یورپی یونین حقیقت کیا ہے؟
تحریر : صاحبزادہ حسین محی الدین القادری
اپنے پروفیسر سے پاکستان، ترکی اور ایران کے معاشی یونین تشکیل دینے کے امکان پر اظہار خیال کرتے ہوئے مجھے دبی زبان میں خفگی کا سامنا کرنا پڑا۔ پروفیسر موصوف اس امکان کو سرے سے ناچلنے والا عمل قرار دے رہے تھے۔ انہوں نے مجھے منع کر دیا کہ مذہب میں معیشت کو گڈمڈ نہ کیا جائے ان کا نقطہ نظر یہ تھا کہ کسی معاشی یونین کی تشکیل میں مذہب بجائے مددگار ہونے کے رکاوٹ کا باعث ہے۔
مذہبی متجانست اور یکسانیت کے حوالے سے جب میں نے یورپی یونین کا ذکر ایک ’’مسیحی کلب‘‘ کے طور پر کیا، جس کی بنا پر مسلسل ترکی کا داخلہ روک رکھا گیا ہے تو اس کے جواب میں پروفیسر موصوف آپے سے باہر ہو گئے اور میری دلیل پر شدید رد عمل کا اظہار کیا، مگر وہ اپنے نقطہ نظر کے دفاع اور میرے استدلال کی نفی میں ایک دلیل بھی پیش نہ کر سکے۔
یورپی یونین پر ’’مسیحی یونین‘‘ ہونے کا لیبل چسپاں کیا جانا میری طرف سے کسی تعصب، نفرت یا جذباتیت کا آئینہ دار نہیں تھا بلکہ یورپی یونین میں ترکی کی بار بار ناکامی کے پیچھے یہ عمل بڑے واضح طور پر کارفرما ہے۔ یہ ستم ظریفی نہیں تو اور کیا ہے کہ مشرقی یورپ کے وہ ممالک جو ’’سوویٹ کلب‘‘ کا حصہ تھے انہیں مکمل رکنیت سے نوازا گیا ہے جبکہ ترکی کا داخلہ روکنے کے لئے نئے نئے تاخیری حربے لائے جا رہے ہیں۔ یورپی یونین سے وابستہ ہونے کے لئے ترکی کے ہاتھ پاؤں مارنے کا عمل ’’سنتا جا شرماتا جا‘‘ کی داستان ہے۔ ترکی نے 1959ء میں یورپین اکنامک کمیونٹی (ECC) میں ایسوسی ایٹ رکنیت کی درخواست کی۔ ECC نے اس کے ساتھ 1963ء میں معاہدۂ اشتراک پر دستخط کئے تاہم ترکی نے ECC کی مکمل رکنیت کے حصول کے لئے 1987ء میں درخواست۔ EU ترکی کسٹمز یونین کے ساتھ حتمی معاہدے پر دستخط 1995ء میں ہوئے۔
ترکی کو سرکاری طور پر 1999ء میں بطور EU امیدوار تسلیم کیا گیا تاہم رکنیت کے لئے مذاکرات کا رسمی افتتاح 2005ء میں روبہ عمل آیا۔ EU نے انقرہ کے ساتھ 35 شعبوں کی بات چیت کے لئے نشان دہی کی۔ یہ بات چیت 8 شعبوں میں اس لئے تعطل کا شکار ہو گئی کہ ترکی اپنی بندرگاہوں اور ہوائی اڈوں کو سائپرس کے بحری اور ہوائی جہازوں کے لئے کھولنے میں ناکام ہو گیا تھا۔
اس کے بعد باوجود ترکی کی پرزور کوششوں کے EU کی شرائط پر پورا اترنے کے بارے میں کوئی پیش رفت نہ ہوئی اور اس پر EU کا دروازہ بند کرنے کے لئے مزید پابندیاں عائد کرنے کا سلسلہ جاری رہا۔ EU رکن ریاستوں کے مابین اس تمام تر ’’مسیحی یونین‘‘ میں ترکی کے داخلے کی اجازت دینے کے معاملے میں ایک واضح تقسیم پر مبنی حکمت عملی نمایاں طور پر نظر آتی ہے۔ انقرہ کا داخلہ روکنے کے لئے وہ ممالک ایک دوسرے کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہیں انہوں نے اس بندش کے مندرجہ ذیل اسباب پیش کئے ہیں جن کا اگر باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو ان کا محرک مذہبی وابستگی نظر آتا ہے۔
