شہراعتکاف 2009ء : ساتواں دن
شہر اعتکاف میں جمعۃ الوداع کے موقع پر شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے کینیڈا سے براہ راست خطاب کیا۔ آپ کا خطاب ویڈیو کانفرنس کے ذریعے شہر اعتکاف کے علاوہ دنیا بھر میں کیو ٹی وی نے براہ راست دکھایا۔ شہر اعتکاف میں ہزاروں معتکفین و معتکفات کے علاوہ نمازیوں کی کثیر تعداد موجود تھی۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا جمعۃ الوداع کے لیے خطاب سوا ایک بجے شروع ہوا۔ آپ نے "دل کے ظاہری و باطنی احوال" کے موضوع پر خطاب کیا۔ آپ نے کہا کہ انسان کے ظاہری اعمال کے ساتھ ساتھ باطنی احوال کے بھی درجات ہیں۔ نماز، روزہ، حج، زکوۃ اور اس طرح کی دیگر عبادات ظاہری عبادات ہیں۔ دوسری جانب انسان کی روح اور اس کے دل کے متعلق احوال کا نام باطنی ہے۔
آپ نے کہا کہ نفس ظاہری احوال کا دارالحکومت ہے جبکہ نفس باطنی احوال کا کیپیٹل ہے۔ روح چاہتی ہے کہ دل میرے ساتھ مل جائے اور نفس چاہتا ہے کہ دل میرے ساتھ ہو جائے اور میری طرح تاریک اور سیاہ ہو جائے۔ دوسری جانب روح چاہتی ہے کہ دل میری طرح روحانی اور صاف شفاف ہو جائے۔
آپ نے کہا کہ جس کا دل بے حیا ہو گیا اس کا سارا بدن بے حیا ہوگیا۔ جس کا دل نورانی ہو گیا، پاک ہو گیا تو اس کے جسم کا ہر رکن روحانی اور پاک ہو گیا۔ آپ نے کہا کہ روح چاہتی ہے کہ دل میری طرح ہو جائے، اگر روح کی طرح دل ہو جائے تو پھر اللہ اس بندے کے ہاتھ بن جاتا ہے، اس بندے کے کان بن جاتا ہے اور اس بندے کی آنکھ بن جاتا ہے۔ اگر روح دل کو اپنے جیسا بنانے میں کامیاب ہوجائے تو حیات حیات طیبہ بن جاتی ہے۔ اگر دل کو روح کی طرف سے یہ سلامتی مل جائے تو یہ اس کے سفر کی ابتدا ہے۔ پھر اس دل میں لالچ، حرص، عداوات، کدروت، نفرت اور کسی کے لیے بغض نہیں رہتا۔
آپ نے کہا کہ جس پر رب کی نعمت ہو جائے تو پھر دل خوش ہو جاتا ہے۔ پھر وہاں میں اور تو کا فرق نہیں رہتا، وہاں اپنے اور غیر کا فرق نہیں رہتا۔ جس انسان کو اللہ نے علم کا خزانہ دیا تو پھر وہ بندہ دوسرے شخص کو دیکھ کر خوش ہو جاتا ہے۔ یہ قلب سلیم کی پہلی علامت ہے۔ اس کے برعکس ہمارے دلوں کے احوال ہماری پلیدی کی نشانی ہے۔ آپ نے کہا کہ جو دل قلب سلیم ہوتا ہے وہ نفع دیتا ہے۔
شیخ الاسلام نے کہا کہ قیامت کے دن کوئی شخص کسی کو نفع نہیں دے سکےگا سوائے اس شخص کے جو قلب سلیم لے کر آئے گا۔ قیامت کے دن اولیاء اور اتقیا ایک دوسرے کے لیے نفع مند ہوں گے۔ آپ نے کہا کہ دوست وہ ہوتا ہے جو کسی پر احسان بھی کرے تو اسے خبر نہ ہو۔ دوست کو ہی ولی کہتے ہیں اور جو رب کا دوست یعنی ولی ہوگا تو اس کا حال کیا ہوگا۔
