عصرحاضر میں عالمی امن کا حقیقی پیامبر۔ ۔ ۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری

صاحبزادہ مسکین فیض الرحمن درانی
مرکزی امیر تحریک منہاج القرآن انٹرنیشنل

عالم انسانیت کی بدقسمتی کہ جاہلیت جدیدہ کے زیراثر ظلم واستبداد میں عصرحاضر کی قاہرانہ قوتیں اپنی خون آشامی، سفاکی، بے رحمی، دہشت گردی، لوٹ مار، قتل وغارتگری، دجل وفریب اور مکروریا میں گزشتہ ادوار کے تمام جابر اور قاہر بادشاہوں، نمارید، فراعنہ، رومن اور بازنطینی آمرین کی تمام تر حشر سامانیوں پر کھلی بازی لے گئی ہیں، جہاں بھی دیکھیں، گلوبل سطح پر ساری دنیا میں جدید انداز سے پھیلائی جانے والی دہشت گردی اور قتل وغارت سے ایک عالم لرزاں وترساں ہے۔ ہر طرف خوف ہراس، انتشار وافتراق، بدامنی اور خونریزی کا بازار گرم ہے، خوف وغم کی بھیانک گھٹائیں افق عالم پر چھائی ہوئی ہیں، ساری دنیا پریشان ہے، چین، سکون عنقاء، لڑائیاں، جھگڑے اور فسادات عام ہیں، ہر شہر، محلہ اور گاؤں انسانی لہو سے رنگین ہے، طبقے، جماعتیں، فرقے، پارٹیاں باہم دست وگربیاں ہیں، کوئی چھوٹا ملک، بڑے ملک اور کوئی چھوٹی طاقت بڑی طاقت کے ہاتھوں محفوظ نہیں، ہر شخص خوف وغم سے پریشاں حال ہے، کسی کو سکون میسر نہیں، ہرطرف مسائل کا انبار لگا ہوا ہے، الجھنیں ہیں کہ ختم ہونے کا نام نہیں لیتیں، اولاد آدم طرح طرح کی نفسیاتی، ذہنی، فکری اور روحانی مشکلات کا شکار ہے، بھوک اور افلاس عام ہے، اشیائے خوردنی اور آٹا چاول دستیاب نہیں اور اگر کہیں ہے تو غریب کو اس کے خریدنے کی استطاعت نہیں جس کی وجہ سے اموات اور خودکشیاں ایک معمول بن گئیں ہیں، متوسط طبقے کی سفید پوشی کا بھرم کھل گیا ہے، مراعات یافتہ ذخیرہ اندوز، امراء اور جاگیردارانسانیت کے خلاف آمادئہ شروفسادہیں، قوانین فطرت کے خلاف روشن خیالی نے خاندانی نجابت اور وضعداری کی قبا چاک کر دی ہے، ماں بہن بیٹی کی عزت کا پاس ہے نہ لحاظ، الیکٹرانک میڈیا، فحش فلمیں، بے حیائی عام کرنے والے ڈرامے، ننگے تھیٹر، عریاں فیشن شو، بے شرم ٹی وی ایڈورٹائزنگ اور پرنٹ میڈیا، برہنہ فوٹوگرافی، فحش قصے کہانیاں، لٹریچر اور واہیات ناولوں کے ذریعے نوجوان نسل کو اخلاقی تباہی کی جانب دھکیلا جا رہاہے، موبائیل فون بے حیا ئی کے فروغ اور ناجائز اختلاط مردوزن کا سب سے آسان ذریعہ بن گیا ہے، یہی حال کمپیوٹر نیٹ کیفیوں کا ہے، اس روزافزوں جسمانی، اخلاقی، فکری، روحانی زوال اور انحطاط پر اقوام عالم کا ہر فہمیدہ، باشعور، سنجیدہ اور غیر تمند شخص حیراں اور پریشان ہے، ہر نیا آنے والا دن اپنے جلو میں نت نئی پریشانیاں اور مسائل ساتھ لاتا ہے، ہر شخص خوف وغم کا شکارہے، بے پناہ عسکری قوت اورطاقت رکھنے کے باوجود مغربی اقوام ایک خیالی اور نادیدہ موت کے خوف میں مبتلا ہیں، ان طاقتور اقوام وملل کا یہ خود ساختہ خوف، شومئی قسمت سے اپنی جیسی دوسری طاقتور قوموں سے نہیںبلکہ دنیا کے سب سے زیادہ پسماندہ مسلمان اور غریب اقوام سے ہے کہ جن کو یہ اپنا نظریاتی دشمن اور حریف سمجھتے ہیں، بے جاتوہمات، وساوس اور موت کا یہ خوف ان میں کیسے پیدا ہوا، یہ عالم انسانیت کی ایک المناک داستان ہے۔

طاقتور اقوام اور دنیا کی واحد سپرپاور کا حکمران اور مقتدر طبقہ اپنے تواہم اور وساوس کیوجہ سے سنگین قسم کے ذہنی، فکری، نفسیاتی عوارض اور قنوطیت کا شکار ہوگیا ہے، منشیات کے بے دریغ استعمال اور جنسی بے راہ روی نے ہر خاص وعام کو ایک ایسے عجیب احساس کمتری میں مبتلا کر دیا ہے کہ ان کو اپنے سروں پر ہر آن موت منڈلاتی نظر آتی ہے۔ موت کا بے جا خوف انسان کو بزدل بناتا ہے اور بزدل شخص ظالم بن جاتا ہے، اسے جہاں اور جس جگہ سے معمولی خطرہ بھی محسوس ہوتا ہے، وہ اس کے اسباب وعلل دورکرنے کی بجائے ریاستی دہشت گردی سے اس پورے خطے کے لوگوں کو نیست ونابود کرتا ہے، بزدل اور مکاربھیڑیابھی سو حیلوں سے بھیڑ کے معصوم بچوں کے کھانے کا سامان کرتا ہے، یہی حال اس وقت دنیا کی واحد سپرپاور اور عسکری طاقت رکھنے والی دیگر اقوام کا ہے جن کے ہاتھوں بے بس، لاچار، پسماندہ اور غریب اقوام کی نسل کشی، انتہائی بے رحمی اور سفاکی سے ہو رہی ہے، کمزور ممالک کے زیرعتاب لوگوں کو اپنا مستقبل سخت مخدوش نظر آ رہا ہے اور ان کی نگاہیں بار بار آسمان کی طرف اٹھ کر سوال کرر ہی ہیں کہ ’’اے ہمارے رب ہمیں اس بستی سے نکال جہاں کے لوگ بڑے ظالم ہیں، اور ہمارے لئے اپنی طرف سے کسی کو حامی اور اپنی طرف سے کسی کو مددگار بنا۔‘‘ (النساء 4 : 75)

ملت اسلامیہ کا ایک درخشاں ماضی رہا ہے، قرون اولیٰ اور وسطیٰ میں اس کے زیرنگیں ممالک میں نہ صرف مسلمان بلکہ ہر قوم، ملت اور مذہب کے افراد، امن، آشتی، سکون اور اطمینان سے زندگی بسر کر رہے تھے، کسی بھی فرد واحد کو دین اسلام، خلافت اسلامیہ اور مسلمانوں سے کوئی خوف وہراس تھا اور نہ پریشانی، ہر شخص اسلام کی برکتوں سے زندگی کی خوشیاں حاصل کر رہا تھا۔ علم کی روشنی نے ہر طرف جہالت کے اندھیروں کو مٹا دیا تھا۔ ہر شخص علم حاصل کرنے کی جستجو میں تھا اور انہیں تحصیل علم کے مواقع یکساں میسر تھے، اسلامی دنیا میں علوم وفنون کے سرچشمے تیزی سے پھوٹ رہے تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ساری دنیا بالخصوص یورپ اور مغربی دنیا جہالت میں ڈوبی جبریت اور استبدادکے شکنجہ میں جکڑی ہوئی تھی، عوام الناس کا جینا دوبھر تھا، صیہونی، یونانی اور رومی جاہلیت کے زیراثر بادشاہوں، امراء اور روساء نے اپنے استحصالی اور استبدادی رویوں کی وجہ سے جھوٹے خداؤں کا روپ دھار لیاتھا، ان میں دیانت وامانت کا تصور مفقود تھا، ظلم وغارتگری کا دور دورہ تھا، لوگوں کے مقدر کا فیصلہ بادشاہوں اور حکام کے ایک ہلکے اشارہ ابرو سے ہوتاتھا، بادشاہ، امراء اور رؤساء قانون اور اخلاقی اقدار کی پاسداری سے بالاتر تھے، مصر کے فراعین خدائی کے دعویدارتھے اور عوام انہیں دیوتا سمجھتے تھے، قیصر روم اور ایران کے کسریٰ مافوق البشر سمجھے جاتے تھے۔ غرضیکہ ساری دنیا پر اندھیروں کا راج تھا، تاریخ میں یورپ اور مغربی دنیا کا یہ زمانہ، تاریک دور (Darkage) کے نام سے موسوم ہے، ظہور اسلام کے ساتھ ہی جہالت کے عفریت کو ہر محاذ پر شکست اور پسپائی کا سامنا کرنا پڑا، قوانین الہیہ، عدل وانصاف، اسلامی آفاقی علوم کی اشاعت وترویج سے اخوت، بھائی چارے اور محبتوں کے چشمے پھوٹے۔ ہر مرد وزن، بچے، بوڑھے، کالے، گورے، زرد اور سرخ رنگ والے کے لئے قانون یکساں اور عدل وانصاف ایک جیسا میسر ہوا، عدالت کے کٹہرے میں انصاف کا ترازو سب کے لئے ایک جیسا ہو گیا، جھوٹی خدائی کا دعویٰ کرنے والوں اور انسان پرخدائی کرنے کے قائل حکمرانوں کواللہ کی حکمرانی رائج کرنے والے نظام مصطفی میں اپنی موت نظر آنے لگی تھی، چنانچہ جاہلیت کی فضا میں پروان چڑھنے والی جاہلی طاغوتی قوتیں علم کی روشنی کی منور کرنوں سے اندھی ہو گئیں، وہ بغض، حسد، کینہ اور انتقام کی آگ میں جلنے لگیں اور علم کے خلاف محاذ آراء ہوئیں، اندھے تعصب میں غرق تمام اسلام دشمن طاقتوں، سامراجی قوتوں اور شیطان کے پرستاروں نے منافقین کی ایک بہت بڑی تعداد کو اپنے ساتھ ملا کر سازشوں کا ایک عالمگیر جال بچھایا، علم وفن کی روشنی کے مقابلے میں جہالت، بے علمی، لالچ اور ہواوہوس کے گھور اندھیرے فضائے بسیط پر ایسے مسلط ہوئے کہ عقل، فکر، علم اور بے لوث جذبہ خدمت کی روشنی کو ماند کرتے چلے گئے۔ قدیم صیہونی، یونانی اور رومی جاہلیت کو جدید فلسفہ ڈارونیت اور صنعتی انقلاب نے ایک نئی زندگی دی اور قرون وسطی کے دورکہن کی بنیاد پر ایک نئی بلند وبالا فرعونی جاہلیت کی عمارت تعمیر ہونے لگی، ڈارون کے نظریہ ارتقاء اور بقائے اسلحہ نے افکار ونظریات کی دنیا میں ایک ایسا طوفان بپا کیا کہ جس نے اخلاقی اور روحانی اقدار کو بیخ وبن سے اکھاڑ باہر پھینکا، صنعتی انقلاب نے عملی طور پر دنیا سے ایمان اور عقیدے کو جڑ سے کاٹ دیا، مغربی دنیا کا انسان مادرپدر آزاد ہو گیا، عہد جدید میں ہر سو اسی پرانی بدامنی، قتل وغارت، لوٹ مار اور انتشار وافتراق کا دور دورہ ہوا، یہ سب کہاں، کب، کیوں اور کیسے ہوا؟ چونکہ یہ سب تاریخ عالم کے اوراق میں محفوظ ہے لہذا ان محدو دسطور میںان کی تفصیلات میں جانے کا موقع نہیں ہے۔

