گندگی اور جہالت میں ڈوبے ہوئے تھے، مسلمان منظم شہروں میں رہتے تھے جن میں عوامی ٹوائلٹس، روشن سڑکیں اور صاف ستھرے گھر ہوا کرتے تھے۔ اسپین کی مسلم سلطنت نے علم و فن کی وہ بنیادیں رکھیں جن پر آج بھی دنیا فخر کرتی ہے۔ ہسپتال، سکول، جامعات، حتیٰ کہ خواتین کے لیے الگ تعلیمی ادارے اُس دور میں موجود تھے۔ مسلمان عورتیں طب، خوشنویسی اور علمی تحقیق میں مردوں کے شانہ بشانہ کام کر رہی تھیں۔ فنِ تعمیر، قالین سازی، لباس، گھڑی اور کافی جیسے روزمرہ کلچر بھی امتِ مسلمہ کی عطا ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ مسلمان اُس وقت دنیا کے معمار تھے، جنہوں نے تہذیب، علم اور مہذب طرزِ زندگی کی بنیاد رکھ کر پوری انسانیت پر احسان کیا۔
امتِ مسلمہ کا عروج: علم، تہذیب اور تمدّن کی سنہری داستان
پروفیسر ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے مسلمانوں کی ترقی کے متعلق خطاب کرتے ہوئے کہا کہ: امتِ مسلمہ ایک زمانے میں عظیم عروج پر تھی، مگر آج وہ حالت باقی نہیں رہی۔ 632ء میں جب حضور نبی اکرم ﷺ نے ظاہری طور پر اس دنیا سے پردہ فرمایا، تو آپ کے بعد خلافتِ راشدہ کا دور شروع ہوا۔ ساتویں صدی کے آغاز ہی سے امتِ مسلمہ نے علم و دانش کی روشنی پوری دنیا میں پھیلانا شروع کر دی تھی۔ حضور نبی اکرم ﷺ کے وصال کے فوراً بعد مسلمانوں نے علم، عدل اور تہذیب کے وہ چراغ جلائے جن کی روشنی نے دنیا کو منور کر دیا۔
ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے کہا کہ: یہی امتِ مسلمہ ہے جس نے ساتویں اور آٹھویں صدی میں کے اندر ہی منظّم اور باقاعدہ ترتیب والے شہروں کا ڈھانچہ فراہم کیا۔ یعنی جہاں پر گھر ہوتے تھے، اُنہی گھروں کے درمیان باقاعدہ عوامی ٹوائلٹس ہوتے تھے، اور باقاعدہ سیوریج کا نظام تھا۔ نیز اسی مسلم ورلڈ کے اندر کئی ایسے towns بھی تھے جہاں پر شہر سے باہر جانے والی سڑکوں پر 50 کلو میٹر تک رات کو لائٹ ہوا کرتی تھی۔
ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے مزید کہا کہ: یہ اُس زمانے کی بات ہے جب پیرس اور لندن جیسے شہر تاریکی میں ڈوبے ہوئے تھے۔ اُس وقت وہاں لوگ اور جانور ایک ہی کمرے میں سوتے تھے، صفائی ستھرائی کا کوئی تصور نہیں تھا، اور گھروں میں غسل خانے تک موجود نہیں ہوتے تھے۔ یہ مسلمان ہی تھے جنہوں نے گھروں کے اندر واش رومز کا تصور متعارف کروایا۔
اس کے علاوہ، جب مسلمانوں نے نویں صدی میں اسپین کو فتح کر کے اپنی سلطنت قائم کی، تو وہاں فنِ تعمیر کے ایسے شاہکار تخلیق کیے کہ آج تک دنیا ان سے فائدہ اٹھا رہی ہے۔ اسپین میں اُس وقت ہسپتال، اسکول اور تعلیمی ادارے بڑی تعداد میں قائم تھے، حتیٰ کہ ستر سے زائد ادارے خاص طور پر خواتین کی تعلیم و تربیت کے لیے تھے۔ بہت سی مسلمان خواتین ڈاکٹر کے طور پر خدمات انجام دے رہی تھیں، یعنی اُس زمانے میں مسلمان عورتیں علم و طب کے میدان میں آگے بڑھ چکی تھیں۔
تاریخ بتاتی ہے کہ تقریباً گیارہ سو سال پہلے ستر سے زیادہ مسلمان خواتین خوشنویسی (calligraphy) میں ماہر تھیں اور اسلامی کتب و لٹریچر پر کام کرتی تھیں۔ اُس دور میں مسلمانوں کے علم و فن کا یہ عالم تھا کہ دنیا اُن سے تہذیب و ثقافت سیکھتی تھی۔ مسلمانوں نے گھروں میں قیمتی قالین بچھانے اور خوبصورت آرائش کا رواج متعارف کروایا، اُنہی سے لوگ لباس کے انداز، رنگ اور ڈیزائن سیکھ کر مغربی دنیا میں لے گئے۔ مسلمانوں ہی نے گھڑی ایجاد کر کے دنیا کو وقت کی پیمائش کا نظام دیا، یہاں تک کہ 13ویں اور 14ویں صدی میں مسلم دنیا میں گھڑی سازی کی باقاعدہ صنعت قائم تھی، اور پوری دنیا اُن کی گھڑیوں سے فائدہ اٹھا رہی تھی۔ یہی نہیں، آج جو کافی دنیا بھر میں پسند کی جاتی ہے، وہ بھی مسلمانوں کی ایجاد تھی۔ یورپ میں کافی عام ہونے سے دو سو سال پہلے عالمِ اسلام میں یہ روزمرہ کا مشروب بن چکی تھی۔ بعد میں جب مغربی لوگ سیاحت کے لیے مسلم ممالک آئے اور مسلمانوں کو کافی پیتے دیکھا، تو اُنہوں نے یہ ذائقہ، ثقافت اور تصور وہیں سے سیکھ کر اپنے ملکوں میں رائج کر دیا۔
حاصلِ کلام
امتِ مسلمہ کی تاریخ دراصل انسانی تہذیب کی بنیادوں کی کہانی ہے۔ مسلمانوں نے نہ صرف علم و فن کے دروازے کھولے بلکہ انسانی زندگی کے ہر شعبے کو نظم، صفائی، عدل اور حسنِ اخلاق سے آراستہ کر دیا۔ اُنہوں نے وہ تمدنی اصول متعارف کروائے جن پر آج جدید دنیا اپنی ترقی کا فخر کرتی ہے۔ تعلیم، طب، فنِ تعمیر، سائنس، صنعت و حرفت یعنی ہر میدان میں مسلمانوں نے وہ نقوش چھوڑے جو زمانے کی گرد بھی مٹا نہیں سکی۔ اُنہوں نے عورت کو تعلیم، عزت اور کردار کی بلندی عطا کی، اور دنیا کو بتایا کہ علم و تہذیب کا سفر مرد و زن دونوں کی شمولیت سے مکمل ہوتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ امتِ مسلمہ نے دنیا کی رہنمائی کی، اُس نے اندھیروں میں روشنی کی شمع جلائی، اور آج بھی اگر وہ اپنے علمی ورثے، اخلاقی قوت اور روحانی بصیرت کی طرف لوٹ آئے، تو ایک بار پھر دنیا کو امن، علم اور انسانیت کی روشنی عطا کر سکتی ہے۔


















تبصرہ