یوم قائد اعظم اور موجودہ حالات میں ہماری ذمہ داری
تحریر : علامہ محمد حسین آزاد الازہری
پاکستان دو قومی نظریے کی بنیاد پر معرض وجود میں آیا۔ یہ خطہ ارضی ہم نے پاکستان کا مطلب کیا؟ لا الہ الا اللہ کا ایمان افروز نعرہ لگا کر بے شمار قربانیوں کے بعد حاصل کیا مگر افسوس جس عظیم مقصد کے لئے یہ خطہ ارضی حاصل کیا گیا اسے حکمرانوں نے فراموش کر دیا اور اقتدار کی رسہ کشی میں مصروف ہوگئے جس کی وجہ سے ہمیں تقسیم پاکستان جیسا کڑوا گھونٹ بھی بھرنا پڑا۔ اب بجائے اس کے کہ ہم پاکستان کو معاشی اور عسکری حوالے سے مضبوط بنا کر اپنے دشمن سے اپنا چھینا ہوا حق واپس لیتے حکمرانوں نے اپنے ہی وطن کی جڑوں کو کھوکھلا کرنا شروع کر دیا۔ اندرونی و بیرونی دشمنوں اور شدت پسندوں کی ظالمانہ اور سفاکانہ کاروائیوں کی وجہ سے ملک عزیز دہشت گردی اور خود کش حملوں کی لپیٹ میں آگیا۔ امریکی ڈرون حملوں، کمر توڑ مہنگائی، بجلی کی لوڈ شیڈنگ، بنیادی ضروریات زندگی کی عدم دستیابی، پہلے آٹے کا بحران اور اب چینی کا مصنوعی بحران پیدا کر کے عوام کو زندہ درگور کرنے کی سازش کی جا رہی ہے۔ پاکستانی عوام کو دہشت گردوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ ملک دشمن اور اسلام دشمن عناصر نے مل کر ملک عزیز کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔ پہلے مساجد و مدارس، مزارات اور اب تعلیمی درسگاہوں، فوج اور پولیس کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے بلکہ نوبت اب سرعام بازاروں میں معصوم شہریوں کی ہلاکت تک پہنچ چکی ہے جو انتہائی شرمناک، انسانیت کش عمل اور درندگی کی انتہا ہے۔
ان حالات میں روح قائد پکار پکار کر ہمیں جھنجھوڑ رہی ہے کہ ہم خواب غفلت سے کب بیدار ہوں گے؟ قیام پاکستان کے مقصد کو کب پایہ تکمیل تک پہنچائیں گے؟ قائد کے خواب کو کب شرمندہ تعبیر کریں گے؟ کیا اب بھی وہ وقت نہیں آیا؟
اٹھو وگرنہ حشر نہ ہوگا پھر کبھی
دوڑو زمانہ چال قیامت کی چل گیا
قائداعظم رحمۃ اللہ علیہ نے 1947ء کو کراچی میں پہلے گورنر جنرل کی حیثیت سے حلف اٹھایا تو اس موقع پر اپنے خطاب میں قیام پاکستان کے مقصد سے آگاہ کرتے ہوئے فرمایا :
’’پاکستان کا قیام جس کے لئے ہم گذشتہ دس سال سے مسلسل کوشش کر رہے تھے۔ اب خدا کے فضل سے حقیقت ثابتہ بن کر سامنے آچکا ہے لیکن ہمارے لئے اس آزاد مملکت کا قیام ہی مقصود نہ تھا بلکہ یہ ایک عظیم مقصد کے حصول کے ذریعہ تھا۔ ہمارا مقصد یہ تھا کہ ہمیں ایسی مملکت مل جائے جس میں ہم آزاد انسانوں کی طرح رہ سکیں اور جس میں ہم اپنی اسلامی روش اور ثقافت کے مطابق نشوونما پا سکیں اور اسلام کے عدل حکمرانی کے اصول پر آزادانہ طور پر عمل کر سکیں‘‘۔
اسی طرح 30 اکتوبر 1947ء کو لاہور کے یونیورسٹی سٹیڈیم میں آپ نے خطاب کرتے ہوئے فرمایا :
’’حوصلہ نہ ہارو، موت سے نہ ڈرو، ہمارا دین ہمیں سکھاتا ہے کہ موت کے لئے ہر وقت تیار رہنا چاہئے۔ ہمیں جرات سے اس کا مقابلہ کرنا چاہئے تاکہ پاکستان اور اسلام کی آبرو کا تحفظ ہو سکے۔ ایک مسلمان کے لئے اس سے بڑی نوید اور کیا ہو سکتی ہے کہ وہ ایک سچے نصب العین کے لئے جام شہادت نوش کرے۔ اپنا فرض بجا لاؤ اور خدا پر یقین رکھو۔ پاکستان کو اب دنیا کی کوئی طاقت ختم نہیں کر سکتی۔ پاکستان ہمیشہ قائم رہے گا‘‘۔
بانی پاکستان کے اس عظیم پیغام کو جو انہوں نے پوری قوم کو دیا آج ہم سب کو پیش نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ اس کی روشنی میں وہ جرات مند اور نڈر فوجی جواں مبارکباد کے مستحق ہیں جنہوں نے اپنی جانوں کی پرواہ کئے بغیر ملک عزیز کی حفاظت کرتے ہوئے دہشت گردی اور خود کش حملوں میں جام شہادت نوش کیا۔ اسی طرح پولیس کے وہ فرض شناس اور محب وطن سیکورٹی اہلکار بھی مبارکباد کے مستحق ہیں جنہوں نے ملک عزیز کی املاک کی حفاظت کرتے ہوئے اپنی جان دے کر ملک کو بڑے نقصان سے بچانے کا فریضہ سرانجام دیا اور وہ خواتین و حضرات، بچے اور بوڑھے جو وطن پر قربان ہوگئے۔
25 دسمبر، یوم قائد اعظم تجدید عہد کا دن ہے جو ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہمارے عظیم قائد نے قوت ایمانی اور سیاسی حکمت عملی کے اسلحہ سے لیس ہو کر انتھک محنت اور جدوجہد کر کے اس خطہ ارضی کو حاصل کیا۔ اس موقع پر ضرورت اس امر کی ہے کہ آج ہم اپنے قائد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنے جذبہ ایمانی کو زندہ کر کے قائد کے اصل پاکستان کی حفاظت اور تکمیل کا فریضہ سرانجام دیں جو اسی صورت میں ممکن ہے کہ ہم اپنے قائد جیسی عظیم، مخلص، باکردار، باعمل اور محب وطن قیادت اور ایسا نجات دہندہ اور مسیحا تلاش کریں جو ہمیں موجودہ مسائل کی دلدل سے نکال کر سوئے منزل رواں دواں کر سکے۔
تبصرہ