انسانیت کا عالم کفر کی ریشہ دوانیوں پر نوحہ کناں ہونا بجا، لیکن اس ضمن میں عالم اسلام کی ذمہ داری کیا تھی؟ ایک ہزار سال کے درخشاں علمی، فنی، معاشی، معاشرتی اور سیاسی دور کے بعد امت مسلمہ کے زوال کے حقیقی اسباب کیا تھے، عالم اسلام میں جدید علوم وفنون کی جلتی شمع بجھ جانے کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی تھی، کیا اس زوال کا حقیقی سبب مسلم امہ میں در آنے والی محلاتی سازشیں، مفاداتی مصلحتیں، بے اتفاقی اور اتحاد امت کی رسی کو اپنے ہی ہاتھوں توڑنے، تفرقہ بازی اور فرقہ پرستی کی لعنت نہ تھی، گزشتہ تین صدیوں میں اسلام کا سب سے سنگین مسئلہ جو امت واحدہ کو بڑی تیزی سے ٹکڑے ٹکڑے کر کے تباہی اور بربادی کے گڑھے میں گرانے کا موجب بنا، وہ اتحاد بین المسلمین کا فقدان تھا، اتحاد بین المسلمین ؛ عالم اسلام کی قوت اور طاقت کا سب سے بڑا راز، کہ جسے ازروئے قرآن، دنیا کے تمام مسلمانوں کے لئے فرض قرار دیا گیا ہے۔

قدرت کا قانون ہے کہ قوموں کی بقا کے لئے قوت، طاقت، توانائی علم، فن، حکم، عمل، جہدمسلسل اور افراد ملت کا باہمی اتفاق واتحادلابدی ہوتا ہے، تاریخ عالم میں انہی قوموں کو دوام حاصل ہوا، جو باہم متفق اور متحد تھیں اور تفرقہ اور انتشار کی شکار اقوام دنیا کے نقشہ سے حرف غلط کی طرح مٹ گئیں، قوموں کی بقا کا راز قرآنی فلسفہ اعتصام میں پنہاں ہے، خالق انس وجاں نے انسانوں میں سب سے افضل امت کے لئے بطور نصب العین سورہ آل عمران میں ارشاد فرمایا ہے۔ ’’اللہ سبحانہ وتعالی کی رسی (یعنی علم الکتاب والحکمہ اور سنت نبی ) کو مضبوطی سے اکٹھے ہو کر تھام لو اور متفرق (یعنی امت واحدہ سے کٹ کر الگ الگ ) نہ ہو جاؤ۔‘‘

سورہ انعام کی آیت 60 میں ارشاد ہوا ہے۔ ’’جن لوگوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور گروہوں میں بٹ گئے، ان سے تمہارا کوئی واسطہ نہیں، ان کا معاملہ تو اللہ کے سپرد ہے، وہی ان کو بتائے گا کہ انہوں نے کیا کچھ کیا۔‘‘

سورہ آل عمران کی آیہ 104 میں ارشاد ذات باری تعالی ہے۔ ’’کہیں تم ان لوگوں کی طرح نہ ہو جاؤ، جو فرقوں میں بٹ گئے۔‘‘

کتاب اللہ او ر احادیث نبوی کی نصوص میں اتحاد بین المسلمین بارے سخت تاکید اور وعیدیں آئی ہیں، اس کی اہمیت اور ضرورت ہر دور میں مسلّمہ رہی ہے، کسی مسلمان کو اس سے انکار نہیں اور ہر مسلمان دوسرے مسلمان سے یہی کہتا پھرتا ہے کہ مسلمانوں میں اتحاد کا ہونا اشد ضروری ہے، لیکن یہ سب کچھ کہنے اور سمجھنے کے باوجود مسلمانوں میں بالعموم اور اسلامی ممالک کے حکمرانوں، حکام اور علماء میں بالخصوص حقیقی اتحاد کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہ ہوا، اور تمام عالم اسلام سخت انتشار اور افتراق کا شکار نظرآتا ہے۔

بدنصیبی یہ ہوئی کہ عالم اسلام بلکہ ساری دنیا کے معروضی حالات اچانک کچھ اس بری طرح زوال پذیر ہوئے اور اخلاقی انحطاط نے ایسی صورت اختیار کر لی کہ گزشتہ ادوار کی طرح معاشی، معاشرتی اور اخلاقی بگاڑ چند خاص شعبہ ہائے حیات تک محدود نہ رہا، بلکہ یہ دائرے وسیع سے وسیع تر ہوتے چلے گئے اور ان کا جزوی بگاڑ بڑھتے بڑھتے کلی بگاڑ کی صورت اختیار کر گیا ہے، اب حالت یہ ہو گئی ہے کہ زندگی کے جس شعبہ اور پہلو پر نظر ڈالیں، وہیں بگاڑ اور خرابی کی حوصلہ شکن صورت نظر آتی ہے۔ انسانی معاشرے کو کسی بھی جہت سے دیکھیں، چاہے وہ ہمارے گھر کی عائلی زندگی ہو، معاشی، معاشرتی، اقتصادی، تعلیمی، تدریسی، عدالتی، قانونی، انتظامی، ہسپتال، رفاہ عامہ، فٹ پاتھ، ذرائع آمدورفت، رسل ورسائل، اخباروجرائد، مساجد، امام بارگاہیں، مذہبی ادارے، انجمنیں، ہماری گھریلو، خاندانی، قبائلی، گروہی، لسانی، انفرادی، اجتماعی اور بین الاقوامی زندگی، ہر طرف سے خرابیوں میں گھری ہوئی ہے۔ بے اطمینانی کی فضا اور گھٹن کی ایک عجیب کیفیت ہے، جس سے دل پژمردہ ہیں اور کہیں سے بھی خوشی کی کوئی لہر اٹھتی نظر نہیں آتی، نیکی کے احساسات اورجذبات سرد پڑگئے ہیں، نفسانفسی کا عالم ہے، ہر طرف موت نظر آ رہی ہے، فضا آلودہ اور سانس لینی دشوار، مستقبل کاتو ذکر کیا، ہمارا حال سخت ابتری کا شکار ہے، اور یہ حالت صرف ہماری ہی نہیں، یہ بگاڑ اپنی مخصوص شکل وہیئت میں بنی نوع انسان کی ہر قوم، ملت اور زمین کے ہر گوشہ میں موجود ہے۔ سب پریشانی کا شکار ہیں، کوئی کم کوئی زیادہ لیکن یہ حقیقت ہے کہ اس کلی بگاڑ کا سب سے زیادہ شکار عالم اسلام ہے، جہاں جہالت، بے عملی اور مفلسی وناداری کے احساس زیاں کا دور دور تک شائبہ نہیں۔ بیشک یہی وہ تازیانہ عبرت ہے، جو امت مسلمہ کے سروں پر برس رہا ہے۔ تمام شعبہ ہائے حیات میں مسلمان انفرادی طور پر اور من حیث القوم ذلت کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوب گیاہے۔