حضرت حاتم عصم اقابر اولیاء میں سے تھے۔ ان کی مجلس میں ایک خاتون تھی، دوران مجلس اس کا وضو ٹوٹ گیا۔ اس کو محسوس ہوا کہ میرے اس عمل سے حضرت صاحب کو برا محسوس ہوا ہوگا۔ آپ کو پتہ چل گیا کہ وہ خاتون میری وجہ سے شرمندگی محسوس کر رہی ہیں۔ آپ نے اپنی کرسی کو اس طرف موڑ کر کہا بی بی ذرا اونچا بولیں، مجھے اونچا سنائی دیتا ہے۔ جب اس عورت کو پتہ چلا کہ یہ تو بہرے ہیں تو اس کی ساری شرمندگی جاتی رہی۔ پھر اس واقعہ کے بعد حضرت حاتم ساری زندگی بہرے بنے رہے۔ جب آپ کی وفات ہوئی تو پتہ چلا کہ آپ بہرے نہیں تھے۔ یہ اولیاء اللہ کا حال ہے، جنہوں نے خود کو بہرہ تک کر لیا۔ اسی طرح سلطان ابراہیم بن ادھم نے مسافر کا سامان اپنے کندھے پر اٹھا لیا اور تین دن تک سفر کرتے رہے۔
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میری امت میں قیامت تک چالیس اولیاء ایسے ہوں گے جن کا دل حضرت ابراہیم کے دل کے حال پر ہوگا۔
شیخ الاسلام نے کہا کہ میں نے اپنی زندگی میں جو مطالعہ کیا لیکن یہ دعویٰ نہیں کرتا کہ تصوف کی 13 سو سالہ تاریخ میں سے ہر کتاب میری نظر سے گزری لیکن جتنا لٹریچر تصوف پر میسر ہے تو وہ میں نے مطالعہ کیا ہے۔ میں نے تصوف کی 13 سو سال کی تاریخ میں کسی کتاب میں بھی ایک ولی اللہ اور صوفی کا قول نہیں دیکھا، جس نے ولایت کو ورد اور وظیفہ کے ساتھ ملایا ہے کہ جو اتنے وظائف کرے وہ ولی ہے جو کثرت سے ورد کرے تو وہ ولی ہے۔
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ دلوں کی سلامتی اور نفسوں کی سخاوت نے لوگوں کو ولی بنا دیا۔
جن کے دل شہوات و نفسانیت سے پاک ہو گئے، انا اور میں سے پاک ہو گئے تو وہ لوگ ولی ہو گئے۔ اس کے ساتھ جن کے دل سلامت ہو گئے وہ بھی ولی بن گئے۔ آپ نے کہا کہ تصوف میں سخی کی تعریف یہ نہیں ہے کہ جو زیادہ دے بلکہ سخی وہ ہے جو زیادتی پر کسی کو معاف کر دے۔
آپ نے کہا کہ سورۃ الانعام کی آیت نمبر 22 میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ انسان کا دل مردہ تھا تو ہم نے کرم کیا اور اس کو زندہ کر دیا۔ دل کو زندہ کر کے اس میں نور رکھ دیا۔ اور کئی لوگوں کے دل نور کے چشمے بن گئے۔ پھر کئی لوگ ایسے بھی ہوئے جن کو اتنا نور دیا کہ وہ خود نور سے روشن تو ہیں ہی، اس کے ساتھ زمین پر نور بانٹے پھرتے ہیں۔ پھر جو لوگ اس شخص کی مجلس میں بیٹھیں تو انہیں بھی نور ملتا ہے۔ جو اس کی صحبت میں آئیں تو انہیں بھی نور ملتا ہے۔
