بین المذاہب مکالمے کی اہمیت و ضرورت
تحریر : صاحبزادہ حسین محی الدین القادری
آج کا عالمی بحران مذہبی، سماجی، سیاسی، اقتصادی اور معاشی طور پر دنیا کو بری طرح متاثر کر رہا ہے جس کے باعث مختلف معاشروں میں بے چینی، نفرت اور اضطراب کا غلبہ ہوتا جا رہا ہے اس لئے مذاہب اور تہذیبوں کے درمیان مکالمے کو دنیا کی سب سے بڑی ضرورت اور خواہش کے طور پر محسوس کیا جا رہا ہے۔ یہاں یہ امر بہت اہمیت کا حامل ہے کہ ہر مذہب کی اپنی زبان اور روایات ہوتی ہیں جو عوام کو بنیادی انسانی قدریں عطا کرتی ہے۔ جس سے انسانی معاشرہ بہتری کی طرف بڑھتا ہے اور یہ قدریں اس سوسائٹی کے نگران کا کردار ادا کرتی ہیں۔
دنیا Global Village بن گئی ہے، کسی بھی ملک میں ہونے والے واقعات کو بیک وقت پوری دنیا میں دیکھا جاتا ہے اور یہ دنیا کی مختلف تہذیبوں کے افراد پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ جہاں شعور و آگہی دیتے ہیں وہاں یہ مختلف مذاہب اور تہذیبوں کے پیروکاروں کے بارے مثبت یا منفی رویوں کو بھی جنم دیتے ہیں اس لئے ایسی کوششوں کی عالمی سطح پر ضرورت بہت زیادہ بڑھ گئی ہے جس سے تمام مسالک اور مذاہب کے درمیان مثبت رابطہ پیدا کر کے دنیا میں اس حوالے سے پائی جانے والی مشکلات کو انتہائی کم کیا جا سکے۔
ماضی میں مذہبی طبقوں کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنے کے لئے مختلف کوششیں ہوئیں مگر اس کے مثبت اثرات پیدا نہ ہو سکے۔ مغل شہنشاہ اکبر نے اپنے بنائے ہوئے ’’دین الٰہی‘‘ کے ذریعے ہندوؤں اور مسلمانوں کو قریب لانے کی سعی کی مگر یہ طریقہ غیر فطری تھا اس لئے ناکامی سے دوچار ہوا، اسی طرح بھارت میں ’’رام اور رحیم‘‘ کے فلسفہ کو بھی کامیابی نہ مل سکی اس کی وجہ یہ تھی کہ دونوں کوششوں کا حقیقت پسندانہ اپروچ سے دور کابھی واسطہ نہ تھا۔
مذہبی طبقات میں ڈائیلاگ کا دروازہ کھولنے کے لئے اسلام کا فلسفہ نہایت حقیقت پسندانہ ہے۔ اسلام نظریاتی اختلاف کو قبول کرتا ہے۔ برداشت، احترام اور محبت کی پالیسی کو تبھی تشکیل دیا جاسکتا ہے جب آپ دوسرے کے نظریات کو احترام دے کر اختلاف کو قبول کر لیتے ہیں۔ یہاں یہ بات انتہائی اہم ہے کہ اچھے معاشرے کی تشکیل کے لئے اختلافات کو ختم کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ پر امن معاشرے کی تشکیل کے لئے تضادات کو سمجھنا ضروری ہوتا ہے، اختلافات کو سمجھنے کے بعد ہی دوسرے عقائد اور مذاہب کا احترام جنم لیتا ہے اور اس طرح ہی مختلف مسالک اور مذاہب کے لوگوں کو قریب لایا جا سکتا ہے۔
اسلام نے اس حوالے سے جو نہایت اہم اصول وضع کیا ہے، اس میں مذاہب کی بجائے مذہبی افراد کے مابین Harmony کی ضرورت ہے کیونکہ مذاہب کے درمیان فرق کو ختم نہیں کی جا سکتا۔ اسلام کے دیئے ہوئے اس زریں اصول کی آج دنیا کو ضرورت ہے۔ ہر مذہب کے پیروکاروں کے اپنے عقائد ہیں اور کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ دوسرے کے مذہب یا عقائد کے حوالے سے زبان کھولے۔ اختلافات کو سمجھ کر مذاہب کے مشترکات کو جمع کر کے آگے بڑھا جا سکتا ہے۔ آج تعلیم، اٹانومی، مذہبی و روحانی اخلاقیات، مذہبی اور سماجی خدمات، گلوبل آؤٹ لک، ماحولیاتی تبدیلیوں، سوشل سکیورٹی، سائنس و ٹیکنالوجی، شخصی آزادی، ملٹی کلچرل ازم اور امن کے قیام جیسی درجنوں مشترکات پر مل کر کام کیا جانا چاہیے۔
