محدود خواہشات لامحدود وسائل - از ڈاکٹر حسین محی الدین قادری
تحریر: حسین محی الدین القادری
تجارت کے لیے وضع کردہ بین الاقوامی ضوابط اور مختلف کاروباری ماڈلز اپنا ارتقائی سفر جاری رکھے ہوئے ہیں مختلف مذاہب اور تہذیبوں کے حامل معاشرے بزنس کے لیے نئے نئے اصول وضع کرکے زیادہ سے زیادہ منافع کمانے کی دوڑ میں شریک ہیں۔ اس میں مادیت کا غلبہ واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔ اسلام واحد مذہب ہے جس نے تجارت کے ایسے بنیادی اصول 1400سال قبل وضع کردیئے جو تبدیل نہیں کئے جاسکتے۔ یہ اصول انسانیت کو قیامت تک رہنمائی دیتے رہیں گے اور ان پر قائم رہتے ہوئے کوئی بھی تہذیب کامیابی کی معراج کو چھو سکتی ہے۔ اسلام کے کاروباری نظام پر بات کرنے سے قبل ہم موجودہ حالات کو دیکھتے ہیں تو آج ہمارا رول ماڈل مغرب کا بزنس مین، مغربی کارپوریٹس‘ تنظیمیں اور مغربی پالیسیاں ہیں۔ مغرب نے ترقی کی منازل طے کرکے نیا نظام دیا اور آج دنیا اس کی پیروی کررہی ہے۔ اسلام نے بزنس کے جو اصول وضع کئے اس کی اصل روح کو سمجھا نہیں گیا، ان کو نظر انداز کر دیا گیایا کوئی سمجھانے والا نہ مل سکا، نتیجتاً مغرب کی تقلید کی گئی اور یہ کہہ دیا گیا کہ اسلام کا دیا ہوا بزنس ماڈل آج کے دور کیلئے قابل عمل نہیں رہا۔ سات آٹھ سو سال قبل جب مغرب کو رہن سہن کی خبر نہ تھی،لندن اور پیرس جیسے شہروں میں باتھ رومز تک کا تصور نہ تھا، مسلم سپین کے بڑے شہروں قرطبہ اور غرناطہ کے علاوہ بغداد میں تین سے چار سو ریشم کی ملیں ہوا کرتی تھیں۔ 800سے زائد زیتون کے تیل کے Expellersتھے جو پورے عرب اور یورپ میں Oliveآئل ایکسپورٹ کرتے تھے اور پوری دنیا میں مسلمان تاجروں کا چرچا تھا۔ اس وقت ان کے سامنے ویسٹ کا نہیں بلکہ اسلام کا عطا کردہ بزنس ماڈل تھا جس کے بانی حضور نبی اکرمaہیں۔ مسلمانوں نے اس کاروباری ماڈل پر عمل کرکے کئی سو سال تک دنیا پر حکومت کی۔ آج چین Cost Efficiecyکا ماڈل لے کر آگے بڑھ رہا ہے مگر اس کا اندازہ اور حیثیت Copy Catکی ہوگئی ہے اور Copy Cat کبھی سپرپاور نہیں بن سکے۔ اسلام کا اپنا اوریجنل بزنس ماڈل ہے جسے اپنا کر مسلمانوں نے ترقی کی اور بعدازاں اسے ساری دنیا نے اپنایا۔ بدقسمتی سے آج مسلمان اپنا اوریجنل ماڈل ترک کرکے غیروں کے ماڈلز کو لے کر چل رہے ہیں۔ بغیر سوچے سمجھے اور نفع نقصان دیکھےاپنی شاندار کاروباری روایات کو پس پشت ڈال کر آگے بڑھتے جارہے ہیں۔ اس کا اگرچہ شارٹ ٹرم فائدہ بھی ہورہا ہے مگر قوم ملک اور امت کے تشخص کا لانگ ٹرم نقصان ہورہا ہے۔ عالمی سطح پر اپنی الگ شناخت سے محرومی بھی بڑا نقصان ہے۔ اسلامی بزنس ماڈل کے علاوہ دنیا میں رائج کچھ ماڈلز کا تذکرہ ضروری ہے جو وقت کے ساتھ پس منظر میں چلے گئے۔