اس کے مقابلے میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جن کے دل مردہ ہیں۔ قرآن میں ہے کہ کیا نور بانٹنے والے ان جیسے ہو سکتے ہیں جو خود اندھیروں میں ہیں؟
جس دل میں نور اور ظلمت کی کیفیت ملی جلی ہو تو وہ قلب مرض یعنی بیمار دل ہے
شیخ الاسلام نے تصوف کی تعریف بتاتے ہوئے کہا کہ دل کی سخاوت کا نام تصوف ہے۔
امام عبدالرحمن سلمی بیان کرتے ہیں، اس طرح شیخ شہاب الدین سہروردی اور جس کتاب کو بھی لیں تو یہ تعریف ملے گی۔ انہوں نے کہا کہ ہر برے اخلاق سے نکل جانا اور اچھے اخلاق اپنانا تصوف ہے۔ جھوٹ نہ بولنا، پڑوسی کو اس کا حق دینا۔ مولا کا ادب کرنا، لوگوں کے ساتھ حسن سلوک کرنا اور اس طرح کے دیگر معاملات تصوف ہے۔ بدقسمتی سے آج ہم نے پیری مریدی کو تصوف کا نام دے دیا اور ایسے اعمال کو اپنی زندگی سے نکال دیا ہے۔ آپ نے کہا کہ تصوف اللہ کے حضور جھک جانے کا نام ہے۔ اللہ کے قرب، معرفت اور کیفیت میں جو حال دل پر وارد ہو وہ تصوف ہے۔ جس کا دل مخلوق سے نکل جائے۔ آپ محفل میں آئے اور لوگ کھڑے ہو گئے تو دل کو خوشی نہ ہو۔ آپ آئے اور لوگ کھڑے نہ ہوئے تو دل کو غم نہ آئے، یہ تصوف ہے۔ مخلوق سے دل کٹ کر مولا سے لگ جانے کا نام تصوف ہے۔
حضرت ذوالنون مصری کا جس رات وصال ہوا تو چالیس اولیاء کو آقا علیہ السلام کی زیارت ہوئی۔ ہر ایک نے پوچھا یارسول اللہ آپ آج بغداد میں کیسے آئے ہیں تو آقا علیہ السلام نے فرمایا کہ آج اللہ کے بندے ذوالنون مصری کا انتقال ہو گیا ہے تو میں اس کے استقبال کے لیے آیا ہوں۔
حضرت ابوعبدالرحمن سلمی نےکہا کہ حضرت ذوالنون مصری کہتے ہیں کہ بندے کو ہر حال میں اللہ کی صحبت میسر ہو تو یہ تصوف ہے۔
امام قشیری نے فرمایا کہ تصوف کا مدار چار چیزوں پر ہے۔
رب جلیل کی محبت۔ دنیا سے بغض، نفرت اور قرآن کی اتباع۔
اس چیز سے ڈرنا کہ جو حال نصیب ہوا ہے یہ بدل نہ جائے۔ فرمایہ یہ چار چیزیں جمع ہو جائیں تو یہ حقیقی تصوف ہے۔
اے بندے۔ دنیا کی محبت اس قابل نہیں کہ اس کو تکا بھی جائے۔ مال و دولت ایسی دولتیں ہیں جس سے انسان کو خسارہ ہی خسارہ ہوگا۔ جب قیامت کے دن بندے کے سامنے اللہ کی محبت کا زیور آ جائے گا تو پھر تمہاری آنکھیں ترسیں گی۔ پھر ہنسنے کی بجائے رونے میں مزا آئے گا۔ پھر سونے سے بڑھ کر جاگنے میں مزا آئے گا۔ پھر بولنے سے زیادہ چپ رہنے میں مزا آئے گا۔ پھر رب اپنا پردوہ اٹھا کر اپنا جلوہ دکھائے گا۔ پھر ایسی خوشی ملے گی کہ انسان رب کے سامنے سب لالچ بھول جائے گا۔ جس شخص سے اللہ راضی ہو گیا تو اس کو اور کیا چاہیے۔
