تحریک کی ممبرشپ کی افادیت

(سمیرا رفاقت ایڈووکیٹ مرکزی ناظمہ ویمن لیگ)

ممبرشپ کیا ہے اور کیوں ضروری ہے؟

کوئی بھی جماعت، پارٹی، ٹیم یا تحریک ہمیشہ افراد سے وجود پاتی ہے۔ افرادی قوت اور افرادی استعداد کے بغیر کسی تنظیم یا گروپ یا سوسائٹی کا تصور بھی ناممکن ہے۔ فیملی ہی کی مثال لے لیں۔ ایک فیملی افراد ہی سے بنتی ہے۔ ایک سے زیادہ فیملیز مل کر کنبہ یا خاندان بن جاتی ہیں اور زیادہ خاندانوں سے برادری یا برادریاں وجود میں آتی ہیں۔

مزید یہ کہ فیملی، کنبہ، خاندان یا برادری صرف افراد کی تعداد ہی کا نام تو نہیں۔ پھر وہ کیا چیز ہے جس سے فیملی ایک فیملی کہلا تی ہے اور جماعت ایک جماعت کہلاتی ہے یا کوئی ٹیم ایک ٹیم کہلاتی ہے؟ اگر دو یا دو سے زیادہ لوگ مل کر ایک مقصد حاصل کرنے کے لئے اپنے ذہنی توانائیاں، اپنی جسمانی صلاحیتیں، اپنے مادی وسائل، روپیہ، پیسہ ایک جگہ جمع کر کے مشاورت سے اور مشترکہ طور پر کام کرنا شروع کر دیں توان کے درمیان آپس میں کچھ تعلقات وجود میں آتے ہیں۔ ان تعلقات کے کچھ نام ہیں مثلاً تعاون، مدد، وفاداری، ہمدردی، دوستی، بھائی چارہ، اخوت، برابری، مساوات، قربانی، ایثار، توقیر، تکریم، عفو و درگذر، محبت، یگانگت وغیرہ۔ سارے لوگ پیسہ لگا کر محنت کر کے ایک مقصد کے لئے سر جوڑ کر کام کر رہے ہوتے ہیں اور ان کے درمیان یہ تعلقات خود بخود وجود میں آ جاتے ہیں، وہ ایک دوسرے کے دوست بن جاتے ہیں۔ وہ ایک دوسرے سے نفرت نہیں کر سکتے، ان میں آپس کا انتقام نہیں ہوتا۔ وہ ایک دوسرے کی تکلیف کو محسوس کرتے ہیں۔ یہی وہ تعلقات ہیں جن سے فیملی فیملی بنتی ہے۔ خاندان خاندان بنتا ہے۔ برادری برادری بنتی ہے اور بڑے پیمانے پر سوسائٹی سوسائٹی بنتی ہے۔

اب یہ سوچیں کہ اگر ایک ٹیم یا جماعت کا کوئی ایک فرد ان باہمی تعلقات کو تسلیم نہیں کرتا تو کیا ٹیم یا جماعت اس کو ساتھ لے کر چلے گی۔ سب اس کی اصلاح کی کوشش ضرور کریں گے مگر ناکامی کی صورت میں اسے ٹیم سے نکالنا پڑتا ہے۔ اب وہ شخص اس ٹیم کا ممبر نہیں رہتا۔ اب اسے وہ سہولتیں میسر نہیں رہتیں جو ٹیم ممبر ہوتے ہوئے تھیں اور اب وہ ان تعلقات سے مستفید نہیں ہو سکتا جن سے وہ پہلے فیضیاب ہو رہا تھا۔

آپ نے دیکھا کہ ایک فیملی یا خاندان یا برادری، یا سوسائٹی یا جماعت، یا پارٹی، یا تحریک کی ممبرشپ کا مفہوم کیا ہے۔ یہ کیوں ضروری ہے اور اس کے کیا فائدے ہیں۔ ہم سب اپنی اپنی فیملیز کے ممبرز ہیں۔ جس کا مطلب ہے ہم سب کی ہمدردیاں، وفاداریاں، مفادات، دوستیاں، محبتیں اپنی اپنی فیملیز کے ساتھ ہیں۔ ہم جو کچھ کماتے ہیں اپنی فیملیز کو دے دیتے ہیں اور اپنے اخراجات اپنی فیملیز سے حاصل کرتے ہیں یعنی ہمارا وجود صرف ہماری فیملیز سے قائم ہے۔