ان میں سے ایک ماڈل Relativismتھا جس میں پہلے سے طے شدہ اصولوں کو ماننے کی بجائے یہ تصور دیا گیا کہ ہر فرد جو چاہے کرسکتا ہے اور ہر کسی کی رائے درست ہے اس طرح کوئی نظام نہ بن سکا اس لئے معاشرے نے اسے رد کردیا۔ اس کے بعد Utilitarianismکی بات کی گئی جس کا بنیادی تصور اس بات کے گرد گھومتا تھا کہ اگر مقصد پورا ہوتا ہے تو طریقہ جو بھی اپنا لیا جائے درست ہے۔ یہ ماڈل بھی خلاف اسلام ہے اور اب مغرب کو بھی اس کے نقائص کا ادراک ہوچکا ہے۔ میوں کہ اگر مقصد پیسہ کمانا ہے تو بینک لوٹ کر بھی حاصل کیا جاسکتا ہے۔ پراسس غلط ہے مگر مقصد حاصل ہوجاتا ہے۔ تیسرا نظام Universalismہے جس میں دلچسپ امر یہ ہے کہ پراسس اور آخری نتیجہ کی بجائے ارادے کے صحیح ہونے کو اولیت دی جاتی ہے۔ چاہے پراسس بھی غلط ہو اور بھلےنتیجہ بھی درست نہ آئے۔ ایسا نظام بھی قابل عمل نہیں ہوسکتا۔ اسلام نیت، عمل اور نتیجہ تینوں کو دیکھ کر فیصلہ کرتا ہے کہ یہ نظام درست ہے یا غلط، اس لئے یہ نظام بھی اسلامک بزنس ڈاکٹرائن سے مماثلت نہیں رکھتا۔ چوتھا ماڈلDistributive Justiceکا ہے جو اسلامی نظام تجارت کے قریب ہے اور کسی حد تک نافذ بھی ہے۔ پاکستان میں بھی یہ نظام چل رہا ہے مگر اس کو اس کی اصل روح کے ساتھ نافذ نہیں کیا جاتا کیونکہ یہ زیادہ منافع کے حصول میں مانع ہوتا ہے۔ یہ نظام مالک اور ملازم دنوں کے حقوق کی بات کرتا ہے اس لئے سرمایہ دارانہ نظام اور Socialist Economyدونوں اسلامی کاروباری نظام کے قریب نہیں ہیں۔ اول الذکر بزنس مین کے حقوق کو تحفظ دیتا ہے اور مؤخر الذکر صرف کارکنوں کے حقوق کی بات کرتا ہے جبکہ اسلا م نے ہمیشہ میانہ روی کی بات کی ہے۔Distributive Justiceمیں مالک اور ملازم دونوں کو محنت کا اجر ملتا ہے اور کسی کا حق نہیں مارا جاتا۔ اگر معاشرہ متاثر نہ ہورہا تو اسلام فرد کے حقوق کو تحفظ دے گا، اگر متاثر ہوتا ہو تو پھر تحفظ نہیں دے گا۔ اگر کئی فرمز (Firms) مل کر کوئی ایسا کام کررہی ہیں جس کا معاشرے کو فائدہ کی بجائے نقصان ہورہا ہے تو اسلام اس کی سپورٹ نہیں کرتا اور اگر کوئی ایک فرم معاشرے کو فائدہ دے رہی ہے تو اسلام اس ایک فرم کو فائدہ پہنچائے گا کیوں کہ اسلامی جمہوری نظام آنکھیں بند کرکے جمہوری نہیں ہے۔ اگر اکثریت کسی غلط بات پر جمع ہوجاتی ہےتو اسلام ایسی ’’جمہوریت‘‘ کو قطعاً سپورٹ نہیں کرتا۔ اسلام کچھ حدود وقیود لگا کر جمہوریت کی حمایت کرتا ہے۔