دنیا میں بڑی بڑی قومیں اور تہذیبیں منصہ شہود پر ابھریں، اور ترقی کے بام عروج پر پہنچیں، جب تک وہ فطرت کے قوانین پر عمل پیرا رہیں، قدرت نے انہیں قائم رکھا لیکن جب مادی ترقی کی وجہ سے وہ ضلالت کا شکار ہو کر خدائی کی دعویدار ہو جاتیں تو قدرت ان کو مختلف طرح کے بگاڑ میں مبتلا کر دیتی، چھوٹے چھوٹے معاشرتی اور اخلاقی بگاڑ بڑھتے بڑھتے ایک ایسے ناسور کی شکل اختیار کر لیتے، کہ جس کا منطقی نتیجہ اس قوم اور تہذیب کے زوال وانحطاط کی شکل میں سامنے آتا، اور دنیا کے نقشہ سے ان کا نشان تک مٹ جاتا تھا، تاریخ عالم شاہد ہے کہ بڑی قوموں اور تہذیبوں کا عروج وزوال فوری اور اچانک کبھی نہیں ہوا، بلکہ جس طرح انسانی ترقی وزوال مختلف مراحل میں رونما ہوتی ہے، قوموں کے عروج وزوال کے مراحل بھی اسی طرح ہوتے ہیں۔ کسی تہذیب اور معاشرے میں زوال کا آغاز اکثر چھوٹی چھوٹی بدکاریوں سے شروع ہوتا ہے جو بڑھتے بڑھتے بالاخر کلی بگاڑ بن جاتا ہے اور قوم من حیث المجموع تباہ ہو جاتی ہے، قانون قدرت ہے کہ کسی قوم، تہذیب اور معاشرہ کے تمام شعبہ ہائے حیات میں بگاڑ اچانک رونما نہیں ہوتا بلکہ زندگی کے مختلف شعبے پہلے چھوٹی چھوٹی خرابیوں اور بگاڑ کا شکار ہوتے ہیں، جن کی اصلاح کے لئے اس قوم کے مصلحین، نیکوکار، متقی، پرہیزگار، قوانین فطرت سے واقف اور اللہ سبحانہ وتعالی سے ڈرنے والے افراد سرگرم عمل ہو جاتے ہیں، وہ معاشرے میں خرابی پھیلانے والے افراد کو تنبیہ فرماتے ہیں اور اصلاح احوال کی کوشش کرتے ہیں، تاریخ عالم میں مختلف اقوام وملل کا ذکر ملتا ہے کہ جو مختلف معاشرتی اور اخلاقی خرابیوں کی وجہ سے تباہی اور بربادی کا شکار ہوئیں، وقت کے انبیاء، رسل، پیغمبر، مصلحین اور قوانین فطرت سے واقف علماء اور دانشوروں نے ہمیشہ معاشرتی اور اخلاقی بگاڑ کو دور کرنے کی مساعی جمیلہ کیں، ہدایت قبول کرنے والی قومیں بچ جاتیں، اور نصیحتوں کو درخور اعتنا نہ سمجھنے اور انکار کرنے والی قومیں زوال وانحطاط کا شکار ہو کر تباہ ہو جاتیں اور ان کی جگہ نئی قومیں اور تہذیبیں وجود میں آ جاتیں، قرآن حکیم میں ماضی کی ان تباہ ہونے والی قوموں اور تہذیبوں کے واقعات دور حاضر کے لوگوں کے لئے سامان عبرت ہیں، قرآن کریم میں قوانین فطرت کے خلاف چلنے والی قوموں اور تہذیبوں کی تباہی کی داستان عبرت کے ساتھ ساتھ ہر دور میں اللہ سبحانہ وتعالی کے نیک اور فرمانبردار بندوں اور مصلحین کا ذکر خیر بھی ملتا ہے، ان نفوس قدسیہ نے ہر زمانے میں اپنی قوم کے لوگوں اور معاشرے کو سدھارنے کیلئے جو کارنامے سرانجام دیئے، اللہ تعالی جل شانہ دور حاضر کے مسلمانوں کو ان واقعات کے سمجھنے اور ان سے استفادہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

ماضی کی طرح عہد حاضر میں بھی، ملت کا درد رکھنے والے اصحاب فکرونظر اپنی بساط کے مطابق مسلمانان عالم کو تاریکیوں کے مہیب بھنور سے نکالنے کی کوششوں میں مصروف عمل ہیں، لیکن بحیثیت مجموعی موثر اور واضح نتائج پیدا نہیں ہو رہے، نتائج کے فقدان کی سب سے بڑی وجہ بگاڑ کی وہ ہمہ گیری ہے جو جزوی اصلاح احوال کے لئے کی جانے والی کوششوں سے دور نہیں کی جا سکتی ہے۔ اس بگاڑ کی اصلاح کے لئے ہمہ جہتی کلی اصلاح درکار ہے اور اس کے لئے جس جذبہ، شوق، محبت، اخلاص، قربانی، علم وعمل، فکرو نظر، دوراندیشی، سائنسی علوم وفنون، جدید وقدیم دینی ودنیاوی تعلیم، ٹھوس اور موثر منصوبہ بندی، فکری ہم آہنگی، طریقہ کار، اخلاص عمل اور قوم وملت سے بے پناہ جذبہ محبت کی ضرورت ہے، وہ عصر حاضر کی تحاریک میں کہیں بھی یکجا نظر نہیں آ تی اور خاکم بدہن، اگر عالم اسلام میں یہی صورتحال جاری رہی اور امت مسلمہ کے فکرو عمل کی دنیا اتفاق واتحاد اور جذبہ ایثار وقربانی سے یوں ہی خالی رہی تو بہت جلد ساری اسلامی دنیا یہود وہنود اور امریکی سامراج کے پنجہ تسلط میں پھنس کر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ان کی فکری، ذہنی اور جسمانی غلام بن کر رہ جائے گی۔ صیہونیت اپنی عالمی ریاست کے قیام کے خیالی تصور کو امریکہ کے نیوورلڈ آرڈر کے ذریعے ایک عالمگیر حکومت کے قائم کرنے کی سرتوڑ کوششوں میں مصروف ہے، ہندو بھارت عالمی سامراج بننے کا خواب دیکھ رہا ہے اور یہ سب کچھ دیکھنے اور سمجھنے کے باوجود مسلمان حکومتیں طاغوت کے دام ہمرنگ زمین میں دانستہ یا غیردانستہ طور پر پھنستی چلی جا رہی ہیں۔ ان حالات میں ہمارا اور ہمارے بچوں کا مستقبل کیا ہو گا؟ کیا ہم ان طاغوتی طاقتوں کے غلام بن کر جئیں گے، کیا ہمارا آنے والا کل ہمارے آج کے فکروعمل اور بانجھ سوچوں کی طرح ویران ہو گا، کیا ہم اپنی پرانی عظمت رفتہ کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے کھو دیں گے؟

یہی وہ سوالیہ نشان ہیں جو آج ہم سب کے قلب وذہن اور نگاہوں کے سامنے ابھر رہے ہیں اور جو سنجیدہ اوراہل درد احباب کو پریشان کئے ہوئے ہیں۔ لیکن بحمد اللہ تعالی باوجود ان سب پریشانیوں اور ہمہ گیر پریشانیوں کے، ہم مایوس نہیں ہیں، اور قرآن حکیم کی آیہ مبارکہ ’’لَا تَقْنَطُوا مِن رَّحْمَةِ اللَّهِ‘‘ ہمارے جذبوں اور حوصلوں کو بڑا سہارا دے رہی ہے۔ ایک درخشاں مستقبل پردہ غیب سے ہم سب کے سامنے آنے والا ہے۔ آیئے! ازمنہ قدیم اور عالم اسلام کے مصلحین اور مجددین کی فہرست میں ہم آج عصرحاضر کی ایک ایسی نابغہ روزگار ہستی اور مرد مومن کے کارناموںاور سرگرمیوں کا جائزہ لیتے ہیں، جو وہ ملک عزیز اور ساری دنیا میں ایک بے پناہ جذبہ خلوص وصداقت سے مسلمانان عالم اور ساری انسانیت کو ایک شاندار پرامن مستقبل دینے کے لئے سرانجام دے رہا ہے اور جو یقینا ہر مسلمان اور ہر انسان کے لئے سکون قلب کا باعث ہو گا۔