اب ہم ایک قدم آگے بڑھتے ہیں اور اب بات کرتے ہیں اس جماعت کی جس سے ہماری دنیا ہی نہیں ہمارا ایمان وابستہ ہے، جس پر ہماری قبر کا معاملہ طے ہونا ہے، جس پر ہماری آخرت کا دار و مدار ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ اس معاملے میں ہمیں قرآن پاک سے کیا ہدایت ملتی ہے۔ ارشاد ہے :

قُلْ إِن كَانَ آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَآؤُكُمْ وَإِخْوَانُكُمْ وَأَزْوَاجُكُمْ وَعَشِيرَتُكُمْ وَأَمْوَالٌ اقْتَرَفْتُمُوهَا وَتِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَمَسَاكِنُ تَرْضَوْنَهَا أَحَبَّ إِلَيْكُم مِّنَ اللّهِ وَرَسُولِهِ وَجِهَادٍ فِي سَبِيلِهِ فَتَرَبَّصُواْ حَتَّى يَأْتِيَ اللّهُ بِأَمْرِهِ وَاللّهُ لاَ يَهْدِي الْقَوْمَ الْفَاسِقِينَO

(التوبه، 9 : 24)

(اے نبی مکرم!) آپ فرما دیں: اگر تمہارے باپ (دادا) اور تمہارے بیٹے (بیٹیاں) اور تمہارے بھائی (بہنیں) اور تمہاری بیویاں اور تمہارے (دیگر) رشتہ دار اور تمہارے اموال جو تم نے (محنت سے) کمائے اور تجارت و کاروبار جس کے نقصان سے تم ڈرتے رہتے ہو اور وہ مکانات جنہیں تم پسند کرتے ہو، تمہارے نزدیک اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اس کی راہ میں جہاد سے زیادہ محبوب ہیں تو پھر انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا حکمِ (عذاب) لے آئے، اور اللہ نافرمان لوگوں کو ہدایت نہیں فرماتاo (ترجمہ عرفان القرآن)

آپ نے دیکھا قرآن پاک نے وہ سارے رشتے گنوا دئے ہیں جن کا میں آپ کے سامنے ذکر کر رہی تھی۔ جن سے فیملی وجود میں آتی ہے۔ جن سے خاندان اور برادریاں وجود میں آتی ہیں لیکن بات تعلقات پر آئی تو محبت کا سب سے گہرا تعلق جب تک اللہ پاک سے، اس کے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اور ان کے مشن سے نہ ہو اس وقت تک ہم عذاب کی وعید سے آزاد نہیں ہوتے بلکہ ہم نافرمان ہی تصور ہوتے ہیں۔

ہمیں جس سوال پر غور و خوض کرنا ہے وہ سوال ہے ممبرشپ یا رکنیت یا رفاقت یا وابستگی کیوں؟

ہم ایک جماعت ہیں، ایک تحریک ہیں، ایک مشن ہیں، اللہ اور اللہ کے محبوب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر قربان ہونے والا ایک خاندان ہیں۔ بھلا ممبر شپ کے بغیر ہمیں اس مشن کی شناخت مل سکتی ہے؟ کیا ہمیں ممبرشپ کے بغیر وہ سارے فیوض و برکات مل سکتے ہیں جو صرف اور صرف ممبرز ہی کے لئے ہیں۔ کیا رکنیت کے بغیر ہم آج دنیا میں، کل قبر میں اور پرسوں حشر میں شفاعت مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پھریرے تلے کوئی جگہ مل جانے کا تصور کر سکتے ہیں؟ ہرگز نہیں۔ اور شیخ الاسلام مدظلہ کے ارشاد کے مطابق جو مشن کا سچا کارکن بن جائے اس کے لئے حضور غوث پاک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف سے نوید ہے کہ وہ آپ کا مرید ہے۔

