جب انسان اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمتوں کی قدر نہ کرے تو اللہ نعمتیں واپس لے لیتا ہے: پروفیسر ڈاکٹر حسین محی الدین قادری
جس دل میں خوفِ الٰہی اور محبتِ مصطفیٰ ﷺ ہو، وہی دل نعمتِ ایمان کی حقیقی حفاظت کر سکتا ہے: صدر منہاج القرآن
دین کی نعمت اس وقت تک قائم رہتی ہے جب تک انسان اس کی قدر، حفاظت اور اس میں اضافہ کرنے کی فکر سے غافل نہ ہو: صدر منہاج القرآن
دینِ اسلام کی نعمت دراصل انسان کی زندگی کا سب سے قیمتی سرمایہ ہے، لیکن اس نعمت کی عظمت اُس وقت ظاہر ہوتی ہے جب انسان کے دل میں اس کی حقیقی قدر اور اُس کی حفاظت کا احساس بیدار ہو۔ ایمان، محبتِ رسول ﷺ، نسبتِ اہلِ بیت، تعظیمِ صحابہ اور دین کے اصول و اقدار وہ امانتیں ہیں جن کی حفاظت غفلت سے نہیں، مسلسل فکر، خشیت اور عاجزی سے ہوتی ہے۔ اولیاءِ امت کی تعلیم بھی یہی ہے کہ ایمان پر قائم رہنے کی سب سے بڑی علامت یہ ہے کہ انسان دوسروں کی محرومی دیکھ کر تکبر نہیں بلکہ خوفِ خدا میں مزید جھک جائے، اپنی حالت پر نظر رکھے اور خاتمہ بالخیر کی آرزو میں ہر دم دعا کرتا رہے۔ یہ پیغام ہمیں یاد دلاتا ہے کہ نعمتِ اسلام صرف عطا نہیں بلکہ ایک ذمہ داری ہے، جس کی حفاظت کے بغیر انسان اپنی سب سے قیمتی دولت سے بھی محروم ہوسکتا ہے۔
نعمتِ اسلام کی قدر اور ہماری ذمہ داریاں:
پروفیسر ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ: دینِ اسلام وہ عظیم نعمت ہے جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں عطا فرمائی ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہم اس کی اتنی قدر نہیں کرتے جتنی کرنی چاہیے۔ ہم اس نعمت کو معمولی سمجھ لیتے ہیں، اس میں کوتاہی کرتے ہیں تو جان لیجیے! جب بندہ اللہ کی نعمتوں کی قدر کرنا چھوڑ دیتا ہے اور بے نیازی اختیار کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اپنی نعمتیں واپس لے لیتا ہے۔ سیدنا سفیان ثوری رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ جو شخص اپنے دین کے بارے میں خوف چھوڑ دے اور بے فکری میں مبتلا ہوجائے، اس کا دین اس سے چھین لیا جاتا ہے، اور اسے خبر بھی نہیں ہوتی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان ہر وقت اس بات کی فکر کرے کہ اللہ نے جو عظیم نعمت اسے عطا کی ہے، وہ اسے مضبوط کرے، اس میں اضافہ کرے اور اس کی حفاظت کرے۔
ہمیں چاہیے کہ اپنے دین کے اصولوں، افکار، نظریات، عبادات اور روحانی نسبتوں کی حفاظت کریں۔ خدا کا خوف اپنے دل میں زندہ رکھیں، رسولِ اکرم ﷺ کی محبت ہمیشہ تازہ رکھیں، اہلِ بیتِ اطہار کی محبت دل میں بسائیں، صحابہ کرام کی عزت قائم رکھیں، اہلُ اللہ کی نسبت سنبھال کر رکھیں اور امتِ محمدیہ کے لیے ہمیشہ خیر کا راستہ اختیار کریں۔
ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے مزید کہا کہ جب تک انسان ان چیزوں کی فکر مندی میں نہ رہے اور ان کی قدر نہ کرے تو سیدنا سفیان ثوری رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرما رہے ہیں کہ اللہ پاک وہ نعمت اُس شخص سے واپس لے لیتا ہے۔
ایمان کی نعمت اور خاتمہ بالخیر کی دعا کرنا:
ڈاکٹر حسین محی الدین نے مزید توضیح کرتے ہوئے کہا کہ: اسی طرح ایک اور بزرگ، جو عرفاء میں سے تھے، فرماتے ہیں کہ جب تم ان لوگوں کو دیکھو جنہیں اللہ تعالیٰ نے دینِ اسلام کی نعمت نہیں دی، تو انہیں حقیر نہ سمجھو اور نہ ان پر تکبر کرو۔ بلکہ اس لمحے خود فکر میں ڈوب جاؤ، کیونکہ یہ سب تقدیر کے معاملات ہیں۔ انسان نہیں جانتا کہ اس کی موت کس حال میں آئے گی اور وہ کس حالت میں اس دنیا سے رخصت ہوگا۔ کوئی شخص یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ اس کا آخری لمحہ ایمان پر گزرے گا یا نہیں۔ اسی لیے ہم زندگی بھر دعا کرتے رہتے ہیں کہ جب ہمارا آخری وقت آئے تو اللہ ہمیں کلمہ پڑھنے کی توفیق عطا فرمائے۔
بزرگ اس خوف کو صرف لفظوں میں نہیں بلکہ دل کی گہرائی سے محسوس کرتے تھے۔ وہ سچی دعا کرتے تھے کہ اے اللہ! ایسا وقت نہ آئے کہ میں تیری نعمتِ ایمان سے محروم ہوجاؤں، اور اسی حالت میں مجھے دنیا سے اٹھا لینا جس حالت میں تو نے مجھے قائم رکھا ہے۔ وہ ہمیشہ خشیتِ الٰہی میں رہتے تھے۔
لہٰذا جب کسی کو ایمان کی نعمت سے محروم دیکھو تو اس کے لیے دعا کرو، اپنے آپ پر فخر نہ کرو، بلکہ مزید عاجزی اختیار کرو۔ اپنی آنکھوں کو نم کر لو، اللہ کے حضور سجدہ ریز ہو جاؤ اور عرض کرو: اے مولا! مجھ سے یہ نعمت نہ چھین لینا، مجھے ہمیشہ ایمان پر قائم رکھنا اور اسی ایمان کے ساتھ مجھے دنیا سے رخصت فرمانا۔
حاصلِ کلام:
اصل حقیقت یہ ہے کہ ایمان اور دین کی نعمت انسان کو محض عطا نہیں کی جاتی، بلکہ اسے مسلسل جاگتی ہوئی ذمہ داری کے ساتھ سنبھالنا پڑتا ہے۔ جب دل میں خشیتِ الٰہی بیدار رہے، حضور ﷺ کی محبت تازہ رہے، اہلِ بیت و صحابہ کی تعظیم دل میں رہی اور دین کے اصول و نسبتوں کا پاس قائم رہے، تو یہی کیفیت انسان کے ایمان کو مضبوط رکھتی ہے۔ اولیاء و عرفاء کی تعلیم بھی یہی ہے کہ ایمان کی سب سے بڑی حفاظت عاجزی، خوفِ خدا اور آخرت کی فکر میں ہے۔ جو دل ان صفات سے خالی ہوجائے، وہاں ایمان کی روشنی مدھم ہونے لگتی ہے۔ اور جو دل دوسروں کی محرومی دیکھ کر اپنی حالت پر لرز اٹھے اور دعا و گریہ سے اپنے رب سے استقامت مانگے، وہی دل ایمان کی نعمت پر قائم رہتا ہے۔ ایمان اللہ کی امانت ہے، اور اس کی حفاظت مسلسل بیداری، محبت، خیرخواہی اور خشیت سے ہوتی ہے۔
بلاگر: ڈاکٹر محمد اِقبال چشتی (ریسرچ اسکالر)


















تبصرہ