بیوی کو بے اولادی کے طعنے دینا جاہلانہ سوچ ہے: پروفیسر ڈاکٹر حسن محی الدین قادری
بے اولادی کی وجہ طبی عارضہ ہوتی ہے جو عورت کو بھی لاحق ہو سکتا ہے اور مرد کو بھی
رازق اللہ ہے، عورت کو اس کا ذمہ دار ٹھہرانا اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے، فکری نشست سے خطاب
لاہور (18 نومبر 2025) منہاج القرآن انٹرنیشنل کی سپریم کونسل کے چیئرمین پروفیسر ڈاکٹر حسن محی الدین قادری نے سوال و جواب کی ایک فکری نشست میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ہماری سوسائٹی میں یہ چلن عام ہے کہ بیوی کو رزق میں کمی اور بے اولادی کے طعنے دئیے جاتے ہیں جو ایک استحصالی اور جاہلانہ سوچ ہے، اس سوچ کا تعلق قبل از اسلام کے بے رحم عرب معاشرے سے ہے۔ بے اولادی کی وجہ طبی عارضہ ہوتی ہے جو عورت کو بھی لاحق ہو سکتا ہے اور مرد کو بھی مگر بدقسمتی کے ساتھ برصغیر پاک و ہند میں اس کا ذمہ دار عورت کو ٹھہرایاجاتا ہے، رزق ہو یا اولاد بطور مسلمان ہمارا ایمان ہونا چاہیے کہ اس کا تعلق اللہ رب العزت کی قدرت کاملہ سے ہے۔ سورہ شوریٰ میں اللہ رب العزت نے فرمایا ”ہم جسے چاہتے ہیں بیٹا عطا کرتے ہیں اور جسے چاہتے ہیں بیٹی عطا کرتے ہیں“ اور یہی معاملہ رزق کا ہے کہ رازق اللہ رب العزت کی ذات ہے جو پتھروں اور آگ کے اندر موجود جانداروں کو بھی رزق عطا کرتی ہے۔
ایسے لاتعداد واقعات ہم روز سنتے اور پڑھتے رہتے ہیں، ہمارے خاندانوں کے اندر اور ہمارے اطراف میں بھی ایسے واقعات وقوع پذیر ہوتے ہیں کہ بعض اوقات شادی کے چند ابتدائی سالوں میں جوڑا اولاد نرینہ سے محروم رہتا ہے، پانچ سال کے بعد یا دس سال کے بعد پھر اللہ رب العزت اولاد کی نعمت سے سرفراز فرمادیتا ہے، ہم سیدنا ابراہیم ؑ کے حوالے سے ایک واقعہ پڑھتے ہیں کہ اللہ رب العزت نے انہیں عمرکے اس حصے میں حضرت اسماعیل جیسے بیٹے کی نعمت عطا کی جب اُمید ختم ہو چکی تھی، خود حضرت ابراہیم ؑ فرماتے ہیں کہ اے اللہ تو مجھے کیسے اولاد کا رزق اور ولد کا رزق عطا کرے گا جب میرے بال بھی سفید ہو گئے ہیں اور میں عمر رسیدہ ہو گیا ہوں اور میری اہلیہ بھی بانجھ ہو گئی ہے تو اللہ رب العزت نے فرمایا کہ ہم جسے چاہتے ہیں اور جب چاہتے ہیں اولاد کی نعمت عطا کر دیتے ہیں، اس سماجی اور معاشرتی معاملہ پر ہمیں ہمیشہ حقیقت پسندی سے اور اعلیٰ ظرفی سے کام لینا چاہیے اور بے اولادی کے طعنے عورت کو نہیں دینے چاہئیں، اس ضمن میں عورت کی اعلیٰ ظرفی کو بھی پیش نظر رکھنا چاہیے کہ وہ بے اولادی اور رزق کی تنگی کی وجوہات جانتے ہوئے بھی اس کا ڈھونڈرا نہیں پیٹتی جبکہ اکثر و بیشتر مرد اور اس کے خاندان والوں کی طرف سے اولاد نہ ہونے کا طعنہ بیوی کو دیا جاتا ہے اور پھر باقاعدہ اس کا ڈھنڈورا پیٹاجاتا ہے اور اگر عورت بے اولادی کا ذمہ دار مرد کو قرار دیتے ہوئے ڈھونڈرا پیٹے تو ذرا چشم تصور میں لائیں کہ اس مرد اور اس خاندان کے پاس کیا بچے گا؟۔
اس لئے ایسے معاملات میں شریفانہ معاملہ کرنا چاہیے اور کبھی بھی عورت کو کمزور سمجھ کر اسے معتوب نہیں کرنا چاہیے، بے اولادی کی وجہ سے کی جانے والی دوسری شادی مسئلہ کا حل نہیں ہے یہ معاملہ دوسری اور تیسری شادی میں بھی درپیش آسکتا ہے لہٰذا ایسے مسائل میں تشخیص اور علاج کی طرف توجہ دینی چاہیے۔ اگر انسان بے اولادی کی صورت میں صبر سے کام لے، اللہ پر اپنا توکل بڑھا دے اور اس کی رضا پر راضی رہتے ہوئے معاملات زندگی کو چلاتا رہے تو ہو سکتا ہے اللہ رب العزت کو اس عاجزی اور انکساری والی ادا پسند آجائے اور وہ اولاد کی نعمت سے نواز دے، اللہ رب العزت نے حضرت عیسیٰ ؑ کو بغیرباپ کے اور پیدائش کے مسلمہ اصولوں کے برعکس پیدا فرما کر بتا دیا کہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے اوردنیاوی اسباب و علت کا مرہون منت نہیں ہے لہٰذا محض اولاد کے لئے دوسری شادیوں کی طرف جا کر اپنے خاندانی ڈھانچہ اور سسٹم کو تباہ نہ کریں، اللہ پر توقع رکھیں، اللہ ہر چیز پر قادر ہے، خواہشات کے زیر اثر آ کر دو خاندانوں کے اتحاد اور باہمی پیار و محبت میں بگاڑ پیدا نہیں کرنا چاہیے، انہوں نے کہا کہ ایک اور سوچ کو ہمارے معاشرے میں پروان چڑھایا جاتا ہے کہ رزق عورت کے نصیب کا ہوتا ہے، اگرچہ نکاح کی برکات سے یقینا رزق بڑھتا ہے مگر اگر گھر میں معاشی کمزوری آجائے اور حالات بگڑ جائیں جن کی باقاعدہ وجوہات ہوتی ہیں اس میں مرد کے غلط فیصلے، بے جا اسراف یا قدرتی آفات کا عمل دخل ہوتا ہے مگر ایسے حالات میں اس محاورے کو عورت کے خلاف بطور ہتھیار استعمال کیا جاتا ہے، اُسے اہل خانہ کی طرف سے طعنے دئیے جاتے ہیں کہ اس کی وجہ سے رزق کی تنگی آئی، یہ ایک غلط اور گمراہ کن سوچ ہے۔ ایسے معاملات میں عورت کو طعنہ زنی کانشانہ بنانا اسلامی تعلیمات اور انسانی اخلاقیات کے خلاف ہے۔
انہوں نے مختلف سوالات کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ عائلی زندگی کے معاملات پر اللہ
رب العزت نے قرآن مجید کے ذریعے براہ راست ہدایات فرما دی ہیں اور اس ضمن میں نکاح
اور طلاق کے معاملات پر بھی بڑی تفصیل کے ساتھ راہ نمائی فراہم کر دی گئی ہے، حالات
جیسے بھی ہوں کسی مرد اور کسی خاندان کو عورت کو تکلیف دینے یا اس کی تذلیل کرنے کا
کوئی حق حاصل نہیں ہے، اگر علیحدگی ناگزیر ہے تو اللہ رب العزت نے اس کا طریقہ کار
بھی بیان فرمادیا ہے اور شریفانہ طریقے سے اس مسئلے سے بھی نمٹا جا سکتا ہے، انہوں
نے کہا کہ بہت سارے خاندانوں میں بیٹی پیدا ہونے پر ناگواری کا اظہار کیا جاتا ہے اور
اس کا ذمہ دار عورت کو ٹھہرایا جاتا ہے جبکہ آج میڈیکل سائنس سے یہ بات ثابت شدہ ہے
کہ بیٹی یا بیٹے کی پیدائش کا براہ راست ذمہ دار مرد ہوتا ہے۔ عورت کی طرف سے ایک ہی
طرز کا کروموسوم جبکہ مرد کی طرف سے دو طرح کے کروموسومز پیدائش کے عمل کا حصہ بنتے
ہیں، اس لئے بیٹی یا بیٹے کی پیدائش مرد کی طرف سے ہوتی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ کچھ لوگوں کے اعصاب پر اولاد کے لئے دوسری شادی کا خبط سوار ہوتا
ہے، اس حوالے سے مکمل طبی معائنہ کروانا چاہیے، جدید میڈیکل سائنس میں بآسانی پتہ چل
جاتا ہے کہ بے اولادی یا بانجھ پن کس کی طرف سے ہے اور پھر اب تو علاج بھی موجود ہیں،
اب تو ٹیسٹ ٹیوب بے بی کے کامیاب تجربات بھی ہو چکے ہیں، اس سے آگے بھی جدید طریقے
اپنائے جارہے ہیں، آپ کسی کا بیٹا یا بیٹی بھی گود لے سکتے ہیں بلکہ میں تو یہ تجویز
دوں گا کہ ایسی صورتحال میں کسی یتیم کو گود میں لے لیں اور اس یتیم کو اپنی سرپرستی
میں لے کر اُس کو اپنے رزق میں شامل کریں۔
حضور نبی اکرمؐ یتیموں کو بے حد پیار فرماتے، اُن کی دلجوئی فرماتے، ہوسکتا ہے آپ کا یہ عمل آپ کے لئے توشہ آخرت بن جائے اور آپ کو دین اور دنیا کی آسانیاں نصیب ہو جائیں، ہم یہ حدیث مبارکہ بکثرت سماعت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ؐ نماز عید کی ادائیگی کے لئے تشریف لے جارہے تھے کہ راستے میں ایک یتیم بچہ روتے ہوئے ملا، آپؐ نے رونے کا سبب پوچھا تو اُس نے کہا کہ آج ہر بچہ اپنے ماں باپ کے ساتھ نماز عید پڑھنے جارہا ہے کاش میرے ماں باپ بھی ہوتے تو میں ان کے ہمراہ ہوتا تو آپؐ نے فرمایا تو پریشان نہ ہو محمدرسول اللہؐ تمہارے باپ ہیں، یتیموں کو شناخت اور پہچان دیں اور اللہ اور اس کے رسولؐ کو راضی کریں، علیحدگی مسئلے کا حل نہیں ہے، اگر علیحدگی کی کوئی ناگفتہ وجوہات ہیں اور آپ سمجھتے ہیں کہ یہ ناگزیر ہے تو پھر علیحدگی کا وہی طریقہ اختیار کریں جسے قرآن مجید میں اور احادیث مبارکہ میں تفصیل کے ساتھ بیان کر دیا گیا ہے۔


















تبصرہ