ممبر شپ یا رکنیت کسی جماعت یا تحریک کے ساتھ وابستہ ہونے کا پہلا پروانہ ہوتا ہے۔ خود سوچیں کہ جب کوئی غیر مسلم دائرہ ایمان میں داخل ہوتا ہے تو کیا مسلمانوں میں شامل ہونے کے لئے، یا اللہ کی بندگی اور رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی غلامی میں آنے کے لئے ممبر شپ یا رکنیت کا کلمہ نہیں پڑھنا ہوتا۔ جب تک وہ کلمہ نہیں پڑھ لیتا اسلام میں شمار نہیں ہوتا۔ بس جو اہمیت کلمہ کی دائرہ اسلام میں داخل ہونے کے لئے ہے وہی اہمیت ممبرشپ یا رفاقت یا رکنیت کی مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مشن منہاج القرآن میں شامل ہونے کے لئے ہے۔ جب کوئی ممبر بن گیا، مشن کا کارکن بن گیا۔ اب وہ منہاج کو belong کرتا ہے۔ اور اسے وہ سب فوائد حاصل ہیں جو کسی خاندان کے ایک رکن کو حاصل ہوتے ہیں۔ اگر کوئی ممبر نہیں تو ہم اسے اپنے میں کس طرح شمار کر سکتے ہیں۔

Sense of Belonging کے علاوہ ایک Sense of Commitment بھی ہوتی ہے۔ جب تک کوئی رکنیت اختیار نہیں کر لیتا اس وقت تک نہ تو اس میں مشن کے ساتھ Belong کرنے کا احساس پیدا ہو سکتا ہے اور نہ ہی مشن کے لئے کام کرنے کی ذمہ داری کا احساس اس کے اندر پیدا ہو سکتا ہے۔ مشن کے لئے کام کرنے کی ذمہ داری کا احساس ہی دراصل وہ احساس ہے جسے میں Sense of Commitment کہہ رہی ہوں۔ احساس کی یہ دولت ممبرشپ حاصل کئے بغیر کبھی حاصل نہیں ہو سکتی۔ اور جب تک یہ احساس کی دولت نصیب نہ ہو جائے اللہ کی بندگی اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی غلامی کا پٹہ ہمارے گلے میں کیسے آویزاں ہو سکتا ہے۔ جس طرح ایمان دل کی ایک نورانی حالت کی شکل میں ہمارے وجود کو منور کئے رکھتا ہے اسی طرح مصطفوی مشن کی ممبر شپ بھی احساس کی ایک چاندنی ہے جو محبت کے نور کی پھوار بن کر ہر لمحہ ہماری روح کو نمناک رکھتی ہے۔ یہی چاندنی کبھی محفلیں سجاتی ہے، کبھی آقا کی جگنی گاتی ہے اور کبھی راتوں کو مصلّے پر اشکبار ہو جاتی ہے۔ یہی ہمیں دن بھر کام میں لگائے رکھتی ہے، راتوں کو جگائے رکھتی ہے اور ہمیں وہ توانائیاں عطا کرتی ہے کہ ہم کام کرتے کبھی نہیں تھکتے۔

اب ہمیں ایک قدم اور آگے بڑھنا ہے۔ دیکھیں مشن ایک جدوجہد کا نام ہے ایک ایسی خدمت کا نام ہے جس کے لئے کارکن اپنا تن من دھن سب کچھ وقف کر دیتا ہے۔ دعوت، تربیت، تنظیم کا کام ہے اور یہ تینوں کام انتھک محنت مانگتے ہیں۔ محنت کے بغیر ہمیں نتائج نہیں مل سکتے۔ ان تینوں کاموں کی منزل ایک ایسا مرحلہ ہے جسے تحریکی مرحلہ کہتے ہیں، اس مرحلے میں مشن کا ہر سپاہی عوامی رابطے کی ذمہ داری نبھانے میدان میں آ جاتا ہے۔ عوام میں تحرک پیدا کرنا ہوتا ہے تاکہ اقامت دین کی منزل پانے کے لئے انقلاب برپا کیا جا سکے۔

کیا آپ سوچ سکتے ہیں کہ مذکورہ بالا کام قوت ارادی کے بغیر سرانجام پا سکتے ہیں؟ ہر گز نہیں۔ یہ کام ایک ہمہ گیر اور غالب افرادی قوت کے بغیر ممکن نہیں۔ اس کی وضاحت ایک مثال سے کی جاسکتی ہے۔

جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مکہ سے مدینہ ہجرت کا فیصلہ کر لیا تو اس وقت مکہ میں مسلمانوں کی تعداد کوئی چار سو کے قریب تھی اور مکہ کا ماحول ان کے لئے سازگار نہ تھا جس کی وجہ سے ہجرت حبشہ کا فیصلہ کیا گیا۔ پھر بیعت عقبہ اول کا وقت آتا ہے جس میں مسلمان ہونے والوں کی تعداد چھ ہے یعنی عکاظ کے میلے میں چھ افراد مسلمان ہو کر مدینہ گئے اور اگلے برس وہ اپنے ساتھ صرف چھ زائد افراد لا سکے جنہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دست اقدس پر بیعت کی چنانچہ اس مرتبہ حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کو نقیب بنا کر آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مدینہ روانہ فرمایا اور اگلے سال بیعت عقبہ ثانی میں 72 نفوس نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دست انور پر بیعت کا شرف حاصل کیا۔ یہ افرادی قوت حوصلہ افزاء تھی جس کی بنا پر سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسلمانوں کو مدینہ ہجرت کی اجازت عطا فرمائی۔ پھر آگے حق و باطل کے معرکے تھے جو افرادی قوت کے بغیر ممکن نہ تھے، معرکۂ بدر اور معرکۂ احد پھر بعد کے غزوات اور پھر دنیا بھر میں چاروں طرف غلبۂ اسلام کے جھنڈے گاڑنے کا کام۔ یہ سب افرادی قوت کے بغیر تو نہیں ہو سکتا تھا۔ تو اس بات پر تاریخ شاہد ہے کہ مصطفوی مشن کے فروغ اور کامیابی کے لئے ہمیں جس افرادی قوت کی ضرورت ہے اس کے لئے ممبرشپ اور رکنیت سازی کی بھر پور جدوجہد ہمارا فرض اولین ہے۔

ممبر شپ کے ٹُولز

کارکن کا اعلیٰ کردار :

ممبرز اور وابستگان میں اضافے کے حصول کے لئے کارکن جن ٹولز کا استعمال کر سکتا ہے ان میں سرفہرست اس کی ذات ہے۔ جو کارکن خود کو تحریک کے سانچے میں ڈھال لیتا ہے اور اپنے اعلیٰ کردار اور اخلاق حسنہ کی قوت کے ذریعہ سے رکنیت سازی کے فروغ کے لئے کام کرتا ہے وہ اپنے حلقۂ احباب اور حلقۂ اثر میں شاندار نتائج حاصل کر لیتا ہے۔ حسنِ نیت اور حسنِ عمل کی طاقتور مقناطیسیت انسانیت کو ایسی مقبولیت بخشتی ہے کہ لوگ ایسے شخص کے ساتھ مؤثر رابطے کو اپنے لئے اعزاز سمجھتے ہیں۔ اور ایسا ہر جگہ ہر معاشرے میں ہوتا ہے۔ اگر تحریک کا کارکن ایک بہترین انسان ہے تو اس کی زبان سے تحریک کا پیغام جادو کی حیثیت رکھتا ہے۔

قائد کی شخصیت :

اگر ایسا ہی کارکن تحریک کے پیغام کو کاملاً سمجھتا ہواور اغراض و مقاصد اور سرگرمیوں سے پوری طرح آگاہ ہو اور قائد تحریک کی شخصیت، ان کی سر گرمیوں اور کارناموں سے متعلق احباب کو مؤثر طور پر معلومات فراہم کر سکتا ہو تو وہ جن سے بھی گفتگو کرے گا لوگ اس کی دعوت پر لبیک کہنے کو تیار ہو جائیں گے۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں مگر یہ کہ ان کی تصنیفات کی تعداد ایک ہزار ہے جن میں سے 360 چھپ کر لوگوں کے ہاتھوں میں جا چکی ہیں، ان کے پانچ ہزار سے زائد خطابات CDs اور کیسٹس کی صورت میں دستیاب ہیں، وہ سفیر امن ہیں اور دنیا بھر میں ان کی یہی پہچان ہے اور اس ضمن میں ایک دنیا ان کی مداح ہے۔ عالم عرب اور مغربی دنیا کے اعلیٰ ترین علمی حلقوں میں ان کا نام ادب سے لیا جاتا ہے اور ویلفیئر اور تعلیم کے میدانوں میں تحریک منہاج القرآن ان کی سرپرستی میں کارہائے نمایاں سر انجام دے رہی ہے اور اس کے علاوہ دیگر معلومات تو بتانے سے ہی لوگوں کو پتہ چل سکتا ہے۔ آج جبکہ اندرون اور بیرون ملک قیادت کا بحران ہے مؤثر قیادت کی بات سننے والوں کیلئے امید کی کرن کی حیثیت رکھتی ہے۔ ملک و قوم اور امت مسلمہ کے لئے بالخصوص اور عالم انسانیت کے لئے بالعموم آپ کی خدمات کا بھرپور تعارف سننے والوں کے دلوں کو اپنی طرف ضرور کھینچے گا۔