آج سے اٹھائیس برس پہلے ایک نوجوان ملت اسلامیہ کے بارے میں شب وروزسوچنے والا، عالم اسلام کی زبوں حالی، انتشار، افتراق، مفلسی، بدحالی اور فرقہ بازیوں پر کڑھنے اور خون کے آنسورونے والا، مسلمان کے ہاتھوں مسلمانوں کے خون بہانے پر نڈھال، ساری ساری رات جاگ کر ان کربناک واقعات کی سوچوں میں مستغرق رہتا تھا کہ جو امت مسلمہ کے زوال وانحطاط کا باعث بنیں اور پھر وہ ہر رات اللہ تعالی کے سامنے رو رو کر ملت اسلامیہ کی سلامتی، خوشحالی، ترقی اور ماضی کی رفعت شان کی دعائیں مانگا کرتا تھا، وہ ہر وقت اللہ تعالی کے سامنے مسلمانوں کی بقا اور باہمی اتحاد کے لئے گڑگڑایا کرتا تھا، آخر کار ایک دن آخر شب اس کی فریاد پر اللہ تعالی کی رحمتوں کا سمندر جوش میں آیا اور قسیم رحمت خداوندی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی محبتوں کے طفیل اس نوجوان پر القاء ہوا کہ عظمت اسلام کی کشتی کو حالات کے مہیب بھنور سے کیسے اور کس طرح ایک ہمہ جہتی، عالمگیر تحریک اور انقلاب سے نکالا جا سکتا ہے اور ملت اسلامیہ کو کس قسم کے فکری، علمی، معاشی، معاشرتی، اخلاقی اور روحانی انقلاب کے ذریعے درخشاں اور تابناک مستقبل دیا جا سکتا ہے۔ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خصوصی توجہات اور عنایات کے طفیل اس نوجوان کے فکروخیال کو نور عرفان حاصل ہوا، اس کی نگاہوں کے سامنے سے تاریکیاں چھٹ گئیں، اس کے قلب وذہن میں اسلام کے درخشاں مستقبل کی امیدوں کے چراغ جل اٹھے، اس کی سوچیں منور ہو گئیں اور پھر اس کے قلب کی پرجوش تمنائیں اور ذہن کے پردے پر منقش سوچیں قرطاس ابیض پر منتقل ہوتی چلی گئیں، کاغذ پر لکھی گئی تحریروں اور اس کی زبان سے نکلے ہوئے الفاظ کو فطرت کی طاقتوں نے ایسا اثر دوام عطا کیا کہ نہ صرف اس کی روح، قلب اور جسم اسلامی انقلاب کا امین بن گئے بلکہ انتہائی تیزی سے اس کے گرد جمع ہونے والے شمع اسلام پر مر مٹنے والے پروانوں کے جم غفیرکو بھی ایک ایسی ایمانی تقویت ملی کہ اس کاروان اسلام کے ہررفیق اور رکن کی رگوں میں بھی دوڑنے والے خون کو وہی حرارت، دل میں وہی جوش وجذبہ اور فکروذہن میں وہی انقلابی سوچیں درآئیں جو کہ ابتدا میں غیب سے صرف اس نوجوان کو ودیعت کی گئی تھیں۔

سنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیروی اور اتباع میں وہ نوجوان اپنا گھر بار، رشتہ دار، اعزہ واقارب سب کچھ چھوڑ کر شہر جھنگ سے ہجرت کر کے لاہور پہنچا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے 28 سال کی قلیل مدت میں وفور عشق میں مست ہو کر ہجرت کرنے والے اس نوجوان کو اللہ سبحانہ وتعالی نے عالم اسلام کا مشہور انقلابی مفکر ’’شیخ الاسلام پروفیسرڈاکٹر محمدطاہر القادری‘‘ بنا دیا، اور اب تمام عالم اسلام اور دنیا کی دکھی انسانیت کی نگاہیں اس کی بپا کر دہ تحریک منہاج القرآن کے مصطفوی انقلاب پر لگی ہوئی ہیں۔ ایمانداری اور دیانتداری سے سوچنے اور بات کرنے والے، چاہے ان کا تعلق کسی بھی علمی، دینی، سیاسی طبقے، فرقے، انجمن، ادارے، جماعت یا کسی بھی مکتبہ فکر سے کیوں نہ ہو، وہ بزبان قلب یہی کہہ رہے ہیں کہ ماشاء اللہ، عصر حاضر میں عالم اسلام اور پوری انسانیت کے امنگوں کا محور اس نوجوان کی تحریک ہی وہ ہے کہ جو عالم اسلام پر مسلط کلی بگاڑ کو اپنی جامعیت، خالصیت، صالحیت، روحانیت، آفاقیت اور انقلابیت کے خاص علمی، فکری اور عملی امتیازات کے ذریعے درست کر سکتی ہے اس کی بے پناہ قدرتی صلاحیتوں کی وجہ سے انشاء اللہ العزیز اسلام کی نشاۃ ثانیہ یعنی نظام مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سویرا جلد طلوع ہونے والا ہے۔

تحریک منہاج القرآن کے مختلف النوع کاموں اور شیخ الاسلام ڈاکٹر محمدطاہر القادری کی شبانہ روز محنت اور سخت مشقت کو دیکھ کر ایک مسلمان کا دل بے قرار بے اختیاریہ سوال کرنے پر مجبورہوتا ہے کہ غلبہ حق اور دین فطرت کی بحالی کا فریضہ کیا صرف اس ایک مسلمان نوجوان ہی کا ہے، کیانصرت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ناموس دین کے لئے مرمٹنا صرف ایک ہی فرد واحد کا کام ہے، کیا روز حشر صرف اسی سے غلبہ اسلام کے لئے کی جانے والی جدوجہد کے بارے میں پوچھا جائے گا اور کیا ہر بنی نوع انسان اور مسلمان سے آخرت کے دن دنیا میں اس کے دینی فرائض بارے بازپرس نہیں کی جائے گی، کیا اس دنیا میں صرف ایک گھڑی کے لئے آنے اور قیامت کے بعد نہ ختم ہونے والی مسلسل زندگی کے حوالے سے یہ ہر انسان سے نہ پوچھا جائے گا کہ تم نے اپنی ساٹھ ستر یا سوسالہ زندگی، اللہ کی دی ہوئی طاقت، دولت، علم اور قوتیں کیسے اور کس طرح استعمال کیں، تم نے دنیاوی زندگی میں کون سی سند، وہ کون سی ڈگری حاصل کی تھی کہ جس کے بل بوتے پر یہ نہ ختم ہونے والی زندگی گزارو گے، تم نے دین اسلام سے کون سی روشنی حاصل کی، تم نے زندگی گزارنے کا کون سا ڈھنگ سیکھا، تم نے فطرت سے کیا حاصل کیا اور دوسرے لوگوں کو کیا دیا ؟ تم نے کیا کیا، کیا حاصل کیا، کیا پایا اور کیا کھویا؟ اپنے عقیدہ کے مطابق ان سوالات سے ہر انسان اور مسلمان بخوبی اور اچھی طرح واقف ہے، لیکن ان کا جواب؟ یہی وہ لمحہ فکریہ ہے، جس پر آج میں نے آپ سے بات کرنی ہے، اپنا حال دل آپ کے سامنے رکھنا ہے اور آپ کی خوبصورت سوچوں سے استفادہ کرنا ہے۔

انسان ابتدائے آفرینش سے اس کارگہہ حیات میں امن، چین، خوشی، سکون اور اطمینان کا خواہاں ہے، ایک فرد دوسرے افراد کے ساتھ مل کر معاشرہ، اور قبیلہ دوسرے قبیلوں کے ساتھ مل کر اقوام وملل کی تشکیل کرتے ہیں، فطرت کا تقاضا ہے کہ سب سے پہلے امن، چین اور سکون اپنے اور اپنے خاندان کے لئے تلاش کیا جاتا ہے اور پھر اس کی تمنا قبیلے، قوم اور ملت کے لئے کی جاتی ہے۔

آیئے! آج ہم سب سے پہلے اپنے گھر میں اللہ سبحانہ کی دی ہوئی نعمتوں کو تلاش کریں۔ کیا ہمارے گھر کا ماحول پر سکون ہے؟ کیا اس میں ہماری زندگی اللہ سبحانہ کے فرمان کے مطابق بسر ہو رہی ہے؟ کیا ہمارا رہن سہن، کھانا پینا، اٹھنا بیٹھنا ایسا ہے جس سے قلبی مسرت اور اطمینان حاصل ہوتا ہے؟ کیا ہماری جائیدادیں، ہماری زمینیں، ہمارا کاروبار، ہماری ملازمت ہمیں امن، سکون، خوشی اور اطمینان قلبی مہیا کر رہے ہیں؟

کیا ہمارے بہن بھائی، بچے، والدین، رشتے دار، ہمسایے اور دوست سب ایک دوسرے کے ساتھ خلوص اور پیارو محبت سے رہ رہے ہیں؟ کیا ہمارے مدرسے، کالج، یونیورسٹی، ہمارا تعلیمی نظام اور ماحول اس درجہ اطمینان بخش ہے کہ ہم اپنے بچوں کی پڑھائی اور ان کی تربیت اور اخلاق سے مطمئن ہیں؟ کیا ہمارے ہسپتالوں، شفاخانوں اور ڈسپنسریوں کی کارکردگی تسلی بخش ہے، کیا وہ ہماری ملت کے ہر فرد کی یکساں نگہداشت اور علاج کرنے کی ذمہ داری پوری کرتے ہیں، کیا وہاں کا سٹاف، مریض کا علاج اپنے کنبے کا ایک فرد جان کر پوری دیانتداری، محنت، محبت اور خلوص سے کرتا ہے؟

کیا ہماری پولیس، ہماری انتظامیہ، ہماری عدلیہ اپنے فرائض منصبی پوری دیانت، ایمانداری اور عدل وانصاف سے سرانجام دے رہی ہے، کیا ہماری اسمبلیاں مفاد عامہ کے لئے قانون سازی کی اہل ہیں۔ کیا ہمارے ممبران اسمبلی اور ہماری حکومتیں عوام کے فلاح وبہود اور امن وسکون کے لئے مصروف ہیں؟ کیا ہم اور ہمارے ہم وطن پیارو محبت سے ایک دوسرے کے حقوق کی پاسداری کرتے ہیں؟ کیاہمارے اساتذہ، علماء اور مشائخ ہماری تعلیم وتربیت، فرقہ پرستی سے پاک وصاف ماحول میں، صرف اور صرف دین مبین اور اسلام سے محبت کی خاطر کر رہے ہیں اور کیا ہم مسلمان ہونے کے ناطے اللہ تعالی اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمودات، احکامات اور قوانین کے مطابق زندگی بسر کر رہے ہیں اور کیا ہم نے اپنے شب وروز اور ماہ و سال کا کچھ حصہ، دنیا کو اسلام کی حقانیت سے روشناس کرانے کے لئے وقف کر رکھا ہے؟ کیا علماء، سیاسی زعماء اور ہمارے راہ نما خلوص دل سے دہشت گردی کے خاتمہ کی جدوجہد میں مصروف عمل ہیں؟

