اللہ تعالیٰ کے حضور بہنے والے آنسو وہ نعمت ہیں جن سے بڑھ کر کوئی عمل اُس کے ہاں محبوب نہیں: شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری

توبہ کے بعد عشقِ الٰہی اور حضور ﷺ سے محبت وہ روحانی پرواز ہے جو عام عبادتوں سے کہیں زیادہ تیزی سے انسان کو بلندیوں تک پہنچا دیتی ہے: شیخ الاسلام کا خطاب
بہتے ہوئے آنسو اور دل کا خشوع رب کے قریب لے جانے کا سب سے طاقتور راستہ ہیں:شیخ الاسلام کا خطاب

اللہ تعالیٰ کی قربت اور اُس کی بے پایاں محبت کیسے نصیب ہو؟ یہ راز نہ لمبی عبادتوں میں پوشیدہ ہے، نہ سالوں کی ریاضت اور مجاہدے میں۔ اُس کا راستہ دل کی اُس گریہ و زاری سے کُھلتا ہے جہاں آنکھیں رب تعالیٰ کی یاد میں بھیگ جائیں اور دل اُس کی حضوری میں پگھل جائے۔ اللہ تعالیٰ کے حضور بہنے والے آنسو وہ نعمت ہیں جن سے بڑھ کر کوئی عمل اس کے ہاں محبوب نہیں۔ یہی آنسو بندے اور ربّ کے درمیان پردے ہٹا دیتے ہیں، راستے روشن کر دیتے ہیں اور انسان کو اُس قرب تک پہنچا دیتے ہیں جسے الفاظ بیان نہیں کر سکتے۔

توبہ سے عشق تک بندے کی روحانی پرواز:

شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ: جب بندہ سچے دل سے توبہ کر کے اللہ کی طرف لوٹتا ہے تو رب تعالیٰ اُس کے دل کو اپنی محبت کے جام سے بھر دیتا ہے۔ پھر اُس کا قلب اور روح دنیا کی کشش سے کٹ جاتے ہیں؛ جسم زمین پر ہوتا ہے مگر دل اور روح عرشِ الٰہی سے جُڑ جاتے ہیں۔ اس کا تعلق ملاءِ اعلٰی سے قائم ہو جاتا ہے، اور پھر تمام ملاءِ اَعلیٰ کو اُس بندے کا اَسیر بنا دیا جاتا ہے۔ توبہ کے بعد اگر بندہ رب اور حضور ﷺ سے عشق پیدا کر لے تو یہ محبت اُسے ایسی روحانی پرواز دیتی ہے جس کی بلندی تک عام عبادتیں اتنی جلدی نہیں پہنچاتیں۔ یہی عشق دل کو کھول دیتا ہے، روح کو اُڑان دے دیتا ہے اور بندے کو رب تعالیٰ کے بے حد قریب لے جاتا ہے، جیسے کوئی نورانی لہر اپنے اصل مرکز کی طرف لوٹ رہی ہو۔

توبہ کا سفر اور ملاءِ اعلیٰ سے رشتہ:

شیخ الاسلام نے مزید فرمایا کہ: مولانا رومؒ حضرت ذو النون مصریؒ کے حوالے سے فرماتے ہیں کہ جب بندہ سچے دل سے توبہ کرتا ہے اور گناہوں بھری زندگی چھوڑ دیتا ہے تو وہ دنیا کی آلودگیوں کی دلدل سے نکل آتا ہے۔ اس کا نفس، دل اور روح گندگیوں سے صاف ہو جاتے ہیں اور پاکیزگی اختیار کر لیتے ہیں۔ پھر وہ اللہ تعالیٰ سے اپنا تعلق جوڑتا ہے، ملاءِ اعلٰی سے رشتہ قائم کرتا ہے۔ اور یہ رشتہ دو بنیادی چیزوں پر قائم ہوتا ہے:

(1)جب بندہ توبہ کے بعد ہر وقت اللہ کے حضور گڑگڑا کر دعا کرے، گریہ و زاری کرے اور اپنے ربّ سے عشق و محبت کا تعلق جوڑ لے، تو یہی عاجزی اور یہی رونا دھونا اُسے ایسی تیزی سے قربِ الٰہی تک پہنچا دیتا ہے کہ برسوں کی عبادت، ریاضت اور مجاہدہ بھی وہ مقام نہیں دلا پاتے جو سچی تضرّع سے مل جاتا ہے۔

(2) پھر مولانا روم فرماتے ہیں: اِسی طرح جب بندگی، خشوع، اضطراب، عشق اور محبت کی وہ بے قراری اللہ تعالیٰ کے تعلق میں قائم ہو جائے تو اللہ کے حضور اس کی جو قدر و قیمت ہوتی ہے، وہ دنیا کے کسی اور عمل یا عبادت کو نصیب نہیں ہوتی۔

مولانا روم فرماتے ہیں کہ: اے بندے! اگر تو چاہتا ہے کہ اللہ سے دوستی ہو جائے، اس کی قربت نصیب ہو جائے، تو پھر اس کے لیے دل میں عاجزی اور گریہ و زاری کا تعلق پیدا کرنا ہوگا۔ اللہ کے حضور رونا، گڑگڑانا، آہ و بکا کرنا اور محبت میں ٹوٹ کر گریہ کرنا اُسے بے حد محبوب ہے۔ ساری دنیا میں کوئی عمل اللہ کو اتنا پسند نہیں جتنا اس کی محبت میں بہنے والے آنسو۔ اور جب بندہ اس کیفیت میں داخل ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ اُسے اپنے قریب تر کرتا چلا جاتا ہے۔

حاصلِ کلام:

اللہ تعالیٰ کی قربت اور اس کی محبت کا حصول کسی معمولی عبادت یا طویل ریاضت سے نہیں ہوتا، بلکہ یہ دل کی صداقت اور عاجزی سے، آنکھوں کے بہتے ہوئے آنسو اور دل کی ٹوٹ پھوٹ سے حاصل ہوتا ہے۔ جب بندہ سچے دل سے توبہ کر کے گناہوں کی زندگی چھوڑ دیتا ہے، تو اس کا دل اور روح دنیا کی کشش سے آزاد ہو جاتے ہیں اور وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایک مخصوص رشتہ قائم کر لیتا ہے۔ یہی رشتہ عشق اور محبت کی شدت سے مضبوط ہوتا ہے، جس میں گریہ و زاری، عاجزی اور اضطراب شامل ہیں، اور یہ وہ کیفیت ہے جو بندے کو رب کے قریب لے جاتی ہے۔ حقیقی تضرّع اور محبت میں بہنے والے آنسو ایسے ہیں جو برسوں کی عبادت اور ریاضت سے بھی زیادہ رب کو محبوب ہیں، اور بندے کی روح کو ایسی بلندی تک پہنچاتے ہیں جہاں وہ اپنی ذات سے آزاد ہو کر صرف اللہ کے عشق میں فنا ہو جاتا ہے۔ یہ وہ روحانی پرواز ہے جو دل اور روح کو کھول دیتی ہے، انسان کو نور کے مرکز کی جانب کھینچتی ہے اور اسے وہ قرب عطا کرتی ہے جس کی مثال دنیا میں کہیں نہیں۔

بلاگر: ڈاکٹر محمد اقبال چشتی (ریسرچ اسکالر)

تبصرہ

ویڈیو

Ijazat Chains of Authority
Top