تحریک کے امتیازات :

رکنیت سازی کے اہداف کے حصول کیلئے یہ تیسرا اہم ٹول ہے۔ 91 ممالک میں تحریک کا دعوتی نیٹ ورک، 67 ممالک میں تنظیمی اور اور انتظامی نیٹ ورک اور 30 ممالک میں 45 سنٹرز، پاکستان بھر میں 572 سکولز اور کالجز کا قیام، پانچ لاکھ سے زیادہ تحریک کے رفقاء و اراکین اور وابستگان کی تعداد اور ویلفیئر کی مختلف مدات میں کروڑوں روپے کی امداد کی تقسیم جیسے امتیازات کے علاوہ تحریک منہاج القرآن نے عشق رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فروغ کے لئے دنیا کے طول و عرض میں جو کلچر تخلیق کیا ہے وہ ہمارا نمایاں امتیازی نشان اور سرمایۂ فخر ہے۔ یہی تو ہمارے ایمان کی بنیاد ہے جس کے خلاف گھناؤنی سازش کے تحت عقائد کو مسخ کر دیا گا۔ چنانچہ تحریک منہاج القرآن نے تحفظ ناموس رسالت، فروغ عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، فروغ نعت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، فروغ درود و سلام، فروغ تعظیم و ادب رسول کا بیڑا اٹھایا اور دیکھتے ہی دیکھتے ایک کلچر وجود میں آ گیا جو ہماری پہچان ہے۔ لیکن صرف یہی نہیں شیخ الاسلام نے امت کو بد عقیدگی سے نجات دلانے کے لئے بہت وسیع پیمانے پر تحقیقی کام کیا اور جہالت اور تعصب کی بنا پر جن عقائد کو مسخ کر دیا گیا تھا ان کی اصلاح کے لئے نصوص قرآنی اور صحیح احادیث کی بنیاد پر تار یخی کام کیا اور حیات النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، علم غیب، توسل، استغاثہ، میلاد النبی کی شرعی حیثیت، تصور بدعت اور توحید و شرک کے صحیح اطلاقات اور عقیدہ ختم نبوت جیسے معا ملات پر مستند کتابیں تصنیف کیں اور لیکچرز دیئے جن سے عا متہ الناس کو حقیقت حال سے آگاہی ہوئی اور عقائد کی اصلاح کا عمل ترویج پا گیا۔ اس کے ساتھ ہی تحریک منہاج القرآن نے فرقہ واریت کے خاتمے کو اولین ترجیح دیتے ہوئے اس پر کامل سنجیدگی سے کام کیا جس کے نتیجے کے طور پر اعتدال پسندی، برداشت، رواداری اور برد باری جیسے رویے وجود میں آئے اور امت نے سکھ کا سانس لیا۔ چنانچہ فرقہ واریت کا خاتمہ تحریک منہاج القرآن کی پہچان بن گیا اور قائد تحریک نے تو اعتدال پسندی اور رواداری کے اس کلچر کو مزید وسعت بخشی اور اسے بین المذاہب ہم آہنگی کی بنیاد بناتے ہوئے inter-faith harmony & dialogue کو فروغ دینے کے لئے عالمی سطح پر جد و جہد شروع کی جس کی دنیا بھر میں پذیرائی ہو رہی ہے اور اسلام کے صحیح تشخص کے پرچار میں بڑی مدد ملی ہے۔ اس وقت منہاج القرآن کی کاوشوں سے وجود پانے والا Muslim Christian Dialogue Forum پوری دینا میں سرگرم عمل ہے اور یہ بھی ہمارا ایک نمایاں امتیازی نشان بن گیا ہے۔