یہ اور اس جیسے سینکڑوں سوال ہمارے ذہنوں میں موجود ہیں جن پر آپ جیسے حساس اور صاحب درد لوگ ہر وقت سنجیدگی سے سوچتے رہتے ہیں۔ بعض حضرات ان کے بارے میں ذہن پر زیادہ بوجھ ڈالنا پسند نہیں کرتے ہیں۔ لیکن کیا ان امور اور مسائل پر غوروفکر نہ کرنے اور ان سے نبرد آزما ہونے کی مساعی نہ کرنے سے ان کی اہمیت سے انکار کیا جا سکتا ہے؟ خوش قسمت ہیں ملت اسلامیہ کے وہ افراد، جو ان امور ومسائل پر غوروفکرکرتے ہیں، ان سے نبٹنے کے لئے خود بھی محنت کرتے ہیں، دوسروں کی بھی مدد کرتے ہیں اور لوگوں کو ان مسائل پر سوچنے کی دعوت دیتے ہیں اور ان کے حل کے لئے ان کی تعلیم وتربیت کرتے ہیں۔

آئیے! ہم شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہر القادری کے فکرو عمل اورکردار کا ایک مختصر جائزہ لیتے ہیں کہ ان سب سوالات کا ان کے ذہن وقلب میں کیا جواب ہے، اور اب تک ہمارے اور ہمارے بچوں کے مستقبل کو تابناک اور درخشاں بنانے کیلئے انہوں نے کیا کیا اور ان کا آئندہ لائحہ عمل اور منصوبہ کیا ہے

آیئے! ہم یہ کوشش کریں کہ کیا وہ بے لوث جذبے، دیانتداری اور پوری ایمانداری سے امت مسلمہ کے مستقبل کو سنوارنے کی جدوجہد کر رہے ہیں کہ دوسرے نام نہاد اداروں، انجمنوں، پارٹیوں اور جماعتوں کی طرح فقط اپنی لیڈری چمکانے اور شہرت کی خاطرایک کھیل کھیل رہے ہیں۔ کوئی پوری دیانتداری سے ان کی عالمگیر اور ہمہ گیر تحریک کے اغراض ومقاصد کا جائزہ لے تو ان کی ٹھوس منصوبہ بندی، جدید طریقہ کار اور شب وروز کی انتھک محنت کو دیکھ کر بے اختیار وہ یہی کہنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ واقعتا ان کی تمام مساعی جمیلہ کا مقصد عالم انسانیت کے امن، اسلام کی سربلندی اور نشاۃ ثانیہ کی بازیافت ہے، سوچنے کی بات یہ ہے کہ اس عظیم الشان تحریک میں ہر شخص اپنی بساط کے مطابق کس طرح کیسے اوران کے ساتھ شامل ہو کر کام کر سکتا ہے ؟

ایک پرسکون پر امن، چین اور خوشیوں سے بھرپور، فلاحی اور اصلاحی معاشرے کی تشکیل کیلئے تین عوامل کا ہونا انتہائی ضروری ہے علم(Knowledge)، حکم(Decree) اور عمل( Activity) اللہ تعالی فطرت کے مخصوص علم کی روشنی میں ایک خاص حکم یعنی قانون کے ذریعے، انسانی معاشرے کی فطرتی نشوونما اور تہذیب چاہتا ہے۔ لازم ہے کہ معاشرے کے افراد اللہ تعالی کے ودیعت کردہ فطرتی علم سے بہرہ ور ہو کر اپنے معاشرے کو مخصوص قواعد وضوابط کا پابند بنا کر اس علم اور حکم پر عمل کر کے سب انسانوں کے لئے فطرت کی منشاء کے عین مطابق امن، خوشی اور سکون کا سامان کریں لیکن معاشرے کے افراد اگرعلم، حکم اور عمل سے انحراف کریں گے توخلاف فطرت ہونے کی وجہ سے وہ سب کچھ معاشرے کے لئے نقصان کا باعث ہو گا، یہ دستور زمانہ، ازل سے ابد تک لابدی اور غیر متبدل ہے۔

اس اصول فطرت کی روشنی میں جب ہم اپنے ملک اور دنیا کے معروضی حالات پر نظر ڈالتے ہیں، تو صاف نظر آتا ہے کہ جو قومیں علم اور حکم پر عمل کرتی ہیں وہ شاد آباد مسرور سرخرو کامیاب اور پرسکون زندگی بسرکرتی ہیں ان کی شان وشوکت اور رعب ودبدبہ دوسرے ممالک اور اقوام پر قائم ہوتاہے۔ ان کی ساکھ (Credibility)، پاکیزہ اطوار اور اعلیٰ اخلاقی اقدار کی بدولت انہیں عزت وتوقیر کی نگاہ سے دیکھا جاتاہے اورجو اقوام وملل علم و عمل سے بے بہر ہ ہو جاتی ہیں، وہ بزدل، ڈرپوک، کاسہ لیں، گداگر، دوسری اقوام کی محکوم اور زیرنگیں بن کر زندگی گزارنے پر مجبور ہوتی ہیں۔

کلام الٰہی اور قرآنی ہدایت (Quranic Guidance) کے تحت علم، حکم اور عمل کے باہمی امتزاج سے تشکیل پانے والا ایک اسلامی، اصلاحی اور رفاہی معاشرہ جس کی اساس تکریم آدمیت اور احترام انسانیت کے اصول پر قائم ہو، اس کے قیام کے لئے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمدطاہرالقادری کے عالمگیر اور ہمہ گیر کام کا جائزہ لینے سے یہ حقیقت منکشف ہوتی ہے کہ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمدطاہر القادری نے 1980ء سے 2008ء تک اس سلسلہ میں پاکستان اور دنیا کے تقریبا 80 ممالک میں جو کچھ کیا، اس کی فہرست اتنی طویل ہے کہ اگر اس کی مختصر تاریخ بھی لکھی جائے تو اس کے لئے ایک بہت بڑی کتاب کی ضخامت درکار ہوگی۔ میں علم، حکم اور عمل کے حوالے سے انتہائی مختصر چند گزارشات آپ کی معلومات کے لئے عرض کرتا ہوں : تحریک منہاج القرآن کے اغراض ومقاصد میں سرفہرست سب سے بڑا مقصد، مسلمانوں میں علمی، فکری، قانونی، اخلاقی، روحانی، معاشی اور معاشرتی، انفرادی، قومی اور بین الاقوامی احوال میں اصلاح اور تبدیلی کے ذریعے غلبہ دین حقیقی کی بحالی، اسلام کی نشاۃ ثانیہ اور درخشاں مستقبل کا حصول ہے۔ لیکن یہ سوال کہ عالم اسلام کے موجودہ سخت ترین دور زوال وانحطاط میں یہ کیسے ممکن ہو سکتاہے؟ اس کا جواب علم میں پنہاں ہے۔ سب سے پہلے ان تمام امور کا تجزیاتی اور تجرباتی علم ضروری ہے کہ جو زوال امت کا سبب بنا اور جس پر اہل درد لوگ سوچتے رہے ہیں۔ اپنے ماضی اور حال کے واقعات وحالات کا بے لاگ اور علمی تجزیہ، آپ کون تھے، کیا بن گئے یا بنا دیئے گئے، یہ سب کچھ کب اور کیسے ہوا، کس نے کیا اور کس طرح کیا؟ بین الاقوامی سطح پر لوگ آپ کے بارے میں کیا سوچتے ہیں؟ آپ کے خلاف کیا ہو رہا ہے؟ کس طرح کی منصوبہ بندی ہو رہی ہے اور آپ کے گھر اورآپ کے اردگرد کے ماحول میں وہ طاغوتی اور استیصالی سازشوں کا وہ کونسا باریک جال آپ کے اردگرد بنا جا رہا ہے، جس کے تار عنکبوت آپ کے ذہن، قلب اور روح کو اپنی لمحہ بہ لمحہ سخت ہونے والی گرفت میں لے رہے ہیں، ان امور اور مسائل کے بارے میں کچھ افراد ملت کو علم ہے، لیکن زیادہ تر لوگ اس سے نابلد ہیں۔ احساس زیاں ہے کہ دن بدن معدوم ہوتا چلا جا رہا ہے۔

پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے ان تمام واقعات، حالات امور ومسائل کی باریک سے باریک جزئیات کو بڑی عرق ریزی سے اکٹھا کیا اور دنیائے انسانیت اور خاص کر مسلم معاشرے کے کلی بگاڑ کو اولاًجزوی بگاڑ میں بدلنے اور بعدازاں اس کو پوری طرح ختم کرنے کے لئے ٹھوس منصوبہ بندی کی۔ انہوں نے علم فطرت کے عین مطابق اپنی عالمی تحریک کے لئے اصلاح احوال اور تبدیلی کے تین ادوار کی درجہ بندی کی۔