اللہ نے فرمایا کہ وہ لوگ مجھے تکتے رہتے ہیں اور میں انہیں تکتا رہتا ہوں۔ اللہ سے پوچھا گیا کہ باری تعالیٰ تیرے ایسے بندوں کی علامت کیا ہے۔ فرمایا کہ ان کی علامت یہ ہے کہ وہ غروب کے وقت میری منت سماجت کرنے لگ جاتے ہیں۔ مولا تو بڑا کریم ہے، تو بڑا سخی ہے، تو بڑا رحیم ہے، وہ لوگ میرے کلام سے میری مناجات کرتے ہیں۔ کبھی وہ رکوع میں ہوتے ہیں کبھی وہ سجدے کرتے ہیں اور ان کی حالت تبدیل ہوتی رہتی ہے۔ اللہ نے فرمایا کہ میں اپنے ان بندوں کو تکتا رہتا ہوں۔ فرمایا مولا تو ان لوگوں کو اس کے بدلے میں کیا دیتا ہے؟ اللہ نے فرمایا کہ میں ان لوگوں کو اپنا نور دیتا ہوں اور ان کو اپنی معرفت دیتا ہوں۔ اگر زمین و آسمان کی دولت جمع کر لی جائے تو اس کے مقابلے میں میری معرفت زیادہ بڑی چیز ہے۔ پھر میں ان کی طرف اپنا چہرہ کر لیتا ہوں۔ میں ان کی طرف متوجہ ہوجاتا ہوں پھر میں ان کو دیکھتا رہتا ہوں اور وہ مجھے دیکھتے رہتے ہیں۔
حضرت داؤد علیہ السلام نے بارگاہ خداوندی میں عرض کیا کہ مولا کوئی ایسا محبت والا مجھے دکھا دے جن سے تیری ایسی محبت ہے۔ اللہ نے فرمایا کہ اے داؤد اگر میری محبت والوں کو دیکھنا ہے تو لبنان کے پہاڑ میں ملیں گے۔ وہاں 14 آدمی ملیں گے ان میں ادھیڑ عمر والے بھی ہیں۔ جوان بھی ہیں، فرمایا کہ جب تو ان کے پاس جائے تو ان کو میرا سلام پیش کرنا اور کہنا کہ رب نے سلام بھیجا ہے۔ ان سے جا کر پوچھنا کہ تمہیں کسی چیز کی حاجت اور ضرورت ہے۔ حضرت داؤد علیہ السلام وہاں گئے تو ان کی حاجت دریافت کی۔ حضرت داؤد علیہ السلام فرماتے ہیں کہ میں نے ان سے بات کی تو ان کی آنکھیں برسات کی طرح جھڑنے لگ گئیں۔ میں نے پوچھا کہ کیا چاہتے ہیں تو انہوں نے کہا کہ جاؤ جا کر اللہ کو ہمارا پیغام دے دو کہ اللہ ہمیں معاف کر دے۔
حضرت داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ نے کشف المحجوب میں بیان کیا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر کو پیغام دے کر بھیجا کہ فلاں پہاڑ پر میرا بندہ رہتا ہے اس کو کہنا کہ اللہ نے تمہاری 70 سال کی عبادت رد کر دی ہے۔ یہ سن کر اس بندے نے خوشی سے ناچنا اور وجد کرنا شروع کر دیا۔ پیغمبر نے پوچھا کہ تمہاری تو 70 برس کی عبادت گئی تم اس پر وجد کر رہے ہو؟ اس شخص نے کہا کہ میں خوشی سے ناچتا اس لیے ہوں کہ 70 برس کی عبادت کی فکر نہیں میں تو بندہ ہوں اور عبادت کرنا میرا کام ہے لیکن خوشی اور وجد اس بات پر ہے کہ مولا نے پیغام تو بھیجا ہے، مجھے یاد تو کیا ہے۔ نیکوں میں نہ سہی، مردودوں میں سہی، مولا کی فہرست میں تو آ گیا ہوں۔ شیخ الاسلام نے کہا کہ ایسی خالص عزت تصوف ہے۔
شیخ الاسلام کا خطاب اڑھائی بجے ختم ہوا۔
تبصرہ