تحریک کے کارکن جب تک ان tools کو استعمال کرتے ہوئے ممبر شپ کے لئے کام نہیں کریں گے نتیجہ خیزی کو یقینی نہیں بنایا جا سکے گا۔ یہی وہ بنیادی باتیں ہیں جن کی طرف شیخ الاسلام مدظلہ نے اعتکاف 2008 کی بریفنگ میں ہماری توجہ مبذول کرائی تھی اور جن پر عمل درآمد سے آپ نے کامیابی کے یقینی حصول کی نوید عطا فرمائی تھی۔ انہیں کی مدد سے ہم ایسے وابستگان کی ایک فورس ترتیب دے سکتے ہیں جو مشن کے مقاصد کے حصول کے لئے جان کی بازی لگانے کا جذبہ رکھتے ہوں۔ اس تیاری کے ساتھ کارکنوں کو قریہ قریہ گاؤں گاؤں پھیل کر gross root level پر کام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ افرادی قوت کا وہ سمندر امڈ آئے جو معاشرے میں صحت مند تبدیلی کی بنیاد بن سکے۔

ممبرشپ کے فوائد

گننے بیٹھیں تو شمار کرنا ممکن نہیں اتنے فوائدہیں الحمد للہ۔ لیکن concept ضرور clear ہونا چاہئے۔

A. دورِ فتن میں ایمان اور عقیدے کی سلامتی۔

اس دور میں ہم سب آگاہ ہیں کہ مسلمانوں کے ساتھ سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ہم اسلام کے بنیادی عقائد کے حوالے سے confuse ہیں۔ ہر کوئی ہر کسی کو بدعتی، مشرک، اور کافر قرار دیتا پھر رہا ہے۔ ذرا سوچیں کہ سوات میں کیا ہو رہا ہے اور نفاذ شریعت کا مطالبہ کیا مطالبہ ہے اور اس مطالبے کو منوانے کے لئے اختیار کیا جانے والا طریقہ کیا ہے۔ جہاں یہ نہیں وہاں فرقہ واریت کا عفریت امت کی وحدت کو نگل رہا ہے۔ منہاج القرآن کے پلیٹ فارم پر آ جانا اس دور کی سب سے بڑی خوش بختی ہے کہ آپ سواد اعظم میں شامل ہو رہے ہیں اور اسلام کے حقیقی عقائد، سائنسی تفکر اور پامال شدہ اخلاقی اور روحانی اقدارکے احیاء اور اصلاح احوال امت کے مقاصد جلیلہ کے حصول کی جدوجہد میں اپنے حصے کا کام کرنے جا رہے ہیں۔ اس طرح آپ نہ صرف گمراہی سے خود اپنے آپ کو محفوظ کر سکتے ہیں بلکہ دوسروں کو بھی گمراہی سے محفوظ کر کے اپنی نجات کا سامان کر رہے ہیں۔ اس طرح دور پر فتن میں آپ کو ایمان اور عقیدے کی سلامتی میسر آ رہی ہے جس پر ہم جتنا بھی شکر ادا کریں کم ہے۔

B. مجدد وقت کا توسّل۔

ہر دور کا ایک مجدد خدا کی رحمت کا نشان بن کر امت مسلمہ کی اصلاح اور نجات کا سامان کرتا ہے۔ دنیا بھر میں اسلام کو معتوب و مطعون کیا جا رہا ہے۔ ایک گھناؤنی سازش کے تحت اسلام کو دہشت گردی کے طوفان میں پھنسا کر امت مسلمہ کو زیر نگیں رکھ کر ان کو ہمیشہ کے لئے ان کی روحانی اخلاقی اور تہذیبی برتری کی دولت سے کاملاً محروم کرنے کا کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ اس صورت حال میں اسلام کے حقیقی تشخص کو زندہ رکھنا، اسے دہشت گردی کے الزام سے بری کرانا اور دنیا بھر میں مسلمانوں کے خلاف اٹھائے جانے والے مظالم کے خلاف ایسی حکمت عملی سے ان کے حقوق کی حفاظت کرنا جس سے ان کے مفادات پر کوئی زد نہ پڑے یہ اور ایسی صورتحال سے جنم لینے والے دیگر مسائل سے عہدہ برآ ہونے کی حکمت عملی وضع کرنا اور اس پر عمل درآمد کرنا اور کرانا وہ بڑے بڑے پہاڑ ہیں جنہیں سر کرنے کی ذمہ داری قدرت نے اس دور کے مجدد حضور شیخ الاسلام کے کاندھوں پر رکھی ہے۔ وہ کون سا ملک ہے جہاں جا کر آپ اسلام کے صحیح تشحص کو اجاگر نہیں کر رہے اور اقوام عالم کو اسلام کی حقیقی روح امن، سلامتی، محبت، بھائی چارہ، انسانی حقوق اور تکریم انسانیت کا درس نہیں دے رہے اور ممبر شپ سے ہم ہوئے ان کے نوکر، غلام، مشن کے سپاہی اور سرکار مدینہ کے پیارے مشن کے شیدائی۔ ہمیں یقیناً اپنی قسمت پر ناز ہے کہ ہمیں اس دور کے مجدد کی معیت، قربت اور خدمت کا مقام حاصل ہے جس کی وجہ سے ہمارا مستقبل روشن ہے اور جس کی وجہ سے ہمیں سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی چوکھٹ بھی نصیب ہے۔ بھلا اس سے بڑا اور کیا فائدہ ہو سکتا ہے!