  1. دور ماقبل تبدیلی : یہ معاشرے میں اصلاحی تبدیلی لانے کا وہ عرصہ ہے جس میں دور رس اصلاح احوال اور عالم انسانیت کے لئے نفع بخش علم کی تعلیم، تعلم اور تربیت بہم پہنچائی گئی۔
  2. اصلاح احوال اور تبدیلی کا دور : پہلے دور میں سرانجام دیئے گئے علمی، فکری، تعلیمی، رفاہی اور اصلاحی کاموں کے نتیجہ میں معاشرے میں عملی تبدیلی پیدا ہو گی۔
  3. دور مابعد اصلاح احوال : یہ دور معاشرہ کی عملی تبدیلی کے بعد اس کے نتائج اور ثمرات سمیٹنے کا ہو گا۔

یہ سوال کہ 28 سال کے عرصہ میں تحریک منہاج القرآن نے اب تک کیا کیا، وہ اس وقت کس مقام پر ہے، کیا کر رہی ہے کن مراحل سے گزر رہی ہے اور اس کا مستقبل کیساہے؟ اس کا جواب دور ماقبل کے پانچ مراحل کے تجزیے پر مشتمل ہے : ۔

  1. مرحلہ دعوت : مرحلہ دعوت میں اصلاح احوال اور ایک پرامن اصلاحی معاشرے کے قیام کی دعوت دی جاتی ہے، اس دور میں عوامی شعور کی بیداری اور تعلیم کا موثر بندوبست کیا گیا ہے، بحمد اللہ نہ صرف پاکستان بلکہ بیرون ملک بھی تحریک کے بانی وسرپرست اعلیٰ بہ نفس نفیس اور ان کے ہزاروں شاگرد فاضلین اور تحریکی علماء یہ فریضہ بخوبی سرانجام دے رہے ہیں۔ جس کی بدولت لاکھوں افراد ملت ہر سال رکنیت اور رفاقت اختیار کر رہے ہیں۔
  2. مرحلہ تنظیم : تنظیمی مرحلے میں وہ عوام جو شعوری طور پر اصلاح احوال کی حقیقت کو سمجھ چکے اور اسے دلی طور پر قبول کیا، ان کی باقاعدہ تنظیم سازی کی جاتی ہے۔ تاکہ وہ اب خود معاشرہ میں تبدیلی اور اصلاح احوال کا فریضہ سرانجام دیں، یہ عمل بھی پوری دنیا میں احسن طریق سے جاری وساری ہے اور اراکین ورفقاء کی ہزاروں تنظیمات بن رہی ہیں۔
  3. مرحلہ تربیت : تنظیم میں شامل لوگوں کو حکم یا قانون الہی پر عمل کرنے اور کارکن بننے کی تربیت دی جاتی ہے یعنی علم اور حکم پر عمل کرنے کا یہ ایک ایسا انتہائی ضروری مرحلہ ہوتا ہے جس کے بغیر علم کے بیکار ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے۔
  4. مرحلہ تحریک : جب تنظیم میں لوگوں کی اچھی خاصی تعداد شامل ہوکر علم وتربیت حاصل کرتی ہے اور اس پر عمل کرنے کے قابل اور خوگر ہو جاتی ہے تو اعمال واحوال میں اجتماعی تبدیلی کا فطرتی عمل خود بخود شروع ہو جاتاہے۔ انسانی ذہن، فکراورجسم کا جمود ختم ہو جاتا ہے، اور اللہ کے دین کے لئے کچھ کرنے کا جذبہ متحرک ہوتا ہے جس کا محرک انسانی اخلاق کا کمال اور منزل رضائے الٰہی ہوتی ہے۔
  5. مرحلہ انقلاب : جب تحریک مرحلہ انقلاب میں داخل ہوتی ہے اور علم اور حکم پر عمل شروع ہوجا تاہے تو اس کامیابی سے معاشرہ میں متوقع اصلاحی اور رفاہی نتائج سامنے آ کر عوام الناس کو امن آشتی اور سکون سے بہر ور کرتے ہیں اور معاشرہ الوہی اور آفاقی اقدار کا حامل ہو کر اللہ سبحانہ کی رضا کے مطابق ہو جاتا ہے۔

اصلاح احوال کے ان تمام ادوار میں دعوت، تنظیم اور تربیت کا سلسلہ ہمیشہ جاری رہتا ہے، دعوت ایک سے دوسرے شخص، ایک سے دوسرے محلے، علاقے سے دوسرے علاقے، ملک سے دوسرے ملک حتیٰ کہ بین الاقوامی سطح تک پھیلتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ تنظیم سازی بھی بڑھتی جاتی ہے، تنظیم میں شامل لوگوں کی تربیت بھی ہوتی ہے اور عوام الناس کو بھی پیغام مسلسل ملتا رہتا ہے۔ اسلامی انقلاب کے لئے کام کرنے کا یہ وقت سخت آزمائش، تکالیف اور صبرواستقامت کا ہوتاہے۔ سلوک وتصوف کی مختلف منازل اور خاص کر منزل لومۃ لائم میں کامیابی یہیں ملتی ہے۔ لومۃ لائم کسے کہتے ہیں، اس کے کون سے منازل ہوتے ہیں اور اس کی کیا نشانی ہوتی ہے؟

منزل لومۃ لائم کی نشانی یہ ہوتی ہے کہ تحریک کے اندر جب چھوٹی چھوٹی باتوں پر اراکین و رفقاء کے درمیان رنجشیں پیدا ہوتی ہیں، انسانی نفس امارہ اور شیطان داعی دعوت حق کے دل میں مختلف وسوسے پیدا کرتا ہے، دین اور تحریک کے مخالفین، وابستگان، اراکین اور رفقاء کو مشن اور انقلاب کی راہ سے ہٹانے کے سوجتن کرتے ہیں۔ شکوک وشبہات پیدا کئے جاتے ہیں، ناجائز پروپیگنڈا کیا جاتا ہے، اخبارات، رسائل وجرائد میں مخالفانہ بیانات شائع کرائے جاتے ہیں، پیسہ کمانے والے مقررین اور لکھاریوں کی خدمات مخالفانہ تقاریر اور مضامین شائع کرنے کے لئے حاصل کی جاتی ہیں۔ جھوٹے مقدمات میں پھنسانے کے جتن ہوتے ہیں، قائدین پر حملے کرائے جاتے ہیں، لالچ کے جال بچھائے جاتے ہیں، ان حالات سے متاثر ہو کر بعض کمزور طبیعت اور سطحی علم رکھنے والے ناپختہ افراد تحریک سے راہ فرار اختیار کر لیتے ہیں اور بعض سنگینی حالات سے گھبرا کریالالچ کا شکار ہو کر تحریک کو خیرباد کہہ جاتے ہیں۔ لیکن اولوالعزم، بہادر اور جوان ہمت کارکن ثابت قدمی سے تکالیف اور مصائب برداشت کرتے ہیں اور آزمائشوں کی بھٹی سے کندن ہو کر نکلتے ہیں اور مرحلہ تحریک اور انقلاب میں داخل ہو کر تاریخ تہذیب انسانیت میں اپنا نام رقم کر تے ہیں قافلہ شوق کی اپنی ایک راہ ہوتی ہے اور منزل مقصودتک رسائی یعنی محبوب ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے سنگ آستاں پر بوسہ دینے کی سعادت بھی منتخب افراد کی قسمت میں ہو تی ہے۔

ایک حقیقی، فلاحی اور اسلامی معاشرہ کے قیام، احوال میں تبدیلی(انقلاب احوال) اور اصلاح کے لئے اسلام کی حقیقت پر تفکر اور تدبر اوراسے سمجھنے کے لئے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمدطاہر القادری کے درج ذیل افکارعالیہ اور اقوال زریں کو سمجھنا اور اس پر عمل پیرا ہونا بہت ضروری ہے۔

  • اسلام محض ایک نعرہ اور فکر نہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ عزم وارادہ کا نام ہے۔
  • اسلام محض علم نہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ عمل کا نام ہے۔
  • اسلام محض تبلیغ نہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تکمیل کا نام ہے۔
  • اسلام محض توجیہ نہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تخلیق کا نام ہے۔
  • اسلام محض مقصد حیات کو جاننے کا نام نہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ عملی جدوجہد کے ذریعے نتائج پیدا کرنے کا نام ہے۔

علم، حکم اور عمل کے حوالے سے تحریک منہاج القرآن نے اپنی کارکردگی کے حوالے سے گزشتہ چودہ سالوں میں لاکھوں افراد کو ملک عزیز کے اندر اور باہر اسلام کے جاودانی پیغام سے روشناس کرایا۔ اس مقصد کے لئے مختلف ذرائع ووسائل کا استعمال جدید سائنٹفک انداز میں ہو رہا ہے۔