1۔ ترکی کے داخلہ کے مخالفین کی طرف سے یہ پہلی دلیل دی گئی کہ اس کی ثقافت اور اقدار بحیثیت مجموعی یورپی یونین سے مختلف ہیں اور یہ کہ ترکی کی 99.8 فیصد مسلم آبادی یورپ میں مقیم باشندوں سے مختلف پس منظر رکھتی ہے۔ یورپی کمیشن کے سابقہ صدر Jacques Delors کا یہ بیان ریکارڈ پر ہے کہ ’’یورپی یونین واضح طور پر ایک مسیحی کلب ہے۔‘‘
2۔ ان کی رائے میں ترکی آبادی کے اعتبار اور جغرافیائی طور پر یورپ سے باہر ہے اس کے لئے اسے کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ EU کا حصہ بنے۔
3۔ EU یورپ کے داخلے کا مقدمہ سائپرس کو تسلیم نہ کرنے کی بنا پر ہے جو یورپی یونین کا ہر لحاظ سے مکمل رکن بن گیا ہے ترکی سے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ وہ اپنی بندرگاہیں اور ہوائی اڈے سائپرس کے ہوائی اور بحری جہازوں کے لئے کھول دے جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اس متنازعہ مسئلے پر اپنے مؤقف سے دست بردار ہو جائے۔
4۔ انقرہ پر الزام عائد کیا جاتا ہے کہ وہ انسانی حقوق اور جمہوریت کے حوالے سے ناقص کارکردگی کا مرتکب ہے۔ ترک عوام بالخصوص کرد آبادی شہری حقوق اور بنیادی آزادیوں سے محروم ہیں۔ ترکی سے تقاضا کیا جاتا ہے کہ وہ EU کی رکنیت کا اہل ہونے کے لئے انسانی حقوق کے حوالے سے اپنے طرز عمل اور کارکردگی کو بہتر بنائے۔
5۔ آخر میں یورپی یونین کے مقتدر حلقوں میں شدید خدشات اور تحفظات پائے جاتے ہیں کہ ترکی کی زیادہ آبادی یورپی یونین کے توازن اقتدار کو درہم برہم کر دے گی۔ جرمنی جو آبادی کے اعتبار سے EU کا سب سے بڑا ملک 82 ملین افراد پر مشتمل ہے اور اسے آبادی میں کمی کا سامنا ہے۔ اس طرح ترکی دوسرا سب سے بڑا ملک بن جائے گا۔ غالباً اپنی شرح آبادی کے لحاظ سے سب سے سبقت لے جائے گا اور اس اعتبار سے وہ یورپی یونین میں بہت زیادہ اثر و نفوذ کا مالک ہو گا اور اس برتری پر وہ یورپی پارلیمنٹ میں نمایاں ہو گا۔
مذکورہ بالا امور مسئلے کے سب سے مشکل اور پریشان کن پہلو کی نشان دہی کرتے ہیں۔ یہ ترکی کا اسلامی تشخص ہے جو یورپی یونین میں اس کے عدم داخلہ کے حوالے سے کلیدی اہمیت کا حامل ہے۔ مذاکراتی ڈھانچے سے بخوبی اس بات کی نشان دہی ہوتی ہے کہ ’’یہ مذاکرات ایک کھلا عمل ہیں جن کی پیشگی طور پر کوئی ضمانت نہیں دی جا سکتی۔‘‘
سخت پابندیاں اور قدغن محض آنکھ میں دھول ڈالنے کے لئے ہیں، اس بات کا واضح اظہار ہیں کہ یورپی یونین ایک مسیحی کلب کا درجہ اختیار کر چکی ہے جس میں کسی مسلمان ملک کو دخیل کار نہیں کیا جا سکتا۔
تبصرہ