C. حضور غوث پاک کی مریدی۔

حضور غوث پاک سے نسبت کی نوید کیا کوئی کم نوید ہے۔ آج ہم مشن کے ممبر ہیں اور پوری سچائی اور دیانتداری سے مشن کی ذ مہ داریاں نبھا رہے ہیں اور شیخ الاسلام مدظلہ کے توسّل سے حضور غوث پاک کی چوکھٹ سے فیض پا رہے ہیں۔ اللہ کی سچی اور کھری بندگی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی غلامی، قرآن پاک سے محبت اور اللہ والوں کے ساتھ رابطے، آخرت کے خزانے۔ کیا کیا فائدے ہم شمار کر سکتے ہیں مصطفےٰ کے مشن کے۔ فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِo

D. متاعِ آخرت۔

دنیا تو مل ہی جاتی ہے۔ دنیا کو ترجیح بنا کر اس کے لئے جینا کیا جینا ہے۔ یہ تو دھوکے کا جینا ہے۔ اللہ پاک نے بھی قرآن پاک میں انسان سے پوچھا ہے کہ اے انسان آخر تجھے کس چیز نے اپنے رب کے بارے میں دھوکے میں ڈال رکھا ہے؟ اس دنیا نے جس کی کچھ حیثیت ہی نہیں ہے۔ اپنے دل کو دنیا کے لالچ، حرص و ہوس اور غرض مندیوں سے پاک کر لو۔ دل میں اس کی یاد بسا کر تو دیکھو پھر نظارہ کرو ان تجلیات کا جن کا نور دائمی ہے جو سورج اور چاند کے نور کی طرح صبح شام غروب ہونے والا نور نہیں۔ یہ وہ نور ہے کہ جب ایک مرتبہ دل کو روشن کر دے تو نگاہ سے پردے اٹھتے چلے جاتے ہیں اور اس کی آخری منزل حریم ذات کی تجلیات ہوتی ہیں۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے اس نور کے حصول کا وسیلہ کون ہے؟ اللہ کا شکر ہے کہ ہم منہاج القرآن کے ممبر ہیں۔ مصطفوی مشن کے خادم ہیں اور اور دل میں اجالا کرنے والے اسی نور کے طالب ہیں۔ یہ نور بانٹنے والا ہمارے درمیان موجود ہے اللہ انہیں ہمیشہ ہمارے درمیان رکھے۔ اب آپ خود ہی بتائیں میں ممبرشپ کے کون کون سے فائدے کی بات کروں۔ شائد اس سے آگے تو میں کچھ کہہ بھی نہ پاؤں گی سوائے اس کے کہ آپ میں سے جو جو باقائدہ مشن کے ممبر نہیں ہیں بغیر کوئی وقت ضائع کئے آج ہی ممبرشپ حاصل کریں اور مشن کے وہ سپاہی بنیں کہ قائد کو جن پر ناز ہو۔ ہم نے ایک کر کے کروڑ کا ہدف پورا کرنا ہے اور اللہ بیشک ہمارے ساتھ ہے۔

E. دلوں پر دستک :

تحریک منہاج القرآن تعلق باللہ، ربطِ رسالت اور رجوع الی القرآن کی تحریک ہے۔ اس کا پیغام دعوت دلوں پر اثر انداز ہوتا ہے۔ یہ پیغام ایمان کی اصل روح کا پیغام ہے جس سے مومن کو قلب سلیم کی دولت مل جاتی ہے وہ قلب جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا گھر ہوتا ہے اور جو قرآن کے نور سے روشن ہوتا ہے۔ اس دل میں دنیا کی حرص و ہوس کی کوئی جگہ نہیں ہوتی اس کا مزاج للہیت اور اس کا تشخص روحانی لذات سے وجود پاتا ہے۔ اور یہ وہ تحفہ ہے جو تحریک منہاج القرآن کی رکنیت ہی سے میسر آتا ہے۔

