وارثِ قرآن بننے کا اَصل مقصد یہ ہے کہ قرآن کی روشنی کو اپنی زندگی کا لباس اور رہنمائی کا سرچشمہ بنائیں: پروفیسر ڈاکٹر حسین محی الدین قادری

وارثینِ قرآن صرف تلاوت تک محدود نہیں رہتے بلکہ قرآن کے الفاظ اور معانی میں غوطہ زن ہوتے ہیں اور اس کے علوم و معارف سے اپنے قلب و ذہن کو منور کرتے ہیں: صدر منہاج القرآن

قرآن کے وارث وہ لوگ ہیں جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی کتاب کو محض پڑھنے یا حفظ کرنے تک محدود نہیں رکھا، بلکہ اس کے ہر لفظ اور ہر معنی میں غوطہ زن ہو کر اپنے قلب و ذہن کو روشن کیا۔ وارثِ قرآن بننے کا اصل مقصد یہی ہے کہ قرآن کی روشنی کو اپنی زندگی کا لباس اور رہنمائی کا سرچشمہ بنایا جائے، تاکہ ہر عمل اور ہر لمحہ اس کی ہدایات سے منور ہو۔ ایسے لوگ قرآن کے ساتھ گہرا تعلق قائم کرتے ہیں، اسے اپنی روزمرہ زندگی کا حصہ بناتے ہیں اور اس کی برکت سے نہ صرف اپنی نیکیوں کو بڑھاتے ہیں بلکہ اپنے گرد و نواح کی زندگیوں میں بھی روشنی پھیلانے والے رہنمائی کے مینار بن جاتے ہیں۔

قرآن کے وارث کون لوگ ہیں؟

پروفیسر ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ: اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:

ثُمَّ أَوْرَثْنَا الْكِتَابَ الَّذِينَ اصْطَفَيْنَا مِنْ عِبَادِنَا فَمِنْهُمْ ظَالِمٌ لِنَفْسِهِ وَمِنْهُمْ مُقْتَصِدٌ وَمِنْهُمْ سَابِقٌ بِالْخَيْرَاتِ بِإِذْنِ اللَّهِ ذَلِكَ هُوَ الْفَضْلُ الْكَبِيرُ

(سورۃ فاطر، 35/32)

’’پھر ہم نے اس کتاب (قرآن) کا وارث ایسے لوگوں کو بنایا جنہیں ہم نے اپنے بندوں میں سے چُن لیا (یعنی اُمّتِ محمدیہ کو)، سو ان میں سے اپنی جان پر ظلم کرنے والے بھی ہیں، اور ان میں سے درمیان میں رہنے والے بھی ہیں، اور ان میں سے اللہ کے حکم سے نیکیوں میں آگے بڑھ جانے والے بھی ہیں۔ یہی (اس کتاب یعنی قرآن کا وارث ہونا) بڑا فضل ہے ‘‘

وارثینِ قرآن کا پہلا طبقہ:

ڈاکٹر حسین محی الدین نے توضیح کرتے ہوئے کہا کہ: غور طلب بات یہ ہے کہ اللہ رب العزت نے فرمایا ہے کہ ہم نے اس قرآن کے وارث ایسے لوگوں کو بنایا جو ہمارے چنے ہوئے ہیں۔ لیکن انہی چنے ہوئے لوگوں میں ایسے بھی ہیں جو اپنی جان پر ظلم کرتے ہیں، ایسے بھی ہیں جو درمیانی راستے پر رہتے ہیں، اور ایسے بھی ہیں جو نیکیوں میں آگے بڑھ جاتے ہیں۔

یہ سمجھنے کی بات ہے کہ کوئی شخص چنے ہوئے ہونے کے باوجود اپنی جان پر ظلم کیسے کر سکتا ہے؟ اِس سے مراد یہ ہے کہ اللہ رب العزت نے انہیں قرآن کا وارث بنایا، یعنی قرآن مجید بطور کتاب حضور نبی اکرم ﷺ کی امت کو عطا فرمائی، اور وہ لوگ اس پر ایمان رکھتے ہیں، اس سے استفادہ کرنے کی خواہش بھی رکھتے ہیں، لیکن اپنی سستی، نادانی، دنیاوی مصروفیات اور شوق و مشغولیات کی وجہ سے قرآن کی اہمیت کو بھول جاتے ہیں۔

وارث بننے کے بعد بھی اس کتابِ مبین سے جو فائدہ حاصل کرنا تھا، وہ حاصل نہیں کر پاتے۔ عوام الناس کی مثال یہ ہے کہ وہ شادی بیاہ، خوشی یا غمی کے مواقع پر، یا ایصال ثواب کے لیے قرآن سے استفادہ تو کرتے ہیں لیکن اس میں غور و فکر، تدبر اور عملی زندگی میں اس کے استعمال کو اپنا معمول نہیں بناتے۔ یعنی قرآن کے وارث بننے کے باوجود اپنی جان پر ظلم کرنے کا مطلب یہ ہے کہ جیسے گھر میں چشمہ رواں ہو اور اُن کے پاس تازہ پانی بہتا ہو، لیکن وہ اس سے فائدہ نہ اٹھا پائیں۔ اسی طرح قرآن کے وارث بننے کے باوجود بھی بعض لوگ اپنی روحانی اور عملی زندگی میں اس کے اثر سے محروم رہ جاتے ہیں۔

دوسرا طبقہ:

پھر آیت کے دوسرے حصے میں فرمایا کہ ایسے لوگ بھی ہیں جو درمیان میں رہتے ہیں۔ یعنی یہ لوگ اپنی جانوں پر ظلم تو نہیں کرتے، یعنی وہ قرآن مجید تو سیکھتے ہیں، پڑھتے ہیں، حفظ بھی کرتے ہیں لیکن اِس قرآن مجید سے جو عمر بھر کا تعلق اور گہرا ناطہ قائم ہونا چاہیے تھا، وہ اسے مکمل طور پر قائم نہیں رکھتے۔ یعنی وہ قرآن سے مکمل طور پر تعلق توڑ نہیں دیتے، لیکن اُسے پوری طرح نبھانے کی کوشش بھی نہیں کرتے اور اکثر اپنا تعلق صرف کبھی کبھار کی تلاوت تک محدود رکھ دیتے ہیں۔

اسی لیے اللہ رب العزت نے فرمایا ہے کہ یہ لوگ قرآن کے ساتھ تعلق میں درمیانے درجے کے ہیں۔ اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ جس چیز کا اللہ تعالیٰ نے کسی کو وارث بنایا ہو، چاہے وہ قرآن ہو یا علم یا کوئی دیگر نعمت، تو اس سے مکمل استفادہ کرنا چاہیے اور اس کے حق کو پوری طرح ادا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

تیسرا طبقہ:

تیسرا طبقہ، جس کی طرف اللہ رب العزت نے اسی آیت مبارکہ میں اشارہ فرمایا، وہ لوگ ہیں جو نیکیوں میں بہت آگے بڑھ گئے۔ یعنی یہ وہ لوگ ہیں جنہیں اللہ رب العزت نے قرآن کا وارث بنایا، اور انہوں نے قرآن کے ساتھ ایسا گہرا رشتہ قائم کر لیا کہ اُن کی پوری زندگی میں، چاہے وہ عالمِ دین بن گئے، سائنس دان، ڈاکٹر، انجینیئر، پروفیسر، یا کسی سرکاری یا دیگر پیشہ ورانہ عہدے پر فائز ہو گئے، قرآن کے ساتھ اُن کا تعلق ہمیشہ قائم رہا۔

یہ لوگ کبھی بھی قرآن کی اس نسبت اور وراثت کو نہیں بھولے۔ چاہے دنیا کے کسی بھی محاذ پر یا کسی بھی خطے میں رہے، انہوں نے قرآن کی اس عظیم نعمت کو اللہ رب العزت کی عنایت سمجھا اور اپنی زندگی کی ریاضتوں میں قرآن کی تلاوت کو ایک اہم عمل بنا لیا۔ ہر لمحہ وہ قرآن کے ساتھ اپنے رشتے کو مضبوط کرتے رہے۔

یہ لوگ صرف تلاوت تک محدود نہیں رہے، بلکہ قرآن کے الفاظ اور معانی کو سمجھا، اس میں غوطہ زن ہوئے، اور اس کے علوم و معارف سے اپنے قلب و ذہن کو روشن کیا۔ یہاں تک کہ اللہ رب العزت نے انہیں قرآن کا فہم عطا فرمایا۔ پھر قرآن کے نور سے اُن کو وافر بصیرت حاصل ہوتی ہے۔ یہی وہ لوگ ہیں جو واقعی قرآن کے ساتھ تعلق قائم کرنے کی وجہ سے نیکیوں میں آگے بڑھ گئے اور ہر محاذ پر سب سے آگے رہنے والے ہو گئے۔وارثینِ قرآن صرف تلاوتِ قرآن تک محدود نہیں رہتے بلکہ قرآن کے الفاظ اور معانی میں غوطہ زن ہوتے ہیں اور اس کے علوم و معارف سے اپنے قلب و ذہن کو منور کرتے ہیں۔

حاصلِ کلام:

قرآن کے حقیقی وارث وہی لوگ ہیں جو اِس مقدس کتاب کو محض پڑھنے یا حفظ کرنے تک محدود نہیں رکھتے، بلکہ اِس کے ہر لفظ اور ہر معنی میں غور و تدبر کر کے اپنے قلب و ذہن کو منور کرتے ہیں۔ وارثِ قرآن بننے کا اصل مقصد یہی ہے کہ اس کی روشنی کو اپنی زندگی کا رہنما، اپنا لباس اور ہر عمل کا معیار بنایا جائے۔ اللہ رب العزت کی عطا سے وارثینِ قرآن تین طبقات میں سامنے آتے ہیں: کچھ اپنی جان پر ظلم کرتے ہیں اور قرآن سے مطلوبہ استفادہ نہیں کرتے، کچھ درمیانی سطح پر رہتے ہیں اور تعلق کو جزوی طور پر ہی نبھاتے ہیں، اور کچھ وہ ہیں جو قرآن کے ساتھ ایسا گہرا اور مستحکم رشتہ قائم کر لیتے ہیں کہ چاہے وہ کسی بھی میدانِ زندگی میں ہوں، تعلیم و پیشہ کے کسی بھی شعبے میں سرگرم رہیں، قرآن کے ساتھ ان کا تعلق ہمیشہ زندہ رہتا ہے۔ یہ لوگ نہ صرف تلاوت کرتے ہیں بلکہ قرآن کے الفاظ و معانی میں غوطہ زن ہوتے ہیں، اس کے علوم سے اپنے قلب و ذہن کو روشن کرتے ہیں اور ہر لمحہ اس کی ہدایات کے مطابق زندگی گزارنے کی کوشش کرتے ہیں۔ حقیقی وارث وہ ہے جو قرآن کو اپنی روزمرہ زندگی کا حصہ بنائے، اس کی روشنی سے رہنمائی حاصل کرے، اور اس کے فیض و برکت سے اپنے اور دوسروں کے اعمال و اخلاق میں نیکیوں کا چراغ جلائے۔

بلاگر: ڈاکٹر محمد اِقبال چشتی (ریسرچ اسکالر)

تبصرہ

ویڈیو

Ijazat Chains of Authority
Top