تاجدارِ کائنات نے 1500 سال قبل عورت کو ممبر پارلیمنٹ بنایا : شیخ الاسلام
قرآن حکیم ہر علم کا منبع اورمصدر ہے : شیخ الاسلام
علم نقطہ کمال پر پہنچ کر قرآن اور مصطفٰی کی دہلیز پر سجدہ ریز ہو جاتا ہے ۔
تاجدارِ کائنات نے 1500 سال قبل عورت کو ممبر پارلیمنٹ بنایا۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا فرید ملت ریسرچ انسٹیٹیوٹ میں فقہ کی اہمیت کے موضوع پر کینیڈا سے ٹیلی فونک خطاب
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے کہا ہے کہ قرآن ہر علم کا منبع اور مصدر ہے اور شرعی علم فقہ کے بغیر ممکن نہیں۔ قرآن مجید کے ہر حرف کے ظاہری اور باطنی معنی ہیں اور ہر حرف کی ایک ابتداء اور انتہاء ہے۔ قرآن مجید کی طرف رجوع کے الگ الگ طریقے ہیں۔ قرآن متن اورحدیث اس کی شرح ہے۔ قران اور حدیث شریعت کے اصل مآخذ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ علم نقطہ کمال پر پہنچ کر قرآن اور مصطفٰی کی دہلیز پر سجدہ ریز ہو جاتا ہے اور جس آخری حقیقت کو بھی انسانی عقل پا لے گی، وہ مصطفی کے قدموں سے اٹھنے والی دھول کی خیرات ہو گی۔ وہ فرید ملت ریسرچ انسٹیٹیوٹ میں فقہ کی اہمیت کے موضوع پر کینیڈا سے خطاب کر رہے تھے۔ اس موقع پر ناظم اعلیٰ ڈاکٹر رحیق عباسی، منہاج یونیورسٹی کے پروفیسرز اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے ماہرین موجود بھی تھے۔ شیخ الاسلام نے کہا کہ قیامت تک کے لئے سائنس کی جو تھیوری اور قانون سامنے آئے گا اس کا منبع اور اصل قرآن سے ہی ہوگا۔ قرآن مجید میں منطق، فلسفہ، تصوف، تاریخ، فزکس، کیمسٹری، جیومیٹری، ریاضی، اناٹومی، ایمبریالوجی، کاسمالوجی سمیت 70ہزار سے زائد علوم بیان ہوئے ہیں۔ انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ حضرت عبداللہ بن عباس نے فرمایا کہ اگر اونٹ کی نکیل بھی گم ہو جائے تو ہم اس کا حل قرآن مجید سے تلاش کر لیں گے۔ قرآن مذہبی معاملات کے علاوہ داخلہ و خارجہ پالیسی، دفاع، انٹرنیشنل لاء، احتساب، رفاع عامہ، ریونیو، ملکی و بین الاقوامی مسائل سمیت ہزاروں دیگر معاملات کو بھی ڈیل کرتا ہے۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے کہا کہ دنیا کا پہلا آئین میثاق مدینہ آقا نے انسانیت کو دیا۔ 1500سال قبل خواتین صحابیہ مدینہ کی پارلیمنٹ کی ممبر ہوا کرتی تھیں جبکہ امریکہ میں عورت کو ووٹ دینے کا حق 1929ء میں دیا گیا۔ حضرت عثمان غنی کا انتخاب صدارتی طرز جمہوریت پر اور حضرت علی کا انتخاب پارلیمنٹ کے ذریعے کیا گیا۔ اس طرح صدارتی اور پارلیمانی جمہوریت کے بانی بھی صحابہ کرام تھے۔
تبصرہ