F. تحفظ ایمانی :

حب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایمان کی بنیاد ہے۔ تعظیم و ادب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بغیر ایمان کی تکمیل ناممکن ہے۔ تحریک منہاج القرآن کی رکنیت اور ممبرشپ سے ہم ایسی تربیت گاہ میں داخل ہو جاتے ہیں جو ہمیں ہمارے ایمان کی بقاء کی ضمانت مہیا کرتی ہے۔ عبادات کی اصل روح محبت الٰہی اور عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے اور تحریک میں داخل ہوتے ہی ہمیں یہ کیفیات میسر آنے لگتی ہیں۔ پھر اس کے بعد ہر کسی کی اپنی محنت ہے کہ وہ درجات کی کن بلندیوں کو چھونے لگتا ہے۔

ویمن لیگ تنظیمات کو کیا کرنا ہے؟

قائد تحریک نے افرادی قوت میں اضافے کی جو call دی ہے اس کی روشنی میں ورکنگ پلان 10-2009 ترتیب دیا گیا ہے۔ ماڈل سٹیز اور دیگر تحصیلی تنظیمات کو نہ صرف اہداف سے آگاہ کر دیا گیا ہے بلکہ ان اہداف کے حصول کے لئے کیا کیا سرگرمیاں انجام دینی ہیں اور ان کی انجام دہی کا لائحہ عمل یا طریق کار کیا ہو گا یہ بھی تنفیذی پلان کا حصہ بنایا گیا ہے۔ اس کے بعد صرف تنظیمات کو اپنا homework، تیاری، مینجمنٹ، input، اور صحیح سمت میں بر وقت صحیح قدم اٹھانے کی صلاحیت کا معاملہ باقی رہ جاتا ہے۔ یہاں یاد دہانی کے طور پر چند نکات پھر سے آپ کی نذر کئے گئے ہیں جسے ہم اپنے درمیان رابطے کا حوالہ بنا سکتے ہیں۔

1۔ حلقہ ہائے درود
2۔ حلقہ ہائے عرفان القرآن
3۔ دروس قرآن
4۔ عرفان القرآن کورسز
5۔ محافل نعت
6۔ سیدۂ کائنات رضی اللہ عنہا اور سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کانفرنسز کا اہتمام
7۔ اعتکاف کے علاوہ رمضان المبارک کے پروگرامز
8۔ محرم الحرام کے پروگرامز
9۔ شیخ الاسلام کی کتب کی رونمائی کی تقریبات
10۔ مؤثر خواتین کو تحریک کی طرف متوجہ کرنے اور وابستگی اختیار کرنے کے لئے پروگرام پر عمل درآمد
11۔ ہر پروگرام کے آغاز و اختتام پر موقع کی مناسبت سے تحریک کا تعارف اور تحریک میں شمولیت کی دعوت
12۔ ویمن لیگ کا بھرپور تعارف اور پروگرامز کی نئی شرکاء خواتین کے لئے motivation پر خصوصی توجہ
13۔ ویمن لیگ میں شمولیت اور رکنیت اختیار کرنے کی اہمیت، ممبر شپ کے فوائد اور خدمت دین کے لئے motivation
14۔ ٹیم ورک پر خصوصی توجہ اور کارکردگی رپورٹس کی مرکز کو باقاعدگی سے ترسیل
15۔ تنظیم کی کارکردگی کا جائزہ لینے کے لئے ماہانہ میٹنگ اور کارروائی رپورٹس کی تیاری

اللہ پاک ہم سب کے حامی و ناصر ہوں۔ پیارے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نعلین پاک کے تصدق سے مصطفوی جدوجہد کی راہ میں حائل مشکلات دور ہوتی جائیں۔ سب بہنوں کے حوصلے بلند رہیں اور ہم محنت اور استقامت کا ایسا مظاہرہ کر سکیں کہ شیخ الاسلام مدظلہ کے حضور سرخرو ہو جائیں آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔

تبصرہ

ویڈیو

Ijazat Chains of Authority
Top