اسلامک بزنسEthicsکے کلچر کو کمپنیز اور کارپوریٹ لیول پر فروغ دینے کیلئے ضروری ہے کہ کمپنیز اہم اقدامات کریں جن میں سے ایکMoral Advocateکی صورت بھی ہے۔Moral Advocate کی پوزیشن کو ہر کمپنی میں Create کیا جائے جو اس بات کو یقینی بنائے کہ کمپنی میں اچھا اخلاقی رویہ فروغ پارہا ہے۔ Moral Advocate کمپنی کا مالک خود بھی ہوسکتا ہے۔ جس کی ذمہ داری ہو کہ وہ کمپنی کے اندر اسلامی اقدار اور تجارتی اخلاقیات کے ماحول کو یقینی بنائے اور کمپنی کے ملازمین کو اسلامی بزنس کی اخلاقیات سکھائے ۔ یہ کاوش تبھی کامیاب ہوگی جب کمپنی کا CEOان اخلاقیات کو خود پر بھی لاگو کرے۔ اسلامی تجارتی نظام میں کسٹمر کا حق مالک کا فرض ہے۔ ایک مسلم آرگنائزیشن کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ کسمٹر کے ساتھ زیادتی نہ ہو کسٹمر کے حقوق میں پراڈکٹ کوالٹی اور Cost efficiency دونوں کو ملحوظ رکھا جاتا ہے۔ اسلام Cost efficiency اور Time efficiency کی بات صرف کمپنی کیلئے نہیں بلکہ کسمٹر کیلئے بھی کرتا ہے۔ یہ بات مغرب کو سالہا سال کے تجربات کے بعد اب سمجھ آئی ہے مگر اسلام چودہ صدیاں قبل اس کے اصول وضع کرچکا ہے۔
اسلام ٹھیکہ پردی گئی زمین کے نفع کی تقسیم کے حوالے سے پابندی لگاتا ہے کہ تقسیم فارمولا پہلے طے ہوسکتا ہے مگر تقسیم پروڈکشن کے مطابق ہوگی کیونکہ کسی وجہ سے پروڈکشن کم ہوجائے گی اور صرف مالک کا حصہ ہی پورا ہوتا ہو اور محنت کرنے والا مکمل محروم رہ جائے اس طرح اسلام کسی پراجیکٹ کی تکمیل سے قبل Premature Contractکی اجازت نہیں دیتا۔ اس میں دونوں فریقوں کو نقصان کا احتمال ہوسکتا ہے۔ اسلام بزنس میں ڈسٹری بیوٹر کے حقوق کی بات بھی کرتا ہے۔ دوسری کمپنی ڈسٹری بیوٹر کو توڑنے کیلئے رشوت اور مراعات آفر کرے اسلام اس کی بھی اجازت نہیں دیتا۔ اسلامی بزنس ماڈل میں ملازم غلام نہیں ہے مالک اس کی عزت نفس مجروح نہیں کرسکتا، اس کی مجبوری سے ناجائز فائدہ نہیں اٹھا سکتا۔ اسلام ملازم کو کمپنی کے منافع میں حصہ دار بنانے کی بات کرتا ہے اور مالک کو ملازم کی اجرت بروقت دینے کا پابند بناتا ہے۔ اسلام کمپنی کے اندر ملازم کو بلا خوف اپنے حقوق اور فرم کی بہتری کیلئے بات کرنے کی اجازت دیتا ہے، اگر کمپنی میں ایسا کلچر نہیں تو اسلام کمپنی کو پابند بناتا ہے کہ وہ ایسا کلچر پیدا کرے اور ملازم کو بالواسطہ بات کرنے کا حق فراہم کرے۔ اسلام بزنس میں اجارہ داری اور منفی ہتھکنڈوں سے مقابل کو زیر کرنے کی ممانعت کرکے فری مارکیٹ اور فری مقابلے کی ترغیب دیتا ہے۔ قانونی اور اخلاقی دائرے میں رہ کر کوالٹی اورCost efficiencyکے ذریعے آپ مدمقابل کو ہراسکتے ہیں۔ اسلام کا بزنس ماڈل جہاں ملازم کو حقوق دیتا ہے وہاں اس پر یہ پابندی بھی لگاتا ہے کہ جس کمپنی میں کام کرے اس کے ساتھ وفادار رہے۔ اس کے سیکرٹس آؤٹ نہ کرے اور زیادہ تنخواہ کے لالچ میں کمپنی کو نہ چھوڑے کیونکہ کمپنی نے برے حالات میں بھی اس کا خیال رکھا ہے اور اسے مالی مشکل نہیں آنے دی۔ اسلام یہ اصول وضع کرتا ہے کہ اگر مشکل وقت فرم پر ہے تو ملازم تعاون کرے اور ملازم مشکل حالات میں ہے تو فرم اس کی مدد کرے کیونکہ اسلام حقوق و فرائض کا مجموعہ ہے، اگر کمپنی کو فائدہ ہورہا ہے تو اس کمیونٹی، علاقے، ملک اور دنیا کو بھی فائدہ ہونا چاہیے۔
آج گلوبل وارمنگ، اوزون لیئر کے ایشوز اس لئے ہیں کہ فضلہ، دھواں اور زہریلے مادے پانی کی شکل میں ندی، نالوں، دریاؤں اور سمندر میں چھوڑ دیئے جاتے ہیں۔ اسلام نے اس رویے کی نفی کرکے ماحولیاتی آلودگی کے بارے کمیونٹی کے حقوق کو تحفظ دیا اور کمپنی کو پابند کیا کہ وہ کمپنی کا ایک خاص بجٹ مختص کرکے کمیونٹی کو محفوظ بنائے۔ پاکستانی تاجروں کی اکثریت نے اسلام کے بزنس ماڈل کو ترک کرکے ایکسپورٹ میں بددیانتی اور غیر اخلاقی عوامل کو شامل کرکے ملک اور اسلام کو بدنام کیا ہے اس لئے پاکستانی پراڈکٹ کو غیر ملکی مہریں لگا کر ایکسپورٹ کیا جارہا ہے۔
ویسٹرن بزنس ماڈل کی بنیاد لامحدود خواہشات اور محدود وسائل پر قائم ہے جبکہ اسلام کے بزنس ماڈل کی خوبصورتی یہ ہے کہ یہ محدود خواہشات اور لامحدود وسائل کا تصور دیتا ہے۔ ایسے معاشرے، ملک اور امت کو کون شکست دے سکتا ہے جو لامحدود وسائل کیلئے محنت کرے مگر خواہشات کو ایک حد سے بڑھنے نہ دے۔ اسلام کے اس ماڈل کو اپنا لیا جائے تو انڈسٹری اور ملک ترقی کرے گا اور منافع میں غریب عوام کو بھی حصہ ملے گا اور وہ بھی اپنے پاؤں پر کھڑے ہوکر معاشرے میں باعزت مقام حاصل کرسکیں گے۔ زیادہ بچت کرنے سے معاشرے کے پسے ہوئے غریب طبقوں کو خوشحالی دی جاسکتی ہے۔ اسلامی بزنس کا تصور یہ ہے کہ سرمایہ مالک، ملازم اور غریب عوام تینوں میں تقسیم ہو اور معاشرہ ایک فلاحی ریاست کا نظارہ پیش کرے، بزنس کے اسلامی ماڈل میں دیانت داری اور مستقل دیانت داری کا بنیادی تصور اور خواہشات کو محدود کرکے وسائل کو لامحدود کرنے کی محنت وہ سنہری اصول ہیں جن پر عمل کرکے مسلم بزنس مین دنیا میں ترقی کی معراج کو چھو سکتے ہیں۔ اسلامی بزنس ماڈل عملی طور پر نافذ کرکے چند سالوں میں معاشرے میں پائی جانے والی معاشی ناہمواری کو کافی حد تک کم کرنے کے ساتھ ساتھ مقابلے کی صحت مند فضاء بھی قائم کی جاسکتی ہے جو ملک میں صنعت کے فروغ میں اہم کردار ادا کرے گی اور جس سے لاکھوں افراد کو روزگار کے بہترین مواقع بھی میسر آئیں گے۔
تبصرہ