پاکستان میں بھی اسی اپروچ سے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ اس حوالے سے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی سے رہنمائی لینا ہوگی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسیحوں اور یہودیوں سے مکالمہ فرمایا اور مدینہ کی ایسی ریاست تشکیل دی جس میں تین مرکزی مذاہب کے لوگ آباد تھے اور وہاں امن و سلامتی اور باہمی احترام غالب تھا۔ برداشت اور احترام کا رویہ اسلام کی تعلیمات کا جزو لا ینفک ہے۔ اسلام کی کامیابی کی بنیادی وجہ مکالمہ تھا اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پوری زندگی مذاہب کے درمیان ہم آہنگی کی کوششوں سے عبارت ہے۔
موجودہ دور میں مسلم کرسچین ڈائیلاگ فورم کے سربراہ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی کاوشیں نہایت اہم ہیں انہوں نے حکمت و بصیرت اور جرات سے حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت کی پیروی میں مسیحی پادریوں کے لئے منہاج القرآن کی مسجد کے دروازے کھولے اور انہیں عبادت کی اجازت دی۔ وہ عالمی سطح پر ڈائیلاگ کی اہمیت، مذاہب کے درمیان ہم آہنگی اور قیام امن کے لئے جو کوششیں کر رہے ہیں وہ انتہائی مؤثر، جامع اور قابل تقلید ہیں۔ اسلام کی اسی حقیقت پسندانہ اپروچ کے بارے میں برطانوی انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا میں لکھا ہے کہ ’’اسلام نے پہلے مرحلے میں حیرت انگیز کامیابیاں اس لئے حاصل کیں کہ دیگر مذاہب کے پیروکاروں نے اسلامی دور حکومت میں مکمل مذہبی آزادی کے ساتھ زندگی گزاری۔‘‘ مسلمانوں نے اسی کلچر کو پروان چڑھا کر مثالی ریاستیں قائم کیں مگر افسوس کچھ عرصہ سے پاکستان میں بھی ایسے واقعات ہونا شروع ہوگئے ہیں جو صرف ہمارے پڑوسی ملک میں ہوتے ہیں اور وہاں مسلمانوں سمیت دیگر اقلیتوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ پاکستان میں گوجرہ اور سیالکوٹ جیسے واقعات کو ابتدائی سطح پر ہی مکالمہ کے ذریعے روکنا ہو گا۔ انتہائی افسوس سے کہنا پڑے گا کہ غیر مسلم ممالک میں مسلمانوں کے ساتھ متعصبانہ ناروا سلوک شدت اختیار کرتا جا رہا ہے کیونکہ ڈائیلاگ کے عمل کو چھوڑ کر انتہا پسندانہ اپروچ کے ساتھ پالیسیاں تشکیل دی جا رہی ہیں حالانکہ دنیا کا کوئی بھی مذہب ایسے منفی رویوں کی اجازت نہیں دیتا۔
عالمی اور علاقائی سطح پر دہشت گردی کے خاتمے کے لئے مختلف مسالک اور مذاہب کے پیروکاروں کو اپنے معاشروں میں برداشت محبت امن اور سلامتی کے ساتھ رہنے کیلئے ایک ہونا ہوگا اور آپس میں ڈائیلاگ کے دروازے کو ہمیشہ کھلا رکھنا ہوگا۔ ڈائیلاگ کا یہ عمل اپنے ارتقائی عمل سے گزر کر انسانیت کو اس شاہراہ تک لے جائے گا جہاں سے محبت، برداشت، تحمل، بردباری اور امن و سلامتی کے دائمی سفر کا آغاز ہوتا ہے۔
تبصرہ