  • منہاج یونیورسٹی لاہور کا قیام، جو جدیدوقدیم علوم وفنون کے امتزاج اور سائنٹفک طریق کار سے اسلام کے شاندار ماضی کو درخشاں مستقبل بنا رہی ہے، اس مایہ ناز یونیورسٹی سے جدید اور قدیم علوم کے ہزاروں ایسے روشن خیال علماء اور فضلاء پیدا ہو رہے ہیں جوتفرقہ بازی اور فرقہ پرستی سے بالاتر، رازی، ابن الحیثم اور غزالی کی تاریخ رقم کرنے کے جذبہ، شوق اور عزم وارادے سے سرشار ہیں اور ساری دنیا کو امن آشتی اور باہمی یگانگت کا پیغام دینے کے لئے شب وروز کوشاں ہیں۔ اس یونیورسٹی میں جدید علوم وفنون کے علاوہ ایم فل اور پی ایچ ڈی لیول تک اسلامک سائنسز اور شرعیہ کا انتظام وانصرام موجود ہے۔
  • لاکھوں افراد ملت بلکہ غیر مسلموں کو بھی اندرون اور بیرون ملک آڈیو، وڈیو کیسٹس، سی ڈیزاور کتابوں کے ذریعے اسلامی امن، بھائی چارے اور اخوت کا درس دیا جاتا ہے۔
  • لاکھوں رفقاء واراکین اور وابستگان کی تنظیم سازی اور تعلیم وتربیت کے مناسب مواقع پیدا کئے جا رہے ہیں۔
  • مستقبل قریب میں دس ہزار تعلیمی مراکز کا قیام اور اس کے ذریعے ملک عزیز کے کروڑ وں ناخواندہ افراد کو زیورتعلیم سے آراستہ کرنے کے عظیم الشان منصوبے زیرتکمیل ہیں۔
  • عامۃ الناس میں صحت مند سیاسی شعور بیدار کرنے اور اسمبلیوں کو باکردار دین ودنیا کی بامقصد تعلیم سے مزین اراکین فراہم کرنے کے لئے پاکستان عوامی تحریک کا قیام عمل میں لایاگیا۔ لیکن جب یہ دیکھا کہ موجودہ انتخابی نظام انتہائی گھناؤنا، روپے کی سیاست اور سیاسی اقتدار کے حصول کے لئے دجل وفریب اور دھوکا دہی سے عبارت ہے تو پاکستان عوامی تحریک نے انتخابی سیاست سے دست برداری کا اعلان کر کے اپنے ذمہ انسانیت کی خدمت یعنی عوام کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کا فریضہ لے لیا، جسے وہ بطریق احسن سرانجام دے رہی ہے اور پورے ملک میں دنیا کے سب سے بڑے غیر سرکاری تعلیمی نیٹ ورک کا جال بچھا دیا ہے۔
  • ملک عزیز میں منہاج ویلفیئر فاؤنڈیشن کے زیراہتمام فری ڈسپنسریوں، فری بلڈ بنکوں اور فری ایمبولینسوں کے جاری موجودہ نیٹ ورک کو مزید توسیع دے کر ملک کے کونے کونے میں ایک وسیع جال پھیلانے کا منصوبہ بنایا گیا ہے تاکہ ملت کا ہر فردبرابری کی بنیاد پر علاج معالجہ کی سہولت حاصل کرسکے۔
  • ملک عزیز کے تمام شہروں میں تحصیل اور یو سی لیول تک فری ٹیوشن سنٹروں، کمپوٹر کالجوں اور ماڈل سکولوںکے قیام کی تجویز ہے تاکہ ملت اسلامیہ کے ہر امیر وغریب فرد کو تعلیم حاصل کرنے کے یکساں مواقع حاصل ہو سکیں۔
  • جہیز فنڈ اور مستحق افراد کی مالی امداد کا ایسا ملک گیر نظام قائم کیا گیاہے جس کے ذریعے صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ غیر مسلم پاکستانی برادری بھی استفادہ کر رہی ہے۔
  • پاکستان اور دیارغیر میں قدرتی آفات، سیلاب اور زلزلہ زدگان کے لئے نقد مالی امداد کے علاوہ اجناس خوردنی کی فراہمی، شیلٹرز، ڈسپنسریوں اور سکولوں کا قیام تیزی سے عمل میں لایا جا تا ہے۔
  • لاہور میں زلزلہ زدگان اوریتیم بچوں کی کفالت، رہائش اور تعلیم کا ایک عظیم الشان منصوبہ، ’آغوش‘‘ کے نام سے کامیابی سے چلایاجا رہا ہے۔

مزیدبرآں :

  • ملک سے فرقہ واریت کا ہر سطح پر خاتمے کے لئے ٹھوس منصوبہ بندی کے تحت تمام ادیان کے ساتھ ڈائیلاگ اور تقریب بین المذاہب کا باقاعدہ اہتمام کیاگیاہے، ان میں سب سے موثر فورم کریسچن مسلم ڈائیلاگ فورم اور انٹرفیتھ ڈائیلاگ فورم ہیں۔
  • ملک میں لاقانونیت، دہشت گردی اورطاغوتی سازشوں کا بھرپور مقابلہ کرنے کے لئے افراد ملت کی تربیت کا نظام قائم ہے۔
  • جہالت کے اندھیروں کے خلاف علم کی روشنی پھیلانے کے لئے مسلسل جہاد جاری ہے۔ اور پرائمری سے لے کر پی ایچ ڈی کی سطح تک فروغ تعلیم کا نظام جاری ہے۔

یہ سب کچھ تحریک کے لائحہ عمل میں شامل ہے، شیخ الاسلام ڈاکٹر محمدطاہرالقادری کی براہ راست نگرانی میں تحریک منہاج القرآن، کلی بگاڑ کو ٹھوس منصوبہ بندی سے ختم کرنے کے لئے اپنے لاکھوں جانثاروں، رفقاء واراکین اوروابستگان کی شب وروزمحنت، انتھک جدوجہد، مالی قربانی اور ایثار کی بدولت، نہ صرف ملک عزیز بلکہ دنیا کے نوے ممالک میں، ثابت قدمی اور تیز رفتاری سے اپنا فریضہ سرانجام دے رہی ہے۔

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری اقوام عالم کو محبت، امن، آشتی اوراتحاد کا درس دینے کے لئے ہر براعظم اور خاص کر امریکہ اور یورپ میں دورے کرتے رہتے ہیں، دیارغیر کی مختلف یونیوسٹیوں میںاپنے موثرلیکچروں کی وجہ سے وہ نہ صرف ایک ہر دلعزیز شخصیت مانے جاتے ہیں بلکہ عالمی امن کے حقیقی پیامبر ہونے کے متعدد خطابات حاصل کر چکے ہیں، مختلف ادیان کے پیروکاروں کو عالمی سطح پرباہمی امن اور اتفاق کے رشتے میں پرونا ان کا مشن ہے، اور وہ تقریب بین المذاہب کے سرگرم عالمی رہنما کے طور پر جانے پہچانے جاتے ہیں۔

بہترین علمی، فکری، ذہنی اور علمی صلاحیتوں سے مزین تحریک کی مختلف تنظیمات ؛ ادارہ منہاج القرآن، پاکستان عوامی تحریک، منہاج یوتھ ونگ، منہاج القرآن علماء کونسل، منہاج القرآن ویمن لیگ، مصطفوی سٹوڈنٹس موومنٹ، منہاج ایجوکیشن سوسائٹی اور منہاج ویلفیئر فاؤنڈیشن ملک عزیز اور عالم اسلام کے کروڑوں افراد کی کی خدمت سرانجام دیتی ہوئی ایک روشن مستقبل کی طرف بڑھ رہی ہیں۔ یہ ہے عالم اسلام کے روشن اور تابناک مستقبل کی ہلکی سی جھلک، جو تحریک منہاج القرآن کے پرچم تلے ان شاء اللہ تعالی بہت جلد عالم اسلام کا مقدر بننے والی ہے۔

برادران ملت! کیا آپ بھی عالم اسلام کے تابناک اور درخشاں مستقبل کے لئے کی جانے والی ان بے لوث کوششوں میں ہاتھ بٹانا چاہتے ہیں؟ یقینا آپ ایسا ضرور چاہتے ہوں گے، کیونکہ ایسا مستقبل کسی ایک فرد، خاندان یا قبیلے کا نہیں ہے بلکہ پوری قوم اور ملت اسلامیہ کا مسئلہ ہے، جس میں ہم اور آپ سب شامل ہیں، اس سے ہم سب کے بچوں اور خاندان کا مستقبل وابستہ ہے، آپ دل سے روشن مستقبل کے لئے اپنی ذہنی، فکری، علمی اور عملی قوتوں کو بروئے کارلانا چاہتے ہیں، لیکن یا تو آپ کے پاس کوئی پلیٹ فارم موجود نہیں ہے یا ابھی تک اس موضوع پر آپ یا آپ کی پرخلوص سوچ فی الحال آپ تک ہی محدود ہے یا ہوسکتاہے کہ آپ کا تعلق کسی دوسرے طبقہ فکر، نظریہ، مسلک، گروہ، پارٹی، جماعت ادارے اور انجمن سے ہو اور آپ اصلاح احوال کے اس عظیم الشان ہمہ گیر اور عالمگیر منصوبے پر پوری طرح غور نہ کر سکے ہوں۔ بہرحال صورت حال جیسی بھی ہو، آپ بہرحال عالمی معاشرے میں ایک مثبت تبدیلی احوال اور اسلام کے درخشاں اور تابناک مستقبل کے متمنی اور خواہاں ہیں اور بحیثیت مسلمان دنیا میں علمی، عملی، فکری، اخلاقی، روحانی، معاشی، سیاسی اور معاشرتی سربلندی ضرور چاہتے ہیں۔

اگر آپ واقعی یہ سب کچھ دیکھنا اور کرنا چاہتے ہیں تو آپ اپنے عقیدے، مسلک، پارٹی، جماعت، ادارے، گروہ اور طبقے سے بالاترہوکر کسی کو ناراض کئے اور کسی بھی فکرواندیشہ اور ہچکچاہٹ کے بغیر، اپنی صوابدید اور سہولت کے مطابق کسی بھی طرح، ذہنی، فکری اور عملی طور پر منہاج القرآن کے عالمگیر اسلامی انقلابی مشن اور عالم اسلام کی اس ہمہ گیر تحریک کے ساتھ تعاون کر سکتے ہیں۔ تحریک منہاج القرآن انٹرنیشنل کا عالمگیر اور ہمہ گیر مشن ایک کھلی کتاب کی طرح آپ کے سامنے ہے، ہم آپ کو پرخلوص دعوت دیتے ہیں کہ اس وقت جس طرح بھی آپ کے لئے ممکن ہو، دامے، درمے، قدمے، سخنے اس کا ساتھ دیں۔

  1. آپ تحریک منہاج القرآن کے اخلاقی اور معاشرتی اصلاح احوال کے مشن کا بغور تفصیلی مطالعہ کیجئے اس مطالعہ کے لئے آپ کو سارا مواد ہماری لائبریریوں میں موجود شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کے ہزاروں آڈیو، ویڈیو کیسٹس اور کتابوں کی صورت میں دستیاب ہوگا، یہ لائبریریاں ہر گاؤں، قصبہ اور شہر میں ادارہ منہاج القرآن کے مراکز میں قائم ہیں۔ اس کے علاوہ آپ سے استدعا ہے کہ آپ ہمارے تحریکی کاموں کا کھلے ذہن سے جائزہ لیں جو تمام مسلمانان عالم کے سامنے روز روشن کی طرح عیاں ہیں۔ ملک عزیز کے ہر شہر اور قصبہ میں ہمارے دروس عرفان القرآن میں شرکت فرمائیں، گاہے گاہے ہمیں ہماری کوتاہیوں، کمزوریوں اور ہمارے کام کے حسن وقبح سے بھی مطلع فرمائیں۔ اگر آپ کسی وجہ سے ہماری مجالس درس اور مذہبی تقریبات میں شرکت سے قاصر ہوں تو اپنی دعاؤں میں ہمیں ضرور یاد فرمائیں اور اللہ تعالی کے حضوراس عظیم اسلامی تحریک کی کامیابی کیلئے دعا کیجئے۔
  2. اگر آپ اسلام کی سربلندی کے لئے کچھ مزید نیکی کا کام کر سکتے ہیں اور بعض عاقبت نااندیش افراد ملت کو گناہ سے بچانا چاہتے ہیں اور کسی محفل یا اجتماع میں تحریک منہاج القرآن اور کسی بھی دوسری اسلامی دینی تحریک، جماعت یا انجمن کے بارے بعض افراد کوبے جا مخالفانہ بات، تہمت یا بہتان تراشی کرتے پائیں تو بڑی نرمی سے انہیں سمجھائیں کہ بلاتحقیق، محض سنی سنائی باتوں پر یقین کرنے سے گریز کریں کیونکہ اللہ تعالی اس کوپسند نہیں کرتا ہے۔ اللہ تعالی جل مجدہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ہماری تحریک کے اس قسم کے مخالفین آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ہیں اور اگر چند ایک ہیں بھی تو وہ یا تو حسد کی وجہ سے یہ گناہ کرتے ہیں یااسلام دشمن طاغوتی طاقتوں کے ایجنٹوں کے بہکاوے میں آ کر ایسا کرتے ہیں۔ بہرحال ہم سب افراد ملت کے لئے اللہ سبحانہ سے خیر کے طالب ہیں اور ہمارے لئے آپ کی نیک خواہشات پر اللہ تعالی جل مجدہ آپ کو اجر عظیم عطا فرمائے گا۔
  3. برادران عزیز! اگر آپ اس عظیم الشان اسلامی تحریک اور انقلاب کے لئے عملی طور پر کچھ کرنا چاہتے ہیں اور ہمارے فقید المثال تعلیمی، تبلیغی، اصلاحی اور فلاحی منصوبوں میں شریک ہونا چاہتے ہیں تو آپ اپنے دوستوں، رشتہ داروں، ہمسایوں اور زیراثر لوگوں کو اللہ تعالی عزوجل اور اس کے محبوب پاک رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عظیم دینی مشن کے فروغ کے لئے بپا کی جانے والی اصلاح احوال کی اس تحریک کے منصوبوں کے بارے میں معلومات فراہم کر کے ان سے گزارش کریں کہ وہ اس اسلامی جدوجہد میں ہمارے ساتھ شامل ہو جائیں، تحریک منہاج القرآن کی رفاقت اختیار کریں اور ہمارے دینی اور علمی جرائد، مجلہ منہاج القرآن، مجلہ دختران اسلام، مجلہ العلماء اور پندرہ روزہ اخبار تحریک سے استفادہ کریں۔
  4. اس پیغام کو پڑھنے کے بعد اگر آپ سمجھتے ہیں کہ مسلمانان عالم اور بنی نوع انسان کے اس دور زوال اور علمی، اخلاقی انحطاط کے بارے میں جو کچھ آپ سوچ رہے تھے وہی ہم بھی سوچتے ہیں، آپ کے اور ہمارے خیالات، جذبات واحساسات میں یکسانیت اور ہم آہنگی ہے، آپ ہماری تحریک کے اغراض ومقاصد اور منصوبوں سے متفق ہیں اور دین حق کی سربلندی، اشاعت اسلام اور ملک عزیز سے ناخواندگی، جہالت اور بدعملی کے لئے پچیس روپیہ ماہانہ خرچ کر سکتے ہیں تو آپ مستقل طور پر ہمارے رفقاء کے عظیم الشان لشکر اسلام میں شامل ہو سکتے ہیں آپ اپنے گاؤں، قصبہ، شہر کی ہماری کسی بھی تنظیم کے دفتریا تحریک منہاج القرآن کے کسی بھی رفیق اور رکن سے رفاقت اور رکنیت کے فارم لے کر پر کر لیں اور اللہ کا نام لے کر عہد نامہ رفاقت ورکنیت پر دستخط کر کے اللہ کی راہ میں خود کام شروع کردیں۔ زندگی کا کیا بھروسہ ایک پل ہے دوسرے پل نہیں، اگر ہماری زندگی کا ایک بھی لمحہ دین مبین کی اشاعت اور بنی نوع انسان کی خدمت اور علم کے فروغ کے لئے صرف ہو جائے تو اس پر اللہ جل مجدہ کا شکر ادا کرنا چاہئے۔

تحریک منہاج القرآن اللہ جل مجدہ اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دین کے فروغ کی تحریک ہے، آپ اللہ تعالی عزوجل کے بندے اور حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے امتی ہیں، تحریک کے لاکھوں وابستگان اور رفقاء آپ کے دینی بھائی اور تحریکی ساتھی ہیں، ہمارا مقصد اور نصب العین ایک ہے، ہمارا کام، ہمارا ملک مذہب اور دین ایک ہے، ہم تفرقہ پرستی اور فرقہ بازی کے سخت مخالف ہیں اور اتحاد عالم اسلامی کے داعی اور نقیب ہیں، ہم ہر قسم کی دہشت گردی اور انسانوں کا خون ناحق بہانا حرام سمجھتے ہیں، ہم ریاستی دہشت گردی کو کفر سمجھتے ہیں۔ آپ کی اور ہماری منزل مسلم ورلڈ آرڈر، مسلم دولت مشترکہ اور عالمی سطح پر مسلمانوں کے لئے ایک باوقار مقام کے حصول کی جدوجہد ہے۔ ہم دنیا میں دیگر ادیان کے پیروکاروں کے بھی مخالف نہیں ہیں اور سب کو عالمی امن کا پیام دیتے ہیں، اقوام عالم کا امن وسکون اور سلامتی سے ایک ساتھ رہنا ضروری ہے، یہی اسلام کا پیغام ہے جو عصر حاضر میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری ساری دنیا کو دے رہے ہیں اور یہ ایک امر مسلمہ ہے کہ وہ عصرحاضر میں عالمی امن کے پیامبر ہیں۔

تحریک منہاج القرآن انٹرنیشنل کے بانی وسرپرست اعلیٰ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمدطاہر القادری نے اپنی زندگی، دولت، طاقت، اپنی ہزاروں کتابوں، آڈیو، وڈیوکیسٹس اور سی ڈیز کی ساری آمدنی، اس تحریک کے لئے وقف کر رکھی ہے۔ تحریک منہاج القرآن کا طرئہ امتیاز ہے کہ وہ اندرون اور بیرون ملک کسی بھی ایجنسی، ادارے، انجمن، ملکی اور غیرملکی حکومتی امداد کا ایک پیسہ لینا بھی حرام سمجھتی ہے، یہ تحریک اللہ تعالی کے بے پایاں فضل وکرم اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نظر التفات سے اپنے لاکھوں رفقاء ووابستگان اور اسلام کی سربلندی کے لئے کوشاں مسلمان بھائیوں کی مالی معاونت اور زر رفاقت سے کامیابی کی منزلیں طے کرتی ہوئی منتہائے مقصود کی طرف رواں دواں ہے۔

ہم آپ کو ایک غیور اور باشعور مسلمان ہونے کے ناطے دعوت دیتے ہیں کہ آپ ہماری معروضات پر ضرور غور فرمائیں، اور اگر آپ کو ہمارے اغراض ومقاصد سے اتفاق ہے تو کسی بھی طریقے سے اس عظیم الشان اسلامی اصلاحی مشن میں شمولیت اختیار فرمائیں۔ اللہ تعالی آپ اور ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔ آمین ثم آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

تبصرہ

ویڈیو

Ijazat Chains of Authority
Top